ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۴
دکھڑے:نہ نفرتوں کی وجہ ملی،نہ محبتوں کا صلہ ملا !۔ (2)
جناب حضرت مولانا کبیر الدین صاحب فاران المظاہری؛ ناظم: مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ "الفاران"
دراصل انسان کو اپنے پرکھ کا معیار اس طور پر کرنا چاہیے کہ بڑے بوڑھوں کے تجربات،قوموں اور خطوں کے مزاج کی بھی اپنے تجرباتی زندگی میں سنگ میل بنانا چاہیے اوراپنے کو ہمیشہ اس سے دور ی بنائے رکھیے لیکن وقت نے بتایا کہ وہی کچھ زیادہ درست ہے جسے لوگ ہمیشہ نظر اندازکر دیتے ہیں،دیکھا گیا ہے کہ آزمائش کی گھڑی میں آشنا نگاہیں پھیر لیتے ہیں۔
بدلا جو وقت،گہری رفاقت بدل گئی ٭سورج ڈھلا،تو سائے کی صورت بدل گئی ،
چونکہ اذیتیں،محبتیں او ر یادیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں انسان خلوص دل سے جن کی قدرکرتاہے اوروقت پر جن کا ساتھ دیتاہے جنہیں دنیا سے آشنا کرانے میں فراخی برتتاہے وہ وقت پر بیگانے نظر آتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں وہ قعر مذلت کی گہری کھائی میں دھکیلنے کی اپنی حد تک کوششیں کرتارہتاہے۔اس میں ذی حشم بھی،صاحب علم بھی، احباب بھی، خود غرض اور حریص یار بھی، ایسا لگتاہے کہ دوستوں کے جمگھٹوں میں وہ تن تنہاہو اور انسان نما بھیڑیوں کے درمیان میں ایک بے سہارا انسان۔ایسی گھڑی میں محسو س ہوتا ہے کہ انسانیت سے عاری انسان اس شخص کو چیل کووّں کی طرح نوچ رہے ہوں اس قطار میں ایسی شخصیت بھی ہوتی ہے۔
جنہیں اپنے کام سے کبھی فرصت نہیں ملتی وہ بھی سیکڑوں میلوں کی فضاؤں کو چیرتے ہوئے اس کے خلاف مجمع کی سربراہی کرتے نظر آتے ہیں، ان میں وہ بھی اپنی حصہ داری جتانے کو تیا ر کھڑے ہوتے ہیں جن کی ایک پائی کی بھی اس جگہ کی ترقیات میں حصہ نہیں ہوتا۔ ان میں وہ بھی کٹورا تھامے ہوتے ہیں جنکی بھیک بھی اس کے کشکو ل میں کبھی نہیں ڈلی ہوتی،ان میں وہ بھی اپنی قربانیاں گنا رہے ہوتے ہیں،جنکی ایک کوڑی بھی اس گلشن کی ساخت و پرداخت میں شامل نہیں ہوتی ایسوں کے لیے نصرت وتعاون کا لفظ ایک ڈکشنری کالفظ ہوتاہے۔روپ رنگ ملتا ہے خدوخال ملتے ہیں٭ آدمی نہیں ملتا آدمی کے پیکر میں
بہت سچ ہے کہ اس بلندی کا تصور کس کام کا جس پر انسان چڑھے اور انسانیت گر جائے۔ایسے موقع پر وہ نامراد شخص ہر وہ حربہ اور دامن داغدار کرنے کے ہر وہ پہلو اختیار کرتے ہیں جسے وہ اس کا مقدر بنا سکے۔ یَوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْفُلاَناً خَلِیْلاً۔(سورہ فرقان آیت ۸۲ )ہائے میر ی بدبختی،کاش میں نے فلاں شخص کو (اپنا) دوست نہ بنایا ہوتا!
دنیا والوں نے تو پوری کوشش کی ٹھکرانے کی ٭لیکن اپنی ضد میں ہم نے خودکو منوا رکھا ہے
ایسے موقع پر انسان تاڑ لیتا ہے کہ اگراس میں مروت ہوتی اور وہ انسان ہوتے تو انسانیت وہ چیز ہے جو دشمن کو بھی سہارا دینے پر مجبور کرتی ہے اور احساس وہ چیز ہے جس میں غیروں کا دکھ بھی اپنا لگتاہے دنیا میں کچھ لوگ اتنے بھوکے ہوتے ہیں کہ دوسروں کی خوشیاں ہی کھا جاتے ہیں،ہزارغلطیوں کے باوجود آپ اپنے آپ سے پیار کرتے ہو تو پھر کسی کی ایک غلطی پر اس سے نفرت کیوں کر تے ہو؟۔
شام در شام جلیں گے تیری یادوں کے چراغ ٭نسل در نسل تیرا درد نمایاں ہوگا
اصل تو یہ ہے کہ اگر احساس سچے اور پرخلوص ہوں تو رشتے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ سچ ہے کہ کبھی کبھی کامل شخص کی تلاش میں ہم سچے انسان کو کھور ہے ہوتے ہیں کیونکہ کامل ہونا ایک تصور ہے اور سچا ہونا ایک حقیقت۔
روشنی کے رستے میں، خود رکاوٹیں بن کر ٭لوگ کہتے پھرتے ہیں، ہر طرف اندھیرا ہے
خدائی نظام ہے کہ خوراک کا اثر زندگی کی تعمیر وترقی پر بیحدمؤثر ہوتاہے اگر آپ کبھی رشتہ کی اور وفاداری کی پرکھ چاہتے ہیں تو بس اس کی خوراک، اس کی نسل اور علاقائی ذوق ومزاج کو پرکھئیے!کہ”کمزور بنیاد پر کوئی تعمیر نہیں ٹک سکتی“برے وقت میں بھی ایک اچھائی چھپی ہوتی ہے جیسے ہی آتاہے فالتو لو گ چلے جاتے ہیں۔کیونکہ اعلیٰ ظرف دوست وہ ہوتاہے جو اختلاف ہونے کے باوجود بھی اپنے احباب کے لیے شجر سایہ دار رہتاہے۔
سوچانہ میری سوچ نے،کبھی ان کے لیے بھی٭پیوست میرے دل میں، جو تیروں کی طرح تھے
حیرت ہے کہ وہ لوگ بھی، اب چھوڑ چلے ہیں ٭ جو میری ہتھیلی پہ لکیروں، کی طرح تھے
زندگی میں پریشانیاں اور مشکلات صرف مکافاتِ عمل کے تحت نہیں آتی ہیں، کچھ آزمائشوں کے طور پر،کچھ سبق دینے،کچھ نیکیاں دینے اور بہت کچھ مستقبل کی تیاری کے لیے بھی آتی ہیں، اپنے فیصلوں کو اللہ کی مرضی پر چھوڑئیے،مایوسی آپ کو چھوڑ دیگی۔
یادر رکھئیے!جب کبھی خون کے رشتے دل دُکھائیں تو حضرت یوسفؑ کو یاد کر لیا کیجئے کہ جن کے بھائیوں نے انھیں کنویں میں ڈال دیا تھا۔جیسا کہ اس آیت شریفہ سے مترشح ہوتاہے:فَلَمَّا ذَہَبُوْا بِہٖ وَاَجمَعُوٓا اَنْ یَّجْعَلُوْہُ فِیْ غَیَابَتِ الْجُبِّ وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّءَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ (سورہ یوسف آیت۵۱)جب ان کے بھائی ان کو لے کر چلے اور متفق ہوئے کہ انھیں گمنام کنوئیں میں ڈال دیں، تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ آپ انھیں ایک دن ضرور باخبر کریں گے ان کے اس کام سے اور وہ آپ کو نہ پہچان سکیں گے۔
پھر ملک مصر کا حاکم بننے کے بعد یوسف نے بھائیوں کو ان کی غلطی پر متنبہ کیا اور بھائیوں کے اوپر کسی طرح کی کوئی طعن و تشنیع نہ کی بلکہ سب کو معاف بھی کر دیا اور رب سے معافی کی درخواست بھی کی۔ جس کا ذکراس آیت میں موجود ہے۔قَالَ لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللَّہُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ (سورہ یوسف آیت۲۹)کہا آج تم پر کچھ ملامت نہیں اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانو ں سے بڑھ کر مہربان ہے۔
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا آج اگرچہ ملامت کرنے کا دن ہے،لیکن میری جانب سے تم پر آج اور آئندہ کوئی ملامت نہ ہوگی، پھر بھائیوں سے جو خطائیں سرزد ہوئی تھیں ان کی بخشش کے لیے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔ (مدارک التنزیل، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۵۴۳)۔
اسی طرح جب کبھی لگے کہ آپ کے والدین آپ کا ساتھ نہیں دے رہے تو ایک بار حضرت ابراہیمؑ کو ضرور یاد کیجیے گا جن کے بابا نے ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ان کو آگ میں ڈالنے والوں کا ساتھ دیا۔ رب کریم کا ارشاد اسی طرف اشارہ کرتاہے۔ قَالُوا حَرِّقُوہُ وَانصُرُوا آلِہَتَکُمْ إِن کُنتُمْ فَاعِلِینَ (سورہ انبیاء آیت۸۶)کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے.لیکن تب بھی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آذر کو برا بھلاکہنے کے بجائے رب سے معافی کی درخواست کا وعدہ کیا اور اس وعدہ کو پورا بھی کیا۔رَبَّنَاا غْفِرْ لِی وَلِوَٰلِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ یَقُومُ ا لْحِسَابُ(سورہ ابراہیم آیت ۱۴)
اے ہمارے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ایمانداروں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے۔لیکن باپ کی نا اہلی کی وجہ سے یہ دعا قبول نہ ہوئی اور دعا کرنے سے بھی منع کر دیا گیا۔جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَا اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ-اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ(سورہ توبہ آیت ۴۱۱)اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کرچکا تھا پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس سے تعلق توڑ دیا بیشک ابراہیم اللہ کے سامنے بہت زیادہ رونے والے اور برداشت کرنے والے تھے۔
اورجب کبھی لگے کہ آپ کا جسم بیماری کی وجہ سے درد میں مبتلا ہے تو ہائے کرنے سے پہلے صرف ایک بار حضرت ایوب ؑ کو یاد کرلیجئے گا جو آپ سے زیادہ بیمار تھے۔جس کا تذکرہ ان آیات میں موجود ہے۔ وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَیٰ رَبَّہُ أَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرحَمُ الرَّاحِمِینَ (سورہ انبیاء آیت۳۸)ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنےپروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحیم ہے۔اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور فرمایا:فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَآتَیْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَیٰ لِلْعَابِدِینَ (سورہ انبیاء آیت۴۸)تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انھیں تھا اسے دور کر دیا اور اس کوبیوی بچے عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور، اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لیے سبب نصیحت ہو۔
قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کو صابر کہا گیا ہے،اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ(ص:۴۴)
اس واقعہ سے یہ سبق ملا کہ آدمی کے اوپر کتنے ہی حالات آجائیں وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ اپنی کوشش کرے۔جیساکہ اس آیت سے سمجھ میں آتاہے۔ وَلاَ تَیْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللَّہِ إِنَّہُ لاَ یَیْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُونَ۔(سورہ یوسف آیت ۷۸)اور اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو۔ یقین جانو، اللہ کی رحمت سے وہی لوگ نااُمید ہوتے ہیں جو انتہائی درجے کے نافرمان ہوں۔
(جاری)
جنہیں اپنے کام سے کبھی فرصت نہیں ملتی وہ بھی سیکڑوں میلوں کی فضاؤں کو چیرتے ہوئے اس کے خلاف مجمع کی سربراہی کرتے نظر آتے ہیں، ان میں وہ بھی اپنی حصہ داری جتانے کو تیا ر کھڑے ہوتے ہیں جن کی ایک پائی کی بھی اس جگہ کی ترقیات میں حصہ نہیں ہوتا۔ ان میں وہ بھی کٹورا تھامے ہوتے ہیں جنکی بھیک بھی اس کے کشکو ل میں کبھی نہیں ڈلی ہوتی،ان میں وہ بھی اپنی قربانیاں گنا رہے ہوتے ہیں،جنکی ایک کوڑی بھی اس گلشن کی ساخت و پرداخت میں شامل نہیں ہوتی ایسوں کے لیے نصرت وتعاون کا لفظ ایک ڈکشنری کالفظ ہوتاہے۔
حیرت ہے کہ وہ لوگ بھی، اب چھوڑ چلے ہیں ٭ جو میری ہتھیلی پہ لکیروں، کی طرح تھے
یادر رکھئیے!جب کبھی خون کے رشتے دل دُکھائیں تو حضرت یوسفؑ کو یاد کر لیا کیجئے کہ جن کے بھائیوں نے انھیں کنویں میں ڈال دیا تھا۔جیسا کہ اس آیت شریفہ سے مترشح ہوتاہے:فَلَمَّا ذَہَبُوْا بِہٖ وَاَجمَعُوٓا اَنْ یَّجْعَلُوْہُ فِیْ غَیَابَتِ الْجُبِّ وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّءَنَّہُمْ بِاَمْرِہِمْ ہٰذَا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ (سورہ یوسف آیت۵۱)جب ان کے بھائی ان کو لے کر چلے اور متفق ہوئے کہ انھیں گمنام کنوئیں میں ڈال دیں، تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ آپ انھیں ایک دن ضرور باخبر کریں گے ان کے اس کام سے اور وہ آپ کو نہ پہچان سکیں گے۔
پھر ملک مصر کا حاکم بننے کے بعد یوسف نے بھائیوں کو ان کی غلطی پر متنبہ کیا اور بھائیوں کے اوپر کسی طرح کی کوئی طعن و تشنیع نہ کی بلکہ سب کو معاف بھی کر دیا اور رب سے معافی کی درخواست بھی کی۔ جس کا ذکراس آیت میں موجود ہے۔قَالَ لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللَّہُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ (سورہ یوسف آیت۲۹)کہا آج تم پر کچھ ملامت نہیں اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانو ں سے بڑھ کر مہربان ہے۔
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا آج اگرچہ ملامت کرنے کا دن ہے،لیکن میری جانب سے تم پر آج اور آئندہ کوئی ملامت نہ ہوگی، پھر بھائیوں سے جو خطائیں سرزد ہوئی تھیں ان کی بخشش کے لیے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔ (مدارک التنزیل، یوسف، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۵۴۳)۔
اسی طرح جب کبھی لگے کہ آپ کے والدین آپ کا ساتھ نہیں دے رہے تو ایک بار حضرت ابراہیمؑ کو ضرور یاد کیجیے گا جن کے بابا نے ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ان کو آگ میں ڈالنے والوں کا ساتھ دیا۔ رب کریم کا ارشاد اسی طرف اشارہ کرتاہے۔ قَالُوا حَرِّقُوہُ وَانصُرُوا آلِہَتَکُمْ إِن کُنتُمْ فَاعِلِینَ (سورہ انبیاء آیت۸۶)کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے.لیکن تب بھی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آذر کو برا بھلاکہنے کے بجائے رب سے معافی کی درخواست کا وعدہ کیا اور اس وعدہ کو پورا بھی کیا۔رَبَّنَاا غْفِرْ لِی وَلِوَٰلِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ یَقُومُ ا لْحِسَابُ(سورہ ابراہیم آیت ۱۴)
اے ہمارے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور ایمانداروں کو حساب قائم ہونے کے دن بخش دے۔لیکن باپ کی نا اہلی کی وجہ سے یہ دعا قبول نہ ہوئی اور دعا کرنے سے بھی منع کر دیا گیا۔جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَا اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ-اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ(سورہ توبہ آیت ۴۱۱)اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کرچکا تھا پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس سے تعلق توڑ دیا بیشک ابراہیم اللہ کے سامنے بہت زیادہ رونے والے اور برداشت کرنے والے تھے۔
اورجب کبھی لگے کہ آپ کا جسم بیماری کی وجہ سے درد میں مبتلا ہے تو ہائے کرنے سے پہلے صرف ایک بار حضرت ایوب ؑ کو یاد کرلیجئے گا جو آپ سے زیادہ بیمار تھے۔جس کا تذکرہ ان آیات میں موجود ہے۔ وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَیٰ رَبَّہُ أَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرحَمُ الرَّاحِمِینَ (سورہ انبیاء آیت۳۸)ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنےپروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحیم ہے۔اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور فرمایا:فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَآتَیْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَیٰ لِلْعَابِدِینَ (سورہ انبیاء آیت۴۸)تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انھیں تھا اسے دور کر دیا اور اس کوبیوی بچے عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور، اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لیے سبب نصیحت ہو۔
قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کو صابر کہا گیا ہے،اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ(ص:۴۴)
اس واقعہ سے یہ سبق ملا کہ آدمی کے اوپر کتنے ہی حالات آجائیں وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ اپنی کوشش کرے۔جیساکہ اس آیت سے سمجھ میں آتاہے۔ وَلاَ تَیْأَسُواْ مِن رَّوْحِ اللَّہِ إِنَّہُ لاَ یَیْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّہِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْکَافِرُونَ۔(سورہ یوسف آیت ۷۸)اور اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو۔ یقین جانو، اللہ کی رحمت سے وہی لوگ نااُمید ہوتے ہیں جو انتہائی درجے کے نافرمان ہوں۔
(جاری)