ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۴
مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال
جناب حضرت مفتی محمد ثنائ الہدیٰ صاحب قاسمی، نائب ناظم: امرت شرعیہ ،پھلواری شریف، پٹنہ
مسلمانوں کی آبادی اور اقلیتی فرقوں کی تعلیمی حالات کی جو رپورٹ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے تناظر میں شائع کی گئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی اس ملک میں صرف تیرہ فیصد ہے، جن میں صرف 2.76فی صد گریجویٹ ہیں، تکنیکی اور غیر تکنیکی تعلیم میں ڈپلوما حاصل کرنے والے 0.44 بارہویں کلاس تک تعلیم پانے والے مسلمانوں کی تعداد 4.44فی صد، دسویں تک تعلیم حاصل کرنے والے6.33اور 16.8فی صد مسلمانوں نے صرف پرائمری کی تعلیم حاصل کی ہے، عورتوں میں خواندگی کاتناسب مجموعی گریجویٹ2.76فی صد میں 36.65ہے، تینتالیس فی صد مسلمانوں نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا، یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں، اور ان کی صحت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس احوال کے جاننے کاکوئی اور ذریعہ نہیں ہے، اس لیے ان اعداد وشمار پرہی اعتماد کرنا پڑتا ہے، تھوڑے بہت کا فرق ہو تب بھی مسلمانوں کا تعلیمی گراف بہت اونچا نہیں جا سکتا، کیوں کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے جوتعلیمی اعداد وشمار ہیں وہ بہت آگے ہیں،ہندوستان گیر سطح پر دیکھیں تو جین مذہب کے ماننے والے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، ان کی خواندگی کا تناسب 86فی صد اور غیر خواندہ13.75فی صد ہیں،ہندؤوں میں غیر خواندہ لوگوں کی تعداد 36.40سکھوں میں 32.49بودھوں میں 28.17عیسائیوں میں تقریبا25.66فی صد ہے،مجموعی طور پر پورے ملک کی خواندگی کا تناسب دیکھیں تو صرف 5.63فی صد لوگ ہی بی اے یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، اعلیٰ تعلیم میں پورے ملک میں 61.6فی صد مرد اور 38.4فی صد خواتین ہیں۔ان اعداد وشمار میں آئندہ مردم شماری کی جو رپورٹ آئے گی اس میں بڑی تبدیلی کا امکان ہے، جب تک اگلی مردم شماری کا عمل مکمل نہیں ہوتا ۲۰۱۱ء کی رپورٹ ہی ہمارے لیے بحث وتحقیق اور تجزیہ کے لیے استعمال ہوتا رہے۔
اس طرح غور کریں تو معلوم ہوگا کہ خواندگی کا تناسب پورے ملک میں کمزور ہے، لیکن مسلمان سماجی اورمعاشی طور پرکمزور ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طورپربھی کمزور ہیں سترہ کڑوڑ کی مسلم آبادی میں پارلیامنٹ میں مسلم ممبروں کی تعداد کم از کم پچھہترہونی چاہیے تھی، جو نہیں ہے۔
اس وقت ہمارا موضوع مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال ہے، یہ امت جو تعلیم کے نام پر برپاکی گئی، جس کے لیے قرآن کریم کا پہلا جملہ ’’اقرائ‘‘ پڑھو نازل ہوا، جس کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں اعلان کیاکہ وہ معلم بنا کر بھیجے گیے ہیں، جس کے لیے قرآن کریم نے اعلان کیاکہ ایمان اور علم، رفع درجات کا سبب ہے، جن کے یہاں طلب علم کو فرض قرار دیا گیا، اتنی ترغیب کے با وجود مسلمان تعلیم میں کیوں پیچھے ہیں، عام رجحان یہ ہے کہ تعلیم مہنگی ہو گئی ہے، اور مسلمانوں کے پاس اس مہنگی تعلیم کے حصول کے لیے وسائل کی کمی ہے، معاشی پس ماندگی کیوجہ سے ہمارے بچے تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے ہیں اس لیے ڈراپ آؤٹ کا تناسب ان کے یہاں بہت ہے، ان باتوں کی صداقت سے کلیۃً انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن اگر حوصلہ اور اولو العزمی کی نظر سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان حالات پر قابو پانا قطعا دشوار نہیں ہے، آج سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے ملنے والے اسکالر شپ اور قرض ہماری مالی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر حوصلہ ہو اور پڑھنے کا پختہ ارادہ ہو تو راستے میں رکاوٹیں حائل نہیں ہوتیں، حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بے کسی اور بے بسی نہیں بلکہ ہماری بے حسی ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچے تعلیم میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں، یہ بے حسی کبھی تو گارجین کی طرف سے ہوتی ہے اور کبھی لڑکوں کی طرف سے، بعض لڑکے زیادہ خرچا لو ہوتے ہیں وہ اپنے گارجین کی مالی حیثیت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں اورمختلف عنوانات سے ضروری اور غیر ضروری اخراجات کرکے گارجین کوپریشان کرتے ہیں،کھی بچوں کایہ رویہ بھی گارجین کو اس کی تعلیم بندکرنے پر آمادہ کر دیتا ہے، کبھی صورت حال اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہوتی ہے، ہمارے ایک ملنے والے کے پوتے نے ایک کوچنگ میں داخلہ کے لیے گارجین پر دباؤ ڈالا، گارجین اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ پچپن ہزار روپے کوچنگ کی فیس ادا کر سکے، لڑکے نے خودکشی کی دھمکی دی، ماں، دادی سب نے اپنے زیور گروی رکھ کر اس کی پسند کے کوچنگ میں داخلہ دلوا دیا، دور روز کے بعد لڑکے نے انکار کر دیا کہ ہم وہاں نہیں پڑھیں گے، وجہ جو بھی رہی ہو لیکن صورت حال یہ بنی کہ اب ماں دادی کی خود کشی کی نوبت آگئی کیونکہ جو روپے کوچنگ میں جمع ہو گیے، وہ عام حالات میں تو واپس ملنے سے رہے، ایسے میں گارجین کے پاس چارہ کا ر ہی کیا رہ جاتا ہے، اس لیے اگر ہمیں تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے تناسب کو بڑھا نا ہے تو ضروری ہے کہ لڑکے اور گارجین میں خاص قسم کا تال میل ہو، دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اور مجبوری کو سمجھیں اور اس بے حسی کو دور کریں، جو ہمارے سماج کا حصہ بن گیاہے۔
اس سلسلہ میں بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی حد تک امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امارت شرعیہ کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں، امارت شرعیہ کے ذریعہ قائم کردہ امارت پبلک اسکول اب برانڈیڈ نیم بن گیا ہے، اسی طرح ٹکنیکل انسٹی چیوٹ کے قیام کے ذریعہ پیشہ وارانہ تعلیم کو فروغ اور نو جوانوں کو معاش سے جوڑنے کی جد وجہد مثالی بھی ہے، اور قابل تقلید بھی۔ ضرورت پورے ہندوستان میں علم دوست حضرات کو آگے بڑھ کر تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی صلاحیت، توانائی اور سرمایہ لگانے کی ہے، ملک کے موجودہ حالات میں ہماری پوری توجہ تعلیم کی طرف ہونی چاہیے اور جس طرح ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی اور شاملی کے میدان میں شکست کے بعد ہمارے بڑوں نے اپنی ترجیحات بدل کر تعلیم کے فروغ میں لگ گیے تھے، ویسے ہی اس وقت تعلیم کے فروغ کے لیے ترجیحی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس طرح غور کریں تو معلوم ہوگا کہ خواندگی کا تناسب پورے ملک میں کمزور ہے، لیکن مسلمان سماجی اورمعاشی طور پرکمزور ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طورپربھی کمزور ہیں سترہ کڑوڑ کی مسلم آبادی میں پارلیامنٹ میں مسلم ممبروں کی تعداد کم از کم پچھہترہونی چاہیے تھی، جو نہیں ہے۔
اس وقت ہمارا موضوع مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال ہے، یہ امت جو تعلیم کے نام پر برپاکی گئی، جس کے لیے قرآن کریم کا پہلا جملہ ’’اقرائ‘‘ پڑھو نازل ہوا، جس کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں اعلان کیاکہ وہ معلم بنا کر بھیجے گیے ہیں، جس کے لیے قرآن کریم نے اعلان کیاکہ ایمان اور علم، رفع درجات کا سبب ہے، جن کے یہاں طلب علم کو فرض قرار دیا گیا، اتنی ترغیب کے با وجود مسلمان تعلیم میں کیوں پیچھے ہیں، عام رجحان یہ ہے کہ تعلیم مہنگی ہو گئی ہے، اور مسلمانوں کے پاس اس مہنگی تعلیم کے حصول کے لیے وسائل کی کمی ہے، معاشی پس ماندگی کیوجہ سے ہمارے بچے تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے ہیں اس لیے ڈراپ آؤٹ کا تناسب ان کے یہاں بہت ہے، ان باتوں کی صداقت سے کلیۃً انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن اگر حوصلہ اور اولو العزمی کی نظر سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان حالات پر قابو پانا قطعا دشوار نہیں ہے، آج سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے ملنے والے اسکالر شپ اور قرض ہماری مالی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر حوصلہ ہو اور پڑھنے کا پختہ ارادہ ہو تو راستے میں رکاوٹیں حائل نہیں ہوتیں، حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بے کسی اور بے بسی نہیں بلکہ ہماری بے حسی ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچے تعلیم میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں، یہ بے حسی کبھی تو گارجین کی طرف سے ہوتی ہے اور کبھی لڑکوں کی طرف سے، بعض لڑکے زیادہ خرچا لو ہوتے ہیں وہ اپنے گارجین کی مالی حیثیت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں اورمختلف عنوانات سے ضروری اور غیر ضروری اخراجات کرکے گارجین کوپریشان کرتے ہیں،کھی بچوں کایہ رویہ بھی گارجین کو اس کی تعلیم بندکرنے پر آمادہ کر دیتا ہے، کبھی صورت حال اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہوتی ہے، ہمارے ایک ملنے والے کے پوتے نے ایک کوچنگ میں داخلہ کے لیے گارجین پر دباؤ ڈالا، گارجین اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ پچپن ہزار روپے کوچنگ کی فیس ادا کر سکے، لڑکے نے خودکشی کی دھمکی دی، ماں، دادی سب نے اپنے زیور گروی رکھ کر اس کی پسند کے کوچنگ میں داخلہ دلوا دیا، دور روز کے بعد لڑکے نے انکار کر دیا کہ ہم وہاں نہیں پڑھیں گے، وجہ جو بھی رہی ہو لیکن صورت حال یہ بنی کہ اب ماں دادی کی خود کشی کی نوبت آگئی کیونکہ جو روپے کوچنگ میں جمع ہو گیے، وہ عام حالات میں تو واپس ملنے سے رہے، ایسے میں گارجین کے پاس چارہ کا ر ہی کیا رہ جاتا ہے، اس لیے اگر ہمیں تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے تناسب کو بڑھا نا ہے تو ضروری ہے کہ لڑکے اور گارجین میں خاص قسم کا تال میل ہو، دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اور مجبوری کو سمجھیں اور اس بے حسی کو دور کریں، جو ہمارے سماج کا حصہ بن گیاہے۔
اس سلسلہ میں بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی حد تک امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امارت شرعیہ کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں، امارت شرعیہ کے ذریعہ قائم کردہ امارت پبلک اسکول اب برانڈیڈ نیم بن گیا ہے، اسی طرح ٹکنیکل انسٹی چیوٹ کے قیام کے ذریعہ پیشہ وارانہ تعلیم کو فروغ اور نو جوانوں کو معاش سے جوڑنے کی جد وجہد مثالی بھی ہے، اور قابل تقلید بھی۔ ضرورت پورے ہندوستان میں علم دوست حضرات کو آگے بڑھ کر تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی صلاحیت، توانائی اور سرمایہ لگانے کی ہے، ملک کے موجودہ حالات میں ہماری پوری توجہ تعلیم کی طرف ہونی چاہیے اور جس طرح ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی اور شاملی کے میدان میں شکست کے بعد ہمارے بڑوں نے اپنی ترجیحات بدل کر تعلیم کے فروغ میں لگ گیے تھے، ویسے ہی اس وقت تعلیم کے فروغ کے لیے ترجیحی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