ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۴
حقوق العباد میں کوتاہی قیامت میں پشیمانی
جناب حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری المظاہری؛ استاذ:حدیث و فقہ، مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش
اس دنیا کی رنگارنگی اور بہاؤ میں ہر آدمی حقیقت کے بجائے مجاز طاعت کی جگہ شہرت حاصل کرنے کی اپنی سی کوشش میں ہمہ جہت ووقت مگن ہے لیکن مالک الکل خالق الخلق ارحم الراحمین مصرف القلوب مسہل الہموم متمم النعم کی وجہ تخلیق کو بالائے طاق رکھ چکا ہے رب حکیم نے ہماری بہتری کے لیے رسل وکتب کے ساتھ ساتھ عقل سلیم خلق بسیط اور فکر محیط سے ہمیں نوازا ہے ہم اپنی عقل وفکر اور ہنر کو صحیح جگہ استعمال کرکے دنیا و آخرت میں کامیابی کے مستحق ہوسکتے ہیں زندگی میں مختلف موڑپر متعدد فکر،خوبی ، عمر،حیثیت اورجنس کے افرادسے ہمارا سابقہ پڑتا ہے کوئی ماں کوئی بیوی کو ئی بہن کوئی بیٹی کو ئی باپ کوئی شوہر کوئی بھا ئی کوئی بیٹا کوئی حاکم کوئی محکوم کوئی طالب کوئی مطلوب کوئی قاصد کوئی مقصود کوئی عاجز کوئی معجز غرض زندگی کا گورکھ دھندا یونہی ساری ہے قادر حقیقی نے انسان کو ایک دوسرے سےمربوط کیاہے ۔
فردکامل ربط ملت سے ہےتنہا کچھ نہیں ۔موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
کہ دنیا میں کوئی اپنے تمام کام خود ہی انجام نہیں دے سکتا بلکہ کسی نہ کسی درجہ میں دوسرے کی مددکامتلاشی رہتا ہے لہذا ہر ایک اگر دوسرے کے حقوق کی رعایت کے ساتھ اس سے کام لے گا تو کام بھی ہوجائے گا اور ثواب بھی ملیگا تو اس مضمون میں کچھ حقوق کی طرف توجہ دلانے کی سعی ہے آپ پڑھیں نفع ہوگا۔
بیوہ اور یتیم کا حق
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیوہ عورت اور مسکین کا خیال رکھنے والا (ثواب میں) اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کےلیے انتھک کوشش کرنے والے ہمیشہ ذکر وشغل نماز روزہ میں لگے رہنے والے کے مانند ہے(بخاری ج2ص888) غور کیجئے کہ بیوہ عورت جس کاشوہر انتقال کر گیا ہو معاشرے میں اس کاکوئی پرسان حال نہیں اس کے ساتھ کوئی شادی کرنے کےلیے تیار نہیں ایسی عورت کی مدد خالص رضائے الہی کے لئے کرنا اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ کی نیت اس کے لئے کرنا اس کی ضرورت زندگی کے اسباب بڑی فضلیت ہے کہ محمد ﷺ اس کو جنت کے اعلیٰ درجات کی ضمانت دے رہے ہیں ہم لوگ لاکھوں کروڑوں روپے اپنی بعض ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے صرف کردیتے ہیں ذرااپنے قرب وجوار میں نظر کریں کہ کسی بیوہ کے بچے کہیں بھوک وپیاس سے تولرزہ براندام نہیں ان کو تن چھپا نے کےلیے کپڑے کی توحاجت نہیں آپ اپنے بچوں کو پکنک کےلیے لےجاتے ہیں اچھے اچھے کپڑے آپ کے بچے زیب تن کرتے ہیں ذائقے دار غذائیں استعمال کرتے ہیں کیا کبھی بیوہ عورت کے بچوں کا بھی تو دل کرتا ہوگا اگر آپ کسی بیوہ عورت کا گھر بسادینگے تو آپ محمد ﷺ کی سنت پر عمل کرینگے رسول ﷺ کی زوجیت میں گیارہ عورتیں آئیں ان میں سے دس بیوہ تھیں کیا صرف انہیں سنتوں کو آپ سنت سمجھتے ہیں جن کو آپ اپنی نفسانی خواہشات کی افسردگی کےلیے بہ روئے کار لاتے ہیں بال لمبے کرنا ہی سنت نہیں بیوہ ، یتیم وبدحال لوگوں کی خبر گیری بھی سنت ہے نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے، بچہ یا بچی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں،جونہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہےاگران کا مال واسباب آپ کے پاس ہے تو بالغ ہونے کے بعد ان کے حوالے کردیں یتیم بچہ یا بچی چاہے رشتہ دار ہوخواہ غیر ہوان کی پروش کے بہت سے فضائل میں سے چند یہ ہیں قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَافِلُ الْيَتِيمِ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ أَنَا وَهُوَ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ "، وَأَشَارَ مَالِكٌ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى. رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یتیم کی کفالت (پرورش) کرنے والا، وہ یتیم اس کا قریبی ہو یاغیرقریبی، میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح جنت میں ہوں گے( مسلم حدیث نمبر 2983)قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا شَيْئًا"
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا، جنت میں اس طرح ہوں گے‘‘۔ اور آپﷺنے شہادت والی انگلی اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کیا۔ اور ان دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ کیا۔ (بخاري حدیث نمبر 5304)
عام مسلمانوں کے حقوق
اس جہاں میں ہر آدمی کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا ہے ہی اگر آپ نے کسی کی ادنی سی بھی پریشانی دور کی تو وہ تو آپ کا احسان مند رہےگا ہی پروردگار بھی آپ کو بہت زیادہ نوازے گا کسی کے اوپر قرض ہے اسے ادا کرادیا کریں کوئی بیوی بچوں کے خرچ کی وجہ سے پریشان ہے اسے کچھ دیدیا کریں کسی کی بہن بیٹی جوان ہے اس کا گھر بسوادیاکریں کسی کے پاس تن چھپانے کے لئے کپڑے نہیں اسے کپڑے دیدیا کریں کسی کے پاس رہنے کا گھر نہیں اسکے گھر کا بندوبست کردیا کریں اس کی بھی حدیث میں بڑی فضیلت ہے یہ چیزیں بھی آخرت کی پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ بنینگی حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سيد ی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فر مایا:’’جو شخص کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کو ئی مصیبت دور فر مائے گا، جو شخص کسی تنگ دست کے لئے آسانی پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لئے آسانی پیدا فر مائے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فر مائے گا-اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے (مسلم) ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے سلسلے میں چلتا ہے یہاں تک کہ اسے پورا کر دیتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس پر پانچ ہزار فرشتوں کا سایہ کر دیتا ہے وہ فرشتے اس کے لئے اگر دن ہوتو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں اور اس کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کے لئے نیکی لکھی جاتی ہے اور اس کے رکھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہےہے(شعب الایمان للبیہقی) ہمیں علما عملاً عقلاً یہ ثابت کرنے کی ہمہ وقت کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا ہدف آخرت کی لایزال کامیابی کا حصول ہے طالب علم کے حقوق اساتذہ والدین پڑوسی اور دوسرے اقرباء مسلم و غیر مسلم سب کے حقوق کا خیال رکھیں ورنہ آخرت میں شرمندگی کے ساتھ ساتھ بڑےخسارہ کا سامنا ہوگاپڑوسی کے حقوق کو اللہ کے حبیب سے جبریل امین جس اہتمام سے بیان کرتے حضور فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا کہ کہیں پڑوسی کو وارث قرار نہ دے دیا جائے لیکن ہم لوگوں سے ان کی ادائیگی میں کتنی کوتاہیاں ہیں ہر آدمی اپنے متعلق جانتا ہے ادا نہ کرینگے آخرت میں بڑی رسوائی ہوگی اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہے کہ پڑوسی صرف گھر کے ساتھ والا ہوتا ہے-
امام طبرانی کی روایت ہم سے ہماری اس سوچ پہ نظر ِ ثانی کاتقاضاکرتی ہے کہ:’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ روایت بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور علی رضی اللہ عنہم کو مسجد کے دروازے پہ بھیجا اور وہ اس کے دروازے پہ کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرماتے: خبردار! پڑوسی (دائیں، بائیں، آگے، پیچھے) چالیس گھر تک ہے اور وہ جنت میں نہیں جائے گا جس شخص کی ایذا رسانی (تکلیف پہنچانے ) سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے (معجم کبیر طبرانی) ۔
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ :’’مَیں نےعرض کیا یارسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کس کو ہدیہ دوں؟آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: ان میں سے جس کے گھر کا دروازہ تمہارے گھر کے زیادہ قریب ہو (بخاری) ۔
امام بیہقیؒ نے’’شعب الایمان‘‘ میں پڑوسیوں کے حقوق اور اقسام کے بارے میں ایک طویل روایت رقم فرمائی ہے یہاں اس کا خلاصہ لکھا جاتاہے کہ رسول اللہ ﷺنےا رشادفرمایا:’’کیاتم جانتے ہوکہ پڑوسی کے کیا حقوق ہیں؟پھر آپ ﷺنے ان کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اس کے حقوق میں سے ہے کہ جب وہ تجھ سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کر، جب تجھ سے قرض طلب کرے تو اسے قرض دے،جب وہ بیمارہو اس کی عیادت کر اور اس کو بھلائی پہنچے تو اس کو مبارک باد دے اور جب اس کو مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کر، جب اس کی وفات ہو تو اس کے جنازے میں شریک ہو اور اگر پھل خریدو تو اس کو ہدیہ کرو-اگر نہ دے سکو تو اپنے گھر میں چپکے سے لے جاؤ (تاکہ اس کے بچوں کو پتا نہ چلے اور ان کی دل آزاری نہ ہو )باتیں بہت ہیں عمل کی ضرورت ہے ۔
بیوہ اور یتیم کا حق
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیوہ عورت اور مسکین کا خیال رکھنے والا (ثواب میں) اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کےلیے انتھک کوشش کرنے والے ہمیشہ ذکر وشغل نماز روزہ میں لگے رہنے والے کے مانند ہے(بخاری ج2ص888) غور کیجئے کہ بیوہ عورت جس کاشوہر انتقال کر گیا ہو معاشرے میں اس کاکوئی پرسان حال نہیں اس کے ساتھ کوئی شادی کرنے کےلیے تیار نہیں ایسی عورت کی مدد خالص رضائے الہی کے لئے کرنا اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ کی نیت اس کے لئے کرنا اس کی ضرورت زندگی کے اسباب بڑی فضلیت ہے کہ محمد ﷺ اس کو جنت کے اعلیٰ درجات کی ضمانت دے رہے ہیں ہم لوگ لاکھوں کروڑوں روپے اپنی بعض ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے صرف کردیتے ہیں ذرااپنے قرب وجوار میں نظر کریں کہ کسی بیوہ کے بچے کہیں بھوک وپیاس سے تولرزہ براندام نہیں ان کو تن چھپا نے کےلیے کپڑے کی توحاجت نہیں آپ اپنے بچوں کو پکنک کےلیے لےجاتے ہیں اچھے اچھے کپڑے آپ کے بچے زیب تن کرتے ہیں ذائقے دار غذائیں استعمال کرتے ہیں کیا کبھی بیوہ عورت کے بچوں کا بھی تو دل کرتا ہوگا اگر آپ کسی بیوہ عورت کا گھر بسادینگے تو آپ محمد ﷺ کی سنت پر عمل کرینگے رسول ﷺ کی زوجیت میں گیارہ عورتیں آئیں ان میں سے دس بیوہ تھیں کیا صرف انہیں سنتوں کو آپ سنت سمجھتے ہیں جن کو آپ اپنی نفسانی خواہشات کی افسردگی کےلیے بہ روئے کار لاتے ہیں بال لمبے کرنا ہی سنت نہیں بیوہ ، یتیم وبدحال لوگوں کی خبر گیری بھی سنت ہے نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے، بچہ یا بچی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں،جونہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہےاگران کا مال واسباب آپ کے پاس ہے تو بالغ ہونے کے بعد ان کے حوالے کردیں یتیم بچہ یا بچی چاہے رشتہ دار ہوخواہ غیر ہوان کی پروش کے بہت سے فضائل میں سے چند یہ ہیں قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَافِلُ الْيَتِيمِ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ أَنَا وَهُوَ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ "، وَأَشَارَ مَالِكٌ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى. رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یتیم کی کفالت (پرورش) کرنے والا، وہ یتیم اس کا قریبی ہو یاغیرقریبی، میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح جنت میں ہوں گے( مسلم حدیث نمبر 2983)قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا شَيْئًا"
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا، جنت میں اس طرح ہوں گے‘‘۔ اور آپﷺنے شہادت والی انگلی اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کیا۔ اور ان دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ کیا۔ (بخاري حدیث نمبر 5304)
عام مسلمانوں کے حقوق
اس جہاں میں ہر آدمی کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا ہے ہی اگر آپ نے کسی کی ادنی سی بھی پریشانی دور کی تو وہ تو آپ کا احسان مند رہےگا ہی پروردگار بھی آپ کو بہت زیادہ نوازے گا کسی کے اوپر قرض ہے اسے ادا کرادیا کریں کوئی بیوی بچوں کے خرچ کی وجہ سے پریشان ہے اسے کچھ دیدیا کریں کسی کی بہن بیٹی جوان ہے اس کا گھر بسوادیاکریں کسی کے پاس تن چھپانے کے لئے کپڑے نہیں اسے کپڑے دیدیا کریں کسی کے پاس رہنے کا گھر نہیں اسکے گھر کا بندوبست کردیا کریں اس کی بھی حدیث میں بڑی فضیلت ہے یہ چیزیں بھی آخرت کی پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ بنینگی حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سيد ی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فر مایا:’’جو شخص کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کو ئی مصیبت دور فر مائے گا، جو شخص کسی تنگ دست کے لئے آسانی پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لئے آسانی پیدا فر مائے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فر مائے گا-اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے (مسلم) ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے سلسلے میں چلتا ہے یہاں تک کہ اسے پورا کر دیتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس پر پانچ ہزار فرشتوں کا سایہ کر دیتا ہے وہ فرشتے اس کے لئے اگر دن ہوتو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں اور اس کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کے لئے نیکی لکھی جاتی ہے اور اس کے رکھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہےہے(شعب الایمان للبیہقی) ہمیں علما عملاً عقلاً یہ ثابت کرنے کی ہمہ وقت کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا ہدف آخرت کی لایزال کامیابی کا حصول ہے طالب علم کے حقوق اساتذہ والدین پڑوسی اور دوسرے اقرباء مسلم و غیر مسلم سب کے حقوق کا خیال رکھیں ورنہ آخرت میں شرمندگی کے ساتھ ساتھ بڑےخسارہ کا سامنا ہوگاپڑوسی کے حقوق کو اللہ کے حبیب سے جبریل امین جس اہتمام سے بیان کرتے حضور فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا کہ کہیں پڑوسی کو وارث قرار نہ دے دیا جائے لیکن ہم لوگوں سے ان کی ادائیگی میں کتنی کوتاہیاں ہیں ہر آدمی اپنے متعلق جانتا ہے ادا نہ کرینگے آخرت میں بڑی رسوائی ہوگی اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہے کہ پڑوسی صرف گھر کے ساتھ والا ہوتا ہے-
امام طبرانی کی روایت ہم سے ہماری اس سوچ پہ نظر ِ ثانی کاتقاضاکرتی ہے کہ:’’حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ روایت بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور علی رضی اللہ عنہم کو مسجد کے دروازے پہ بھیجا اور وہ اس کے دروازے پہ کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرماتے: خبردار! پڑوسی (دائیں، بائیں، آگے، پیچھے) چالیس گھر تک ہے اور وہ جنت میں نہیں جائے گا جس شخص کی ایذا رسانی (تکلیف پہنچانے ) سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے (معجم کبیر طبرانی) ۔
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ :’’مَیں نےعرض کیا یارسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے کس کو ہدیہ دوں؟آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: ان میں سے جس کے گھر کا دروازہ تمہارے گھر کے زیادہ قریب ہو (بخاری) ۔
امام بیہقیؒ نے’’شعب الایمان‘‘ میں پڑوسیوں کے حقوق اور اقسام کے بارے میں ایک طویل روایت رقم فرمائی ہے یہاں اس کا خلاصہ لکھا جاتاہے کہ رسول اللہ ﷺنےا رشادفرمایا:’’کیاتم جانتے ہوکہ پڑوسی کے کیا حقوق ہیں؟پھر آپ ﷺنے ان کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اس کے حقوق میں سے ہے کہ جب وہ تجھ سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کر، جب تجھ سے قرض طلب کرے تو اسے قرض دے،جب وہ بیمارہو اس کی عیادت کر اور اس کو بھلائی پہنچے تو اس کو مبارک باد دے اور جب اس کو مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کر، جب اس کی وفات ہو تو اس کے جنازے میں شریک ہو اور اگر پھل خریدو تو اس کو ہدیہ کرو-اگر نہ دے سکو تو اپنے گھر میں چپکے سے لے جاؤ (تاکہ اس کے بچوں کو پتا نہ چلے اور ان کی دل آزاری نہ ہو )باتیں بہت ہیں عمل کی ضرورت ہے ۔