ماہنامہ الفاران
ماہِ رمضان المبارک - ۱۴۴۴
روزہ! ایک انقلابی عمل
جناب حضرت مولانا کبیر الدین صاحب فاران المظاہری؛ ناظم: مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ "الفاران"
روزہ حکم خداوندی کی تکمیل،قرآن پاک سے قربت،سرورکونین کی کامل اتباع،پاکیزہ اخلاق کاحامل،
روح وجسم کا بہتر معالج بندگان خداکا ہمدرد وخیر خواہ بنادیتاہے۔
روزہ کی ظاہری صورت کھانا پینا چھوڑ دینا ہے یہ اس با ت کی پہچان ہے کہ بند ہ اپنے رب کا فرمانبردار ہے وہ ہر اس چیز کو چھوڑ نے کیلئے تیا ر ہوجاتا ہے جس کو چھوڑ نے کا اسے خد ا نے حکم دے۔ یہاں تک کہ وہ کھانے پینے جیسی ضروری چیزوں کو بھی تعمیل حکم میں چھوڑ دے قرآن پاک نے روزے کی تکمیل کیلئے تمام اعضا ء پر روزے کو فرض قرار دیا ہے صرف کھانے پینے اور صحبت سے پرہیز کا نام روزہ نہیں۔بلکہ دل ودماغ،آنکھ،زبان،ہاتھ اور پاؤں وغیرہ کو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے مکمل طور پر بچاناروزے کے واجبی ارکان ہیں۔
روزہ کی حالت میں چند چیز وں کو چھوڑ نے کی پریکٹس کرائی جا تی ہے کہ وہ ساری عمر خدا سے ڈر کر اور اسکے حکم کے مطابق زندگی بسر کریگا وہ ان چیزوں کو چھوڑ دے گا، جو اسکے رب کو ناپسند ہیں ۔حضرت محمد ﷺ کا رشاد ہے۔ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجا ئے کہ رمضان کی حقیقت کیاہے تو میر ی امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال ہی رمضان ہوجائے۔خداوند قدوس کا فرمان عالی ہے، روزہ خاص میرے لئے ہے، اور روزہ کا بد لہ میں خود ہی دوں گا۔
قیامت کے دن جب لوگوں کے آپسی حقوق کا فیصلہ کیاجائے گا، اگر کسی کے ذمہ کچھ حقوق العبا د ہوں گے تو ان کے بدلہ میں اسکی نیکیا ں اہل حقوق کو دید ی جائیں گی یہاں تک کہ اس کا کوئی نیک عمل باقی نہیں رہے گا۔ مگر جب بات روزہ کی آئے گی توحق تعالیٰ اسکے روزہ کو حقوق اور جرم کے بدلہ نہ دینگے، اور یہ فرمائینگے اسے رہنے دویہ تو خاص میر اتھا،، اس شخص کے دوسرے بقیہ مظالم کو خود رکھ لیں گے اور اہل حقوق کو اپنے پاس سے ثواب دیکر راضی فرمادینگے۔چنانچہ روزہ اسکے ساتھ ہوکر اسکو جنت میں لیجائے گا۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا، روزہ اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کرینگے روزہ کہے گا اے میر ے پرور دگار میں نے اس کو کھانے، پینے اور شہوت سے روکا تھا، لہذ ا اسکے بارے میں میری شفا عت قبول فرمائیے، اور قرآن کہے گا میں نے اسکو رات میں سونے سے روک رکھا تھا (تراویح کی دائیگی کی تھی)۔ لہٰذا اسکے حق میں میری سفارش قبو ل کیجئے۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ روزے کا فلسفہ کے ذیل میں فرمایاتھا ”کہ انسان کی سعادت اس بات میں ہے کہ اس کے نفس کی اصلاح ہو کر نفس عقل کے تابع ہوجائے اور عقل شریعت کے تابع ہو جائے۔ حقیقت میں نفس سرکش اور غلام ہے اور اس کا آقا عقل ہے، مگر جب نفس غلام کی بجائے آقا بن جاتا ہے تو پھر ظلم کرتا ہے اور تباہی مچاتا ہے۔ اس کو دبانے کیلئے اللّٰہ تعالیٰ نے روزے جیسی مشقت طلب عبادت مقرر کی ہے جس کی وجہ سے نفس تابع ہو جائے ''(افادات: مفسرِ قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمہ اللّٰہ) (ماہنامہ نصرۃ العلوم اکتوبر 2005 ء ص 11) روزے کے ذریعہ انسان کے مقصد زندگی کی تکمیل اور اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کی تشکیل کس طرح کی گئی ہے، اپنی مشہور تصنیف ارکان اربعہ میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید علی میاں ندوی ؒ رقمطراز ہیں۔”نبوت نے تاریخ انسانی کے مختلف وقفوں اور کرہ ئ ارض کے مختلف حصوں میں اس انسانیت کی چار ہ سازی جو انتہاپسندانہ مادیت اور حیوانی بغاوت کی زد میں آکر ہلاکت کے قریب ہو چکی تھی۔اس نے اخلاق وروحانیت،لطیف احساسات اور نفس کے مارے اور مادیت کے کچلے ہوئے مفلوج اور نیم جان دل کو معدہ کی قساوت اور خواہشات کی آلودگی سے پاک وصاف کیا اور اس کو اس مقصد زندگی کی تکمیل کے لئے نئے سرے سے تیار کیا، جس کو ”عبادت“ کہا جاتاہے، اس کو اس کمال انسانی سے آراستہ کیا جس کو ”ولایت“ کہا گیا ہے، اور اس منصب اور اس مشن کی تکمیل کے قابل بنایا جس کی خاطر اس کو دنیا میں اتارا گیا ہے اور جس کو ”خلافت“سے تعبیر کیا گیاہے۔
یہ وہ کام ہے جو نہ تنہا فرشتوں والی روحانیت سے انجام پا سکتا تھا نہ بہائم والی ماددیت سے،اس کیلئے ہر سال ایسے روزہ کا انتظام کیا گیا جو معدہ پرستانہ مادیت میں کسی قدر تخفیف کر سکے،زندگی کے کھوئے ہوئے نشاط،تازگی اور قوت کو دوبارہ واپس لا سکے،اس کے اندر ایمانیت اور روحانیت کی اتنی مقدار داخل کر سکے جس کے ذریعہ زندگی کے اعتدال اور تواز ن کو برقرار رکھنا ممکن ہو،نفس کی ترغیبات کا مقابلہ اور پر خوری کے مفاسد کا سد باب ہوسکے،انسان کچھ وقفہ کیلئے اپنے اندر اخلاق الٰہی کا کس قدر عکس اتار سکے اور اس میں سے کچھ حصہ پا کر سرفراز وسرخ رو ہوسکے،ملائکہ اور ملأ اعلیٰ سے اس کو نسبت حاصل ہو،روح اور قلب کی پر فضا وسعتیں اور آسمان زمین کی سلطنتیں اس کی جولان گا ہوں او ر اس کی وہ نئی لذت حاصل ہو جو انواع واقسام کے کھانوں یا ہر وقت کھاتے رہنے اور آخری حد تک پیٹ بھرلینے کی لذت سے بہت بلند،حقیقی اور دائمی ہے“۔
اس مہینہ کو رسول مقبول ﷺ نے صبر کا مہینہ فرمایا ہے، روزہ دار روزہ رکھ کر کھانے، پینے اور بہت سے ناجائزامور اور لذتوں سے نفس کو روکتا ہے۔ بلاشبہ! صبر زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے جسمیں تمام فتوحات اور کا میا بیوں کا راز پوشید ہ ہے۔
سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا یہ غم خواری کا مہینہ ہے، خود بھوکے پیاسے رہ کر غریب اور لاچار انسان کی تکلیف کا اندازہ کرانا ہے جس سے معاشرہ کے اندر ہمدرد ی، غم خواری، بھائی چارگی اور برداشت کی صفت پید ا کراکر ایک صاف ستھرا اور پاک معاشرہ کو تر قی دینا اور بھو کا پیاسا رکھ کر جسم و روح کی اصلا ح کرانا ہے اور یہ صلاحیت بھی پید ا کرنا ہے کہ آدمی کی پابندزندگی ہونہ کہ بے مہار۔ حدیث شریف میں ہے کہ اس مبارک مہینہ میں نفل کا ثواب فر ض کے برابراور فرض کا ثواب ستر سے سات گنا تک بڑھا دیا جاتاہے۔ درحقیقت روزہ ایسی جامع اور منفرد حیثیت کی عبادت ہے کہ آپ جاگ رہے ہوں تو روزہ دار، سورہے ہوں تو روزہ دار،پاخانہ پیشاب کی حالت میں ہوں تو روزہ دار غرض روزہ کسی حال میں بھی آپ سے جدا نہیں ہوتا۔
حدیث پاک میں وارد ہے جو شخص بلا شر عی عذ ر کے ایک روزہ چھوڑ دے تو اسکے بدلہ اگرتمام عمر بھی روزہ رکھے تو بھی ثواب میں رمضان کے ایک روزہ کی برابر ی نہیں کرسکتے۔ بد قسمت اللہ کے مجرم اور حضرت محمد ﷺ کی سخت ناراضگی اور بد دعاکے مستحق ہیں وہ لو گ جو روزہ نہیں رکھتے زمین اور آسمان ایسے لوگوں کیلئے بد دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ جس جگہ کھایا پیا ہو گا وہ بھی قیامت کے دن گواہی دیگی۔
در اصل رمضان تربیت کا مہینہ ہے اور روزہ تمام برائی چھوڑ نے کا دوسرا نام ہے۔ اسی کا روز ہ حقیقت میں روزہ ہے جو اس کیلئے زندگی کے تمام معاملات میں برائی چھوڑ نے کا ہم معنیٰ بن جائے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ ”بہت سے روزے دار ایسے ہوتے ہیں جن کو ان کے روزے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا سوائے (بھوکے) پیاسے رہنے کے اور بہت سے قیام کرنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ان کے قیام سے کچھ حاصل نہیں ہوتا سوائے بے خوابی کے ”یعنی جو شخص روزہ رکھے اور اس کا روزہ مخلصانہ نہ ہو، اس طرح کے نہ تو اس کی نیت خالص اللہ کیلئے ہو،نہ ایسی باتوں اور ایسے کاموں سے احتراز کرے جو ممنوعات میں سے ہیں۔جیسے جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا،بہتان لگا نا،غیبت کرنا، اور برا کام کرنا وغیرہ،تو اگرچہ وہ بھوکا پیاسا رہتاہے اور فرض اس کے ذمہ سے ساقط ہوجاتاہے مگر روزہ کا جو اصل فائدہ ہے یعنی ثواب وہ اس کو حاصل نہیں ہوتا،اسی طرح جو شخص قیام رمضان کرے یعنی تراویح پڑھے اور اس کی نیت میں کھوٹ ہو اس طرح اس کا مقصود خالص اللہ کیلئے نہ ہو اور نہ اس کا دل ودماغ اللہ کی طرف متوجہ ہو تو اس کو بھی کچھ ثواب حاصل نہیں ہوتا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس رات سے جو محروم ہوگیااور اس کی خیر وبھلائی سے محروم نہیں ہوتا مگر وہ جو حقیقت میں محرو م ہی ہے اور وہ رات ہے”شب قدر“ کی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، رمضان کی آخری رات میں اللہ تعالیٰ میر ی امت کے روزہ داروں کی مغفرت فرمادیتے ہیں۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ! کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں، مگر با ت یہ ہے کہ مزدور کی مزدوری کا م ختم ہوجانے پر دی جایا کرتی ہے۔
دیکھا جاتا ہے کہ اکثر شہروں میں رمضان المبارک کی رات ایک میلے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ عورتوں کا بے مہابہ پھرنا،خریدوفروخت کی گرم بازاری،دیر رات تک ہوٹلوں کی ہمہ ہمی گفت وشنید کی مجلس ماہ رمضان کی راتوں کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔ اسلام یہی ہے کہ آدمی خدا کی تمام منع کی ہوئی چیزوں سے بچ کر زندگی گذارے۔روزہ ہر سال اسی سبق کو دہرانے کیلئے ہر عاقل وبالغ مسلمان پر فرض کیاگیاہے۔
حضرت مولانا انعام الحسن صاحب ؒ کا ارشادہے کہ روزہ رکھنے کی غرض یہی ہے کہ انسان کے اندر موجود حیوانی صفت بے لگا م نہ ہوجائے۔ حکماء اور ڈاکٹروں کی تحقیق ہے کہ روزہ سے نہ صرف یہ کہ باطنی اصلاح ہوتی ہے بلکہ کئی ظاہری وباطنی امراض مثلاً شوگر،بلڈپریشر،امراض شکم اور عارضہ ئ قلب سے بھی نجات ملتی ہے۔ دراصل رمضان المبارک نیکوں کا موسم، ایک انقلابی عمل اور عبادت ہے۔اسلئے روزے،تراویح،زکوٰۃ وصدقات اور دیگراعمال خیر سے دامن مراد کو اس ماہ میں بھر لینا چاہئے، تاکہ بقیہ گیارہ ۱۱/ مہینے اس کی برکات سے ہم مالامال اور دنیا کو مستفیض کرتے رہیں۔