ماہنامہ الفاران

ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۴

ماہ شعبان کی اہمیت و فضیلت

جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب المظاہری؛ مدیر ماہنامہ"الفاران" جنرل سکریٹری ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)

شعبان’’ اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے‘ جو اپنی رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کے اعتبارسے ماہ رمضان کیلئے پیش خیمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مہینے میں رمضان المبارک کے استقبال، اس کے سایہ فگن ہونے سے قبل ہی اس کی مکمل تیاری اور مختلف ضروری امور سے یکسوئی کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ یہ وہ قابل قدر مہینہ ہے جس کی نسبت حضور اکرمﷺ نے اپنی طرف فرمائی اور اس میں خیرو برکت کی دعا فرمائی۔ نیز اس ماہ کو اعمال کی پیشی کا مہینہ قرار دیا اور امت کی اس سے غفلت و بے توجہی کی پیشین گوئی دی۔
شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق (پھیلنے اور عام ہونے) کے ہیں،چونکہ اس ماہ میں خیر کثیر پھیل جاتا ہے اس لئے اس کو شعبان کہاجاتاہے یا اس مہینے میں اہل عرب حرمت والیےآخری مہینے رجب المرجب کے بعدلوٹ مار کے لیے منتشر ہو جاتے تھے۔ اس مناسبت سے اس کو شعبان کہتے تھے۔اس مہینے میں آپ کی دیرینہ تمنا پوری ہوئی اور تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ اسی مہینے میں تاریخ اسلام کا عظیم غزوہ ، غزوۂ بنو المصطلق پیش آیا، اسی مہینے میں آپ نے حضرت حفصہؓ اور جویریہ ؓ سے نکاح فرمایا، تیمم سے متعلق احکام کا نزول اسی مہینے میں ہوا۔ اسی مہینے میں حضرت حسین بن علیؓ ،حضرت زین العابدین اور حضرت ابوالفضل عباس کی ولادت ہوئی اور صحابہ و تابعین میں حضرت مغیرہؓ،حضرت انسؓ‘ حضرت عرباضؓ اور امام ابوحنیفہؓ کی وفات بھی اسی ماہ میں ہوئی ۔
شعبان کی روزوں کی فضیلت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کے اکثر حصے میں روزے رکھتے تھے؛ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مَا رَأَیْتُ رسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ قَطُّ الَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہ فِيْ شَھْرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا فِيْ شَعْبَانَ ( بخاری ج1س 264، مسلم ج1ص365) ۔یعنی میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں۔
ایک اور حدیث میں فرماتی ہیں: کَانَ اَحَبُّ الشُّھُورِ اِلٰی رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یَّصومَہ شَعْبَان ثُمَّ یَصِلُہ بِرَمَضَانَ (کنزالعمال حدیث 24584) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملادیں۔
اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے سوا لگاتار دومہینے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ (ترمذی ج1ص155) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے پورے مہینے کے ساتھ ساتھ شعبان کے بھی تقریباً پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے۔ شبِ برات پندرہویں شعبان کی رات شب براءة کہلاتی ہے، اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو گناہوں سے بری اور پاک و صا؛ف کرتا ہے، یعنی مغفرت چاہنے والوں کی بے انتہا مغفرت فرماتا ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں آیا ہے نیز اس رات میں سالانہ فیصلے کی تجدید فرماتا ہے جیسا کہ قرآن میں سورہٴ دخان میں موجود ہے: فِیْھَا یُفْرَقُ کُلِّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ۔
شیعہ شنیعہ کاعقیدہ
شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے امام غائب صاحب کی پیدائش کا دن بھی یہی ہے لہٰذا وہ لوگ اس خوشی میں اچھے کھانے حلوے وغیرہ بناتے ہیں، آتش بازی کرتے ہیں جھنڈیاں لگاتے ہیں اور خوب چہل پہل کرتے ہیں، غرض شیعہ اس دن کو تہوار کی طرح مناتے ہیں۔ ان ہی کی دیکھی دیکھا ہمارے سنی حضرات بھی اس دن کو تہوار کی طرح مناتے ہیں۔ حلوے پکاتے ہیں، چہل پہل کرتے ہیں، یہ جو کچھ ہورہا ہے سب شیعوں کی نقالی ہے۔ ہمارے یہاں صرف اتنا ہے کہ جس کو توفیق ہو اپنے گھر میں بیٹھ کر کچھ عبادت کرلے اور اللہ سے دعا کرلے۔ مسجدوں میں بھیڑ لگانا یہ کہیں ثابت نہیں۔ تقریبًادس صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ مدینہ کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“
دوسری حدیث میں ہے”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے، تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے“۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟
ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:
(1)قبرستان جاکرمردوں کے لئے ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لئے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔
(2)اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی نہیں ہے،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔
(3)۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے۔ ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(15,14,13) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی