ماہنامہ الفاران
ماہِ رمضان المبارک - ۱۴۴۴
روزہ کی اہمیت
جناب حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری المظاہری؛ استاذ:حدیث و فقہ، مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش
رمضان کا مہینہ بڑی برکتوں اور خصوصیتوں والا مہینہ ہے،یہ مہینہ نیکیوں کی فصل بہار ہے۔ایمان والے اس بابرکت مہینے میں اپنے ایمان کی تجدیدکرتے ہیں اور جذبہ عمل کو جِلا بخشتے ہیں اس مہینے کی آمد سے زمین وآسمان میں نمایا ں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ، زمین میں شیاطین کا اثر ونفوذ کم ہوجاتا ہے، شر کی طاقتیں محدود ہوجاتی ہیں، گناہوں کا بازارسرد پڑ جاتا ہے۔ان زمینی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ آسمانی کائنات کی تصویر بھی بدل جاتی ہےجہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ہر لمحہ رحمت الہی کا نزول ہوتا ہے، ایمان ویقین کی بارش ہوتی ہے جن سے ایمان والے اپنے اپنے حوصلےکے مطابق کسب فیض کرتےہیں “۔
روزہ اس مہینے کی اہم عبادت ہے مسلمان نہایت ہی گرم جوشی کے ساتھ روزہ کا اہتما م کرتے ہیں کیا بڑے کیا چھوٹے کیا مرد کیا عورتیں کیا بوڑھے کیا جوان سب اس مہینے کی سعادت سے مالا مال ہونے کے لئے بے چین ہوتے ہیں۔
روزہ اسلام کے پانچوں ارکان میں ایک رکن ہے، عربی زبان میں صوم کا معنی ہے رک جانا ۔ شرعی اصطلاح میں:اللہ کی عبادت کی خاطر صبح صادق سے غروب آفتاب تک ،کھانے ، پینے اوران تمام کاموں سے رک جانے کا نام روزہ ہے جو روزہ کو متأثر کرتےہیں۔
یہ بابرکت مہینہ اور یہ مبارک عمل مسلمانوں پہ سنہ 2 ہجری میں فرض قرار دیا گیا ۔اس اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو رمضان کے روزے رکھے۔
اسلام کے بہت سے احکام کی طرح روزہ کی فرضیت بھی مختلف مراحل سے گزر کر آخری اور حتمی شکل میں پہنچی، اہل علم ذکر کرتے ہیں کہ روزہ تین مرحلوں میں فرض قرار دیا گیا : پہلے مرحلہ میں عاشوراء(دس محرم) کا روزہ رکھنا فرض تھا۔
دوسرے مرحلہ میں رمضان کا روزہ فرض قرار دیا گیا لیکن مکلف مسلمان کو روزہ رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار دینے کے ساتھ روزہ رکھنے کی ترغیب دلائی گئی اور روزہ چھوڑنے کی صورت میں کسی مسکین کو کھلانا لازم قرار دیا گیا ۔
تیسرے مرحلہ میں ہر مکلف پہ روزه ركھنے کو واجب قرار دیا گیا البتہ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھنے والے کو فدیہ ادا کرنے کا مکلف کیا گیا،اسی طرح بیمار اور مسافر کو بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ چھوڑنے کی رخصت دی گئی اور قضاء کرنے کو لازم قرار دیا گیا ۔
شریعت کا ہر حکم حکمتوں اور مصلحتوں پہ مبنی ہوتا ہے لہذا روزہ کی فرضیت ومشروعیت کا مقصد یہ نہیں کہ اللہ تعالی بندہ کو بھوکا پیاسا دیکھنا چاہتا ہے بلکہ روزہ کی مشروعیت کے پیچھےبڑے مقاصد ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: 1۔روزہ تقوی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ 2۔روزہ اللہ تعالی کی نعمتوں کی قدر کرنے کا پیغام دیتا ہے کیونکہ بندہ روزہ سے پہلے جوچاہتاہے‘جب چاہتاہےکھاتاپیتا رہتاہےلیکن روزہ کی وجہ سے ان سے رک جاتا ہے ۔بہت سی نعمتیں موجود ہونے کے باوجود رضائے الہی کے لئے کھا پی نہیں سکتے ہیں تو اگر یہ نعمتیں موجود ہی نہ ہوتیں تو کیا حال ہوتا۔ 3۔روزہ میں محبوب چیز کو چھوڑ کر بندہ صبر وتحمل اور برداشت کرنے کا عادی بنتا ہے ۔ 4۔مالداروں کو فقیروں اور محتاجوں کی حاجت کا علم اور ان کی ضروریات کا احساس ہوتا ہے۔ 5۔روزہ کی وجہ سے بندہ بہت سی عبادتوں کے لئے فارغ ہو جاتا ہے۔ 6۔روزہ کئی اور عبادتوں کا سبب بنتا ہے جیساکہ سحری کرنا افطاری کرنا وغیرہ۔ 7۔روزہ سے جہاں اخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہیں اس سے دنیوی فوائد بھی ملتے ہیں جیسے کہ روزہ میں بھوکا پیاسا رہنے سے بدن کے فاسد مادے نکل جاتے ہیں۔ 8 روزہ ، بندہ کا اللہ سے سچی محبت وتعظیم اور اس کی رضامندی کو تلاش کرنے کی دلیل ہے کیونکہ بندہ اللہ کی پسند اور اس کی رضامندی کو اپنی خواہشات اور پسندیدگی پہ مقدم کرتا ہے۔ 9روزہ کے ذریعے دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سےتعلق جوڑنے کی ترغیب ملتی ہے۔ 10بھوکے رہنے کی وجہ سے انسان کی رگیں سکڑ جاتی ہیں توشیطان انسان کی رگوں میں دوڑ نہیں پاتا۔
رمضان المبارک سے کما حقہ مستفید ہونے کی ہمیں تیاری کرنا چاہئے اس کے لئے ہمیں پلاننگ کرنا چاہئے اور حقیقی معنوں میں ہمیں روزہ سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ کچھ لوگ روزہ کو بہت ہی مشکل سمجھتے ہیں اور روزہ رکھنا ان کے لئے بہت ہی گراں گزرتا ہے ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے ۔
روزے داروں کے طبقات:طبقات انسانی کے حوالے سے:معاشی حیثیت اور سماجی مقام کے اعتبار سے معاشرے میں انسان چار طبقوں میں منقسم ہیں، جن کی ترتیب درج ذیل ہے:
پہلا طبقہ: عام انسانوں کا ہے جسے عرف عام میں عوام الناس کہا جاتا ہے۔
دوسرا طبقہ: عام لوگوں میں ان کا ہے جو خاص مرتبہ اور حیثیت کے مالک ہیں انہیں خواص العام کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
تیسرا طبقہ: ان لوگوں کا ہے جو خاص لوگوں میں امتیازی اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں انہیں خواص الخواص سے موسوم کیا جاتا ہے۔
چوتھا طبقہ: یہ طبقہ ان اشخاص پر مشتمل ہے جو خواص میں بھی منتخب اور برگزیدہ ہوتے ہیں انہیں اخص الخواص کا نام دیا جاتا ہے۔
جس طرح معاشرتی سطح پر عام انسانی زندگی میں متذکرہ بالا چار گروہ اور طبقات پائے جاتے ہیں اسی طرح دینی اور روحانی مدارج اور مقامات کے لحاظ سے روزہ بھی اپنی نوعیت میں چار قسموں پر مشتمل ہے‘ ان کا ذکر فرداً فرداً ذیل میں آ رہا ہے۔ 1
- عوام کا روزہ وہ لوگ جو محض رسماً روزہ رکھتے ہیں اور ان کا روزہ سحری و افطاری تک محدود ہوتا ہے، جبکہ روزے کے آداب و شرائط کا مطلقاً لحاظ نہیں رکھتے۔ چنانچہ اکثر و بیشتر حسب ارشاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے بھوکے پیاسے رہنے کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ وہ لوگ جو روزہ رکھ کر احکام خداوندی کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں۔ جھوٹ‘ غیبت‘ دھوکہ‘ فریب دہی اور دیگر افعال قبیحہ کے ارتکاب کو اپنا معمول بنائے رکھتے ہیں، وہ روزے کے فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں اور نتیجہ خیزی کے اعتبار سے ان کا عمل صلوۃ و صیام بے روح ہوتا ہے۔ ایسا روزہ افراد ملت پر مثبت اور نفع بخش اثرات مرتب نہیں کر سکتا۔ 2
- خواص العام کا روزہ یہ ان لوگوں کا روزہ ہے، جو احکام خداوندی کی پاسداری کرتے ہیں اور حتی الوسع کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں۔ چنانچہ روزے سے ان کی سیرت و کردار میں تقویٰ کا جوہر پیدا ہو جاتا ہے اور ان کی زندگیاں ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ کے فرمانِ ایزدی کی عملی تفسیر بن جاتی ہیں۔ تقویٰ کی بدولت ان کے شب و روز انقلاب آشنا ہو جاتے ہیں اور وہ ہر معاملے میں حرام و حلال کی تمیز کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ ایسا روزہ سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان کے اور عذاب دوزخ کے درمیان ڈھال بن جاتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو بدبخت قرار دیا، جس نے ماہ صیام کو پایا لیکن اپنے لئے عذاب دوزخ سے رہائی کا سامان نہ کیا۔ تو پورے کا پورا رمضان المبارک فضائل و برکات اور انعامات و نوازشات کا مہینہ ہے، لیکن بالتخصیص اس کے پہلے عشرے کو عشرئہ رحمت‘ دوسرے عشرے کو عشرئہ مغفرت اور تیسرے عشرے کو نار دوزخ سے رہائی کا عشرہ قرار دیا گیا ہے۔
اس ماہِ مبارک میں رحمتِ خداوندی اپنے بندوں کو بار بار پکارتی ہے، اور جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ وہ اپنے گناہوں‘ سیاہ کاریوں اور فسق و فجور سے توبہ کر کے اس کی بارگاۂ بے کس پناہ میں جھک جائیں۔ اس کی شانِ کریمی اپنے گناہ گار بندوں کو اپنے دامنِ عفو و رحمت میں ڈھانپنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے ۔
رمضان المبارک کی یہ ساعتیں اپنے دامن میں برکتوں اور سعادتوں کا اتنا بڑا خزانہ لئے ہوئے ہیں کہ وہ شخص جو ان سے بہرہ یاب نہیں ہوتا، اسے سوائے بدبخت اور حرمانِ نصیب کے اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ 3
- خواص الخاص کا روزہ
خواص الخاص کا شمار ان لوگوں میں ہے، جن کی زندگیاں نہ صرف تقویٰ کے رنگ میں یکسر رنگی ہوتی ہیں، بلکہ وہ اس پر مستزاد نفس کی ساری خواہشوں کو پامال کر دیتے ہیں۔ یہ عرفائے کاملین اور اولیائے عظام کا روزہ ہے۔
حضرت خواجہ بہاؤالدین زکریا سے کسی نے ان کے روزے کے مقام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ’’روزہ مجاہدہ ہے۔‘‘ پوچھا گیا کہ مجاہدہ کیا ہے؟ تو فرمانے لگے:’’مجاہدہ ایں است کہ ہر چہ نفس آرزو کند تا بیست سال آں آرزو بدو نر ساند‘‘(تذکره حضرت بهاؤ الدین زکریا: 37-38)مجاہدہ یہ ہے کہ نفس جس چیز کی خواہش کرے اسے بیس سال تک پورا نہ کیا جائے۔پھر اس کی مزید توضیح کرتے ہوئے فرمایا کہ:جس مجاہدے کا میں نے ذکر کیا ہے وہ میرے نزدیک سوائے ابتدائی مرحلے کے اور کچھ اہمیت نہیں رکھتا ورنہ مردانِ خدا تو ستر سال تک نفس کو خواب اور آب و طعام کے نزدیک نہیں پھٹکنے دیتے۔
قرآن مجید نے ایسے لوگوں کے اس مقام کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:وَ نَهِیَ النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰی اور اپنے نفس کو (ہر بری) خواہش سے روکا ہو گاتو یقینا جنت ہی اس کا ٹھکانا ہو گا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک صالح ناجوان کا واقعہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں نقل فرمایا ہے: کان شاب علی عهد عمر بن الخطاب رضی الله عنه یلازم المسجد والعبادة، معشقته جاریة، فاتته فی خلوة، فکلمته، فحدث نفسه بذلک فشهق فغشی علیه، فجاء عم له، فحمله الی بیته، فلما أفاق قال: یا عم انطلق إلی عمر فأقرِئه منی السلام، و قل له ما جزأ من خاف مقام ربه؟ فانطلق عمه فأخبر عمر، وقد شهق الفتی شهقة أخری، فمات منها فوقف علیه عمر فقال: لک جنتان، لک جنتان۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک صالح نوجوان تھا جو ہر وقت عبادت میں مشغول رہتا تھا۔ اسے ایک لڑکی سے عشق ہو گیا ۔ وہ تنہائی میں اسے ملا اور اس سے گفتگو کی اس پراچانک خوف خدا کی وجہ سے جسم پر کپکپی طاری ہونے کی وجہ سے بہیوش ہوگیا۔ اس کا چچا اسے اٹھا کر گھر لے گیا۔ ہوش میں آتے ہی اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لےجانے کا تقاضا کیا اور کہا کہ انہیں میرا سلام کہیں اور ان سے پوچھیں کہ جو آدمی رب سے ڈر جاتا ہے اس کی کیا جزا ہے۔ اس کا چچا اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا اور انہیں ساری بات بتائی۔ نوجوان کو دوبارہ کپکپی طاری ہوئی اور اس نے چیخ ماری اور وہ فوت ہوگیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس کھڑے ہوئے اور دو مرتبہ یہ کہا کہ تیرے لئے دو جنتیں ہیں۔(شعب الایمان، حدیث: 736)
تفاسیر میں بیان کیا جاتا ہے کہ آیت مبارکہ ولمن خاف مقام ربہ جنتان کا نزول بھی یہی واقعہ ہے۔ 4
- اخص الخواص کا روزہ
یہ روزے کی آخری منزل ہے، جو ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جنہیں مقام مشاہدہ پر متمکن کیا گیا ہے۔ مقام مشاہدہ پر اللہ کا خاص بندہ سوائے ذاتِ خداوندی کے ہر شے کو بھول جاتا ہے اور اس کی طلب و آرزو کا محور اللہ کی رضا کے حصول کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتا۔
شیخ ابو نجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے احوال میں منقول ہے کہ وہ حرمِ کعبہ کے اندر ایک دفعہ حالت مراقبہ میں تھے کہ حضرت خضر علیہ السلام انہیں ملنے تشریف لائے‘ لیکن شیخ پر اس قدر یک گونہ و استغراق کا غلبہ تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام کی طرف ذرہ توجہ نہ کی اور بدستور مشاہدئہ حق میں محو رہے۔ چنانچہ حضرت خضر علیہ السلام کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد چلے گئے۔ حضرت کے بھتیجے نے جو خود بھی عارف باللہ تھے‘ شیخ سے مراقبہ کے بعد عرض کیا: چچا جان خواجہ خضر علیہ السلام کافی دیر تک آپ کے لئے کھڑے رہے‘ لیکن آپ نے نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور وہ واپس چلے گئے۔ آپ نے جواب میں فرمایا:’’بداں کہ اگر خضر باز رفت باز خواہد آمد۔ اما آں وقت کہ باحق مشغول بودم اگر فوت شدے از کجا یافتم و ندامت آں تا قیامت بماندے۔‘‘(تذکره حضرت بهاؤالدین زکریا: 37-38) بیٹا جان لے کہ اگر خواجہ خضر علیہ السلام واپس چلے گئے تو وہ دوبارہ آ جائیں گے، لیکن وقت کا وہ لمحہ جس میں مشاہدئہ حق میں مشغول تھا، اگر فوت ہو جاتا تو میں وہ کہاں پاتا اور اس کی ندامت قیامت تک مجھے رہتی۔
حضرت شیخ جنید بغدادی قدس سرہ سے منقول ہے:’’چہل سال است کہ بہشت بآں آراستگی وے برمن عرضہ مے کنند ومن بچشم رغبت بوے نگاہے نمے کنم وسی سال است کہ دل خود راگم کردہ ام و نخواستہ ام کہ بمن باز و ہند۔‘‘(تذکره حضرت بهاؤالدین زکریا: 37-38)
چالیس سال سے بہشت کو میرے سامنے پوری آرائش کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے، لیکن میں رغبت سے ایک نظر بھی اس پر نہیں ڈالتا اور تیس سال سے میں اپنا دل کھو چکا ہوں اور نہیں چاہتا کہ دوبارہ مجھے واپس مل جائے۔
یہ مقامات ان لوگوں کے نفوس کے ہیں‘ جنہیں مجاہدے کی بناء پر مشاہدئہ ذات حق اور دیدار مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمتوں سے بہرہ ور کیا گیا اور ان کے حصول میں روزے کا کافی عمل دخل ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اخص الخواص میں شامل کردے آمین
روزہ اس مہینے کی اہم عبادت ہے مسلمان نہایت ہی گرم جوشی کے ساتھ روزہ کا اہتما م کرتے ہیں کیا بڑے کیا چھوٹے کیا مرد کیا عورتیں کیا بوڑھے کیا جوان سب اس مہینے کی سعادت سے مالا مال ہونے کے لئے بے چین ہوتے ہیں۔
روزہ اسلام کے پانچوں ارکان میں ایک رکن ہے، عربی زبان میں صوم کا معنی ہے رک جانا ۔ شرعی اصطلاح میں:اللہ کی عبادت کی خاطر صبح صادق سے غروب آفتاب تک ،کھانے ، پینے اوران تمام کاموں سے رک جانے کا نام روزہ ہے جو روزہ کو متأثر کرتےہیں۔
یہ بابرکت مہینہ اور یہ مبارک عمل مسلمانوں پہ سنہ 2 ہجری میں فرض قرار دیا گیا ۔اس اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو رمضان کے روزے رکھے۔
اسلام کے بہت سے احکام کی طرح روزہ کی فرضیت بھی مختلف مراحل سے گزر کر آخری اور حتمی شکل میں پہنچی، اہل علم ذکر کرتے ہیں کہ روزہ تین مرحلوں میں فرض قرار دیا گیا : پہلے مرحلہ میں عاشوراء(دس محرم) کا روزہ رکھنا فرض تھا۔
دوسرے مرحلہ میں رمضان کا روزہ فرض قرار دیا گیا لیکن مکلف مسلمان کو روزہ رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار دینے کے ساتھ روزہ رکھنے کی ترغیب دلائی گئی اور روزہ چھوڑنے کی صورت میں کسی مسکین کو کھلانا لازم قرار دیا گیا ۔
تیسرے مرحلہ میں ہر مکلف پہ روزه ركھنے کو واجب قرار دیا گیا البتہ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھنے والے کو فدیہ ادا کرنے کا مکلف کیا گیا،اسی طرح بیمار اور مسافر کو بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ چھوڑنے کی رخصت دی گئی اور قضاء کرنے کو لازم قرار دیا گیا ۔
شریعت کا ہر حکم حکمتوں اور مصلحتوں پہ مبنی ہوتا ہے لہذا روزہ کی فرضیت ومشروعیت کا مقصد یہ نہیں کہ اللہ تعالی بندہ کو بھوکا پیاسا دیکھنا چاہتا ہے بلکہ روزہ کی مشروعیت کے پیچھےبڑے مقاصد ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: 1۔روزہ تقوی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ 2۔روزہ اللہ تعالی کی نعمتوں کی قدر کرنے کا پیغام دیتا ہے کیونکہ بندہ روزہ سے پہلے جوچاہتاہے‘جب چاہتاہےکھاتاپیتا رہتاہےلیکن روزہ کی وجہ سے ان سے رک جاتا ہے ۔بہت سی نعمتیں موجود ہونے کے باوجود رضائے الہی کے لئے کھا پی نہیں سکتے ہیں تو اگر یہ نعمتیں موجود ہی نہ ہوتیں تو کیا حال ہوتا۔ 3۔روزہ میں محبوب چیز کو چھوڑ کر بندہ صبر وتحمل اور برداشت کرنے کا عادی بنتا ہے ۔ 4۔مالداروں کو فقیروں اور محتاجوں کی حاجت کا علم اور ان کی ضروریات کا احساس ہوتا ہے۔ 5۔روزہ کی وجہ سے بندہ بہت سی عبادتوں کے لئے فارغ ہو جاتا ہے۔ 6۔روزہ کئی اور عبادتوں کا سبب بنتا ہے جیساکہ سحری کرنا افطاری کرنا وغیرہ۔ 7۔روزہ سے جہاں اخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہیں اس سے دنیوی فوائد بھی ملتے ہیں جیسے کہ روزہ میں بھوکا پیاسا رہنے سے بدن کے فاسد مادے نکل جاتے ہیں۔ 8 روزہ ، بندہ کا اللہ سے سچی محبت وتعظیم اور اس کی رضامندی کو تلاش کرنے کی دلیل ہے کیونکہ بندہ اللہ کی پسند اور اس کی رضامندی کو اپنی خواہشات اور پسندیدگی پہ مقدم کرتا ہے۔ 9روزہ کے ذریعے دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سےتعلق جوڑنے کی ترغیب ملتی ہے۔ 10بھوکے رہنے کی وجہ سے انسان کی رگیں سکڑ جاتی ہیں توشیطان انسان کی رگوں میں دوڑ نہیں پاتا۔
رمضان المبارک سے کما حقہ مستفید ہونے کی ہمیں تیاری کرنا چاہئے اس کے لئے ہمیں پلاننگ کرنا چاہئے اور حقیقی معنوں میں ہمیں روزہ سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ کچھ لوگ روزہ کو بہت ہی مشکل سمجھتے ہیں اور روزہ رکھنا ان کے لئے بہت ہی گراں گزرتا ہے ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے ۔
روزے داروں کے طبقات:طبقات انسانی کے حوالے سے:معاشی حیثیت اور سماجی مقام کے اعتبار سے معاشرے میں انسان چار طبقوں میں منقسم ہیں، جن کی ترتیب درج ذیل ہے:
پہلا طبقہ: عام انسانوں کا ہے جسے عرف عام میں عوام الناس کہا جاتا ہے۔
دوسرا طبقہ: عام لوگوں میں ان کا ہے جو خاص مرتبہ اور حیثیت کے مالک ہیں انہیں خواص العام کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
تیسرا طبقہ: ان لوگوں کا ہے جو خاص لوگوں میں امتیازی اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں انہیں خواص الخواص سے موسوم کیا جاتا ہے۔
چوتھا طبقہ: یہ طبقہ ان اشخاص پر مشتمل ہے جو خواص میں بھی منتخب اور برگزیدہ ہوتے ہیں انہیں اخص الخواص کا نام دیا جاتا ہے۔
جس طرح معاشرتی سطح پر عام انسانی زندگی میں متذکرہ بالا چار گروہ اور طبقات پائے جاتے ہیں اسی طرح دینی اور روحانی مدارج اور مقامات کے لحاظ سے روزہ بھی اپنی نوعیت میں چار قسموں پر مشتمل ہے‘ ان کا ذکر فرداً فرداً ذیل میں آ رہا ہے۔ 1
- عوام کا روزہ وہ لوگ جو محض رسماً روزہ رکھتے ہیں اور ان کا روزہ سحری و افطاری تک محدود ہوتا ہے، جبکہ روزے کے آداب و شرائط کا مطلقاً لحاظ نہیں رکھتے۔ چنانچہ اکثر و بیشتر حسب ارشاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے بھوکے پیاسے رہنے کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ وہ لوگ جو روزہ رکھ کر احکام خداوندی کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں۔ جھوٹ‘ غیبت‘ دھوکہ‘ فریب دہی اور دیگر افعال قبیحہ کے ارتکاب کو اپنا معمول بنائے رکھتے ہیں، وہ روزے کے فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں اور نتیجہ خیزی کے اعتبار سے ان کا عمل صلوۃ و صیام بے روح ہوتا ہے۔ ایسا روزہ افراد ملت پر مثبت اور نفع بخش اثرات مرتب نہیں کر سکتا۔ 2
- خواص العام کا روزہ یہ ان لوگوں کا روزہ ہے، جو احکام خداوندی کی پاسداری کرتے ہیں اور حتی الوسع کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں۔ چنانچہ روزے سے ان کی سیرت و کردار میں تقویٰ کا جوہر پیدا ہو جاتا ہے اور ان کی زندگیاں ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ کے فرمانِ ایزدی کی عملی تفسیر بن جاتی ہیں۔ تقویٰ کی بدولت ان کے شب و روز انقلاب آشنا ہو جاتے ہیں اور وہ ہر معاملے میں حرام و حلال کی تمیز کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ ایسا روزہ سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان کے اور عذاب دوزخ کے درمیان ڈھال بن جاتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو بدبخت قرار دیا، جس نے ماہ صیام کو پایا لیکن اپنے لئے عذاب دوزخ سے رہائی کا سامان نہ کیا۔ تو پورے کا پورا رمضان المبارک فضائل و برکات اور انعامات و نوازشات کا مہینہ ہے، لیکن بالتخصیص اس کے پہلے عشرے کو عشرئہ رحمت‘ دوسرے عشرے کو عشرئہ مغفرت اور تیسرے عشرے کو نار دوزخ سے رہائی کا عشرہ قرار دیا گیا ہے۔
اس ماہِ مبارک میں رحمتِ خداوندی اپنے بندوں کو بار بار پکارتی ہے، اور جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ وہ اپنے گناہوں‘ سیاہ کاریوں اور فسق و فجور سے توبہ کر کے اس کی بارگاۂ بے کس پناہ میں جھک جائیں۔ اس کی شانِ کریمی اپنے گناہ گار بندوں کو اپنے دامنِ عفو و رحمت میں ڈھانپنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے ۔
رمضان المبارک کی یہ ساعتیں اپنے دامن میں برکتوں اور سعادتوں کا اتنا بڑا خزانہ لئے ہوئے ہیں کہ وہ شخص جو ان سے بہرہ یاب نہیں ہوتا، اسے سوائے بدبخت اور حرمانِ نصیب کے اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ 3
- خواص الخاص کا روزہ
خواص الخاص کا شمار ان لوگوں میں ہے، جن کی زندگیاں نہ صرف تقویٰ کے رنگ میں یکسر رنگی ہوتی ہیں، بلکہ وہ اس پر مستزاد نفس کی ساری خواہشوں کو پامال کر دیتے ہیں۔ یہ عرفائے کاملین اور اولیائے عظام کا روزہ ہے۔
حضرت خواجہ بہاؤالدین زکریا سے کسی نے ان کے روزے کے مقام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ’’روزہ مجاہدہ ہے۔‘‘ پوچھا گیا کہ مجاہدہ کیا ہے؟ تو فرمانے لگے:’’مجاہدہ ایں است کہ ہر چہ نفس آرزو کند تا بیست سال آں آرزو بدو نر ساند‘‘(تذکره حضرت بهاؤ الدین زکریا: 37-38)مجاہدہ یہ ہے کہ نفس جس چیز کی خواہش کرے اسے بیس سال تک پورا نہ کیا جائے۔پھر اس کی مزید توضیح کرتے ہوئے فرمایا کہ:جس مجاہدے کا میں نے ذکر کیا ہے وہ میرے نزدیک سوائے ابتدائی مرحلے کے اور کچھ اہمیت نہیں رکھتا ورنہ مردانِ خدا تو ستر سال تک نفس کو خواب اور آب و طعام کے نزدیک نہیں پھٹکنے دیتے۔
قرآن مجید نے ایسے لوگوں کے اس مقام کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:وَ نَهِیَ النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰی اور اپنے نفس کو (ہر بری) خواہش سے روکا ہو گاتو یقینا جنت ہی اس کا ٹھکانا ہو گا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک صالح ناجوان کا واقعہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں نقل فرمایا ہے: کان شاب علی عهد عمر بن الخطاب رضی الله عنه یلازم المسجد والعبادة، معشقته جاریة، فاتته فی خلوة، فکلمته، فحدث نفسه بذلک فشهق فغشی علیه، فجاء عم له، فحمله الی بیته، فلما أفاق قال: یا عم انطلق إلی عمر فأقرِئه منی السلام، و قل له ما جزأ من خاف مقام ربه؟ فانطلق عمه فأخبر عمر، وقد شهق الفتی شهقة أخری، فمات منها فوقف علیه عمر فقال: لک جنتان، لک جنتان۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک صالح نوجوان تھا جو ہر وقت عبادت میں مشغول رہتا تھا۔ اسے ایک لڑکی سے عشق ہو گیا ۔ وہ تنہائی میں اسے ملا اور اس سے گفتگو کی اس پراچانک خوف خدا کی وجہ سے جسم پر کپکپی طاری ہونے کی وجہ سے بہیوش ہوگیا۔ اس کا چچا اسے اٹھا کر گھر لے گیا۔ ہوش میں آتے ہی اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لےجانے کا تقاضا کیا اور کہا کہ انہیں میرا سلام کہیں اور ان سے پوچھیں کہ جو آدمی رب سے ڈر جاتا ہے اس کی کیا جزا ہے۔ اس کا چچا اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا اور انہیں ساری بات بتائی۔ نوجوان کو دوبارہ کپکپی طاری ہوئی اور اس نے چیخ ماری اور وہ فوت ہوگیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس کھڑے ہوئے اور دو مرتبہ یہ کہا کہ تیرے لئے دو جنتیں ہیں۔(شعب الایمان، حدیث: 736)
تفاسیر میں بیان کیا جاتا ہے کہ آیت مبارکہ ولمن خاف مقام ربہ جنتان کا نزول بھی یہی واقعہ ہے۔ 4
- اخص الخواص کا روزہ
یہ روزے کی آخری منزل ہے، جو ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جنہیں مقام مشاہدہ پر متمکن کیا گیا ہے۔ مقام مشاہدہ پر اللہ کا خاص بندہ سوائے ذاتِ خداوندی کے ہر شے کو بھول جاتا ہے اور اس کی طلب و آرزو کا محور اللہ کی رضا کے حصول کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتا۔
شیخ ابو نجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے احوال میں منقول ہے کہ وہ حرمِ کعبہ کے اندر ایک دفعہ حالت مراقبہ میں تھے کہ حضرت خضر علیہ السلام انہیں ملنے تشریف لائے‘ لیکن شیخ پر اس قدر یک گونہ و استغراق کا غلبہ تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام کی طرف ذرہ توجہ نہ کی اور بدستور مشاہدئہ حق میں محو رہے۔ چنانچہ حضرت خضر علیہ السلام کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد چلے گئے۔ حضرت کے بھتیجے نے جو خود بھی عارف باللہ تھے‘ شیخ سے مراقبہ کے بعد عرض کیا: چچا جان خواجہ خضر علیہ السلام کافی دیر تک آپ کے لئے کھڑے رہے‘ لیکن آپ نے نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور وہ واپس چلے گئے۔ آپ نے جواب میں فرمایا:’’بداں کہ اگر خضر باز رفت باز خواہد آمد۔ اما آں وقت کہ باحق مشغول بودم اگر فوت شدے از کجا یافتم و ندامت آں تا قیامت بماندے۔‘‘(تذکره حضرت بهاؤالدین زکریا: 37-38) بیٹا جان لے کہ اگر خواجہ خضر علیہ السلام واپس چلے گئے تو وہ دوبارہ آ جائیں گے، لیکن وقت کا وہ لمحہ جس میں مشاہدئہ حق میں مشغول تھا، اگر فوت ہو جاتا تو میں وہ کہاں پاتا اور اس کی ندامت قیامت تک مجھے رہتی۔
حضرت شیخ جنید بغدادی قدس سرہ سے منقول ہے:’’چہل سال است کہ بہشت بآں آراستگی وے برمن عرضہ مے کنند ومن بچشم رغبت بوے نگاہے نمے کنم وسی سال است کہ دل خود راگم کردہ ام و نخواستہ ام کہ بمن باز و ہند۔‘‘(تذکره حضرت بهاؤالدین زکریا: 37-38)
چالیس سال سے بہشت کو میرے سامنے پوری آرائش کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے، لیکن میں رغبت سے ایک نظر بھی اس پر نہیں ڈالتا اور تیس سال سے میں اپنا دل کھو چکا ہوں اور نہیں چاہتا کہ دوبارہ مجھے واپس مل جائے۔
یہ مقامات ان لوگوں کے نفوس کے ہیں‘ جنہیں مجاہدے کی بناء پر مشاہدئہ ذات حق اور دیدار مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمتوں سے بہرہ ور کیا گیا اور ان کے حصول میں روزے کا کافی عمل دخل ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اخص الخواص میں شامل کردے آمین