ماہنامہ الفاران

ماہِ شوال المکرم - ۱۴۴۴

دم بخود ہیں موت پر تیری روایات سلف

جناب حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران

عہد حاضر کی مشہورانقلابی شخصیت :حضرت مفتی عبد العزیز ؒ رائے پوری
ان کی شخصیت، نمایاں صفات، انداز تربیت،توازن و جامعیت،تعلق مع اللہ،خلوص ومحبت،فیض وتاثیراور معرفت و سلوک کا ایمان افروزاوردل آویزداستان۔

اللہ رب العزت نے اس دنیا میں آنے جانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، لیکن کچھ آنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی انفراد وامتیاز سے عبارت ہوتی ہے۔لوگ ان کی صلاحیت واستعداد کو سلام کرتی ہے،دنیا والے اس کے ناقابل فراموش کا رہائے نمایاں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں،ان کے علم ومعرفت کی دل کشی واقعۃََ سحر انگیز ہوتی ہے،ان کا وجود مسعود دنیا میں جب تک ہوتاہے قلب ان سے مزکی ہوتے ہیں،انہیں دیکھ کر دیکھتے رہنے کے مشتاق ہوتے ہیں،انکے انقلاب آفریں کارناموں کو اپنی زندگی میں نقل کی تمنائیں انگڑائی لیتی ہیں،اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اگر ایسی جماعت کا کوئی فرد کامل اپنی آخری اور حقیقی منزل کیلئے کوچ کر لیتاہے تو کچھ عجیب سا سونا سونا لگنے لگتاہے۔ کچھ،بلکہ بہت کچھ کھوجانے کا شدید احساس ہوتاہے طبیعت اضطراب اور بے چینی سے دوچار ہوتی ہے۔
محسن و مربی حضرت الاستاذ مولانا مفتی عبد العزیز صاحب نوراللہ مرقدہ،استاذ حدیث وناظم اعلیٰ مظاہر علوم سہارنپور بھی انہیں مرد حقانی اور جلیل القدر علمائے دین اورنابغہئ روزگار ہستیوں میں ایک تھے۔ 1923
حضرت مفتی صاحب ؒ کی ولادت ذی الحجہ 1342؁ھ مطابق مئی 1923؁ء موضع سنڈیر ضلع کرنا ل ہریانہ میں ہوئی، ان کانانیہال ہندوستان کی مشہور روحانی بستی رائے پو رضلع سہارن پورتھا، انہوں نے اپنی تعلیم و تربیت معروف روحانی مرکز اور بزرگ ساز خانقاہ رائے پور ضلع سہارن پور میں پائی اور خانقاہ رحیمیہ و قادریہ سے اپنا دامن وابستہ کیا۔
ان کے والد محترم حضرت مولانا شبیر احمد صاحبؒ قطب الاقطاب حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کے جانثار خدام میں سے تھے اسی وجہ سے حضرت مفتی عبد العزیز صاحب ؒ نے رائے پور ہی میں سکونت اختیار کر لی اور رائے پور چھپر والے مدرسہ سے جس کا موجودہ نام مدرسہ”فیض ہدایت رحیمی“ہے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد برصغیر کی شہرہ ئ آفاق اور علوم حدیث کی آماجگاہ جامعہ مظاہر علوم میں داخلہ لیکر تکمیل علوم و فنون کیا۔
دورہ ئ حدیث شریف کی تکمیل کے بعد تدریب افتاء کانپور میں حضرت مولانا مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہی ؒ کے زیر نگرانی مکمل کیا۔ تدریب افتاء کے بعدمحدث کبیر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب ؒ کی ایماء پر ۴/شوال المکرم ۵۷۳۱؁ھ کو آپ کاتقرر جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں درجہ عربی کیلئے ہوا۔
حضرت مفتی صاحب ؒ نے علوم عقلیہ میں قطبی اور فن تفسیر میں جلالین شریف کے درس سے آغاز تعلیم فرمایا۔کئیں سال جلالین شریف پڑھانے کے بعد مشکوٰۃ شریف اور بعدہ ٗ نسائی شریف پڑھائی، مشکوٰۃ المصابیح کے وہ میرے استاد محترم تھے۔
حضرت مفتی صاحب ؒ حد درجہ متین، طبیعت نہایت سلیم، سادہ مگر لطیف ونظیف لباس کے عادی، آواز بلند لیکن لب ولہجہ نہایت شیریں، علم نافع وعمل صالح کا سنگم، کم گو، لیکن بولتے تو کلام نہایت مرتب اور جامع ہوتا تھا، بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت ہی کلام فرماتے، قلب اخلاص سے لبریز، ملنساری وخاکساری میں اپنی مثال آپ، قدوقامت معتدل، گردن اور نگاہیں نیچی، زندگی سادگی لیے ہوئے؛ لیکن خیالات وافکار اونچے، مزاج سنجیدہ وفہمیدہ؛ مگر رعب غضب کا، سلف وخلف کی یادگار، جملہ علوم وفنون کے ماہر، علم فقہ میں دستگاہ، چھوٹوں پر ایسے شفیق کہ کسی طالب علم کو جائز اور ضروری تنبیہ کے بعد دل جوئی کے کلمات کہنے میں ذرا بھی تامل نہ کرتے، بندہ کے ذہن میں حضرت کا یہی خاکہ مرتسم ہے۔
آپ ایک باکمال اور بے مثال مدرس تھے،ان کی زندگی میں علم وعمل کا بڑا تواز ن تھا،درس سے آپ کو غایت درجہ محبت تھی،سبق کاتسلسل اوروقت کی بڑی قدروقیمت تھی اور ان سب پر مستزادآپ کا خلوص جس نے آپ کے درس کو طلبہ میں حد درجہ مقبول اور خلوص و للٰہیت نے عوام الناس میں محبوب بنادیاتھا۔ جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک:ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں حضرت مفتی صاحب ؒ درس وتدریس کیساتھ ساتھ طلبا ء کی خیر خواہی اورتربیت کا حددرجہ خیال فرماتے تھے،تاریک اور سرد راتوں میں محو خواب طلبہ کی نگرانی فرماتے، خاص طورغریب ومسکین طلبہ کی مالی مدد، لحاف اور جیب خرچ وغیرہ کابھی بندوبست کردیاکرتے تھے،بالخصوص باجماعت نماز پڑھنے والے طلبہ کوبوقت امتحان خصوصی نمبرات دے کر حوصلہ افزائی فرماتے تاکہ کھانا بند نہ ہو اس کا خوب خیال فرماتے۔
علوم ظاہری کیساتھ ساتھ حضرت مفتی صاحب ؒ علوم باطنی (سلوک وتصوف)سے خاصہ شغف رکھتے تھے،قطب الاقطاب حضرت شاہ عبد القادررائے پوری ؒ سے تعلق بیعت وارادۃقائم کرنے کے بعد اکتساب فیض کیا اور ان کی نگاہ میں معتمد وممتازبن گئے،اپنے مرشد گرامی قطب الاقطاب حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ سے اس قدر عقیدت و محبت تھی کہ ان کا ذکر آتے ہی آنکھیں اشک بار ہو جاتیں، وہ حضرت شیخ مولانازکریا کاندھلوی ؒ کو بھی اپنا مرجع ومقتدیٰ بنا لیا تھا،تمام معاملات وامور،اجتماعی ہویاانفرادی،متعلق بمدرسہ ہو،یا نجی و خانگی میں حضرت شیخ ؒ سے رہنمائی حاصل کرتے رہے، حضرت شیخ الحدیث ؒ کے وصال جانکاہ سے ایک سال قبل مفسر قرآن حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلوی ؒ خلیفہئ اجل قطب العالم حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ نے حضرت مفتی صاحب ؒ کو با ضابطہ چاروں سلسلوں (قادریہ،چشتیہ،سہروردیہ،نقشبندیہ)کی خلعت خلافت سے نوازا، اسی طرح مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی ؒ سے بھی آپ کو اجازت بیعت حاصل تھی، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ؒ بھی حضرت رائے پوری ؒ کی اور رائے پور کی نسبتوں کا خوب خیال فرماتے اور انہیں اپنی محبت و مؤدت سے نوازتے رہتے تھے،حضرت مفتی عبد العزیز صاحب ؒ نے اپنے مرشد کی فکر و لگن کا تادم آخر حق اداکیا جس کے تحت ہریانہ،ہماچل،پنجاب،کیلئے علمی، دینی،تربیتی اور دعوتی فکر کو لیکر ۱۳/ربیع الاول ۱۴۰۰؁ھ میں ایک انجمن ”دعوت القرآن“ کے نامی قائم فرماکر چنندہ علماء کی ایک جماعت بطورعہدیداران منتخب کئے، جسکا جنرل سکریٹری بندہئ حقیر کو منتخب فرمایا، حضرت مفتی صاحب ؒ جمعرات کی چھٹی ہو یا مدرسہ کی عمومی تعطیلات آپ بغرض اشاعت دین غیر منقسم پنجاب میں مسلسل دورہ فرماتے،دیہات اور دیہاتیوں سے آپ کا بڑا لگاؤ تھا،آپ بڑے کشادہ دست تھے اپنی ذات یا مدرسہ سے وابستہ حضرات کی اپنی رقم سے مہمان نوازی فرماتے،یہ دست سخا اس طرح تھی کہ تا دم حیات مقروض رہے۔
اپنے مرشدؒ کی غیر منقسم پنجاب کے لئے اس طرح فکر و لگن تھی کہ اس کا نتیجہ عملی طور پر حضرت مفتی صاحبؒ سے ظاہر ہوا کہ پسماندہ علاقوں اوربدعات و خرافات میں جکڑی ہوئی بستیوں میں مکاتب قرآنیہ کا ایک بابرکت سلسلہ قائم فرمایا۔ صوبہ ہریانہ،ہماچل میں کم وبیش سو مکاتب و مدارس قائم فرمائے جن میں سرفہرست”مدرسہ قادریہ مسروالا“ہماچل پردیش ہے جو ان کی امیدوں کا مرکز تھا۔
جس کا قیام اس طرح عمل میں آیا کہ مسروالا گاؤں میں حضرت شاہ عبدالقادر ؒ کے مریدجناب امیر حسن صاحب جو پیشہ سے حلاق ہیں انہوں نے حضرت مفتی عبد العزیز ؒ کو مسروالا کے جائے وقوع کا تعارف کرایا اور یہاں ضرورت مدرسہ کی ضرورت کا اظہار کیا، حضرت مفتی صاحب ؒ نے مسروالاگاؤں کی ایک مسجد کے حجرے میں پرالی میں لیٹے ہوئے خواب دیکھا حضرت رائے پور ی ؒ خواب میں تشریف لائے اور مدرسہ قائم کرنے کا اشارہ فرمایا اس کے بعد حضرت مفتی عبد العزیز ؒ نے اپنے مرشد کی یاد میں مدرسہ قادریہ قائم کرنے کا فیصلہ فرمایا اور متعدد مقامات پر زمین دیکھی گئی بالآخر گاؤں کے ایک نیک دل شخص جناب رحیم بخش راوت نے زمین فروخت کر نے کی آمادگی ظاہر کی جس کو حاصل کرنے کے لئے ان کے ہونہار فرزند جناب مستری الحاج محمد یوسف صاحب نے شب و روز کی کوششیں اس کے حاصل کر نے میں کامیابی حاصل کی اور آج تک وہ مدرسہ کی آبرو بنے ہوئے ہیں۔اور حضرت مفتی صاحب ؒ نے حاتم وقت جناب الحاج سعیدالدین مؤ ائمہ الہ آباد کو اس کی جانب متوجہ کیا انہوں نے ایک خطیر رقم مدرسہ کی زمین کیلئے پیش فرمائی۔اس کے بعد مدرسہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش کی خشت او ل مؤرخہ ۱۶/شوال المکرم ۱۳۹۹؁ھ مطابق ۹ / ستمبر ۱۹۹۷؁ء کو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی ؒ کے مبارک ہاتھوں رکھی گئی۔جس کا نام اپنے مرشد ومربی قطب الاقطاب حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کی طرف نسبت کرتے ہوئے مدرسہ قادریہ تجویز فرمایاا ور اس کا ناظم بندہئ عاجز کو طے کیاس۔
نصرت باری سے یہ ادارہ قلیل عرصہ میں تعلیم وتبلیغ، قیام ِمکاتب ومساجد،دینی وعصری علوم کا مرکز بن گیا جو بیابان کی شب ِ تاریک میں قندیل عرفانی کی حیثیت رکھتاہے۔
یہ ادارہ تقریباً ۲۴یگھے کے طول وعرض میں پھیلا ہوادو پہاڑوں کے بیچ مرغزاروادی میں تاج محل نما علمی گہوارہ او رعملی وتربیتی سرچشمہ،حضرت مفتی صاحب ؒ کی فکر وں کاصحیح معنوں میں ترجمان ہے،جسمیں قابل،جفاکش اساتذہ ئ کرام ہمہ جہت و فکر دینی امو ر کی انجام دہی سماجی ومعاشرتی خرابیوں کی اصلاح میں کوشاں ہی۔
مدرسہ کے حساب وکتاب کی شفافیت دوسرے دیگر مراکز کیلئے مشعل راہ اور قابل تقلید ہے،جو بانی مدرسہ حضر ت مفتی صاحب کی چھوڑی ہوئی اصل میراث ہے،دیگر اوصاف حمیدہ کے ساتھ معاملہ کی صفائی آپ کا طرہئ امتیاز تھا،حضرت مفتی صاحب چندے کی رقم مدرسہ میں تشریف لاتے ہی دفتر مالیات میں معتمدین کے حوالے فرمادیاکرتے تھے،حضرت مفتی صاحب حیات مستعار کے تمام حرکت و نقل سنت نبویﷺ سے منسلک رہتے اور اپنے متوسلین و متعلقین کو بھی سنت نبو یﷺ سے وابستہ رہنے کی سخت تلقین فرماتے،مفتی صاحب ؒ نے اپنے روحانی کمالات و انکشافات کے ذریعہ علاقہ اور قوم کی سطح سے اوپر اٹھ کر علماء وصلحاء کے کھیپ کے کھیپ تیار کئے جو مفتی صاحب کے دنیاسے پردہ فرما جانے کے باوجود اپنے اپنے علاقہ میں قوم وملت کی رہنمائی کا فریضہ انجا م دے رہے ہیں اور ایسے چراغ وجود میں لائے ہیں جن کی لَو سے ہزاروں جراغ چل رہے ہیں، وہ جس طرف سے گذرتے مساجد کی تعمیر اور مکاتب کے قیام سے علاقہ نہال ہو جاتا،ان کی خصوصیات ہشت گانہ میں صرف قابلیت دیکھنے کی تھی،وہ صرف کام کو دیکھتے اور کام کر نے والے کی صلاحیت کو،وہ قوم وبرادری اور علاقائی عصبیت سے بہت دور رہتے، نجی ملاقات ہو یا اپنے مدارس میں درس و تدریس کے لئے تقرری اس وقت بھی نہ برادری پوچھتے اور نہ علاقہ کا نام دریافت کرتے،ان کی نظر انتخاب بس خلوص اور محنتی ہونے کو دیکھتی تھی،اس لئے بھی وہ سبھوں کے منظور نظر اور محبوب تھے۔
حضرت مفتی صاحب ؒ مدرسہ مظاہر علوم میں تدریس وافتاء کی خدمات اور امور انتظام کو بحسن خوبی بجالانے کیساتھ ساتھ قائم کردہ مدارس ومکاتب کے انتظام پربھی کڑی نظر رکھتے،دور رہتے ہوئے بھی حضرات نظمائے کرام پر خوب طاری رہتا تھا، چاق و چوبند اور چست رفتاری سے نظام مدرسہ چلانے میں مستعد رہتے،حساب و کتاب کی شفافیت اور نظام تعلیم و تربیت کا خوب خیال رکھا جاتا تھا،حضرت مفتی صاحب ؒ ظاہر اً بارعب شخصیت کے حامل اور باطناً اتنے ہی نرم مزاج تھے کہ کمرے میں آنے والے نو وارد اور طلبہ کرام سے لفظ ”آپ“ کے ذریعہ مخاطب ہوتے۔ حق ساز وحق شناس کو عالم کہاگیا:اسلام کی اساس کو عالم گہاگیا حضرت مفتی صاحب ؒکا بندہ پر بڑا نظر کرم تھا،میرے مادر علمی مدرسہ رشیدیہ حسینیہ،ڈمیا،صفی پور،ضلع پورنیہ کے استاد محترم حضرت مفتی نظام الدین صاحب مظاہری دامت برکاتہم و حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب مظاہری دامت برکاتہم نے جب میں وہاں سے تکمیل نصاب کے بعد مظاہر علوم کے لئے رخت سفر باندھا تو ان دونوں اساتذئ کرام نے اپنے استاد گرامی حضرت مفتی عبد العزیز صاحب ؒ کے نام بندہ کی نگرانی اور سرپرستی کے لئے اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ ”یہ کم عمر بچہ کبیر الدین جامعہ مظاہر علوم تکمیل نصاب کے لئے جا رہا ہے،آپ کی نیک توجہات اور سر پرستی کی اسے ضرورت ہے“۔ اپنے شاگردوں کی سفارش کاخیال رکھتے ہوئے خیر خواہی اور خبر گیری فرماتے رہے، چنانچہ فراغت کے بعد ۷۶۹۱؁ء میں مجھے مدرسہ فیض ہدایت رحیمی رائے پور کا ابتدائی مدرس مقرر کیا،جہاں تقریباََ ۳/سال خدمات انجام دینے کا موقع نصیب ہوا،اس دوران سچ ہے کہ مجھے علاقائی عصبیت اور حسد کا شکار ہونا پڑا اور بدرجہئ مجبوری مجھے حضرت مفتی عبد العزیز صاحب ؒ نے مجوزہ تعلیمی ادارہ ”مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش“میں ۱۹۸۰؁ ء میں بطور ناظم منتقل کرنے کا فیصلہ فرما دیا،یہ انتقال میرے لئے روح و جسم کو اذیت دینے والا تھا،مسلم تہذیب و تمدن سے دور اور بیابان میں واقع خشت وگیاہ بھری جگہ پر منتقل ہوناکالا پانی سے کم نہ تھا۔حضرت مفتی صاحب ؒ نے تسلی کے الفاظ دہراتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”رکھا رکھا پتھر بھاری ہو جاتا ہے“چنانچہ ایسا ہی ہو کہ چند دنوں کے بعد میری دل کی دنیا بدلنے لگی اور یہاں کے لوگوں نے اپنی محبتیں نچھاور کی اور مجھے اپنا مقتدا ماننا شروع کر دیا،وہ تادم حیات یہاں تشریف لاتے،خوب دلجوئی فرماتے،اپنی محبتوں کی سوغات سے ہمیں مالامال فرماتے رہتے تھے،یہاں بھی تعصب کی تیز تند ہوا پہاڑ پار سے آتی رہتی تھی،میں اپنی عادت کے مطابق اپنی راہ میں کسی کی پرواہ کئے بغیر سر پٹ دوڑتا رہتا تھا،اسی دوران میری تعلیمی اور دعوتی خبریں ”اکاش وانی شملہ“سے نشر ہونے لگیں اور دھیرے دھیرے ”اکاش وانی شملہ“، ”دور درشن، جالندھر“ سے علمی بحث و مباحث،اسی طرح ”آل انڈیا ریڈیو،دہلی“،بمبئی،پٹنہ سے میری تقریریں براڈکاسٹ ہونی شروع ہوئیں،بظاہر اس اڑان کی بدولت یاروں کی ایک جماعت کی نگاہوں میں کھٹکنے لگا اور تعصب و حسد کی چنگاری شعلہئ جوالہ بن کر میرے مکین کو خاکستر کرنے کی سوجھی، اس تیز تند ہواؤں نے حضرت مفتی صا حب ؒ کی توجہات مشفقانہ کو مجھ سے پھیرنے میں لگے رہے،مدرسہ قادریہ مسروالاکے سالانہ رپورٹ کا وہ کتابچہ بھی نظر آتش کروانے میں کامیاب ہو گئے، جس کے سر ورق پر لکھا تھا ”حسب ارشاد مفکر ملت حضرت مولانا مفتی عبد العزیز صاحب رائے پوری،بانی و مہتمم مدرسہ قادریہ،مسروالا، ناشر:احقر کبیر الدین فاران مظاہری، ناظم مدرسہ قادریہ،مسروالا“بنظر غائر اگر دیکھا جائے تو مزکورہ تحریر میں کوئی قباحت نہیں پائی جاتی، لیکن حاسدوں کے کان بھرنے کی وجہ سے حضرت مفتی صاحبؒ بپھر گئے اور یہ کارنا مہئ غیر مسعود انجام دیا گیا۔
