ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۴
ایک عدد نسیم چاہیے
جناب حضرت مفتی ہمایوں اقبال صاحب ندوی؛ استاذ:مدرسہ اسلامیہ؛یتیم خانہ؛ارریہ
یہ خبر ہم اہالیان ارریہ پر بجلی بن کر گرگئی کہ حضرت مولانا نسیم الدین صاحب چیرہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، عمر کی نو دہائیاں پار کر کےآخری سانس مشہور معالج جناب ڈاکٹر ارشد صاحب کے یہاں چھوٹ گئی،انا للہ واناالیہ راجعون۔
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا
مولانا مرحوم پچھلے کئی سالوں سے اپنی پیرانہ سالی اور ضعیفی کے سبب سفر و اسفار سے گریز فرما رہے تھے، باوجود اس کے زندگی وزندہ دلی دونوں کا مکمل ثبوت پیش کرتے رہے،بصیرت و بصارت آخری دم تک سالم رہی، علاقہ کے نوجوان مقررین و شعراء ملاقات کے لئے جب بھی حاضر ہوتے، مولانا ان کی رہنمائی فرماتے ، حوصلہ بڑھاتے، گر کی باتیں بتاتے ،اپنی روشن دماغی سے چند جملوں میں بہت سی باتیں کہ جاتے، سامنے والے خطیب یا شاعر کو ایک نیا عنوان مل جاتا،یا اپنی اصلاح کی کوئی بات سمجھ میں آجاتی، خود کی سرگرمی اور زندگی بڑی قیمتی معلوم ہوتی، ایک شاعر عشق رسول میں ڈوب کر اشعار پڑھنے کی کوشش کرتا، اور ایک خطیب کی تقریر بھی وعظ کے رنگ و آہنگ میں ڈھل کر ایک تحریک بن جاتی، یہ رہنمائی کا کام مولانا مرحوم کا ایک بڑا علمی احسان ہے،باری تعالٰی اجر جزیل عطا کرے، آمین۔
جن سے ملکر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ہوتے تو ہیں
مولانا مرحوم کی پوری زندگی عالمانہ رہی ہے اور دعوت دین میں بسر ہوئی ہے،مدرسہ اسلامیہ جوگندر میں صدرالمدرسین کے عہدے پر رہتے ہوئے بھی پورے علاقے کی فکر دامن گیر رہی، پھر جب سبکدوش ہوگئے تو خودکو وعظ ارشاد کے لئے وقف ہی کردیا، سنت وشریعت کے مکمل پابند اور بےشمار خوبیوں کے آپ حامل رہے ہیں، مگر ان تمام خوبیوں میں آپ کی بلا کی سادگی و خاکساری سب سے زیادہ نمایاں اور ضرب المثل رہی ہے، واقعی بقول معروف ناظم اجلاس جناب قاری نیاز صاحب قاسمی کے کہ "حضرت نمونہ اسلاف تھے "،علاقے میں چھوٹے دینی مجالس ہوں ہو یا بڑے اجلاس مولانا کے بغیر منعقد نہیں ہوا کرتے، باوجود اس کے کبھی عجب وخود پسندی نے آپ کو چھوا تک نہیں ہے، بس جلسہ کہاں ہے؟ یہ معلوم ہونا چاہیے، خود روانہ ہو جاتے اور بروقت جلسہ گاہ میں حاضر ہو جاتے، عموما پیدل سفر کرتے، ہاتھ میں ایک تھیلا ہے ، لنگی و کرتا زیب تن کئے ہوئے ہیں، تن تنہا رخت سفر باندھ لئے ہیں، سیدھے جلسہ گاہ پہونچ گئے ہیں، جہاں جگہ ملی بیٹھے ہیں، اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں، خطاب ہوا، دسترخوان پر جو کچھ ماحضر ملا تناول فرمالیا، بلکہ بقول مفتی حسین احمد ہمدم کے "حضرت کی بہترین ڈش جنگلی ساگ اور دو روٹیاں تھیں”
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
رب لم یزل ولایزال نے مولانا کو اپنی بات کہنے کا بڑا ملکہ دیا تھا، بہت ہی سہل انداز میں ہر فرد بشر تک اپنی بات پہونچا دیتے ، ایک کم پڑھا لکھا ہی نہیں بلکہ ان پڑھ آدمی بھی آپ کا مخاطب ہوتا ،اور مکمل پیغام لیکر اجلاس سے گھر جاتا، یہی وجہ تھی کہ عورتوں میں مولانا بہت مقبول رہے ہیں، وہ گھر گرہستی کی باتوں کو شرعیت اسلامیہ کی روشنی پیش کیاکرتے، عموما منتظمین اجلاس کی بھی یہ خواہش ہوتی کہ حضرت مستورات کے لئے خصوصی خطاب فرمائیں، بڑی خوبصورتی سے آپ انہیں خطاب کرتے اور ساس، سسر، شوہر، ماں، باپ اور رشتہ دار، نماز، روزہ، زکوٰۃ، دین کی بنیادی ضروری معلومات ان تک پہونچا دیتے، ایسا محسوس ہو تاکہ دل سے نکلی ہوئی ساری باتیں پورے مجمع کے قلب وجگر میں اتر گئی ہیں، لیکن آج ہائے افسوس!!
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مرجاتے ہیں
آج مولانا کے وصال کے بعد سب سے بڑا خلا یہی پیدا ہوا ہے، مقررین کی ایک بڑی تعداد ہے،تقریر زبردست ہورہی ہے، مگر آدھی آبادی اجلاس سے مایوس اپنے گھروں کوخالی اور محروم جارہی ہے، انہیں ایک عدد نسیم چاہیے۔
باری تعالی حضرت والا کی جملہ خدمات کو شرف قبولیت سے نوازدے، جنت الفردوس میں جگہ نصیب کرے، اور ہمیں نعم البدل عطا فرمائے، آمین، ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد۔جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ہوتے تو ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مرجاتے ہیں
باری تعالی حضرت والا کی جملہ خدمات کو شرف قبولیت سے نوازدے، جنت الفردوس میں جگہ نصیب کرے، اور ہمیں نعم البدل عطا فرمائے، آمین، ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد۔
جانے والوں کی یاد آتی ہے