ماہنامہ الفاران
ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۴
جنسی بے راہ روی کو تحفظ
جناب حضرت مفتی محمد ثنائ الہدیٰ صاحب قاسمی، نائب ناظم: امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ
کیرالہ کے اکتالیس سالہ تاجر جو سف شائنی (جو ان دنوں اٹلی میں قیام پذیرہے) نے دسمبر۲۰۱۷ء میں عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں مفاد عامہ کے حوالہ سے ایک عرضی داخل کیا تھا، جس میں دفعہ ۴۹۷ کو صنفی بنیاد پر تفریق قرار دے کر رد کرنے کی مانگ کی تھی، اس دفعہ کی رو سے شادی شدہ مرد اگر کسی دوسرے کی بیوی سے اس کے شوہر کی رضا مندی سے تعلق قائم کرتا ہے تو یہ جرم کے زمرے میں نہیں آتا ہے، البتہ بلا اجازت اگرکسی نے جنسی تعلق قائم کیا تو یہ جرم کے دائرے میں آتا تھا اور زنا کا ر مرد کو پانچ سال تک کی سزا ہو سکتی تھی، ایسے معاملات میں اس دفعہ کی رو سے عورت کو متاثرہ مان کر چھوڑ دیا جاتا تھا، اس پر کوئی داروگیر نہیں کی جاتی، اسی طرح اگر زنا کار کی بیوی نے اس مسئلہ پر خود کشی کر لیا تو اس شکل میں بھی شوہر خود کشی پر ابھارنے والا قرار دے کر مجرم گردانا جاتا تھا، اس بنیاد پر طلاق کے لیے مقدمہ بھی قائم کیاجا سکتاتھا اور یہ تفریق کی بنیاد ہو سکتی تھی ۔
یہ قانون ایک سو انٹھاون سال پرانا تھا، ۱۸۳۷ء میں تھا مس بائیگٹن میکالے (لارڈ میکالے) نے تعزیرات ہند کے پہلے مسودے میں اسے شامل نہیں کیا تھا، لیکن ۱۸۴۷ ء میں قانون ساز کمیٹی نے اس پر زور دیا کہ زنا کاری کو آزاد اور بے لگام چھوڑ دینا قطعا مناسب نہیں ہے، لیکن اس بار بھی یہ دفعہ داخل نہیں کی جا سکی، البتہ ۱۸۶۰ء میں اسے آئی پی اس کی دفعہ ۴۹۷ کے طور پر لاگو کیا گیا، تب سے یہ قانون ہندوستان میں نافذ تھا، اس درمیان اس قسم کی عرضیاں ۱۹۵۴، ۱۹۸۵ئ، ۱۹۸۸ء اور ۲۰۰۱ء میں بھی سپریم کورٹ میں داخل کی گئیں؛ لیکن عدالت نے اسے صنفی بنیاد پر تفریق والا نہیں مانا تھا، قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے والد جسٹس وائی وی چندر چوڑ (جو ہندوستان کے چیف جسٹس بھی رہے) نے تیس سال پہلے اس قانون کو باقی رکھا تھا ۔
ان دنوںہندوستان میں مغربی افکار واقدار کو اپنانے، قبول کرنے اور اسے عدالت سے منظور کرانے کی جو منصوبہ بند کوشش ہو رہی ہے اس کے نتیجے میں اس دفعہ کو نکال باہر کیا گیا، چیف جسٹس دیپک مشرا کی سر براہی میں جسٹس اے ایم کھانو لکر، جسٹس آر اف نریمن، جسٹس ڈی وائی چند چوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا کی پانچ رکنی بینچ نے ۲۰۱۸ء میں نہ صرف آئی پی سی کی دفعہ ۴۹۷ کو کالعدم قرار دیا، بلکہ سی آر سی کی دفعہ ۱۹۸ کے ایک حصہ کو بھی منسوخ کر دیا، فیصلے الگ الگ سنائے گئے، لیکن سب اس بات پر متفق تھے کہ بیوی شوہر کی ملکیت نہیں ہے، اسے دوسرے سے بھی جنسی تعلق قائم کرنے کا اختیار ہے، البتہ اگر شوہر کو اعتراض ہو تو وہ طلاق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے، جسٹس نریمن کی رائے تھی کہ شوہر اپنی بیوی کو کچھ کرنے یا کچھ نہیں کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا، جسٹس چند ر چوڑ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ دفعہ عورت کو اس کی خواہش اور پسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے روکتی ہے، اس لیے غیر آئینی ہے ۔ فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عورت کے جسم پر صرف اس کا حق ہے، وہ شوہر کی جاگیر نہیں ہے، شادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیوی اپنی جنسی خواہش شوہر کو سونپ دے ۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ زنا کی وجہ سے شادی خراب نہیں ہوتی، بلکہ خراب شادی کی وجہ سے عورتیں غیر مرد کی طرف راغب ہوتی ہیں، ایسے میں اسے جرم مان کر سزا دینے کا مطلب ہے کہ دکھی لوگوں کے دکھ میں مزیداضافہ کیا جائے۔جوسف شائنی کی عرضی پینتالیس صفحات کی تھی، عدالت عظمیٰ کے معزز حج صاحبان نے الگ الگ چار فیصلوں کے لیے ۲۴۳ صفحات کا لے کیے، اس معاملہ میں حکومت نے جو حلف نامہ داخل کیا تھا، اس میں یہ واضح کر دیا تھا کہ آئی پی اس کی دفعہ ۴۹۷ اور سی پی سی کی دفعہ (۲) ۱۹۸ کو ختم کرنے کا سیدھا اثر ہندوستانی تہذیب وثقافت پر پڑے گا، چوں کہ یہ دفعات شادی کو مقدس رشتے کے طور پر دیکھتا ہے اس لیے اس کو باقی رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
لیکن عدالت نے کسی کی نہیں سنی، اور شائنی کی عرضی میں جو دلائل دیے گیے تھے اس کو مان کر میاں بیوی کو بے لگام جنسی تعلق بالفاظ دیگر قانون اور عدالتی جواز فراہم کر دیا ہے، لطیفہ یہ ہے کہ جائز چار شادیوں پر یہاں واویلا مچایا جا تا ہے اورنا جائز رشتوں کو قانونی جواز فراہم کیا جاتا ہے، یہاں بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر کا جنسی تعلق قائم کرنا زنا کے زمرے میں آتا ہے، بیوی شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کی جا سکتی ہے اور اٹھارہ، اکیس سال سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شادی پر سزا دی جا سکتی ہے، لیکن لیو ان ریلیشن شپ چاہے وہ کم عمری میں ہی ہو، کی اجازت ہے، یہ عدالت ہی کے مختلف فیصلے ہیں، جس کی تلخیص یہاں ذکر کی گئی ہے، ان فیصلوں کے نتیجے میں خاندانی نظام بر باد ہو رہا ہے، اور جس طرح مغرب میں بن باپ کے بچوں کی باڑ ھ سی آئی ہوئی ہے اور باپ کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری کاغذات میں ماں کے نام درج کرنے پر زور دیا جاتا ہے، اس کی شروعات یہاں بھی ہو گئی ہے، مستقبل کے ہندوستان میں حرام جنسی تعلق سے پیدا ہونے والے بچوں کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہوگا، ایسے میں یا تو وہ گھٹ گھٹ کر مرجائیں گے یا آوارہ اوباش، ناکندہ تراش ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی، جس سے سارا سماج پریشان ہو کر رہ جائے گا۔
معزز جج صاحبان نے اس فیصلہ میں ان ملکوں کا بھی حوالہ دیا، جہاں اس قسم کے تعلق کو جرم نہیں مانا جاتا، پتہ نہیں کیوں ہمارے جج صاحبان کو وہی ملک نظر آتے ہیں جہاں اس قسم کی نازیبا اور غیر اخلاقی حرکتوں کو قانونی جواز فراہم ہے، دنیا کے بہت سارے ملک وہ بھی تو ہیں، جہاں اس قسم کے جنسی تعلقات غیر قانونی ہیں، امریکہ کو ہی لے لیجئے، یہاں کی اکیس ریاست میں یہ عمل غیر قانونی ہے، اور مجرم کو عمر قید کی بھی سزا ہو سکتی ہے، فلپاین میں چار مہینے سے لے کر چھ سال کی سزا بیاہی عورت کے دوسرے مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے کی دی جاتی ہے، ایران میں ایسی عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، سعودی عرب میں رجم یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔اس سے پہلے عدالت نے طلاق کے مسئلے پر بھی ملکوں کا حوالہ دیا تھا تو کیا اس طرح غیر ملکی حوالہ دے کر جسم فروشی کو بھی یہاں قانونی جواز ملے گا، وہاں بھی تو عورت اپنی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے اور دنیا کے کئی ملکوں میں یہ ایک پیشہ کے طور پر رائج ہے، ہمارے ہندوستان میں اب طوائفوں کو سیکس ورکر کہا جانے لگا ہے، اگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا یہی انداز رہا تو سارے کوٹھے کی گندگی گاؤں اور محلوں تک آجائے گی جو اب بھی تعزیرات ہند کی دفعہ کے تحت جرم ہونے کے باوجود کم نہیں ہے ۔
یہ قانون ایک سو انٹھاون سال پرانا تھا، ۱۸۳۷ء میں تھا مس بائیگٹن میکالے (لارڈ میکالے) نے تعزیرات ہند کے پہلے مسودے میں اسے شامل نہیں کیا تھا، لیکن ۱۸۴۷ ء میں قانون ساز کمیٹی نے اس پر زور دیا کہ زنا کاری کو آزاد اور بے لگام چھوڑ دینا قطعا مناسب نہیں ہے، لیکن اس بار بھی یہ دفعہ داخل نہیں کی جا سکی، البتہ ۱۸۶۰ء میں اسے آئی پی اس کی دفعہ ۴۹۷ کے طور پر لاگو کیا گیا، تب سے یہ قانون ہندوستان میں نافذ تھا، اس درمیان اس قسم کی عرضیاں ۱۹۵۴، ۱۹۸۵ئ، ۱۹۸۸ء اور ۲۰۰۱ء میں بھی سپریم کورٹ میں داخل کی گئیں؛ لیکن عدالت نے اسے صنفی بنیاد پر تفریق والا نہیں مانا تھا، قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ۱۹۸۵ء میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے والد جسٹس وائی وی چندر چوڑ (جو ہندوستان کے چیف جسٹس بھی رہے) نے تیس سال پہلے اس قانون کو باقی رکھا تھا ۔
ان دنوںہندوستان میں مغربی افکار واقدار کو اپنانے، قبول کرنے اور اسے عدالت سے منظور کرانے کی جو منصوبہ بند کوشش ہو رہی ہے اس کے نتیجے میں اس دفعہ کو نکال باہر کیا گیا، چیف جسٹس دیپک مشرا کی سر براہی میں جسٹس اے ایم کھانو لکر، جسٹس آر اف نریمن، جسٹس ڈی وائی چند چوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا کی پانچ رکنی بینچ نے ۲۰۱۸ء میں نہ صرف آئی پی سی کی دفعہ ۴۹۷ کو کالعدم قرار دیا، بلکہ سی آر سی کی دفعہ ۱۹۸ کے ایک حصہ کو بھی منسوخ کر دیا، فیصلے الگ الگ سنائے گئے، لیکن سب اس بات پر متفق تھے کہ بیوی شوہر کی ملکیت نہیں ہے، اسے دوسرے سے بھی جنسی تعلق قائم کرنے کا اختیار ہے، البتہ اگر شوہر کو اعتراض ہو تو وہ طلاق کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے، جسٹس نریمن کی رائے تھی کہ شوہر اپنی بیوی کو کچھ کرنے یا کچھ نہیں کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا، جسٹس چند ر چوڑ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ دفعہ عورت کو اس کی خواہش اور پسند کے مطابق جنسی تعلقات قائم کرنے سے روکتی ہے، اس لیے غیر آئینی ہے ۔ فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عورت کے جسم پر صرف اس کا حق ہے، وہ شوہر کی جاگیر نہیں ہے، شادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیوی اپنی جنسی خواہش شوہر کو سونپ دے ۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ زنا کی وجہ سے شادی خراب نہیں ہوتی، بلکہ خراب شادی کی وجہ سے عورتیں غیر مرد کی طرف راغب ہوتی ہیں، ایسے میں اسے جرم مان کر سزا دینے کا مطلب ہے کہ دکھی لوگوں کے دکھ میں مزیداضافہ کیا جائے۔جوسف شائنی کی عرضی پینتالیس صفحات کی تھی، عدالت عظمیٰ کے معزز حج صاحبان نے الگ الگ چار فیصلوں کے لیے ۲۴۳ صفحات کا لے کیے، اس معاملہ میں حکومت نے جو حلف نامہ داخل کیا تھا، اس میں یہ واضح کر دیا تھا کہ آئی پی اس کی دفعہ ۴۹۷ اور سی پی سی کی دفعہ (۲) ۱۹۸ کو ختم کرنے کا سیدھا اثر ہندوستانی تہذیب وثقافت پر پڑے گا، چوں کہ یہ دفعات شادی کو مقدس رشتے کے طور پر دیکھتا ہے اس لیے اس کو باقی رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
لیکن عدالت نے کسی کی نہیں سنی، اور شائنی کی عرضی میں جو دلائل دیے گیے تھے اس کو مان کر میاں بیوی کو بے لگام جنسی تعلق بالفاظ دیگر قانون اور عدالتی جواز فراہم کر دیا ہے، لطیفہ یہ ہے کہ جائز چار شادیوں پر یہاں واویلا مچایا جا تا ہے اورنا جائز رشتوں کو قانونی جواز فراہم کیا جاتا ہے، یہاں بیوی کی مرضی کے بغیر شوہر کا جنسی تعلق قائم کرنا زنا کے زمرے میں آتا ہے، بیوی شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کی جا سکتی ہے اور اٹھارہ، اکیس سال سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کی شادی پر سزا دی جا سکتی ہے، لیکن لیو ان ریلیشن شپ چاہے وہ کم عمری میں ہی ہو، کی اجازت ہے، یہ عدالت ہی کے مختلف فیصلے ہیں، جس کی تلخیص یہاں ذکر کی گئی ہے، ان فیصلوں کے نتیجے میں خاندانی نظام بر باد ہو رہا ہے، اور جس طرح مغرب میں بن باپ کے بچوں کی باڑ ھ سی آئی ہوئی ہے اور باپ کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری کاغذات میں ماں کے نام درج کرنے پر زور دیا جاتا ہے، اس کی شروعات یہاں بھی ہو گئی ہے، مستقبل کے ہندوستان میں حرام جنسی تعلق سے پیدا ہونے والے بچوں کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہوگا، ایسے میں یا تو وہ گھٹ گھٹ کر مرجائیں گے یا آوارہ اوباش، ناکندہ تراش ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی، جس سے سارا سماج پریشان ہو کر رہ جائے گا۔
معزز جج صاحبان نے اس فیصلہ میں ان ملکوں کا بھی حوالہ دیا، جہاں اس قسم کے تعلق کو جرم نہیں مانا جاتا، پتہ نہیں کیوں ہمارے جج صاحبان کو وہی ملک نظر آتے ہیں جہاں اس قسم کی نازیبا اور غیر اخلاقی حرکتوں کو قانونی جواز فراہم ہے، دنیا کے بہت سارے ملک وہ بھی تو ہیں، جہاں اس قسم کے جنسی تعلقات غیر قانونی ہیں، امریکہ کو ہی لے لیجئے، یہاں کی اکیس ریاست میں یہ عمل غیر قانونی ہے، اور مجرم کو عمر قید کی بھی سزا ہو سکتی ہے، فلپاین میں چار مہینے سے لے کر چھ سال کی سزا بیاہی عورت کے دوسرے مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے کی دی جاتی ہے، ایران میں ایسی عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، سعودی عرب میں رجم یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔اس سے پہلے عدالت نے طلاق کے مسئلے پر بھی ملکوں کا حوالہ دیا تھا تو کیا اس طرح غیر ملکی حوالہ دے کر جسم فروشی کو بھی یہاں قانونی جواز ملے گا، وہاں بھی تو عورت اپنی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کرتی ہے اور دنیا کے کئی ملکوں میں یہ ایک پیشہ کے طور پر رائج ہے، ہمارے ہندوستان میں اب طوائفوں کو سیکس ورکر کہا جانے لگا ہے، اگر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا یہی انداز رہا تو سارے کوٹھے کی گندگی گاؤں اور محلوں تک آجائے گی جو اب بھی تعزیرات ہند کی دفعہ کے تحت جرم ہونے کے باوجود کم نہیں ہے ۔