سچ ہے کہ غلط فہمی چھوٹی ہو یا بڑی اتنی زہریلی ہوتی ہے کہ سالوں پر محیط گزرے سنہرے پل کو خاک میں ملا دیتی ہے،میں خوب سمجھتا ہوں کہ”غلطی زندگی کا ایک ورق ہے،لیکن رشتہ زندگی کی پوری کتاب ہے،اس لئے کبھی بھی پوری کتاب کو صرف ایک ورق کی وجہ سے ضائع نہ کریں“۔میرے ذہن میں تھا کہ ”کچھ لوگ مجھے کبھی نہیں سمجھ پائیں گے،اس لئے نہیں کہ میں پرُ اسرار انسان ہوں صرف اس لئے کہ میں زیادہ اصلی ہوں اور انہیں جعلی انسانوں کی عادت ہے“ضرورت ہے کہ اپنے اندر کی سوچ کو صاف رکھیں کیونکہ کشتیاں باہر کے پانی سے نہیں اندر کے پانی سے ڈوبتی ہیں۔
اکثر میری تیز و تند رفتار کو دیکھ کر یاروں کی نیند حرام ہو جاتی اور ہمارے دوست حضرت مفتی صاحب ؒ کی توجہات ہٹانے میں ناکام کوشش کرتے رہتے تھے۔عموماََ مفتیان کرام فتویٰ دیتے دیتے کچے کان کے ہو جاتے ہیں کیونکہ مفتیا ن شرع متین واقع کی صداقت کی تحقیق کے مکلف نہیں ہوتے،ان کا مزاج فقط ظاہر ی تحریر پر اعتبار کرناہوتاہے،جامعہ مظاہر علوم کی قضیہئ نا مرضیہ بھی اسی سنی سنائی باتوں کے پاداش میں عمل میں آیا تھا،جس سے حضرت مفتی صاحب ؒ بھی دوچار ہوئے تھے۔
چنانچہ رفقاء کی باتوں کو سن کر ناراض ہوجاتے لیکن دیر سے ناراض ہوتے اور بہت جلد ان کی ناراضگی ختم ہوجاتی تھی،اسی طرح بندہ کی جس وقت آل انڈیا ریڈیوشملہ، جالندھر،پٹنہ،ممبئی او رنئی دہلی کے ریڈیو اسٹیشن سے اسلامی تقاریر نشرہونی شروع ہوئیں توکچھ رفقاء نے اپنی تنگ نظری کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مفتی صاحب ؒ کو بدظنی کا شکار کردیا۔جس کی وجہ سے بندہ کو عصبیتوں اور حوصلہ شکن حالتوں سے گزرنا پڑا بعدہ ٗ بندہ کی یہ ریڈیائی تقاریرکے مجموعہ کا مسودہ مفکر اسلام حضرت مولاناسید علی میاں ندوی ؒکی خدمت میں تکیہ رائے بریلی میں پیش کرنے کی سعادت ملی،جس پر انہوں نے یہ پر مغز تقریظ تحریر فرمائی۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ،، ریڈیو،، زمانہئ حال کی ان ایجاد وں اور وسیع ترین رقبوں میں اور بعید ترین فاصلوں تک آواز پہونچانے کے ان وسائل میں سے ہے، جن سے سیاسی،معلوماتی، سرکاری اور اجتماعی فوائد حاصل کرنے کے علاوہ اصلاحی اخلاقی اور تعلیمی و تربیتی مقاصد بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں اسکا انحصار ان سے کام لینے والے اشخاص کے فکر و ذہن، مقاصد و جزبات اور صلاحیتوں اور نیّت پر ہے۔آل انڈیا ریڈیو کے اسٹیشنوں سے بھی جو ملک میں جابجا قا ئم ہیں۔صحیح الفکر اور صحیح الخیال اور با صلاحیت لوگوں نے اس سلسلہ میں پورا فائدہ اٹھایا ہے سیرت نبوی ﷺ، اسلامی تقریبات کے تعارف اور اخلاقیات اور صحت مندمعاشرتی و اجتماعی موضوعات پر نہایت مفید تقریریں نشر کیں ہیں۔اس کا ایک نمونہ پیشِ نظر کتاب”فاران ریڈیائی تقریریں،فکر جدید کی روشنی میں“ ہے یہ ان تقریروں کا مجموعہ ہے جو ہمارے فاضل دوست مولانا کبیر الدین فاران مظاہری صاحب نے وقتاً فوقتاً شملہ ریڈیو اسٹیشن اور دوسرے اسٹیشنوں سے نشر کی ہیں۔ ان کی زبان شستہ اور سلیس طرزِ بیان شائستہ وبلیغ، مندرجات و مضامین معتبر و مستند ہیں۔ریڈیو کی یہ تقریریں اگر انہیں اوقات اور سامعین کے سامعہ تک محدود رہیں تو وہ فضاء میں منتشر ہو کر اور کسی کسی کے حافظہ اور تاثیر میں محفوظ رہ کراپنی افادیت کھو دیتی ہیں۔لیکن اگر اسکو قید ِتحریر میں لے آیا جائے اور زیور طبع سے آراستہ کر دیا جائے تو انکا نفع دور رس، دیر پا اور بعض اوقات گہرا و پائدار ہوتا ہے۔
امید ہے کہ اس مجموعہ کی اشاعت سے یہ مقصد حاصل ہوگا اور جس طرح سامعین کو نفع پہنچا، ناظرین اور قارئین کو بھی نفع پہنچتا رہیگا۔ ابو الحسن علی ندوی
دائرہ شاہ علم اللہ،رائے بریلی،۴۱ فروری ۷۸۹۱؁ء“
حضرت مفتی صاحب ؒ اس تقریظ کو دیکھ کر بے انتہا خو ش ہوئے،ان کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑنے لگی،خوشی اور مسرت کا اظہار فرما کر اپنی طبعی صفت کے مطابق فوراًبندہ سے خوش ہوگئے،اس تقریظ نے تریاق کا کام کیااور کلاہ دہقاں کا حق دار بنا دیا،حقیقت ہے دوسروں کو گرانے کی کوشش میں لوگ آخر کار خود ہی فر جاتے ہیں اور نبھانے کی چاہت دو طرفہ ہو تو تعلق ٹوٹتا نہیں،پھر چاہے کتنی بھی کشیدگی ہو، اب تو انہوں نے میرے رفقاء اور یاروں سے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ”کبیر الدین“ کی کوئی مخالفت مجھ سے نہ کیا کرو۔مفکر کا یہ قول کہ رشتوں کی رسی کمزور تب ہوتی ہے جب انسان غلط فہمی میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب خود ہی بنا لیتے ہیں۔یاد رکھئے!رشتے اور شیشے دونوں ہی انسانی غفلت سے ٹوٹتے ہیں،ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ شیشے کا متبادل مل جاتا ہے،رشتوں کا متبادل نہیں ملتا۔کبھی کبھی ٹھوکریں اچھی ہوتی ہیں جناب! ایک تو راستے کی رکاوٹوں کا پتہ لگ جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر سنبھالنے والے ہاتھوں کا پتہ چل جاتا ہے،اگر لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ زندگی کی سچائی کو سمجھنا بہت مشکل نہیں جس ترازو میں دوسروں کو تولتے ہیں کبھی خود اس میں بیٹھ کر دیکھئے۔
حضرت مفتی صاحبؒ عوامی دانشور اور نایاب نگینہ تھے،وہ اپنے رنگ کے بزرگ،عہد قدیم اور اسلاف کی پاکیزہ روایتوں کے امین اور ہمارے دور کے اکابر کی داستان حیات کا پرتو تھے۔ مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ ائے لئیم۔تو نے وہ گنج ہائے گرامایا کیا کئے۔ اخیر عمر میں مسحور ہوکر شدید بیمار ہوگئے،پی،جی،آئی، چنڈی گڑھ میں وہ زیر علاج رہے جہاں تیمار دار کے طور پر مجھے خدمت کی سعادت ملتی رہی،آپ بہت باحوصلہ و باہمت تھے آپ کو تقریباً اندازہ ہوگیاتھا کہ اب رب حقیقی سے ملنے کا وقت قریب آگیا ہے،چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب کو بلا کر ضروری وصیت (متعلقہ فدیہ نمازفوت شدہ ایام مرض)فرمائی اور ۶۲/دسمبر ۱۹۹۱؁ء کو بعمر ۳۶سال واصل بحق ہوگئے اور حضرت شاہ عبد الرحیم رائے پوری کے احاطہ خانقاہ رائے پور کے قبرستان میں ہمیشہ ہمیش کیلئے آرام فرماں ہوگئے۔ دم بخود ہیں موت پر تیری روایات سلف
کون اقدار سلف کی اب نگہبانی کرے

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی