ماہنامہ الفاران
ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۴
اصلاح معاشرہ کی ضرورت اور اس کا طریقہ کار
جنا ب حضرت مفتی محمدسلمان صاحب منصور پوری، مفتی واستاذ حدیث مدرسہ شاہی، مرادآباد
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، أما بعد:
معاشرہ کی اصلاح اور منکرات پر نکیر ہر مسلمان بالخصوص علماء کرام اور ائمہ مساجد کی دینی در منصبی ذمہ داری ہے، معاشرہ کی اصلاح کے بغیر مسلمانوں کے لئے عزت و عافیت کی امید رکھنا محض فریب ہے، جمعیتہ علماء ہند اور دیگر ملی تنظیمیں جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے کوشاں ہیں ان کے دائرہ کار میں اصلاح معاشرہ کی تحریک بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ ذیل میں اصلاح معاشرہ کے کام کو موثر بنانے کے لئے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں ان کے بارے میں کچھ اشارات ذکر کئے جارہے ہیں:
(۱) فرد کی اصلاح
جو شخص بھی اصلاحی تحریک لے کر کھڑا ہو وہ اس وقت تک ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ خود اپنی ذات پر اصلاح کے اثرات نمایاں نہ کرلے، اسی بنا پر اللہ تعالی نے تمام پیغمبروں کو معصومیت یعنی گناہوں سے محفوظ رہنے کی صفت سے سرفراز فرمایا ہے، تا کہ جب وہ دعوتی میدان میں جائیں تو کوئی ان کی ذاتی زندگی پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ نبی اکرم ا کی نبوت سے پہلے چالیس سالہ حیات طیبہ ایسی پاکیزہ تھی کہ قرآن کریم میں اسے بطور شہادت بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے: فقد لبثت فِیکُمُ عُمُراً مِنْ قَبْلِہِ أَفَلا تَعْقِلُونَ. (یونس ۶۱) (کیوں کہ میں رہ چکا ہوں تم میں ایک عمر اس سے پہلے کیا پھر تم نہیں سوچتے) اس لئے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اصلاح کرنے والے افراد اپنے قول و عمل میں مکمل مطابقت کی کوشش کریں اور تضاد روی سے بچتے رہیں، اس لئے کہ یہ تضاد روی اصلاح معاشرہ کی تحریک کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ گویا کہ سم قاتل ہے۔
بالخصوص جو حضرات بفضل خداوندی دینی وملی جماعتوں اور اداروں کے ذمہ دارانہ مناصب پر فائز ہیں انہیں درجہ محتاط رہنے اور تہمت کے مواقع سے بچنے کی ضرورت ہے۔ بہتر ہے کہ کسی متبع سنت شیخ کامل سے اصلاح کا تعلق قائم کر کے ان کی ہدایات پر عمل کریں تو انشاء اللہ اصلاح کی زیادہ امید ہوگی۔ ہماری طبیعت میں ایسا اعتدال اور انصاف پسندی کا جذبہ ہونا چاہئے کہ اگر کوئی ئی شخص ہماری کسی بات پر اعتراض کرے تو ہم اس پر غیظ و غضب کے اظہار کے بجائے اپنی زندگی کا جائزہ لیں، اور اگر کہنے والے کی بات بجا ہو تو اسے قبول کرنے میں دریغ نہ کریں۔
(۲) گھر کی اصلاح
اپنی اصلاح کے بعد دوسرا مرحلہ اپنے گھرانے کی اصلاح کا آتا ہے یعنی جو لوگ ہمارے ماتحت ہیں خواہ وہ بیوی ہو، یا بچے ہوں، یا اور قریبی اعزہ ہوں ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ وہ سب اولین اصلاح قبول کرنے والوں میں شامل ہوں۔ چناں چہ جناب رسول اللہ کو اللہ تعالی نے حکم دیا: (وَانْذِرُ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ. (الشعراء:) (اور ڈر سنائیے اپنے قریب کے رشتہ داروں کو) اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آدمی خود داعی ہو لیکن اس کے گھر والوں میں منکرات پائے جائیں تو عام لوگ اس کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔
(۳) عوامی اصلاح
اس کے بعد ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ پورا مسلم معاشرہ منکرات سے بچ جائے اور منکرات خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ان سب پر نکیر کرنے کی ضرورت ہے، عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تحریک اصلاح معاشرہ کا تعلق صرف شادی بیاہ کی رسومات سے ہے حالاں کہ یہ سمجھنا درست نہیں ہے، منکر بہر حال منکر ہے خواہ وہ تقریبات میں ہو، معاشرت میں ہو، معاملات میں ہو یاعبادات میں ان سب میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
جس طرح سرکاری محکمہ صحت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ شہر میں نگاہ رکھے اور جو وبائی مرض پھیل رہا ہو یا جس مرض کے پھیلنے کا خطرہ ہو اس کے سدباب کے لئے فوری طور پر دوا اور علاج اور احتیاطی تدابیر اپنانے کا اعلان کرے۔ اسی طرح ہر علاقہ اور شہر کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ آبادی میں پھیلنے والے منکرات پر نگاہ رکھیں اور ایک ایک منکر کو معاشرہ سے مٹانے کے لئے مناسب تدبیریں اور اسباب اختیار کریں، ورنہ معاشرہ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے تباہ اور بربادہو جائے گا۔ اس دین کی بقا کا مدار ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ہے، اگر اس کام کو جاری نہ رکھا جائے تو امت کبھی بھی عافیت سے نہیں رہ سکتی۔ اب اصلاح کے کیا طریقے اپنائے جائیں۔ یہ بات قابل غور ہے اس سلسلہ میں بنیادی بات تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی فکر کو اپنے اوپر اوڑھ لیتا ہے تو اس کے لئے کام کرنے کے دروازے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہی حال اصلاح معاشرہ کی تحریک کا بھی ہے کہ اس کے لئے کوئی خاص طریقہ شرعی طور پر متعین نہیں ہے بلکہ جب اور جس موقع پر جو صورت مناسب ہو اسے اختیار کیا جا سکتا ہے، تاہم اس راہ میں جو طریقے تجربہ سے مفید ثابت ہوئے ہیں ان کو ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے:
(۱) درس قرآنِ کریم
اللہ کی کتاب قرآن مقدس سے زیادہ ہدایت کی تاثیر کسی چیز میں نہیں پائی جاتی، اس لئے علماء کو چاہئے کہ وہ مساجد میں درس قرآن کا سلسلہ ضرور جاری کریں اس کا نفع عام اور تام ہے، خود درس دینے والا اس کے مبارک اثرات کو محسوس کر سکتا ہے اور اس کے سامعین خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہوں لیکن وہ اثر قبول کئے بغیر نہیں رہتے۔ قرآن پاک کا مخصوص انداز تعبیر دلوں کی بند کھڑکیوں کو کھولنے میں سب سے زیاد اثر رکھتا ہے، اور اس کی بے لاگ لپیٹ ضمیر کو جھنجوڑنے والی آیتیں منٹوں سکنڈوں میں دل کی دنیا بدل دیتی ہیں، اور اہل ایمان کے دلوں میں ایمانی حلاوت اور چاشنی میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِم آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَاناً(الأنفال: ۲)ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کا نام آئے توُ ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اللہ کا کلام پڑھا جائے تو ان کا ایمان زیادہ ہو جائے۔ (۲) درس حدیث شریف ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لئے ایسی قیمتی ہدایات دی ہیں جن پر عمل کر کے دینی و دنیوی فلاح حاصل کی جاسکتی ہے اس لئے جابجا درس حدیث کا سلسلہ بھی جاری کرنا چاہئے۔ اس میں یا تو کسی کتاب مثلاً”ریاض الصالحین“یا مشکوٰۃ شریف کو سامنے رکھ کر بالترتیب درس دیا جائے، یا پھر حالات کے اعتبار سے احادیث منتخب کر کے گفتگو کی جائے۔
(۳) اصلاحی جلسے
تجربہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ موجودہ دور میں منکرات پر نکیر کے لئے عمومی انداز میں اصلاحی بیانات کا سلسلہ جاری رکھنا بھی مفید ہے اور بہتر یہ ہے کہ یہ جلسے صرف مساجد میں نہ ہو کر میدانوں اور پبلک مقامات پر رکھے جائیں؛ تا کہ وہ طبقہ جو مساجد سے دور ہے اس کے کانوں میں بھی آواز پہنچے۔
(۴) نوجوانوں کی خصوصی میٹنگیں
اس دور میں نوجوان طبقہ منکرات و فواحش میں سب سے زیادہ مبتلا ہے اس لئے خاص طور پر ہر ہر محلہ میں اور بستی میں نوجوانوں کو جوڑ کر ان سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، الحمد للہ اس سلسلہ کے بھی مفید اثرات ہم نے محسوس کئے، اور اندازہ ہوا کہ ہزار خرابیوں کے باوجود ہمارے نو جوان بات کو سمجھنے کے لئے تیار ہیں بس ان پر محنت کرنے اور انہیں مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔
(۵) اصلاحی کمیٹیاں
علاقہ کے بااثر افراد علماء، ائمہ اور نو جوانوں کو جوڑ کر اصلاحی کمیٹیوں کی تشکیل اور پھر ان کی سرگرمیوں کی نگرانی بھی ایک اہم کام ہے، جہاں جہاں بھی اس سلسلہ میں محنت ہوئی ہے اس کے اچھے اثرات سامنے آئے ہیں۔
(۶) ہفتہ واری اجتماعات
اصلاحی کام کومسلسل جاری رکھنے کے لئے ہفتہ واری اصلاحی اجتماع کا تجربہ بھی کامیاب ثابت ہوا ہے اس اجتماع میں پورے شہر کا جوڑ رکھا جائے اور مختصر وقت میں حالات کی مناسبت سے اصلاحی گفتگو کی جائے تو لوگ اسے بآسانی قبول کرتے ہیں۔
الحمد للہ شہر مراد آباد میں یہ سلسلہ پانچ چھ سال سے بلا ناغہ جاری ہے، ہر جمعہ کو مغرب کے بعد جامع مسجد میں آدھے گھنٹہ کا اجتماع ہوتا ہے جس میں مقررہ نظام کے مطابق شہر کے کسی عالم کا خطاب ہوتا ہے اور اس میں سینکڑوں لوگ شریک ہوتے ہیں۔
(۷) جمعہ کے بیانات
الحمد للہ جمعہ کی نماز میں مساجد میں بڑا اجتماع ہوتا ہے، اس اجتماع کو مزید مفید بنانے کے لئے اس موقع پرمختصر اصلاحی گفتگو بڑے بڑے جلسوں سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے؛ اس لئے علماء اور ائمہ کو چاہئے کہ وہ آسان اور مثبت انداز میں جمعہ کی اذان ثانی سے پہلے یا نماز کے بعد مستند اصلاحی بیانات کا سلسلہ جاری رکھیں۔
(۸) خواتین کے اجتماعات
گاہے بگاہے مختلف محلوں میں خواتین کے اجتماعات سے بی اصلاحی ماحول بانے میں مدد ملتی ہے لیکن ضررری ہے کہ پردہ کا معقول انتظام ہو اوربیان کرنے والاکوئی مستند عالم ہو۔
(۹) انسداد منکرات مہم
عام اصلاحی پروگراموں میں تو عمومی انداز میں سب منکرات پر روشنی ڈالی جاتی ہے لیکن جب کوئی منکر اور گناہ زیادہ تیزی سے پھیلنے لگے تو خاص اس گناہ کے سد باب کے لئے اس کو عنوان بنا کر کوشش کرنی چاہئے۔ مثلاً شعبان کے مہینہ میں بہت سی جگہوں پر آتش بازی کا رواج ہے تو اس رسم بد کو مٹانے کے لئے مستقل مہم چلائی جائے، اسی طرح آج کل فحاشی اور عریانیت بڑھتی جارہی ہے تو اس کے سد باب کے لئے”انسداد فحاشی مہم“جا بجا چلانے کی ضرورت ہے۔ اس مہم کے دوران عمومی اور خصوصی میٹنگیں کی جائیں، اسکول اور کالجوں میں اصلاحی پروگرام رکھے جائیں اور مختلف زبانوں میں مؤثر پمفلٹ شائع کئے جائیں اور انہیں گھر گھر پہنچانے کی کوشش کی جائے۔
(۱۰) اصلاحی لٹریچر کی اشاعت
گھروں میں دینی ماحول بنانے کے لئے موجودہ دور میں لٹریچر بھی بہت ضروری ہے، چھوٹے چھوٹے پمفلٹ، کتابچے چھاپ کر مناسب قیمت میں انہیں لوگوں تک پہنچانا چاہئے۔
(۱۱) انفرادی اصلاح کی جدوجہد
اجتماعی جدو جہد کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں اور اپنے ہم جنسوں کی ذہن سازی بھی ایک اہم کام ہے اس سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے اور اس کا کوئی ضابطہ مقرر نہیں ہے بس یہ خیال رہے کہ اس میں تحقیر یا تشدد کا عصر شامل نہ ہو، بلکہ شفقت اور خیر خواہی کا جذ بہ غالب رہے۔ مذکورہ بالا امور کو سامنے رکھ کر اگر دل جمعی تسلسل اور خلوص سے محنت کی جائے گی تو انشاء اللہ اس کے اثرات ضرور سامنے آئیں گے۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین -
معاشرہ کی اصلاح اور منکرات پر نکیر ہر مسلمان بالخصوص علماء کرام اور ائمہ مساجد کی دینی در منصبی ذمہ داری ہے، معاشرہ کی اصلاح کے بغیر مسلمانوں کے لئے عزت و عافیت کی امید رکھنا محض فریب ہے، جمعیتہ علماء ہند اور دیگر ملی تنظیمیں جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے کوشاں ہیں ان کے دائرہ کار میں اصلاح معاشرہ کی تحریک بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ ذیل میں اصلاح معاشرہ کے کام کو موثر بنانے کے لئے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں ان کے بارے میں کچھ اشارات ذکر کئے جارہے ہیں:
(۱) فرد کی اصلاح
جو شخص بھی اصلاحی تحریک لے کر کھڑا ہو وہ اس وقت تک ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ خود اپنی ذات پر اصلاح کے اثرات نمایاں نہ کرلے، اسی بنا پر اللہ تعالی نے تمام پیغمبروں کو معصومیت یعنی گناہوں سے محفوظ رہنے کی صفت سے سرفراز فرمایا ہے، تا کہ جب وہ دعوتی میدان میں جائیں تو کوئی ان کی ذاتی زندگی پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ نبی اکرم ا کی نبوت سے پہلے چالیس سالہ حیات طیبہ ایسی پاکیزہ تھی کہ قرآن کریم میں اسے بطور شہادت بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے: فقد لبثت فِیکُمُ عُمُراً مِنْ قَبْلِہِ أَفَلا تَعْقِلُونَ. (یونس ۶۱) (کیوں کہ میں رہ چکا ہوں تم میں ایک عمر اس سے پہلے کیا پھر تم نہیں سوچتے) اس لئے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اصلاح کرنے والے افراد اپنے قول و عمل میں مکمل مطابقت کی کوشش کریں اور تضاد روی سے بچتے رہیں، اس لئے کہ یہ تضاد روی اصلاح معاشرہ کی تحریک کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ گویا کہ سم قاتل ہے۔
بالخصوص جو حضرات بفضل خداوندی دینی وملی جماعتوں اور اداروں کے ذمہ دارانہ مناصب پر فائز ہیں انہیں درجہ محتاط رہنے اور تہمت کے مواقع سے بچنے کی ضرورت ہے۔ بہتر ہے کہ کسی متبع سنت شیخ کامل سے اصلاح کا تعلق قائم کر کے ان کی ہدایات پر عمل کریں تو انشاء اللہ اصلاح کی زیادہ امید ہوگی۔ ہماری طبیعت میں ایسا اعتدال اور انصاف پسندی کا جذبہ ہونا چاہئے کہ اگر کوئی ئی شخص ہماری کسی بات پر اعتراض کرے تو ہم اس پر غیظ و غضب کے اظہار کے بجائے اپنی زندگی کا جائزہ لیں، اور اگر کہنے والے کی بات بجا ہو تو اسے قبول کرنے میں دریغ نہ کریں۔
(۲) گھر کی اصلاح
اپنی اصلاح کے بعد دوسرا مرحلہ اپنے گھرانے کی اصلاح کا آتا ہے یعنی جو لوگ ہمارے ماتحت ہیں خواہ وہ بیوی ہو، یا بچے ہوں، یا اور قریبی اعزہ ہوں ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ وہ سب اولین اصلاح قبول کرنے والوں میں شامل ہوں۔ چناں چہ جناب رسول اللہ کو اللہ تعالی نے حکم دیا: (وَانْذِرُ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ. (الشعراء:) (اور ڈر سنائیے اپنے قریب کے رشتہ داروں کو) اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آدمی خود داعی ہو لیکن اس کے گھر والوں میں منکرات پائے جائیں تو عام لوگ اس کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔
(۳) عوامی اصلاح
اس کے بعد ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ پورا مسلم معاشرہ منکرات سے بچ جائے اور منکرات خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ان سب پر نکیر کرنے کی ضرورت ہے، عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تحریک اصلاح معاشرہ کا تعلق صرف شادی بیاہ کی رسومات سے ہے حالاں کہ یہ سمجھنا درست نہیں ہے، منکر بہر حال منکر ہے خواہ وہ تقریبات میں ہو، معاشرت میں ہو، معاملات میں ہو یاعبادات میں ان سب میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
