ماہنامہ الفاران

ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۴

کیا آپ ! وشو ہندو پریشد کے صدر کا انٹرویو پڑھنا چاہیں گے؟

جناب ودود ساجد صاحب؛ ایڈیٹر: روزنامہ"انقلاب" دہلی

ہندوستانی مسلمانوں کی جس نسل نے 80 کی دہائی میں بابری مسجد کے خلاف برپا ہونے والی خونی مہم کا مشاہدہ کیا ہے اسے وشو ہندو پریشد نامی تنظیم کے متشدد کارناموں کا بھی علم ہوگا۔ فی الواقع اس تنظیم نے مسلمانوں کو تنگ کرنے والے اشوز کو‘ خاص طور پر بابری مسجد کے خلاف تحریک کو اٹھاکر اور پورے ملک میں اپنی خطرناک شبیہ پیش کرکے مسلمانوں کو دہشت زدہ کردیا تھا۔
اس کے سابق کارگزار صدر پروین توگڑ یا کا نام تو خوف ودہشت اور شرارت ونفرت کی علامت بن گیا تھا۔ملک میں اس وقت پھر عجیب وغریب صورتحال ہے۔آر ایس ایس کا دعوی ہے کہ وہ مسلمانوں سے گفت وشنید کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے‘ مسلمانوں کے کچھ سیاسی اور مذہبی قائدین ہندوئوں کے مذہبی قائدین سے’مل جل‘ بھی رہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف متعدد مسائل کے ساتھ ساتھ کاشی اور متھرا کی عبادت گاہوں کا مسئلہ بھی اٹھا ہوا ہے۔ دھرم سنسدوں میں نفرت کی زبان استعمال کی جارہی ہے۔
وشو ہندو پریشد کا دعوی ہے کہ ملک بھر میں اس کے 70 لاکھ سے زیادہ سرگرم ممبر ہیں۔ نفرت کا یہ ماحول بہت بھیانک اور خطرناک مستقبل کا اشاریہ ہے۔۔ نفرت کے پجاریوں کو ایسی کوئی غرض نہیں کہ وہ اس صورتحال کو بدلنے کیلئے ہمارے پاس آئیں گے۔۔ ہمارے بڑے ان کے بڑوں سے اپنی مرضی کے مطابق مل لیتے ہیں ۔۔ لیکن کوئی کھل کر یہ نہیں کہتا کہ ہم ان کے دلوں میں پروان چڑھنے والی نفرت کو کم کرنے گئے تھے ۔۔
اس سلسلے میں "عزت سادات" کو درپیش تمام خطرات مول لے کر میں نے وی ایچ پی کے نئے ’نرم گو‘ صدر آلوک کمار (ایڈوکیٹ‘ سپریم کورٹ) سے چند انتہائی اہم مسائل پر کھل کر گفتگو کی ہے۔۔ یہ تفصیلی گفتگو کل صبح کے انقلاب میں آپ کے سامنے ہوگی۔۔ میں نے انہی کی "ماند" میں جاکر اردو والوں بلکہ مسلمانوں کی طرف سے انتہائی تلخ اور سخت سوالات کئے ہیں ۔۔ میری تلخی کے باوجود آلوک کمار نے انتہائی نرم روی اور شائستگی سے جواب دئے۔۔ گوکہ جوابات میں زہرناکی ہے تاہم یہ جوابات ہندوستانی مسلمانوں اور ان کی قیادت کیلئے کچھ ہمہ جہت دروازے کھولنے کی دعوت بھی دیتے ہیں ۔۔
ایک عرض:
میں ایک عرصہ سے احباب کی تحریری خدمت کر رہا ہوں ۔۔ میرے فیس بک اکاؤنٹ' فیس بک پیج اور ٹویٹر پر ہزاروں ساتھی فہرست میں درج ہیں ۔۔ کبھی کبھی ایسے موضوعات پر تحریر ہوجاتی ہے کہ جن پر احباب کی قیمتی آراء اور تبصرے مطلوب ہوتے ہیں ۔۔ آراء اور تبصروں سے نئی جہتیں کھلتی ہیں ۔۔ یہ بھی علم ہوتا ہے کہ احباب کتنی سنجیدگی اور پابندی سے سمجھ کر پڑھتے ہیں ۔۔ اس سے لکھنے والے کو اخلاقی قوت وتائید بھی ملتی ہے۔۔
لیکن اب ہو یہ رہا ہے کہ احباب تبصرے تو کجا اس کی رسید بھی نہیں دے رہے ہیں کہ وہ محنت سے لکھی گئی ان تحریروں کو دیکھ بھی رہے ہیں ۔۔ ایسے میں لکھنے والا ضرور سوچتا ہے کہ وہ اتنی محنت کیوں کرے۔۔ مجھ جیسے کئی لکھنے والے اس مرحلہ پر ہیں کہ جنہیں نام و نمود سے زیادہ ملت کی فکر ہے۔۔ لیکن اگر ملی احباب تحریر کی رسید تک نہ دیں تو میرا خیال ہے کہ اب ملی احساس دم توڑ رہا ہے۔۔ ایسے میں پھر ہم جیسے بے بضاعت اپنا خون جگر کیوں جلائیں ۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی