ماہنامہ الفاران
ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۴
دکھڑے: نہ نفرتوں کی وجہ ملی،نہ محبتوں کا صلہ ملا!۔(3)
جناب حضرت مولانا کبیر الدین صاحب فاران المظاہری؛ ناظم: مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ "الفاران"
آزمائش و امتحان ناراضی کی دلیل نہیں یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو آزمائش و امتحان میں مبتلا فرماتا ہے اور ان کا ابتلا ء، اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہیں، بلکہ یہ ان کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و قرب کی دلیل ہے۔ ایک حدیث میں حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: کہ میں نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش کس پر ہوتی ہے؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا ”انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّبِین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر وہ دین میں کمزور ہو تو دین کے حساب سے آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں رہتا (ترمذی،حدیث نمبر: ۲۴۰۶)
حضرت انسؓسے روایت ہے، حضور اقدسﷺؑ نے ارشاد فرمایا ”بڑا ثواب پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحیم ہے۔اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور فرمایا:فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَآتَیْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَیٰ لِلْعَابِدِینَ (سورہ انبیاء آیت۴۸)تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انھیں تھا اسے دور کر دیا اور اس کوبیوی بچے عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور، اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لیے سبب نصیحت ہو۔
قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کو صابر کہا گیا ہے،(اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ(ص:۴۴)
اس واقعہ سے یہ سبق ملا کہ آدمی کے اوپر کتنے ہی حالات آجائیں وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ اپنی کوشش کرے۔جیساکہ اس آیت سے سمجھ میں آتاہے۔ وَلاَ تَیْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللَّہِ إِنَّہُ لاَ یَیْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُونَ۔(سورہ یوسف آیت ۷۸)اور اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو۔ یقین جانو، اللہ کی رحمت سے وہی لوگ نااُمید ہوتے ہیں جو انتہائی درجے کے نافرمان ہوں۔
آزمائش و امتحان ناراضی کی دلیل نہیں یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو آزمائش و امتحان میں مبتلا فرماتا ہے اور ان کا ابتلا ء، اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہیں، بلکہ یہ ان کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و قرب کی دلیل ہے۔ ایک حدیث میں حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: کہ میں نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش کس پر ہوتی ہے؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا ”انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّبِین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر وہ دین میں کمزور ہو تو دین کے حساب سے آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں رہتا (ترمذی،حدیث نمبر: ۲۴۰۶)
حضرت انسؓسے روایت ہے، حضور اقدسﷺؑ نے ارشاد فرمایا ”بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ محبت فرماتا ہے تو انھیں آزماتا ہے تو جو اس پر راضی ہو اس کے لیے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لیے ناراضی ہے۔(ترمذی، حدیث نمبر:۲۴۰۲)
سوء اتفاق کہ جب کبھی کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہو تو شکوہ کرنے سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام کو ضرور یاد کرلیں جو مچھلی کے پیٹ میں رہے اور وہ پریشانی تمہاری پریشانیوں سے زیادہ بڑی تھی۔جس کی ان آیات میں وضاحت ہے۔فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ (سور ہ صافات آیت۱۴۱) کشتی والوں نے قرعہ اندازی کی تو وہی خطا کاروں میں تھا۔فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَہُوَ مُلِیْمٌ (سور ہ صافات آیت۲۴۱) پھر اسے مچھلی نے لقمہ بنا لیا اور وہ پشیمان تھا۔فَلَوْلَآ اَنَّہ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ (سور ہ صافات آیت۳۴۱) پس اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں میں سے تھا۔لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (سور ہ صافات آیت۴۴۱) تو وہ اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔فَنَبَذْنَاہُ بِالْعَرَآءِ وَہُوَ سَقِیْمٌ (سور ہ صافات آیت۵۴۱)پھر ہم نے اسے میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار تھا۔وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ (سور ہ صافات آیت۶۴۱) اور ہم نے اس پرکدو کا پیڑ اگادیا۔
مروی ہے کہ جس جگہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مچھلی کے پیٹ سے باہرتشریف لائے وہاں کوئی سایہ نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سایہ کرنے اور انھیں مکھیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کدو کا پیڑ اگا دیا اور وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزانہ ایک بکری آتی اور اپنا تھن حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دہنِ مبارک میں دے کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صبح و شام دودھ پلا جاتی یہاں تک کہ جسم مبارک کی جلد شریف یعنی کھال مضبوط ہوئی اور اپنے مقام سے بال اگ آئے اور جسم میں توانائی آئی(تفسیر خازن۴ /۲۷)
اس سے معلوم ہوا کے ذکر الٰہی ہی ہر حال میں بندہ کی مشکل کو حل کرتاہے۔ أَلَا بِذِکْرِ للَّہِ تَطْمَءِنُّ ا لْقُلُوْبُ(سورہ رعد آیت ۸۲)سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔
بصد افسوس کہ اگر کبھی جھوٹا الزام یا بہتان لگ جائے! تو ایک بار اماں عائشہؓ کو ضرور یاد کرنا۔جن کی عفت میں قرآ ن میں ایک رکوع نازل ہواور اللہ نے ہدایت دی کہ ان چیزوں سے رنجیدہ خاطر نہ ہو۔جس کی ابتدا اس آیت سے ہوئی۔ إِنَّ الَّذِینَ جَاءُوا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنکُمْ لَا تَحْسَبُوہُ شَرًّا لَّکُم بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْہُم مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِی تَوَلَّیٰ کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیم(سورہ نور آیت ۱۱)جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا۔ بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اس کے لیے اتنا ہی وبال ہے۔ اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا۔
یہ آیت اور ا س کے بعد والی چند آیتیں اُمُّ المؤمنین کی شان میں نازل ہوئیں جن میں آپ ؓکی عفت و عصمت کی گواہی خود ربُّ العالَمین نے دی اور آپؓپر تہمت لگانے والے منافقین کو سزا کا مژدہ سنایا۔
آیت میں مذکور بڑے بہتان سے مراد اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت لگانا ہے۔یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ۵ ہجری میں غزوہ بنی مُصْطَلَقْ سے واپسی کے وقت قافلہ مدینہ منورہ کے قریب ایک جگہ ٹھہرا،تو حضرت عائشہؓ ضرورت کے لیے کسی گوشے میں تشریف لے گئیں، وہاں آپؓ کاہار ٹوٹ گیا تو آپؓ اس کی تلاش میں مصروف ہوگئیں۔ اُدھر قافلے والوں نے آپ ؓ کا مَحمِل شریف اونٹ پر کَس دیا اور انھیں یہی خیال رہا کہ ام المؤ منین اس میں موجود ہیں، اس کے بعد قافلہ وہاں سے کوچ کر گیا۔ جب حضرت عائشہ ؓ واپس تشریف لائیں تو قافلہ وہاں سے جا چکا تھا۔ آپؓ ا س خیال سے وہیں قافلے کی جگہ پر بیٹھ گئیں کہ میری تلاش میں قافلہ ضرور واپس آئے گا۔ معمول یہ تھا کہ قافلے کے پیچھے گر ی پڑی چیز اُٹھانے کے لیے ایک صاحب رہا کرتے تھے، اس موقع پر حضرت صفوانؓ بن معطل اس کام پر مامور تھے۔ جب وہ اس جگہ پر آئے اور اُنہوں نے آپؓ کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو بلند آواز سے ”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ“ پکاراٹھے۔ حضرت عائشہؓ ؓنے کپڑے سے پردہ کرلیا۔ انھوں نے اپنی اُونٹنی بٹھائی اور آپؓ اس پر سوار ہو کر لشکر میں پہنچ گئیں۔ اس وقت سیاہ باطن منافقین نے غلط باتیں پھیلائیں اور آپ ؓکی شان میں بدگوئی شروع کر دی،بعض مسلمان بھی اُن کے فریب میں آگئے اور اُن کی زبان سے بھی کوئی بیجا کلمہ سرزد ہوگیا۔ اسی دوران اُمُّ المؤمنین بیمار ہوگئیں اور ایک ماہ تک بیمار رہیں، بیماری کے عرصے میں انھیں اطلاع نہ ہوئی کہ اُن کے بارے میں منافقین کیا کہہ رہے ہیں۔ ایک روز حضرت اُمِ مِسْطَح سے انھیں یہ خبر معلوم ہوئی۔ اس سے آپ ؓکا مرض اور بڑھ گیا اور اس صدمے میں اس طرح روئیں کہ آپؓکے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ ایک لمحہ کے لیے نیند آتی تھی، اس حال میں دو عالَم کے سردارﷺَ پر وحی نازل ہوئی اور حضرتِ اُمُّ المؤمنینؓکی پاکی میں مکمل ایک رکوع نازل ہوا اور آپؓکا شرف و مرتبہ اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑھایا کہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات میں آپ کی طہارت و فضیلت بیان فرمائی۔ اس دوران سیّد المرسَلینﷺنے بھی حضرت عائشہؓ کے لیے برسر ِمنبرخیر کے کلمات ہی ارشاد فرمائے، چنانچہ فرمایا: میں اپنے اہل کے متعلق سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتا۔(بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، ۳ / ۶۱، الحدیث: ۴۱۴۱)
اگر کبھی لگے کہ اکیلے رہ گئے ہو تو ایک بار اپنے بابا آدم علیہ السلام کو یاد کرنا جن کو اللہ نے اکیلا پیدا کیا تھا اور پھر ان کو ساتھی عطا کیا تو تم ناامید نہ ہونا تمہارا بھی کوئی ساتھی ضرور بنے گا۔جس کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا۔
(جاری)
حضرت انسؓسے روایت ہے، حضور اقدسﷺؑ نے ارشاد فرمایا ”بڑا ثواب پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحیم ہے۔اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور فرمایا:فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَآتَیْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَیٰ لِلْعَابِدِینَ (سورہ انبیاء آیت۴۸)تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انھیں تھا اسے دور کر دیا اور اس کوبیوی بچے عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور، اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لیے سبب نصیحت ہو۔
قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کو صابر کہا گیا ہے،(اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ(ص:۴۴)
اس واقعہ سے یہ سبق ملا کہ آدمی کے اوپر کتنے ہی حالات آجائیں وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ اپنی کوشش کرے۔جیساکہ اس آیت سے سمجھ میں آتاہے۔ وَلاَ تَیْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللَّہِ إِنَّہُ لاَ یَیْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُونَ۔(سورہ یوسف آیت ۷۸)اور اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو۔ یقین جانو، اللہ کی رحمت سے وہی لوگ نااُمید ہوتے ہیں جو انتہائی درجے کے نافرمان ہوں۔
آزمائش و امتحان ناراضی کی دلیل نہیں یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو آزمائش و امتحان میں مبتلا فرماتا ہے اور ان کا ابتلا ء، اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہیں، بلکہ یہ ان کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و قرب کی دلیل ہے۔ ایک حدیث میں حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: کہ میں نے عرض کیا: یارسولَ اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش کس پر ہوتی ہے؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا ”انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّبِین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر وہ دین میں کمزور ہو تو دین کے حساب سے آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں رہتا (ترمذی،حدیث نمبر: ۲۴۰۶)
حضرت انسؓسے روایت ہے، حضور اقدسﷺؑ نے ارشاد فرمایا ”بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ محبت فرماتا ہے تو انھیں آزماتا ہے تو جو اس پر راضی ہو اس کے لیے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لیے ناراضی ہے۔(ترمذی، حدیث نمبر:۲۴۰۲)
سوء اتفاق کہ جب کبھی کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہو تو شکوہ کرنے سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام کو ضرور یاد کرلیں جو مچھلی کے پیٹ میں رہے اور وہ پریشانی تمہاری پریشانیوں سے زیادہ بڑی تھی۔جس کی ان آیات میں وضاحت ہے۔فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ (سور ہ صافات آیت۱۴۱) کشتی والوں نے قرعہ اندازی کی تو وہی خطا کاروں میں تھا۔فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَہُوَ مُلِیْمٌ (سور ہ صافات آیت۲۴۱) پھر اسے مچھلی نے لقمہ بنا لیا اور وہ پشیمان تھا۔فَلَوْلَآ اَنَّہ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ (سور ہ صافات آیت۳۴۱) پس اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں میں سے تھا۔لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (سور ہ صافات آیت۴۴۱) تو وہ اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔فَنَبَذْنَاہُ بِالْعَرَآءِ وَہُوَ سَقِیْمٌ (سور ہ صافات آیت۵۴۱)پھر ہم نے اسے میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار تھا۔وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ (سور ہ صافات آیت۶۴۱) اور ہم نے اس پرکدو کا پیڑ اگادیا۔
مروی ہے کہ جس جگہ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مچھلی کے پیٹ سے باہرتشریف لائے وہاں کوئی سایہ نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سایہ کرنے اور انھیں مکھیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کدو کا پیڑ اگا دیا اور وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزانہ ایک بکری آتی اور اپنا تھن حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دہنِ مبارک میں دے کر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو صبح و شام دودھ پلا جاتی یہاں تک کہ جسم مبارک کی جلد شریف یعنی کھال مضبوط ہوئی اور اپنے مقام سے بال اگ آئے اور جسم میں توانائی آئی(تفسیر خازن۴ /۲۷)
اس سے معلوم ہوا کے ذکر الٰہی ہی ہر حال میں بندہ کی مشکل کو حل کرتاہے۔ أَلَا بِذِکْرِ للَّہِ تَطْمَءِنُّ ا لْقُلُوْبُ(سورہ رعد آیت ۸۲)سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔
بصد افسوس کہ اگر کبھی جھوٹا الزام یا بہتان لگ جائے! تو ایک بار اماں عائشہؓ کو ضرور یاد کرنا۔جن کی عفت میں قرآ ن میں ایک رکوع نازل ہواور اللہ نے ہدایت دی کہ ان چیزوں سے رنجیدہ خاطر نہ ہو۔جس کی ابتدا اس آیت سے ہوئی۔ إِنَّ الَّذِینَ جَاءُوا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنکُمْ لَا تَحْسَبُوہُ شَرًّا لَّکُم بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْہُم مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِی تَوَلَّیٰ کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیم(سورہ نور آیت ۱۱)جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا۔ بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اس کے لیے اتنا ہی وبال ہے۔ اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا۔
یہ آیت اور ا س کے بعد والی چند آیتیں اُمُّ المؤمنین کی شان میں نازل ہوئیں جن میں آپ ؓکی عفت و عصمت کی گواہی خود ربُّ العالَمین نے دی اور آپؓپر تہمت لگانے والے منافقین کو سزا کا مژدہ سنایا۔
آیت میں مذکور بڑے بہتان سے مراد اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت لگانا ہے۔یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ۵ ہجری میں غزوہ بنی مُصْطَلَقْ سے واپسی کے وقت قافلہ مدینہ منورہ کے قریب ایک جگہ ٹھہرا،تو حضرت عائشہؓ ضرورت کے لیے کسی گوشے میں تشریف لے گئیں، وہاں آپؓ کاہار ٹوٹ گیا تو آپؓ اس کی تلاش میں مصروف ہوگئیں۔ اُدھر قافلے والوں نے آپ ؓ کا مَحمِل شریف اونٹ پر کَس دیا اور انھیں یہی خیال رہا کہ ام المؤ منین اس میں موجود ہیں، اس کے بعد قافلہ وہاں سے کوچ کر گیا۔ جب حضرت عائشہ ؓ واپس تشریف لائیں تو قافلہ وہاں سے جا چکا تھا۔ آپؓ ا س خیال سے وہیں قافلے کی جگہ پر بیٹھ گئیں کہ میری تلاش میں قافلہ ضرور واپس آئے گا۔ معمول یہ تھا کہ قافلے کے پیچھے گر ی پڑی چیز اُٹھانے کے لیے ایک صاحب رہا کرتے تھے، اس موقع پر حضرت صفوانؓ بن معطل اس کام پر مامور تھے۔ جب وہ اس جگہ پر آئے اور اُنہوں نے آپؓ کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو بلند آواز سے ”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ“ پکاراٹھے۔ حضرت عائشہؓ ؓنے کپڑے سے پردہ کرلیا۔ انھوں نے اپنی اُونٹنی بٹھائی اور آپؓ اس پر سوار ہو کر لشکر میں پہنچ گئیں۔ اس وقت سیاہ باطن منافقین نے غلط باتیں پھیلائیں اور آپ ؓکی شان میں بدگوئی شروع کر دی،بعض مسلمان بھی اُن کے فریب میں آگئے اور اُن کی زبان سے بھی کوئی بیجا کلمہ سرزد ہوگیا۔ اسی دوران اُمُّ المؤمنین بیمار ہوگئیں اور ایک ماہ تک بیمار رہیں، بیماری کے عرصے میں انھیں اطلاع نہ ہوئی کہ اُن کے بارے میں منافقین کیا کہہ رہے ہیں۔ ایک روز حضرت اُمِ مِسْطَح سے انھیں یہ خبر معلوم ہوئی۔ اس سے آپ ؓکا مرض اور بڑھ گیا اور اس صدمے میں اس طرح روئیں کہ آپؓکے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ ایک لمحہ کے لیے نیند آتی تھی، اس حال میں دو عالَم کے سردارﷺَ پر وحی نازل ہوئی اور حضرتِ اُمُّ المؤمنینؓکی پاکی میں مکمل ایک رکوع نازل ہوا اور آپؓکا شرف و مرتبہ اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑھایا کہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات میں آپ کی طہارت و فضیلت بیان فرمائی۔ اس دوران سیّد المرسَلینﷺنے بھی حضرت عائشہؓ کے لیے برسر ِمنبرخیر کے کلمات ہی ارشاد فرمائے، چنانچہ فرمایا: میں اپنے اہل کے متعلق سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتا۔(بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث الافک، ۳ / ۶۱، الحدیث: ۴۱۴۱)
اگر کبھی لگے کہ اکیلے رہ گئے ہو تو ایک بار اپنے بابا آدم علیہ السلام کو یاد کرنا جن کو اللہ نے اکیلا پیدا کیا تھا اور پھر ان کو ساتھی عطا کیا تو تم ناامید نہ ہونا تمہارا بھی کوئی ساتھی ضرور بنے گا۔جس کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا۔
(جاری)