ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۴
دنیا میں بقا کا راز
جناب حضرت مفتی محمد موسیٰ قاسمی مفتاحی صاحب پلڑوی؛ استاذ تفسیر ، امام و خطیب: جامع مسجد؛ گڑھی عبداللہ خان؛ شاملی
دستورِ خداوندی یہ ہے کہ جب تک کوئی چیز نافع ہوتی ہے، اس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہتا ہے، تو وہ چیز باقی رہتی ہے۔ البتہ جب وہ شئی اپنی نافعیت اور فائدہ کھو دیتی ہے، تو پھر اُس کی بقا خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔ انسان ہی کی مثال لے لیجئے…… جب تک اس سے کوئی نہ کوئی فائدہ وابستہ رہتا ہے، تو یہ زمین کے اوپر رہتا ہے، لیکن جب اِس سے فائدے کی امید ختم ہو جاتی ہے، دوسرے الفاظ میں اُس کی جان نکل جاتی ہے، تو اُس کو زمین کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے۔یہی اصول انفرادی زندگی میں بھی لاگو ہوتا ہے اور قوموں کی زندگی پر بھی۔ جب تک کوئی انسان دوسروں کو فائدہ پہنچاتا رہے گا، کوئی قوم اپنی نافعیت کو باقی رکھے گی، تو اُس کی جڑیں زمین میں مضبوط رہیں گی۔ کوئی اُسے وہاں سے نہ نکال سکتا ہے، نہ اُس کو ختم کر سکتا ہے۔ اگر آج مسلمانوں کو نکالنے کی کوششیں کیں جا رہی ہیں تو یقینا وہ اپنے نافع ہونے کو ثابت کرنے میں بری ناکام ہو چکے ہیں۔ قانونِ خداوندی اٹل ہے، خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں: (وَ اَمَّا مَا یَنْفعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ) ترجمہ: اور جو چیز لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے، وہ زمین میں ٹھر جاتی ہے یعنی باقی رہتی ہے۔ (الرعد:۷۱)۔
اِس کی مزید وضاحت بخاری شریف کی روایت سے ہوتی ہے کہ جب سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملتی ہے، چالیس سال کی عمر میں پہلی وحی (Revelation) نازل ہوتی ہے، تو آپ پر ایک گھبراہٹ کی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی بڑی ذمے داری کو ادا کریں گے۔…… ظاہر ہے آپ کی ذمے داری پوری دنیا سے کفر و شرک کو مٹانا اور عدل و انصاف کو قائم کرنا تھا، یہ کوئی معمولی کام تھوڑا ہی تھا۔ اتنی بڑی ذمے داری کا اچانک ملنا، توگھبراہٹ کا ہونا فطری بات ہے۔…… یہاں تک کہ زبانِ مبارک سے یہ تک نکل گیا کہ مجھے اپنی جان جانے کا خطرہ ہے۔(لَقَدْ خَشِیْتُ عَلیٰ نَفْسِیْ) ۔
بہ ہر حال اِسی حالت میں آپ گھر تشریف لاتے ہیں۔ سیدہ خدیجہؓ یہاں پر ایک شاندار رول نبھاتی ہیں اور آپ کو تسلی دیتی ہیں۔ سیدہ خدیجہؓ محبت و حوصلہ اور نہایت سمجھ داری سے عرض کرتی ہیں: یا رسول اللہ! اللہ تعالی کی قسم! اللہ تعالی کبھی آپ کو رسوا نہیں کریں گے۔ (اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ) ترجمہ: بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، یعنی جو رشتہ دار آپ سے اچھا سلوک کرتا ہے،اُن سے تو رشتے داری رکھتے ہی ہیں، لیکن آپ تو رشتہ توڑنے والوں سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں۔ (وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ) ترجمہ: اور بوجھ اٹھاتے ہیں، مثلاًکوئی قرض میں ڈوبا ہوا ہو تو اُس کا قرضہ ادا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ (و تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ)ترجمہ: اور انتہائی غریب و قلاّش لوگوں کے لیے کماتے ہیں، یعنی غریبوں کا دھیان رکھتے ہیں، اگر کوئی کماتا کم ہے لیکن خرچ زیادہ ہے یا کوئی کمانے سے ہی معذور ہے تو ایسے لوگوں کو کما کر کِھلاتے ہیں اور ہر طرح سے دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ (و تَقرِیْ الضَّیْفَ) ترجمہ: اور آپ مہمان نواز ہیں، یعنی خود بھوکے رہ کر بھی آنے والے مہمانوں کو کھلاتے ہیں۔ (وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوائبِ الحقِّ) ترجمہ: اور لوگوں پر آنے والی(قدرتی) مصیبتوں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (بخاری شریف؛ ح:۳) ۔
معلوم ہوا یہ کام کرنا سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و طریقہ ہے۔ ہر مسلمان کو اِن پر عمل کرنا چاہیے۔ نیز حضرت خدیجہ نے ایک دعوی کیا اور دلیل کے طور پر پورے یقین اور قسم کے ساتھ یہ کام شمار کرائے کہ اِن کاموں کی وجہ سے اللہ تعالی آپ کو رسوا نہیں کر سکتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس انسان یا جس قوم کے اندر یہ خوبیاں ہوں گی، وہ قوم کبھی رسوا نہیں ہو سکتی۔ وہ قوم کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ پوری دنیا مل کر بھی اُن کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔
غور کریں کہ اِن ساری جیزوں میں قدرِ مشترک جو بات ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچانا ہے۔ مسلمان کی تعریف (Definition) ہی سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کی ہے کہ اُس سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچتی۔ مسلمان تو سراپا خیر ہی خیر ہوتا ہے۔ وہ تو ہمیشہ دوسروں کو نفع پہنچانے والا ہوتاہے۔
افسوس! آج مسلمانوں کے اندر سے نفع پہنچانے کی یہ خوبی ختم ہو چکی ہے! یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ پہلے مسلمان اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنی جان تک کو قربان کر دیتے تھے، اپنے بھوکے بھائی کو کھاناکھلانے کے لیے اپنے بچوں تک کو بھوکا رکھنا گوارا کر لیا کرتے تھے…… یہ ادائیں اللہ تعالی کو بھی اتنی پسند آتی تھیں کہ قرآن مقدس جیسی عظیم کتاب میں اُن کو جگہ دی جاتی تھی۔ جب کہ آج مسلمان اپنے فائدے کے لیے دوسرے کی جان و مال تک کو ناحق غصب کرنے پر اُتارو رہتے ہیں، آج کا مسلمان حرام سے اپنا پیٹ بھرنے، اپنی اولاد کے لیے بینک بیلنس بڑھانے کے چکّر میں اپنے بھائی کی شکایتیں کرکے اُس کو جیل میں بھجوانے سے بھی نہیں چوکتا! بھلا ایسے کاموں کے ساتھ کب کسی قوم نے بقا پائی ہے، جو ہم پائیں گے؟
تو ضرورت ہے کہ ہم اپنی اندر انسانیت پیدا کریں،دوسروں کی بھلائی کے لیے جینا سیکھیں …… ہم دوسروں کے لیے قربانیاں دیں …… رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ یاد رکھیں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی یہ نہیں کہ جو تمہارے آتا ہے تم بھی اُس کے جاتے ہو، جو تمھیں دیتا ہے، تم بھی اُسے دیتے ہو…… نہیں نہیں یہ صلہ رحمی نہیں بل کہ یہ تو ادلے کا بدلا ہے…… صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو تم سے ملنا جُلنا چھوڑتا ہے تم اُس سے بھی ملتے ہو۔ جو تمھیں بُرا کہتا ہے، تم اُس کوبھی اچھاکہتے ہو۔
ذرا اِس پہلو پر بھی توجہ دیں کہ سیدہ خدیجہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت و ریاضت کا کوئی ذکر نہیں کیا؟ آپ فرما سکتیں تھیں کہ یا رسول اللہ! آپ تو لمبی لمبی مدت تنہائیوں میں اللہ تعالی کو یاد کرتے ہو، اعتکاف کرتے ہو…… لیکن اِن کا کوئی ذکر نہیں …… ظاہر ہے اِن کاموں کا اپنی ذات کو فائدہ ہوتا ہے، لیکن دنیا میں بقا کا راز دوسروں کے لیے قربانی دینے میں ہے۔
ہمارے سماج کا یہ نہایت افسوس ناک پہلو ہے کہ عبادات پر تو بہت زور دیا جاتا ہے، لیکن دوسروں کو فائدہ پہنچانے پر اُس کا عشر عشیر بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ مال دار دن بہ دن مال دار ہو رہے ہیں، وہیں غریب روز بروز غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ جب تک ہم اپنے اندر تبدیلی نہیں لاتے، اللہ تعالی بھی ہمارے حالات کو نہیں بدلیں گے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں: (وَ اَمَّا مَا یَنْفعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ) ترجمہ: اور جو چیز لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے، وہ زمین میں ٹھر جاتی ہے یعنی باقی رہتی ہے۔ (الرعد:۷۱)۔
اِس کی مزید وضاحت بخاری شریف کی روایت سے ہوتی ہے کہ جب سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملتی ہے، چالیس سال کی عمر میں پہلی وحی (Revelation) نازل ہوتی ہے، تو آپ پر ایک گھبراہٹ کی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ کس طرح اتنی بڑی ذمے داری کو ادا کریں گے۔…… ظاہر ہے آپ کی ذمے داری پوری دنیا سے کفر و شرک کو مٹانا اور عدل و انصاف کو قائم کرنا تھا، یہ کوئی معمولی کام تھوڑا ہی تھا۔ اتنی بڑی ذمے داری کا اچانک ملنا، توگھبراہٹ کا ہونا فطری بات ہے۔…… یہاں تک کہ زبانِ مبارک سے یہ تک نکل گیا کہ مجھے اپنی جان جانے کا خطرہ ہے۔(لَقَدْ خَشِیْتُ عَلیٰ نَفْسِیْ) ۔
بہ ہر حال اِسی حالت میں آپ گھر تشریف لاتے ہیں۔ سیدہ خدیجہؓ یہاں پر ایک شاندار رول نبھاتی ہیں اور آپ کو تسلی دیتی ہیں۔ سیدہ خدیجہؓ محبت و حوصلہ اور نہایت سمجھ داری سے عرض کرتی ہیں: یا رسول اللہ! اللہ تعالی کی قسم! اللہ تعالی کبھی آپ کو رسوا نہیں کریں گے۔ (اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ) ترجمہ: بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، یعنی جو رشتہ دار آپ سے اچھا سلوک کرتا ہے،اُن سے تو رشتے داری رکھتے ہی ہیں، لیکن آپ تو رشتہ توڑنے والوں سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں۔ (وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ) ترجمہ: اور بوجھ اٹھاتے ہیں، مثلاًکوئی قرض میں ڈوبا ہوا ہو تو اُس کا قرضہ ادا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ (و تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ)ترجمہ: اور انتہائی غریب و قلاّش لوگوں کے لیے کماتے ہیں، یعنی غریبوں کا دھیان رکھتے ہیں، اگر کوئی کماتا کم ہے لیکن خرچ زیادہ ہے یا کوئی کمانے سے ہی معذور ہے تو ایسے لوگوں کو کما کر کِھلاتے ہیں اور ہر طرح سے دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ (و تَقرِیْ الضَّیْفَ) ترجمہ: اور آپ مہمان نواز ہیں، یعنی خود بھوکے رہ کر بھی آنے والے مہمانوں کو کھلاتے ہیں۔ (وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوائبِ الحقِّ) ترجمہ: اور لوگوں پر آنے والی(قدرتی) مصیبتوں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ (بخاری شریف؛ ح:۳) ۔
معلوم ہوا یہ کام کرنا سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و طریقہ ہے۔ ہر مسلمان کو اِن پر عمل کرنا چاہیے۔ نیز حضرت خدیجہ نے ایک دعوی کیا اور دلیل کے طور پر پورے یقین اور قسم کے ساتھ یہ کام شمار کرائے کہ اِن کاموں کی وجہ سے اللہ تعالی آپ کو رسوا نہیں کر سکتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس انسان یا جس قوم کے اندر یہ خوبیاں ہوں گی، وہ قوم کبھی رسوا نہیں ہو سکتی۔ وہ قوم کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ پوری دنیا مل کر بھی اُن کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔
غور کریں کہ اِن ساری جیزوں میں قدرِ مشترک جو بات ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچانا ہے۔ مسلمان کی تعریف (Definition) ہی سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کی ہے کہ اُس سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچتی۔ مسلمان تو سراپا خیر ہی خیر ہوتا ہے۔ وہ تو ہمیشہ دوسروں کو نفع پہنچانے والا ہوتاہے۔
افسوس! آج مسلمانوں کے اندر سے نفع پہنچانے کی یہ خوبی ختم ہو چکی ہے! یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ پہلے مسلمان اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنی جان تک کو قربان کر دیتے تھے، اپنے بھوکے بھائی کو کھاناکھلانے کے لیے اپنے بچوں تک کو بھوکا رکھنا گوارا کر لیا کرتے تھے…… یہ ادائیں اللہ تعالی کو بھی اتنی پسند آتی تھیں کہ قرآن مقدس جیسی عظیم کتاب میں اُن کو جگہ دی جاتی تھی۔ جب کہ آج مسلمان اپنے فائدے کے لیے دوسرے کی جان و مال تک کو ناحق غصب کرنے پر اُتارو رہتے ہیں، آج کا مسلمان حرام سے اپنا پیٹ بھرنے، اپنی اولاد کے لیے بینک بیلنس بڑھانے کے چکّر میں اپنے بھائی کی شکایتیں کرکے اُس کو جیل میں بھجوانے سے بھی نہیں چوکتا! بھلا ایسے کاموں کے ساتھ کب کسی قوم نے بقا پائی ہے، جو ہم پائیں گے؟
تو ضرورت ہے کہ ہم اپنی اندر انسانیت پیدا کریں،دوسروں کی بھلائی کے لیے جینا سیکھیں …… ہم دوسروں کے لیے قربانیاں دیں …… رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ یاد رکھیں رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی یہ نہیں کہ جو تمہارے آتا ہے تم بھی اُس کے جاتے ہو، جو تمھیں دیتا ہے، تم بھی اُسے دیتے ہو…… نہیں نہیں یہ صلہ رحمی نہیں بل کہ یہ تو ادلے کا بدلا ہے…… صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو تم سے ملنا جُلنا چھوڑتا ہے تم اُس سے بھی ملتے ہو۔ جو تمھیں بُرا کہتا ہے، تم اُس کوبھی اچھاکہتے ہو۔
ذرا اِس پہلو پر بھی توجہ دیں کہ سیدہ خدیجہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت و ریاضت کا کوئی ذکر نہیں کیا؟ آپ فرما سکتیں تھیں کہ یا رسول اللہ! آپ تو لمبی لمبی مدت تنہائیوں میں اللہ تعالی کو یاد کرتے ہو، اعتکاف کرتے ہو…… لیکن اِن کا کوئی ذکر نہیں …… ظاہر ہے اِن کاموں کا اپنی ذات کو فائدہ ہوتا ہے، لیکن دنیا میں بقا کا راز دوسروں کے لیے قربانی دینے میں ہے۔
ہمارے سماج کا یہ نہایت افسوس ناک پہلو ہے کہ عبادات پر تو بہت زور دیا جاتا ہے، لیکن دوسروں کو فائدہ پہنچانے پر اُس کا عشر عشیر بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ مال دار دن بہ دن مال دار ہو رہے ہیں، وہیں غریب روز بروز غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ جب تک ہم اپنے اندر تبدیلی نہیں لاتے، اللہ تعالی بھی ہمارے حالات کو نہیں بدلیں گے۔