جس طرح سرکاری محکمہ صحت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ شہر میں نگاہ رکھے اور جو وبائی مرض پھیل رہا ہو یا جس مرض کے پھیلنے کا خطرہ ہو اس کے سدباب کے لئے فوری طور پر دوا اور علاج اور احتیاطی تدابیر اپنانے کا اعلان کرے۔ اسی طرح ہر علاقہ اور شہر کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ آبادی میں پھیلنے والے منکرات پر نگاہ رکھیں اور ایک ایک منکر کو معاشرہ سے مٹانے کے لئے مناسب تدبیریں اور اسباب اختیار کریں، ورنہ معاشرہ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے تباہ اور بربادہو جائے گا۔ اس دین کی بقا کا مدار ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ہے، اگر اس کام کو جاری نہ رکھا جائے تو امت کبھی بھی عافیت سے نہیں رہ سکتی۔ اب اصلاح کے کیا طریقے اپنائے جائیں۔ یہ بات قابل غور ہے اس سلسلہ میں بنیادی بات تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی فکر کو اپنے اوپر اوڑھ لیتا ہے تو اس کے لئے کام کرنے کے دروازے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہی حال اصلاح معاشرہ کی تحریک کا بھی ہے کہ اس کے لئے کوئی خاص طریقہ شرعی طور پر متعین نہیں ہے بلکہ جب اور جس موقع پر جو صورت مناسب ہو اسے اختیار کیا جا سکتا ہے، تاہم اس راہ میں جو طریقے تجربہ سے مفید ثابت ہوئے ہیں ان کو ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے:
(۱) درس قرآنِ کریم
اللہ کی کتاب قرآن مقدس سے زیادہ ہدایت کی تاثیر کسی چیز میں نہیں پائی جاتی، اس لئے علماء کو چاہئے کہ وہ مساجد میں درس قرآن کا سلسلہ ضرور جاری کریں اس کا نفع عام اور تام ہے، خود درس دینے والا اس کے مبارک اثرات کو محسوس کر سکتا ہے اور اس کے سامعین خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہوں لیکن وہ اثر قبول کئے بغیر نہیں رہتے۔ قرآن پاک کا مخصوص انداز تعبیر دلوں کی بند کھڑکیوں کو کھولنے میں سب سے زیاد اثر رکھتا ہے، اور اس کی بے لاگ لپیٹ ضمیر کو جھنجوڑنے والی آیتیں منٹوں سکنڈوں میں دل کی دنیا بدل دیتی ہیں، اور اہل ایمان کے دلوں میں ایمانی حلاوت اور چاشنی میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِم آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَاناً(الأنفال: ۲)ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کا نام آئے توُ ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اللہ کا کلام پڑھا جائے تو ان کا ایمان زیادہ ہو جائے۔ (۲) درس حدیث شریف ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لئے ایسی قیمتی ہدایات دی ہیں جن پر عمل کر کے دینی و دنیوی فلاح حاصل کی جاسکتی ہے اس لئے جابجا درس حدیث کا سلسلہ بھی جاری کرنا چاہئے۔ اس میں یا تو کسی کتاب مثلاً”ریاض الصالحین“یا مشکوٰۃ شریف کو سامنے رکھ کر بالترتیب درس دیا جائے، یا پھر حالات کے اعتبار سے احادیث منتخب کر کے گفتگو کی جائے۔
(۳) اصلاحی جلسے
تجربہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ موجودہ دور میں منکرات پر نکیر کے لئے عمومی انداز میں اصلاحی بیانات کا سلسلہ جاری رکھنا بھی مفید ہے اور بہتر یہ ہے کہ یہ جلسے صرف مساجد میں نہ ہو کر میدانوں اور پبلک مقامات پر رکھے جائیں؛ تا کہ وہ طبقہ جو مساجد سے دور ہے اس کے کانوں میں بھی آواز پہنچے۔
(۴) نوجوانوں کی خصوصی میٹنگیں
اس دور میں نوجوان طبقہ منکرات و فواحش میں سب سے زیادہ مبتلا ہے اس لئے خاص طور پر ہر ہر محلہ میں اور بستی میں نوجوانوں کو جوڑ کر ان سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، الحمد للہ اس سلسلہ کے بھی مفید اثرات ہم نے محسوس کئے، اور اندازہ ہوا کہ ہزار خرابیوں کے باوجود ہمارے نو جوان بات کو سمجھنے کے لئے تیار ہیں بس ان پر محنت کرنے اور انہیں مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔
(۵) اصلاحی کمیٹیاں
علاقہ کے بااثر افراد علماء، ائمہ اور نو جوانوں کو جوڑ کر اصلاحی کمیٹیوں کی تشکیل اور پھر ان کی سرگرمیوں کی نگرانی بھی ایک اہم کام ہے، جہاں جہاں بھی اس سلسلہ میں محنت ہوئی ہے اس کے اچھے اثرات سامنے آئے ہیں۔
(۶) ہفتہ واری اجتماعات
اصلاحی کام کومسلسل جاری رکھنے کے لئے ہفتہ واری اصلاحی اجتماع کا تجربہ بھی کامیاب ثابت ہوا ہے اس اجتماع میں پورے شہر کا جوڑ رکھا جائے اور مختصر وقت میں حالات کی مناسبت سے اصلاحی گفتگو کی جائے تو لوگ اسے بآسانی قبول کرتے ہیں۔
الحمد للہ شہر مراد آباد میں یہ سلسلہ پانچ چھ سال سے بلا ناغہ جاری ہے، ہر جمعہ کو مغرب کے بعد جامع مسجد میں آدھے گھنٹہ کا اجتماع ہوتا ہے جس میں مقررہ نظام کے مطابق شہر کے کسی عالم کا خطاب ہوتا ہے اور اس میں سینکڑوں لوگ شریک ہوتے ہیں۔
(۷) جمعہ کے بیانات
الحمد للہ جمعہ کی نماز میں مساجد میں بڑا اجتماع ہوتا ہے، اس اجتماع کو مزید مفید بنانے کے لئے اس موقع پرمختصر اصلاحی گفتگو بڑے بڑے جلسوں سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے؛ اس لئے علماء اور ائمہ کو چاہئے کہ وہ آسان اور مثبت انداز میں جمعہ کی اذان ثانی سے پہلے یا نماز کے بعد مستند اصلاحی بیانات کا سلسلہ جاری رکھیں۔
(۸) خواتین کے اجتماعات
گاہے بگاہے مختلف محلوں میں خواتین کے اجتماعات سے بی اصلاحی ماحول بانے میں مدد ملتی ہے لیکن ضررری ہے کہ پردہ کا معقول انتظام ہو اوربیان کرنے والاکوئی مستند عالم ہو۔
(۹) انسداد منکرات مہم
عام اصلاحی پروگراموں میں تو عمومی انداز میں سب منکرات پر روشنی ڈالی جاتی ہے لیکن جب کوئی منکر اور گناہ زیادہ تیزی سے پھیلنے لگے تو خاص اس گناہ کے سد باب کے لئے اس کو عنوان بنا کر کوشش کرنی چاہئے۔ مثلاً شعبان کے مہینہ میں بہت سی جگہوں پر آتش بازی کا رواج ہے تو اس رسم بد کو مٹانے کے لئے مستقل مہم چلائی جائے، اسی طرح آج کل فحاشی اور عریانیت بڑھتی جارہی ہے تو اس کے سد باب کے لئے”انسداد فحاشی مہم“جا بجا چلانے کی ضرورت ہے۔ اس مہم کے دوران عمومی اور خصوصی میٹنگیں کی جائیں، اسکول اور کالجوں میں اصلاحی پروگرام رکھے جائیں اور مختلف زبانوں میں مؤثر پمفلٹ شائع کئے جائیں اور انہیں گھر گھر پہنچانے کی کوشش کی جائے۔
(۱۰) اصلاحی لٹریچر کی اشاعت
گھروں میں دینی ماحول بنانے کے لئے موجودہ دور میں لٹریچر بھی بہت ضروری ہے، چھوٹے چھوٹے پمفلٹ، کتابچے چھاپ کر مناسب قیمت میں انہیں لوگوں تک پہنچانا چاہئے۔
(۱۱) انفرادی اصلاح کی جدوجہد
اجتماعی جدو جہد کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں اور اپنے ہم جنسوں کی ذہن سازی بھی ایک اہم کام ہے اس سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے اور اس کا کوئی ضابطہ مقرر نہیں ہے بس یہ خیال رہے کہ اس میں تحقیر یا تشدد کا عصر شامل نہ ہو، بلکہ شفقت اور خیر خواہی کا جذ بہ غالب رہے۔ مذکورہ بالا امور کو سامنے رکھ کر اگر دل جمعی تسلسل اور خلوص سے محنت کی جائے گی تو انشاء اللہ اس کے اثرات ضرور سامنے آئیں گے۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین -