ماہنامہ الفاران
ماہِ رمضان المبارک - ۱۴۴۴
روزہ کی اہمیت اور چند فوائد
جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب المظاہری؛ مدیر ماہنامہ"الفاران" و جنرل سکریٹری ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)
امت مسلمہ پر سال میں ایک مرتبہ ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض کیے گئے ہیں،روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ریا کاری سے بالکل پاک ایک بدنی عبادت اور مکمل طور پر اللہ اور اس کے بندے کا آپسی معاملہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا اجر وثواب بھی بہت بڑا ہے۔ایک حدیث قدسی میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اُجْزٰی بِہٖ (ترجمہ)روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزاہوں!۔ خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جن کی زندگی میں یہ مہینہ آیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔قرآن مجید میں خالق ارض وسما ء نے ارشاد فرمایا ہے”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دیئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ“۔
روزہ بظاہر ایک انفرادی عبادت ہے،پوری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے وقت کے مطابق صبح فجر سے غروب آفتاب یعنی مغرب تک اللہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے کھانا پینا اور دوسری حلال اشیا کو ترک کر دیتے ہیں۔ روزہ دار کے روزے کا اس رب کے سوا کسی تیسرے فرد کو پتا نہیں ہوتا اسی معنیٰ میں روزہ ایک انفرادی عبادت ہے،ایک معنیٰ میں روزہ اجتماعی اور معاشرتی عبادت ہے اس لیے کہ پورا معاشرہ ایک ساتھ ایک وقت میں روزہ رکھنا شروع کرتا ہے،پورے مسلم معاشروں میں ایک وقت پر سحری ہوتی ہے، ایک وقت پر لوگ کھانا روک دیتے ہیں، اس کے بعد ایک ہی وقت پر کھانا پینا شروع کردیتے ہیں اور پھر تراویح ہوتی ہے پورے معاشرے میں لاکھوں اور کروڑوں لوگ جب ایک کام کررہے ہوتے ہیں تو اس سے اجتماعی عبادت کی فضا بنتی ہے اور روزہ ایک معاشرتی عبادت بن جاتا ہے۔ تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ روزے رکھنے کی وجہ سے معاشرہ ایک خاص نظم وضبط کا پابند ہوجاتا ہے اورمعاشرے کے اس نظم و ضبط کو دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔جہاں روزے کا عبادت کے لحاظ سے بہت زیادہ اجر و ثواب ہے وہیں اس سے بہت سارے دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔چند اہم فوائد آپ کے پیش خدمت ہیں:
1۔مجموعی فائدہ:
رمضان کے مہینے میں مجموعی طور پر لوگوں کا رویہ تبدیل ہوجاتا ہے غصہ کم ہوجاتا ہے غصے سے منسلک جو معاملات ہوتے ہیں وہ کم ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، رمضان کے مہینے میں لوگوں کے سماجی رابطے بڑھ جاتے ہیں، لوگ تراویح، اجتماعی نماز اور مسجدوں میں بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرتے ہیں اور جو لوگ معاشرے میں تنہائی کا شکار ہوتے ہیں وہ بھی ایک دوسرے سے مربوط ہوجاتے ہیں۔رمضان کے مہینے میں صفائی ستھرائی بہتر ہوجاتی ہے۔ لوگ جو سڑک پر چیزیں پھینک رہے ہوتے ہیں عام طورپر ان کے اندر بہتری آجاتی ہے۔ رویہ تبدیل ہوجاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کا خیال کرنے لگتے ہیں۔ عام دنوں میں لوگ ایک دوسرے کا جو خیال کرتے ہیں رمضان میں اس سے کہیں زیادہ خیال کرتے ہیں مثال کے طورپر دوسروں کی مدد کرنا اور یہ کسی بھی معاشرے میں مثبت چیز سمجھی جاتی ہے کہ اس معاشرے میں وہ لوگ جو زیادہ اچھی پوزیشن میں ہیں وہ ان لوگوں کی مدد کریں جو کم پوزیشن میں ہیں اوررمضان میں یہ کیفیت ہمیں اپنے عروج پر نظر آتی ہے اس طرح رمضان المبارک میں بیماریوں کی شرح میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جولوگ عام دنوں میں نشہ کرتے ہیں، جیسے جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں،پان، تمباکو استعمال کرتے ہیں یا اورنشہ آور اشیاء کے استعمال کے عادی ہوتے ہیں ان کے نشے کے استعمال کے اندر کمی آجاتی ہے۔ دل کی بیماریاں کم ہوجاتی ہیں، ہارٹ اٹیک سے ہسپتال میں جو داخلے ہوتے ہیں وہ کم ہوجاتے ہیں، فالج کا حملہ کم ہوجاتا ہے۔ ماہرین نفسیات نے مطالعہ کیا ہے کہ رمضان کے مہینے میں مسلم معاشروں کے اندر جرائم کی شرح میں کمی آجاتی ہے پورے معاشرے میں جو مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے اس کے نتیجے میں جرائم کم ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشروں کے اندر نفسیاتی بیماریاں بھی کم ہوجاتی ہیں ایک اور بڑی تبدیلی جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں کاروباری اورمعاشی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔
2۔ریاکاری کے جذبہ کی نفی:
اخلاص ایسی نعمت ہے جو مقصود عبادت ہے، نماز،زکوۃ،حج کے علاوہ دیگر عبادات ظاہری وجود رکھنے کی وجہ سے انسان کے اندر دکھلاوا اور ریا کاری کے جذبات پنپنے لگتے ہیں،اسی وجہ سے مقصود عبادت ختم ہو جاتی ہے،مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس سے ریاکارانہ جذبات کی نفی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور نہ کوئی طریقہ ہے جس سے روزہ دار کسی کو دکھاسکے کہ وہ روزے سے ہے۔ پس یہ اخلاص پر مبنی ایک ایسا معاملہ اور طریقِ بندگی ہے جو روزہ دار اور اس کے خالق کے درمیان ہی ہوتا ہے، کسی دوسرے کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔
3۔جسمانی صحت اور اعصاب کی مضبوطی:
روزہ رکھنے سے انسان جسمانی طور پر تندرست ہو جاتا ہے کیونکہ روزہ رکھنے سے ہمارے جسم میں موجود زائد چربی ختم ہو جاتی ہے، شوگر، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول گراف گرنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے جسم میں خون کے سفید خلیوں کی نشوونما میں بہتری آتی ہے،ان تمام عوامل کے نتیجے میں ہم جسمانی لحاظ سے بہتری کی جانببڑھتے ہیں اور انسان کا جسم چاک و چوبند ہو جاتا ہے۔ اور ہم یوں بہت سے معمولی و مہلک امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔روزہ رکھنے سے انسان کے اعصاب مضبوط ہو جاتے ہیں اور اس کی قوت برداشت میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوتا ہے، زندگی کے دیگر معاملات غم و غصہ اور دوسری ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے کا عادی ہو جاتاہے۔
4۔قوت ارادی اور اپنی ذات پر مکمل ضبط:
زندگی کے کسی بھی شعبہ میں کامیابی کے لئے اپنی ذات پر کنٹرول اورمضبوط قوت ارادی بنیادی اور اولین چیز ہے،روزہ ہمیں مضبوط قوت ارادی اور اپنی ذات پرضبط حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جب ہم روزے کی نیت کر لیتے ہیں تو بھوک اور پیاس لگنے پر قدرت اور اختیار رکھنے کے باوجود ہم کوئی چیز کھاتے پیتے نہیں ہیں اس سے ہمارا اپنی ذات پر کنٹرول بڑھتا ہے، قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے اور دیگر کاموں کو مکمل لگن اور لگاؤ سے بطریق احسن انجام دینے کی مشق ثابت ہوتی ہے۔ روزہ انسان کو اپنے دنیاوی کاموں میں بھی بہتری لانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔مضبوط قوت ارادی بنیادی کے بل پر طارق بن زیاد نے سپین فتح کیا اور سلطان السلاطین جناب سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگوں میں کامیابی حاصل کی۔
5۔سکون اور آرام:
رمضان المبارک کا روزہ، روزہ دار کے لئے دو لحاظ سے آرام و آسائش کا سبب بنتاہے اور پریشانیوں اور اضطراب سے نجات دلاتا ہے، ان میں سے ایک انسان کو صبر عطا کرنا ہے اور صابر انسان اپنے نفس پر قابو پاتا ہے اور خدا کا مطیع و فرمانبردار ھوجاتا ہے اور جو شخص فرمانبردارہو اس میں ایک اطمینان و سکون پیدا ہوتا ہے، کیونکہ صبر کی حقیقت اور اس کے معنی آرام و سکون ہیں اور حقیقت میں صابر وہ ہے جو فوری طور پر حوادث کے زیر اثر قرار نہیں پاتا ہے اور مخالف ہوائیں اس کے پائے استقلال میں جنبش پیدا نہیں کرسکتی ہیں اور اسے مضطرب نہیں کرسکتی ہیں۔دوسری جانب روزہ اللہ تعالیٰ کی عملی یاد اور ذکر ہے اور یقینا خدا کی یاد دلوں کو آرام و سکون بخشتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:'' یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصلہوتا ہے اور آگاہہو جاو کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے''۔روزہ دار کو حاصل ھونے والے اطمینان و سکون کے علاوہ اسے خاص کر افطار کے وقت لذت بھی حاصلہوتی ہے، امام صادق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:'' روزہ دار کے لئے دو شادمانیاں ہیں، ایک شاد مانی سے افطار کے وقت بہرہ مندہوتے ہیں اور دوسری شادمانی خداوند متعال سے ملاقی ہوتے وقت حاصلہوتی ہے''۔(شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج 2، ص 76، انتشارات جامعہ مدرسین، قم، 1413ھ.)پیغمبر اسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اپنے ایک ارشاد میں فرمایا ہے:'' اے علی؛ مومن دنیا میں تین بار خوشحال ہوتا ہے:'' ایک اپنے بھائیوں سے ملتے وقت، دوسرا رمضان المبارک میں افطار کے وقت اور تیسرا رات کے آخری وقت پر نماز پڑھتیہوئے''۔(من لایحضرہ الفقیہ، ج 4، ص 360.)
6۔عبادت اور اخلاق:
حقیقت واقعی یہ ہے کہ اگر انسان ایک مہینہ میں آداب ظاہری و باطنی کو بجالاتے ہوئے اس کے روزے رکھ لے تو پھر اس کی برکات سے بندہ مومن کی سیرت و کردار میں صدق و اخلاص، زہدو ورع، صبرو استقامت، تحمل و برداشت، عبادت و ریاضت ایسے اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں جو پورا سال انسان کو گمراہی کے اندھیر میں بھٹکنے سے بچائے رکھتے ہیں اور انسان استقامت کے ساتھ نیکی و طہارت کی راہ پر چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ پھر رمضان مبارک کا مہینہ آجاتا ہے جس میں پھر وہ ایک ماہ کی روحانی ورکشاپ میں تربیت لے کر رحمت خداوندی کے سایہ میں نئے سال میں قدم رکھتا ہے۔اس مبارک ماہ میں ہم اپنے اوقات کو عبادات میں صرف کرتے ہیں اور ہمارے کردار میں بہت سی اخلاقی بہتریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم چوری، کرپشن، بدگمانی، بدزبانی اور دیگر اخلاقی بیماریوں پر قابو پا لیتے ہیں جس سے اجتماعی طور پر معاشرے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو جاتی ہے۔ معاشرہ اخلاقی طور پر بہتری کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں امن و اخوت، بہائی چارے اور ایثار کے جذبات پروان چڑہتے ہیں۔
7۔مستحق افراد کی مدد:
ماہ مبارک میں انسان اپنے مال سے زکوۃ و خیرات اور عطیات کے ذریعے مستحق افراد کی مدد کرتا ہے جس سے معاشرے میں بہتر معاشی حالات پیدا ہوتے ہیں اور خوشحالی بڑہ جاتی ہے۔ مستحق افراد کی مدد ہوجاتی ہے جس سے ان کی ضروریات بہی پوری ہوجاتی ہیں اور اس طرح معاشرے کا اجتماعی معیار بہتر ہوجاتا ہے۔
آخری بات: رمضان المبارک میں جو محض رضائے الہٰی کے حصول کے لئے روزہ رکھتا اور اس کے ظاہری و باطنی آداب کو بقدر طاقت پورا کرتا ہے تو وہ رب غفور الرحیم اس کے باعث روزہ دار کے سابقہ گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ موجودہ دور میں دین سے دوری اور غفلت کے باعث ہم حضور ایزدی میں قیام و سجود کی لذتوں سے محروم ہوچکے ہیں اس بد نصیبی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ جو روزہ تو رکھتے ہیں مگر روزوں کے آداب و تقاضوں میں غفلت کی وجہ سے ان انعامات الہٰیہ سے محروم رہتے ہیں جو ماہ رمضان کے ساتھ ہی مختص ہیں۔اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی مخلوقات بالخصوص بندوں پر ہر لمحہ سایہ فگن رہتی ہے مگر رمضان کی شان ہی کچھ نرالی ہے کہ اس کے لیل و نہار اور شام و سحر میں اس کے دریائے رحمت میں کچھ اس قدر تموج پیدا ہوجاتا ہے کہ ان ساعتوں میں وہ ذات کریم اعمال صالحہ کے اجرو انعام میں اس طرح اضافہ فرماتا ہے کہ نفلی عبادت کا انعام فرائض کے برابر اور فرائض کا اجر ستر گنا تک بڑھادیتا ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اپنے دنیوی معاملات سے بے نیاز ہوکر رمضان کے اس مقدس ماہ میں رب کریم کے در اقدس پر ایک فقیر کی صورت حاضر ہوجائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرامات کے مستحق ٹھہر سکیں اور ماہ مبارک کے برکات سمیٹنے کی توفیق بخشے۔آمین یا رب العالمین
روزہ بظاہر ایک انفرادی عبادت ہے،پوری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے وقت کے مطابق صبح فجر سے غروب آفتاب یعنی مغرب تک اللہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے کھانا پینا اور دوسری حلال اشیا کو ترک کر دیتے ہیں۔ روزہ دار کے روزے کا اس رب کے سوا کسی تیسرے فرد کو پتا نہیں ہوتا اسی معنیٰ میں روزہ ایک انفرادی عبادت ہے،ایک معنیٰ میں روزہ اجتماعی اور معاشرتی عبادت ہے اس لیے کہ پورا معاشرہ ایک ساتھ ایک وقت میں روزہ رکھنا شروع کرتا ہے،پورے مسلم معاشروں میں ایک وقت پر سحری ہوتی ہے، ایک وقت پر لوگ کھانا روک دیتے ہیں، اس کے بعد ایک ہی وقت پر کھانا پینا شروع کردیتے ہیں اور پھر تراویح ہوتی ہے پورے معاشرے میں لاکھوں اور کروڑوں لوگ جب ایک کام کررہے ہوتے ہیں تو اس سے اجتماعی عبادت کی فضا بنتی ہے اور روزہ ایک معاشرتی عبادت بن جاتا ہے۔ تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ روزے رکھنے کی وجہ سے معاشرہ ایک خاص نظم وضبط کا پابند ہوجاتا ہے اورمعاشرے کے اس نظم و ضبط کو دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔جہاں روزے کا عبادت کے لحاظ سے بہت زیادہ اجر و ثواب ہے وہیں اس سے بہت سارے دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔چند اہم فوائد آپ کے پیش خدمت ہیں:
1۔مجموعی فائدہ:
رمضان کے مہینے میں مجموعی طور پر لوگوں کا رویہ تبدیل ہوجاتا ہے غصہ کم ہوجاتا ہے غصے سے منسلک جو معاملات ہوتے ہیں وہ کم ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، رمضان کے مہینے میں لوگوں کے سماجی رابطے بڑھ جاتے ہیں، لوگ تراویح، اجتماعی نماز اور مسجدوں میں بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرتے ہیں اور جو لوگ معاشرے میں تنہائی کا شکار ہوتے ہیں وہ بھی ایک دوسرے سے مربوط ہوجاتے ہیں۔رمضان کے مہینے میں صفائی ستھرائی بہتر ہوجاتی ہے۔ لوگ جو سڑک پر چیزیں پھینک رہے ہوتے ہیں عام طورپر ان کے اندر بہتری آجاتی ہے۔ رویہ تبدیل ہوجاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کا خیال کرنے لگتے ہیں۔ عام دنوں میں لوگ ایک دوسرے کا جو خیال کرتے ہیں رمضان میں اس سے کہیں زیادہ خیال کرتے ہیں مثال کے طورپر دوسروں کی مدد کرنا اور یہ کسی بھی معاشرے میں مثبت چیز سمجھی جاتی ہے کہ اس معاشرے میں وہ لوگ جو زیادہ اچھی پوزیشن میں ہیں وہ ان لوگوں کی مدد کریں جو کم پوزیشن میں ہیں اوررمضان میں یہ کیفیت ہمیں اپنے عروج پر نظر آتی ہے اس طرح رمضان المبارک میں بیماریوں کی شرح میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جولوگ عام دنوں میں نشہ کرتے ہیں، جیسے جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں،پان، تمباکو استعمال کرتے ہیں یا اورنشہ آور اشیاء کے استعمال کے عادی ہوتے ہیں ان کے نشے کے استعمال کے اندر کمی آجاتی ہے۔ دل کی بیماریاں کم ہوجاتی ہیں، ہارٹ اٹیک سے ہسپتال میں جو داخلے ہوتے ہیں وہ کم ہوجاتے ہیں، فالج کا حملہ کم ہوجاتا ہے۔ ماہرین نفسیات نے مطالعہ کیا ہے کہ رمضان کے مہینے میں مسلم معاشروں کے اندر جرائم کی شرح میں کمی آجاتی ہے پورے معاشرے میں جو مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے اس کے نتیجے میں جرائم کم ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشروں کے اندر نفسیاتی بیماریاں بھی کم ہوجاتی ہیں ایک اور بڑی تبدیلی جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں کاروباری اورمعاشی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔
2۔ریاکاری کے جذبہ کی نفی:
اخلاص ایسی نعمت ہے جو مقصود عبادت ہے، نماز،زکوۃ،حج کے علاوہ دیگر عبادات ظاہری وجود رکھنے کی وجہ سے انسان کے اندر دکھلاوا اور ریا کاری کے جذبات پنپنے لگتے ہیں،اسی وجہ سے مقصود عبادت ختم ہو جاتی ہے،مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس سے ریاکارانہ جذبات کی نفی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور نہ کوئی طریقہ ہے جس سے روزہ دار کسی کو دکھاسکے کہ وہ روزے سے ہے۔ پس یہ اخلاص پر مبنی ایک ایسا معاملہ اور طریقِ بندگی ہے جو روزہ دار اور اس کے خالق کے درمیان ہی ہوتا ہے، کسی دوسرے کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔
3۔جسمانی صحت اور اعصاب کی مضبوطی:
روزہ رکھنے سے انسان جسمانی طور پر تندرست ہو جاتا ہے کیونکہ روزہ رکھنے سے ہمارے جسم میں موجود زائد چربی ختم ہو جاتی ہے، شوگر، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول گراف گرنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے جسم میں خون کے سفید خلیوں کی نشوونما میں بہتری آتی ہے،ان تمام عوامل کے نتیجے میں ہم جسمانی لحاظ سے بہتری کی جانببڑھتے ہیں اور انسان کا جسم چاک و چوبند ہو جاتا ہے۔ اور ہم یوں بہت سے معمولی و مہلک امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔روزہ رکھنے سے انسان کے اعصاب مضبوط ہو جاتے ہیں اور اس کی قوت برداشت میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوتا ہے، زندگی کے دیگر معاملات غم و غصہ اور دوسری ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے کا عادی ہو جاتاہے۔
4۔قوت ارادی اور اپنی ذات پر مکمل ضبط:
زندگی کے کسی بھی شعبہ میں کامیابی کے لئے اپنی ذات پر کنٹرول اورمضبوط قوت ارادی بنیادی اور اولین چیز ہے،روزہ ہمیں مضبوط قوت ارادی اور اپنی ذات پرضبط حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جب ہم روزے کی نیت کر لیتے ہیں تو بھوک اور پیاس لگنے پر قدرت اور اختیار رکھنے کے باوجود ہم کوئی چیز کھاتے پیتے نہیں ہیں اس سے ہمارا اپنی ذات پر کنٹرول بڑھتا ہے، قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے اور دیگر کاموں کو مکمل لگن اور لگاؤ سے بطریق احسن انجام دینے کی مشق ثابت ہوتی ہے۔ روزہ انسان کو اپنے دنیاوی کاموں میں بھی بہتری لانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔مضبوط قوت ارادی بنیادی کے بل پر طارق بن زیاد نے سپین فتح کیا اور سلطان السلاطین جناب سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگوں میں کامیابی حاصل کی۔
5۔سکون اور آرام:
رمضان المبارک کا روزہ، روزہ دار کے لئے دو لحاظ سے آرام و آسائش کا سبب بنتاہے اور پریشانیوں اور اضطراب سے نجات دلاتا ہے، ان میں سے ایک انسان کو صبر عطا کرنا ہے اور صابر انسان اپنے نفس پر قابو پاتا ہے اور خدا کا مطیع و فرمانبردار ھوجاتا ہے اور جو شخص فرمانبردارہو اس میں ایک اطمینان و سکون پیدا ہوتا ہے، کیونکہ صبر کی حقیقت اور اس کے معنی آرام و سکون ہیں اور حقیقت میں صابر وہ ہے جو فوری طور پر حوادث کے زیر اثر قرار نہیں پاتا ہے اور مخالف ہوائیں اس کے پائے استقلال میں جنبش پیدا نہیں کرسکتی ہیں اور اسے مضطرب نہیں کرسکتی ہیں۔دوسری جانب روزہ اللہ تعالیٰ کی عملی یاد اور ذکر ہے اور یقینا خدا کی یاد دلوں کو آرام و سکون بخشتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:'' یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصلہوتا ہے اور آگاہہو جاو کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے''۔روزہ دار کو حاصل ھونے والے اطمینان و سکون کے علاوہ اسے خاص کر افطار کے وقت لذت بھی حاصلہوتی ہے، امام صادق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:'' روزہ دار کے لئے دو شادمانیاں ہیں، ایک شاد مانی سے افطار کے وقت بہرہ مندہوتے ہیں اور دوسری شادمانی خداوند متعال سے ملاقی ہوتے وقت حاصلہوتی ہے''۔(شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج 2، ص 76، انتشارات جامعہ مدرسین، قم، 1413ھ.)پیغمبر اسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اپنے ایک ارشاد میں فرمایا ہے:'' اے علی؛ مومن دنیا میں تین بار خوشحال ہوتا ہے:'' ایک اپنے بھائیوں سے ملتے وقت، دوسرا رمضان المبارک میں افطار کے وقت اور تیسرا رات کے آخری وقت پر نماز پڑھتیہوئے''۔(من لایحضرہ الفقیہ، ج 4، ص 360.)
6۔عبادت اور اخلاق:
حقیقت واقعی یہ ہے کہ اگر انسان ایک مہینہ میں آداب ظاہری و باطنی کو بجالاتے ہوئے اس کے روزے رکھ لے تو پھر اس کی برکات سے بندہ مومن کی سیرت و کردار میں صدق و اخلاص، زہدو ورع، صبرو استقامت، تحمل و برداشت، عبادت و ریاضت ایسے اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں جو پورا سال انسان کو گمراہی کے اندھیر میں بھٹکنے سے بچائے رکھتے ہیں اور انسان استقامت کے ساتھ نیکی و طہارت کی راہ پر چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ پھر رمضان مبارک کا مہینہ آجاتا ہے جس میں پھر وہ ایک ماہ کی روحانی ورکشاپ میں تربیت لے کر رحمت خداوندی کے سایہ میں نئے سال میں قدم رکھتا ہے۔اس مبارک ماہ میں ہم اپنے اوقات کو عبادات میں صرف کرتے ہیں اور ہمارے کردار میں بہت سی اخلاقی بہتریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم چوری، کرپشن، بدگمانی، بدزبانی اور دیگر اخلاقی بیماریوں پر قابو پا لیتے ہیں جس سے اجتماعی طور پر معاشرے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو جاتی ہے۔ معاشرہ اخلاقی طور پر بہتری کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں امن و اخوت، بہائی چارے اور ایثار کے جذبات پروان چڑہتے ہیں۔
7۔مستحق افراد کی مدد:
ماہ مبارک میں انسان اپنے مال سے زکوۃ و خیرات اور عطیات کے ذریعے مستحق افراد کی مدد کرتا ہے جس سے معاشرے میں بہتر معاشی حالات پیدا ہوتے ہیں اور خوشحالی بڑہ جاتی ہے۔ مستحق افراد کی مدد ہوجاتی ہے جس سے ان کی ضروریات بہی پوری ہوجاتی ہیں اور اس طرح معاشرے کا اجتماعی معیار بہتر ہوجاتا ہے۔
آخری بات: رمضان المبارک میں جو محض رضائے الہٰی کے حصول کے لئے روزہ رکھتا اور اس کے ظاہری و باطنی آداب کو بقدر طاقت پورا کرتا ہے تو وہ رب غفور الرحیم اس کے باعث روزہ دار کے سابقہ گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ موجودہ دور میں دین سے دوری اور غفلت کے باعث ہم حضور ایزدی میں قیام و سجود کی لذتوں سے محروم ہوچکے ہیں اس بد نصیبی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ جو روزہ تو رکھتے ہیں مگر روزوں کے آداب و تقاضوں میں غفلت کی وجہ سے ان انعامات الہٰیہ سے محروم رہتے ہیں جو ماہ رمضان کے ساتھ ہی مختص ہیں۔اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی مخلوقات بالخصوص بندوں پر ہر لمحہ سایہ فگن رہتی ہے مگر رمضان کی شان ہی کچھ نرالی ہے کہ اس کے لیل و نہار اور شام و سحر میں اس کے دریائے رحمت میں کچھ اس قدر تموج پیدا ہوجاتا ہے کہ ان ساعتوں میں وہ ذات کریم اعمال صالحہ کے اجرو انعام میں اس طرح اضافہ فرماتا ہے کہ نفلی عبادت کا انعام فرائض کے برابر اور فرائض کا اجر ستر گنا تک بڑھادیتا ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے اپنے دنیوی معاملات سے بے نیاز ہوکر رمضان کے اس مقدس ماہ میں رب کریم کے در اقدس پر ایک فقیر کی صورت حاضر ہوجائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات و اکرامات کے مستحق ٹھہر سکیں اور ماہ مبارک کے برکات سمیٹنے کی توفیق بخشے۔آمین یا رب العالمین