ماہنامہ الفاران

ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۴

فرشتوں کے پاس قلم ضرور ہے!

جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب المظاہری؛ مدیر ماہنامہ"الفاران" و جنرل سکریٹری ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)

دیواروں کے کان ہوں یانہ ہوں ،فرشتوں کے پاس قلم ضرور ہے عدل کوتمام بنی آدم خواہ مسلم ہویاغیر مسلم محمود سمجھتے ہیں قرآن وحدیث میں بھی انصاف کی ترغیب اور انصاف نہ کرنے پر جابجا ترہیب موجود ہے نبی ﷺ نے اپنے تمام امور میں خواہ وہ آپ کی ذات سے متعلق ہویادوسرے کی عدل کو پیش پیش رکھا خلیفہ عمر بن خطاب کاعدل تو اس قدر مشہور اور لائق تقلید ہےکہ ہندوستان کے پہلے پردھان منتری نے سدن میں اصحاب ایوان کو سادگی کی مثال دیتے ہوئے رام کرشنا ہنومان کے بجائے ابوبکر وعمر کے ہی نام پیش کیے ۔
عمر فاروق بیت المقدس کو فتح کرنے کےلیے جارہے ہیں لیکن سادگی اتنی کہ خود اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے ہیں اور ان کا غلام اسلم اونٹ پر سوار ہےعمرفاروق کےتن پر جو کپڑا ہےاس میں سترہ پیوند لگے ہوئے ہیں اس سادگی کودیکھ کر بیت المقدس کے پادری نے وہاں کی تمام کنجیاں حضرت کے حوالے کردیں لیکن انصاف اتنا کہ جتنامال غنیمت میں سے ایک ادنیٰ سپاہی کو دیتے اس سے کم خود لیتے حضرات حسنین کریمین اور اسامہ بن زیدبن حارثہ کوزیادہ دیتے اور اپنے بیٹے عبداللہ کو ان سے کم دیتے تھے ان کے ایک بیٹے سے کوئی خلاف شرع کام کا ارتکاب ہوگیا جس کی پاداش میں سوکوڑے سزا کا فیصلہ قاضی وقت کی طرف سے آیا کوڑا لگا نے والےنے آہستہ سے کوڑا مارا اس سےلیکر خود اپنے بیٹے پر حد جاری کی ۔
سلجوقی سلطنت کا ایک بادشاہ سلطان ملک شاہ نامی ہوا ہے ایک دن اصفہان کے جنگل میں شکار کونکلا، ایک گاؤں کے پاس سے گذر رہا تھا کہ شاہی آدمیوں کو بھوک لگی، ایک غریب بڑھیا کا جانور بندھا ہوا تھا جس کےدودھ سے اس بڑھیا کے تین بچے پرورش پاتے تھے، ان سپاہیوں نے اس جانور کوذبح کیا اور کھاگئے، بڑھیا روئی پیٹی چلائی مگر کسی نے پرواہ نہ کی دل میں کہنے لگی بادشاہ سے کیوں نہ فریاد کی جائے ایک روزخبر ملی کہ بادشاہ نہر کے پل سے گزرے گا ، وہ وہاں جاکر کھڑی ہوگئی بادشاہ کی سواری وہاں پہنچی تو اس نے آگے بڑھ کر گھوڑے کی لگام تھام لی، اور کہنے لگی بادشاہ سلامت میرا انصاف نہر کے پل پر کرینگے یاپل صراط پر بادشاہ کے ہمراہی بڈھیا کی جرأت دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے، اور اس کو وہاں سے ہٹانا چاہا، لیکن بادشاہ گھوڑے پر سے کہنے لگا پل صراط کی طاقت نہیں، یہیں انصاف کرونگا بڑھیا نے سارا ماجرا کہہ سنایا، بادشاہ کو بہت افسوس ہوا، جن لوگوں کا قصور تھا، ان کو سزادی، اور بڑھیا کوایک گائے کے عوض ستر گائیں عطا کیں، بڑھیا بہت خوش ہوئی، اور کہنے لگی اے بادشاہ تو نے میرے ساتھ انصاف کیا خدا تجھے اس کا بدلہ دےگا ۔
انصاف کرنے والا بادشاہ خدا کی رحمت ہوتا ہے سلطان ناصرالدین کسی کادل نہیں دکھاتا تھا ایک دن بیٹھا قرآن شریف لکھ رہا تھا کہ ایک شخص ملاقات کےلیے آیا، اس کی نظر قرآن شریف پر پڑی، اس نے دیکھا کہ ایک جگہ دومرتبہ فیہ لکھا ہوا ہے ، سلطان سے کہا یہاں ایک فیہ زائد ہے، سلطان نے ایک فیہ کے گرد دائرہ بنادیا، وہ شخص چلاگیا توقلم تراش سے دائرہ کو چھیل ڈالا، خادم نے دائرہ بنانے اور مٹانےکی وجہ پوچھی، سلطان نے جواب دیا، یہاں لفظ فیہ دومرتبہ ٹھیک ہے، مگر اس خیال سے کہ وہ شخص اپنی غلطی معلوم کرکے شرمندہ ہوگا، اور اس کی دل شکنی ہوگی، اس کے سامنے لفظ فیہ کے گرد حلقہ کھینچ دیا، اب وہ چلاگیا اس لئے مٹادیا، کاغذ پر لکھ کر مٹانا آسان ہے دل پر لکھ کر مٹانا مشکل،
تاریخ اسلام میں بہت سے بادشاہوں، حاکموں، گورنروں اور افسروں کے انصاف وتواضع کے ایسے واقعات ہیں کہ پڑھنے والا حیران ہوجاتا ہے، ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں مظفر حکیم گجراتی ایک زبردست بادشاہ گزرا ہے، اس عہدحکومت میں ملک نے بڑی ترقی کی ہے، بہت سے تعمیری کام ہوئے ہیں، اس کے شاہانہ جودوسخا، عدل و مساوات کے سائے میں رعایا کو پھولنے پھلنے اور چین کی زندگی گزارنے کا موقع ملاہے، اس کی ان ساری خوبیوں پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لیے اس کی سیرت کا صرف ایک واقعہ کافی ہے ایک دن بادشاہ گھر میں ایک عام آدمی کی طرح سے گھریلو ماحول میں بے تکلف انداز میں تھا کہ جاپانیر سے قاضی کابھیجاہواقاصدایک مجرم کی حیثیت سے حاضر عدالت ہونے کا پروانہ لےکر پہنچا، پروانہ ہاتھ میں ملتے ہی بادشاہ اسی بےتکلف وسادہ انداز میں جس گھر میں تھا عدالت کے لیے روانہ ہوگیا ، بادشاہ عدالت میں پہنچتا ہے تو قاضی بحیثیت منصف وجج کرسی عدالت پر بیٹھا نظر آتا ہے، لیکن جب بادشاہ عدالت میں پہنچتا ہے تو اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتا بلکہ حاکمانہ انداز میں بادشاہ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ اپنے فریق کے ساتھ بیٹھو، اپنے کو اس سے بلند وبڑا سمجھ کر اس سے ممتاز جگہ میں نہ بیٹھو، اور بادشاہ قاضی کے حکم سے سرموانحراف کیے بغیر مدعی کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے، مدعی نے بادشاہ کے خلاف یہ مقدمہ دائر کیا تھا کہ بادشاہ نے ہم سے گھوڑے خریدے تھے، ان کی قیمت ہمکو ابھی تک نہیں ملی، چنانچہ عدالت میں بحث شروع ہوئی اور تاجر نے اپنا مطالبہ صحیح ثابت کردیا، اور قاضی نے بلاکسی ادنی جھجک کے بادشاہ کے خلاف فیصلہ دے دیا، تاجر بھی ایسا ضدی تھا کہ اس نے کہا جب تک قیمت نہ لے لوں، بادشاہ اٹھ نہیں سکتے، چنانچہ قاضی نے وہیں قیمت ادا کرنے کا حکم دیا اور بادشاہ نے کسی ذریعہ سے رقم منگواکر تاجر کو ادا کردی تب عدالت برخاست ہوئی پھر قاضی کرسی اٹھااور آداب شاہی بجالایا پھر بادشاہ نے کہا کہ قاضی آپ جیسا ہونا چاہیے جو کسی بھی حال میں حق کے مطابق فیصلہ کرنے میں تامل نہ کرے قاضی نے کہا کہ بادشاہ بھی آپ جیسا ہی ہونا چاہیے جو حق کو تسلیم کرلے اور پیشانی پر بل تک نہ آئے یہ ہے حکومت اسلامی کہ رعایا و بادشاہ میں کوئی فرق نہیں۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی