ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۴
اعمال ِجنت
جناب حضرت مفتی محمددانش انور صاحب قاسمی صاحب،استاذ: دارالعلوم:بہادرگنج، کشنگنج،بہار
حضرت عبادہ بن صامت ص سے مروی ہے کہ: پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر چھ چیزوں کے بارے میں ارشاد فرمایاکہ:جو پوری ذمہ داری کے ساتھ ان کاموں کو کرے گا،میں اس کے لیے گارنٹی لیتا ہوں، کہ اپنی ذمہ داری میں اسے جنت میں داخل کراؤں گا۔
رسولِ پاک علیہ الصلاۃ والسلام نے حصولِ جنت کے لیے اس حدیث میں چھ چیزیں بیان فرمائی ہیں، کہ جو اِن چھ کاموں کو بحسن و خوبی انجام دیدے گا، میری ضمانت ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کراؤں گا، اِن اعمالِ ستہ میں سے چار(یعنی سچائی اور اس کے لازمی جز یعنی جھوٹ کا، اِیفاء وعدہ، امانت کی پاسداری اور شرم گاہ کی حفاظت)کا مفصل بیان ہوچکا ہے۔حصولِ جنت کے لیے پانچواں عمل
حصولِ جنت کے لیے پانچواں عمل نگاہوں کی حفاظت کرناہے، اس سلسلے میں استاذِ محترم فقیہ ِ عصر حضرت اقدس مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں کہ ”آج جو دنیا میں فحاشی اور بے حیائی کادور دورہ ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہی بدنظری اور نظرکی بے احتیاطی ہے، شیطان انسان کے ہاتھ میں بدنظری کاہتھیار دے کر پوری طرح مطمئن ہوچکاہے، اب اسے کسی بھی طاغوتی منصوبے کو بروے کار لانے میں زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑتی، یہ بدنظری خود بہ خود اس کی آرزؤوں کی خاطر خواہ تکمیل کردیتی ہے۔ نظر کی حفاظت میں کوتاہی بے شرمی کی بنیاد، فتنہ وفساد کامؤثر ذریعہ اور منکرات و معاصی کا سب سے بڑامحرک ہے، تجربہ اور تحقیق سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آج کم ازکم ۷۰/ فی صد جرائم اورفحاشیاں محض اس بنیاد پر وقوع پذیر ہوتی ہیں کہ ان کی باقاعدہ تربیت سینماہالوں، ٹی وی پروگراموں اور ویڈیو کیسٹوں کے ذریعہ دی جاتی ہے۔ ان شیطانی آلات کے فروغ نے مکرم ومحترم رشتوں کی آنکھوں سے حیااور شرم کا پانی نیست ونابود کردیاہے، باعزت گھرانوں کامعاشرتی وقار خاک میں مل گیا۔ اچھے اچھے دین داروں کی شرافت داغ دار ہوگئی، اسی بدنظری کی پاداش میں بلند وبالاورع وتقویٰ کے میناروں میں دراڑیں پڑگئیں اور ذراسی بد احتیاطی نے زندگی بھر کی نیک نامیوں پر بٹہ لگادیا۔ اس بدترین گناہ کی سنگینی اورخطرناکی کو محسوس کرتے ہوے اسلامی شریعت نے بدنظری کے ہردروازے کو بند کرنے پر نہایت زوردیاہے،.... مسلمان مردوں سے کہاگیا کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے۔ اسی طرح کی ہدایات عورتوں کو بھی خصوصیت کے ساتھ دی گئی ہیں اور انہیں پابند کیاگیا ہے کہ وہ اپنے اعضاء زینت کو فتنے کے مواقع پر ظاہر نہ کریں (النور: ۳۱/ ۳۰)۔ نیز سورۂ احزاب کی آیات میں جو پردہ کے احکامات دئے گئے ہیں، وہ بھی بدنظری کے سد ّباب کے لیے احتیاطی تدابیر کی حیثیت رکھتے ہیں، اسلامی شریعت نے ان تدابیر کو وجوب کادرجہ دے کر اپنی جامعیت اور صحیح معنی میں عملی مذہب ہونے کامظاہرہ کیاہے، اسلام برائیوں کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کاعزم رکھتاہے۔قرآن کریم کے احکامات اور احادیث ِ طیبہ کی روشن ہدایات اس سلسلے میں ہماری بھرپور رہنمائی کرتی ہیں“(اللہ سے شرم کیجیے:۳ ۸)
چوری چوری نظروں سے کسی کو دیکھیں یا ڈھٹائی اور بے حیائی سے، اللہ فرماتے ہیں کہ میں وہ سب جانتاہوں اور اسے دیکھ کر دل میں جو بریانی اور خیالی پلاؤچوریاں آنکھوں کی اور سینوں کے راز
جانتاہے سب کو تو اے بے نیاز
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں آقائے دوجہاں انے نگاہ کو ابلیس کا ایک زہر آلود تیر قرار دیا ہے کہ جسے وہ تیر لگ گیا، وہ ضرور ہلاک وبرباد ہوجائے گا؛ تاہم اس سے بچنے والوں کے لیے اِ سی حدیث میں خوش خبری بھی موجود ہے کہ اُسے ایسا ایمان دیں گے، جس کے سبب وہ دل میں حلاوت و مٹھاس کو محسوس کرے گا۔
ایک موقعہ پر رسول اللہ انے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مخاطب کرتے ہوے فرمایا کہ: علی! ایک نظر غیرمحرم پرپڑجانے کے بعد دوسری نظر مت ڈالنا، کیوں کہ پہلی نظر تو تمہارے لیے معاف ہے؛ مگر دوسری نظر معاف نہیں ہے:۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓسے مروی ایک روایت میں رسول اللہانے فرمایا کہ: پہلی نظر تو خطا ہے، (یعنی وہ معاف ہوجائے گی) اور دوسری نظر قصداً اور عمداًہے اور تیسری نظر تو بالکلیہ سرکشی اوربدمعاشی ہے، (یعنی ان دونوں پر مؤاخذہ ہوگا)۔
خواہش اور شہوت یہ انسان کی فطرت میں ہے،جس کی وجہ سے ہر انسان کا اس طرف میلان ایک فطری تقاضہ ہے، بلکہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں ننانوے گنا زیادہ اس خواہش کو رکھاہے؛ البتہ ”حیا“ ایک ایسی صفت ہے، جس کی وجہ سے آدمی اس تقاضہ پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا۔
اب اللہ جل جلالہ اوراحکم الحاکمین،جو عالم الغیب ہے، جو دلوں کے چھپے ہوے راز کو بھی جانتاہے، کسی خوب صورت شکل کو دیکھ کر ہم اپنے دل میں جوخیالی پلاؤ پکاتے ہیں، وہ اس سے بھی باخبر ہے، یَعْلَمُ خَاءِنَۃَ الأَعْیُنِ وَمَاتُخْفِيْ الصَُّّدُوْرُ۔(المُؤمِن: ۱۹)۔جو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ محسن، سب سے زیادہ محبت کرنے والا، سب سے زیادہ نعمتیں دینے والا؛ بلکہ نعمتوں کی بارش برسانے والا، ماں کے رحم سے لے کر پیدائش تک اورپیدائش کے بعدسے آج تک ہماری پل پل کی تمام ضروریات کاسب سے زیادہ خیال رکھنے والاہے، وہ کہتا ہے کہ محبت مجھ سے کرو، تعلق مجھ سے رکھو، دیکھو میری طرف، سوچو مجھے، غووفکرکرومیری قدرت پر، یعنی میرے پیداکردہ آسمان کو دیکھو، کہ بغیر ستون کے کیسے کھڑا کیا ہے؟ میری پیداکردہ زمین کو دیکھو، کہ کیسے میں نے اسے پانی کے اوپر پھیلایا ہے، اور اس کے سینے کو چیر کرمیں نے کس طرح ندی، نالے اوردریاؤں کوجاری کیا؛ میرے پیداکردہ اونٹ اوردیگر اَن گنت جانوروں کو دیکھو، کہ کس کاری گری کے ساتھ انہیں میں نے پیداکیاہے؟ جنگلات اور اس میں پلنے والے بھانت بھانت کے ہزاروں جانوروں کو دیکھو، اُن بے شمار جانوروں میں ایک نازک جان اورتیزخرام ہرن اور اس میں پیداہونے والے مشک کودیکھو، آسمان اوراس سے گرنے والے قطرات کودیکھو، پتھراوراس سے پھوٹنے والے چشمے کو دیکھو، اونچے اونچے کوہ ساروں کو دیکھو، اور اس کی اونچائی سے گرنے والے آب شاروں کودیکھو، دریااوراس کی روانی کودیکھو، سمندراوراس کی پہاڑ کی مانند موجوں طغیانی کو دیکھو،یہ چیزیں ہیں دیکھنے کی، انہیں دیکھو، انہیں دیکھ کر میری قدرت پر غوروفکر کرو اور میرا یقین اور میری محبت دل میں بساؤ، جن خوب صورت چہروں کو دیکھنے سے میں نے منع کیا، انہیں خوب صورتی تو میں نے ہی دی ہے، میں اس کا بھی مالک ہوں، تمہارا بھی مالک ہوں، تم سب کا میں محسن عظیم ہوں اور میں ہی تم سے کہتاہوں کہ تم لوگ ان خوب صورت چہروں کو نہ دیکھو، بلکہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھو اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، اسی میں تمہاری بہتری ہے (النور: ۳۰)۔ یہ میری بندیاں ہیں، ان سے بھی یہی کہتاہوں کہ یہ بھی اپنی نظروں کو آوارہ نہ چھوڑیں؛ بلکہ نظریں جھکاکر رہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے مقاماتِ زینت کولوگوں کودکھاتی نہ پھریں اور اپنے اوپر اوڑھنی اورچادر ڈال کر اچھی طرح پردہ کرلیا کریں (النور: ۳۱)۔
تمہارے سامنے کوئی غیر مرد تمہاری بیوی کوللچائی نظروں سے دیکھے، تمہیں کیسا لگے گا؟ تمہاری موجودگی میں کوئی اجنبی جوان تمہاری بہن کوگھورتارہے، تمہارا جی کیسا کرے گا؟ تمہاری نگاہوں کے سامنے کوئی آدمی تمہاری بیٹی کوغلط نگاہ سے دیکھے، تم اسے کیا کروگے؟تمہیں تو یہاں غصہ اور غیرت اس لیے آتی ہے کہ تمہاری ماں، تمہاری بہن، تمہاری بیوی اورتمہاری بیٹی کویہ شخص دیکھ رہاہے، تمہاری غیرت ایک پہلوکی وجہ سے ہے۔
اچھا اس وقت تمہارے غصے کاکیا حال ہوگا، جب تمہارا ہی بیٹا اپنی ماں کو، اپنی بہن کو، اپنی پھوپھی کو یااپنی دادی کوشہوت بھری نظروں سے دیکھے؟ ذرا غور تو کرو!!!ذرا سوچوتو سہی کہ یہ بھی تو میری ہی بندیاں ہیں، جن کو دیکھنے سے میں تمہیں منع کررہا ہوں،اور خود تم بھی میرے ہو، اس لیے جب تم ان کی طرف دیکھتے ہو، تو مجھے دوگنا غیرت آتی ہے، اس لیے تم لوگ یہ بے حیائی اور بے غیرتی والاکام مت کیا کرو؛ کیوں کہ تم سے زیادہ میں نے خواہش تو عورتوں میں رکھا ہے؛ بلکہ اُن میں تمہارے مقابلے میں ننانوے گنا خواہش زیادہ رکھاہے؛ البتہ حیاکاغازہ ان کی فطرت میں ہے، اس لیے وہ دُبک کررہتی ہے، وہ حد سے تجاوز نہیں کرتی؛ بلکہ اپنی حیاکے اس پردے میں ہی رہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہا نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں ننانوے گنازیادہ شہوت دیا ہے؛ مگر ان کے اوپر اللہ جل شانہ نے حیاکادبیز پردہ ڈال دیاہے، جس کی وجہ سے وہ حدسے تجاوز نہیں کرتی؛ بلکہ اپنی حیاکے اس پردے میں ہی رہتی ہے۔
علامہ ابن الجوزی ؒ نے”تلبیس ابلیس“ میں نقل فرمایاہے کہ ابو عبداللہ بن الجلاء کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا ایک خوبصورت نصرانی لڑکے کو دیکھتاتھا،اتنے میں ابو عبداللہ بلخی میرے سامنے گذرے، پوچھاکیسے کھڑے ہو؟ میں نے کہا: آپ اس صورت کو دیکھتے ہیں، کیوں کر آتش ِدوزخ میں عذاب کیا جائے گا، انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ میرے شانوں کے بیچ میں مارے اور کہا کہ اس کا نتیجہ تجھ کو ملے گا، اگرچہ کچھ مدت گذرجائے؛ میں نے چالیس برس کے بعد اس کا ثمرہ پایاکہ قرآن شریف مجھ کو یاد نہ رہا۔
ابو الادیان کہتے ہیں کہ میں اپنے استاذ ابوبکر دقاق کے ساتھ تھا، ایک نوجوان لڑکاسامنے آیا، میں اس کو دیکھنے لگا، استاذ نے مجھ کو اس کی طرف دیکھتے ہوے دیکھ لیا، فرمایاکہ بیٹا! بعد چندے تم اس کا نتیجہ پاؤگے، میں بیس برس تک منتظر رہا، وہ نتیجہ نہ دیکھا، ایک رات میں اسی سوچ بچار میں سو رہا، جب صبح کو اٹھا تو تمام قرآن شریف بھول گیا۔ (تلبیسِ ابلیس: ۳۴۹/۳۴۸)۔
حضرت شیخ الحدیث ؒ فرماتے ہیں: ایک شخص کا جب مرنے کا وقت ہوگیا، تو لوگ اسے کلمہ کی تلقین کرنے لگے، تو وہ جواب میں کہنے لگا، کہ میری زبان حرکت نہیں کرتی، پوچھا کیا وجہ ہے؟ کہنے لگا کہ ایک عورت مجھ سے تولیہ خرید نے آئی تھی، مجھے اچھی لگی، میں للچائی نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ (آپ بیتی:۰ ۴۲)۔
اس لیے جب انسان پر شہوت کا غلبہ ہو اور اس کا بھوت سوار ہوجائے اور طبیعت بے قرار ہوجائے، تو ذہن میں یہ سوچے کہ ایک تو یہ گناہ ِ کبیرہ یا اس کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے، دوسرا یہ انسان کے اوپر قرض ہوتاہے، اس قرض کو گھر کی کوئی عورت ضرور چکاتی ہے؛ چاہے ماں ہو، چاہے بیٹی؛ چاہے بہن ہو، چاہے بیوی؛ خوشی سے اتارے، چاہے مجبوری میں مگراتارناہوگا۔ اگر آج ہم کسی کی ماں، بہن، بیٹی یابیوی کے ساتھ بدکاری یابدنظری کریں گے، کل کو ہماری کسی عزیزہ کے ساتھ ایساہی ہوگا۔ اسی لیے نبیں نے ارشاد فرمایاکہ: تم لوگوں کی عورتوں کے ساتھ پرہیزگاری کابرتاؤ کرو، لوگ تمہاری عورتوں کے ساتھ پرہیزگاری کا معاملہ کریں گے۔بدنظر اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب
اپنی بیٹی کاخیال آیا تو دل کانپ گیا
اس پہلو کو ہمیشہ ذہن میں رکھے کہ میری بھی ماں بہن ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہ میرا رب مجھے دیکھ رہاہے، میری ہر حرکت سے وہ واقف ہے، ان سب کا حساب دینا ہوگا۔
نبی ئ اکرم ا نے صحا بہ کرام ثمیں حیاوالی صفت ایسی کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی، کہ ان کی نگاہیں غیر کی طرف اٹھتی ہی نہیں تھی؛ چناں چہ حضرت عمر بن الخطاب صکے دورِاقتدار میں ایک عورت یمن سے چلی اور مدینہ طیبہ اکیلی آئی، اس نے مہینوں کا سفر کیا، وہ رات کوبھی کہیں ٹھہرتی ہوگی، اس کے پاس مال بھی تھا، اسے اپنی جان، اپنی عزت وناموس کا بھی خطرہ تھا، جب وہ مدینہ پہنچی اور حضرت عمر ص کو پتہ چلاتو آپ نے انہیں بلوایا، پہلے تو یہ پوچھا کہ اکیلی کیوں آئی؟ اس نے کوئی عذر پیش کیا، پھر آپ نے ایک سوال پوچھا، کہ بتاؤ تم جوان العمر عورت ہو، تم نے اکیلی سفر کیا، آبادیوں سے بھی گذری، ویرانیوں سے بھی گذری، تمہیں جان ومال اور عزت وآبرو کا بھی خطرہ تھا، یہ بتاؤ کہ تم نے یمن سے مدینہ تک کے لوگوں کو کس حال میں پایا؟ اس نے جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین! میں یمن سے چلی اور مدینہ تک پہنچی اور میں نے راستہ کے سب لوگوں کو ایسے پایا کہ جیساسب کے سب ایک ماں باپ کی اولاد ہوتے ہیں، ان سب کی نگاہیں اتنی پاکیزہ تھیں، کہ جوان العمر عورت سیکڑوں میل کا سفر کرتی تھیں اور اسے اپنی عزت و آبرو کا کوئی خطرہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ (اہل ِ دل کے تڑپادینے والے واقعات: ۵۶۹/۱) اللہ کرے کہ وہ زمانہ آج بھی واپس آجاے اور ہم سب انہیں بزرگوں کے نشانِ راہ پر چلنے والے بن جائیں، آمین۔
رسولِ پاک علیہ الصلاۃ والسلام نے حصولِ جنت کے لیے اس حدیث میں چھ چیزیں بیان فرمائی ہیں، کہ جو اِن چھ کاموں کو بحسن و خوبی انجام دیدے گا، میری ضمانت ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کراؤں گا، اِن اعمالِ ستہ میں سے چار(یعنی سچائی اور اس کے لازمی جز یعنی جھوٹ کا، اِیفاء وعدہ، امانت کی پاسداری اور شرم گاہ کی حفاظت)کا مفصل بیان ہوچکا ہے۔
چوری چوری نظروں سے کسی کو دیکھیں یا ڈھٹائی اور بے حیائی سے، اللہ فرماتے ہیں کہ میں وہ سب جانتاہوں اور اسے دیکھ کر دل میں جو بریانی اور خیالی پلاؤ
جانتاہے سب کو تو اے بے نیاز
ایک موقعہ پر رسول اللہ انے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مخاطب کرتے ہوے فرمایا کہ: علی! ایک نظر غیرمحرم پرپڑجانے کے بعد دوسری نظر مت ڈالنا، کیوں کہ پہلی نظر تو تمہارے لیے معاف ہے؛ مگر دوسری نظر معاف نہیں ہے:۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓسے مروی ایک روایت میں رسول اللہانے فرمایا کہ: پہلی نظر تو خطا ہے، (یعنی وہ معاف ہوجائے گی) اور دوسری نظر قصداً اور عمداًہے اور تیسری نظر تو بالکلیہ سرکشی اوربدمعاشی ہے، (یعنی ان دونوں پر مؤاخذہ ہوگا)۔
خواہش اور شہوت یہ انسان کی فطرت میں ہے،جس کی وجہ سے ہر انسان کا اس طرف میلان ایک فطری تقاضہ ہے، بلکہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں ننانوے گنا زیادہ اس خواہش کو رکھاہے؛ البتہ ”حیا“ ایک ایسی صفت ہے، جس کی وجہ سے آدمی اس تقاضہ پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا۔
اب اللہ جل جلالہ اوراحکم الحاکمین،جو عالم الغیب ہے، جو دلوں کے چھپے ہوے راز کو بھی جانتاہے، کسی خوب صورت شکل کو دیکھ کر ہم اپنے دل میں جوخیالی پلاؤ پکاتے ہیں، وہ اس سے بھی باخبر ہے، یَعْلَمُ خَاءِنَۃَ الأَعْیُنِ وَمَاتُخْفِيْ الصَُّّدُوْرُ۔(المُؤمِن: ۱۹)۔جو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ محسن، سب سے زیادہ محبت کرنے والا، سب سے زیادہ نعمتیں دینے والا؛ بلکہ نعمتوں کی بارش برسانے والا، ماں کے رحم سے لے کر پیدائش تک اورپیدائش کے بعدسے آج تک ہماری پل پل کی تمام ضروریات کاسب سے زیادہ خیال رکھنے والاہے، وہ کہتا ہے کہ محبت مجھ سے کرو، تعلق مجھ سے رکھو، دیکھو میری طرف، سوچو مجھے، غووفکرکرومیری قدرت پر، یعنی میرے پیداکردہ آسمان کو دیکھو، کہ بغیر ستون کے کیسے کھڑا کیا ہے؟ میری پیداکردہ زمین کو دیکھو، کہ کیسے میں نے اسے پانی کے اوپر پھیلایا ہے، اور اس کے سینے کو چیر کرمیں نے کس طرح ندی، نالے اوردریاؤں کوجاری کیا؛ میرے پیداکردہ اونٹ اوردیگر اَن گنت جانوروں کو دیکھو، کہ کس کاری گری کے ساتھ انہیں میں نے پیداکیاہے؟ جنگلات اور اس میں پلنے والے بھانت بھانت کے ہزاروں جانوروں کو دیکھو، اُن بے شمار جانوروں میں ایک نازک جان اورتیزخرام ہرن اور اس میں پیداہونے والے مشک کودیکھو، آسمان اوراس سے گرنے والے قطرات کودیکھو، پتھراوراس سے پھوٹنے والے چشمے کو دیکھو، اونچے اونچے کوہ ساروں کو دیکھو، اور اس کی اونچائی سے گرنے والے آب شاروں کودیکھو، دریااوراس کی روانی کودیکھو، سمندراوراس کی پہاڑ کی مانند موجوں طغیانی کو دیکھو،یہ چیزیں ہیں دیکھنے کی، انہیں دیکھو، انہیں دیکھ کر میری قدرت پر غوروفکر کرو اور میرا یقین اور میری محبت دل میں بساؤ، جن خوب صورت چہروں کو دیکھنے سے میں نے منع کیا، انہیں خوب صورتی تو میں نے ہی دی ہے، میں اس کا بھی مالک ہوں، تمہارا بھی مالک ہوں، تم سب کا میں محسن عظیم ہوں اور میں ہی تم سے کہتاہوں کہ تم لوگ ان خوب صورت چہروں کو نہ دیکھو، بلکہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھو اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، اسی میں تمہاری بہتری ہے (النور: ۳۰)۔ یہ میری بندیاں ہیں، ان سے بھی یہی کہتاہوں کہ یہ بھی اپنی نظروں کو آوارہ نہ چھوڑیں؛ بلکہ نظریں جھکاکر رہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے مقاماتِ زینت کولوگوں کودکھاتی نہ پھریں اور اپنے اوپر اوڑھنی اورچادر ڈال کر اچھی طرح پردہ کرلیا کریں (النور: ۳۱)۔
تمہارے سامنے کوئی غیر مرد تمہاری بیوی کوللچائی نظروں سے دیکھے، تمہیں کیسا لگے گا؟ تمہاری موجودگی میں کوئی اجنبی جوان تمہاری بہن کوگھورتارہے، تمہارا جی کیسا کرے گا؟ تمہاری نگاہوں کے سامنے کوئی آدمی تمہاری بیٹی کوغلط نگاہ سے دیکھے، تم اسے کیا کروگے؟تمہیں تو یہاں غصہ اور غیرت اس لیے آتی ہے کہ تمہاری ماں، تمہاری بہن، تمہاری بیوی اورتمہاری بیٹی کویہ شخص دیکھ رہاہے، تمہاری غیرت ایک پہلوکی وجہ سے ہے۔
اچھا اس وقت تمہارے غصے کاکیا حال ہوگا، جب تمہارا ہی بیٹا اپنی ماں کو، اپنی بہن کو، اپنی پھوپھی کو یااپنی دادی کوشہوت بھری نظروں سے دیکھے؟ ذرا غور تو کرو!!!ذرا سوچوتو سہی کہ یہ بھی تو میری ہی بندیاں ہیں، جن کو دیکھنے سے میں تمہیں منع کررہا ہوں،اور خود تم بھی میرے ہو، اس لیے جب تم ان کی طرف دیکھتے ہو، تو مجھے دوگنا غیرت آتی ہے، اس لیے تم لوگ یہ بے حیائی اور بے غیرتی والاکام مت کیا کرو؛ کیوں کہ تم سے زیادہ میں نے خواہش تو عورتوں میں رکھا ہے؛ بلکہ اُن میں تمہارے مقابلے میں ننانوے گنا خواہش زیادہ رکھاہے؛ البتہ حیاکاغازہ ان کی فطرت میں ہے، اس لیے وہ دُبک کررہتی ہے، وہ حد سے تجاوز نہیں کرتی؛ بلکہ اپنی حیاکے اس پردے میں ہی رہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہا نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں ننانوے گنازیادہ شہوت دیا ہے؛ مگر ان کے اوپر اللہ جل شانہ نے حیاکادبیز پردہ ڈال دیاہے، جس کی وجہ سے وہ حدسے تجاوز نہیں کرتی؛ بلکہ اپنی حیاکے اس پردے میں ہی رہتی ہے۔
علامہ ابن الجوزی ؒ نے”تلبیس ابلیس“ میں نقل فرمایاہے کہ ابو عبداللہ بن الجلاء کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا ایک خوبصورت نصرانی لڑکے کو دیکھتاتھا،اتنے میں ابو عبداللہ بلخی میرے سامنے گذرے، پوچھاکیسے کھڑے ہو؟ میں نے کہا: آپ اس صورت کو دیکھتے ہیں، کیوں کر آتش ِدوزخ میں عذاب کیا جائے گا، انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ میرے شانوں کے بیچ میں مارے اور کہا کہ اس کا نتیجہ تجھ کو ملے گا، اگرچہ کچھ مدت گذرجائے؛ میں نے چالیس برس کے بعد اس کا ثمرہ پایاکہ قرآن شریف مجھ کو یاد نہ رہا۔
ابو الادیان کہتے ہیں کہ میں اپنے استاذ ابوبکر دقاق کے ساتھ تھا، ایک نوجوان لڑکاسامنے آیا، میں اس کو دیکھنے لگا، استاذ نے مجھ کو اس کی طرف دیکھتے ہوے دیکھ لیا، فرمایاکہ بیٹا! بعد چندے تم اس کا نتیجہ پاؤگے، میں بیس برس تک منتظر رہا، وہ نتیجہ نہ دیکھا، ایک رات میں اسی سوچ بچار میں سو رہا، جب صبح کو اٹھا تو تمام قرآن شریف بھول گیا۔ (تلبیسِ ابلیس: ۳۴۹/۳۴۸)۔
حضرت شیخ الحدیث ؒ فرماتے ہیں: ایک شخص کا جب مرنے کا وقت ہوگیا، تو لوگ اسے کلمہ کی تلقین کرنے لگے، تو وہ جواب میں کہنے لگا، کہ میری زبان حرکت نہیں کرتی، پوچھا کیا وجہ ہے؟ کہنے لگا کہ ایک عورت مجھ سے تولیہ خرید نے آئی تھی، مجھے اچھی لگی، میں للچائی نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ (آپ بیتی:۰ ۴۲)۔
اس لیے جب انسان پر شہوت کا غلبہ ہو اور اس کا بھوت سوار ہوجائے اور طبیعت بے قرار ہوجائے، تو ذہن میں یہ سوچے کہ ایک تو یہ گناہ ِ کبیرہ یا اس کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے، دوسرا یہ انسان کے اوپر قرض ہوتاہے، اس قرض کو گھر کی کوئی عورت ضرور چکاتی ہے؛ چاہے ماں ہو، چاہے بیٹی؛ چاہے بہن ہو، چاہے بیوی؛ خوشی سے اتارے، چاہے مجبوری میں مگراتارناہوگا۔ اگر آج ہم کسی کی ماں، بہن، بیٹی یابیوی کے ساتھ بدکاری یابدنظری کریں گے، کل کو ہماری کسی عزیزہ کے ساتھ ایساہی ہوگا۔ اسی لیے نبیں نے ارشاد فرمایاکہ: تم لوگوں کی عورتوں کے ساتھ پرہیزگاری کابرتاؤ کرو، لوگ تمہاری عورتوں کے ساتھ پرہیزگاری کا معاملہ کریں گے۔
اپنی بیٹی کاخیال آیا تو دل کانپ گیا
نبی ئ اکرم ا نے صحا بہ کرام ثمیں حیاوالی صفت ایسی کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی، کہ ان کی نگاہیں غیر کی طرف اٹھتی ہی نہیں تھی؛ چناں چہ حضرت عمر بن الخطاب صکے دورِاقتدار میں ایک عورت یمن سے چلی اور مدینہ طیبہ اکیلی آئی، اس نے مہینوں کا سفر کیا، وہ رات کوبھی کہیں ٹھہرتی ہوگی، اس کے پاس مال بھی تھا، اسے اپنی جان، اپنی عزت وناموس کا بھی خطرہ تھا، جب وہ مدینہ پہنچی اور حضرت عمر ص کو پتہ چلاتو آپ نے انہیں بلوایا، پہلے تو یہ پوچھا کہ اکیلی کیوں آئی؟ اس نے کوئی عذر پیش کیا، پھر آپ نے ایک سوال پوچھا، کہ بتاؤ تم جوان العمر عورت ہو، تم نے اکیلی سفر کیا، آبادیوں سے بھی گذری، ویرانیوں سے بھی گذری، تمہیں جان ومال اور عزت وآبرو کا بھی خطرہ تھا، یہ بتاؤ کہ تم نے یمن سے مدینہ تک کے لوگوں کو کس حال میں پایا؟ اس نے جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین! میں یمن سے چلی اور مدینہ تک پہنچی اور میں نے راستہ کے سب لوگوں کو ایسے پایا کہ جیساسب کے سب ایک ماں باپ کی اولاد ہوتے ہیں، ان سب کی نگاہیں اتنی پاکیزہ تھیں، کہ جوان العمر عورت سیکڑوں میل کا سفر کرتی تھیں اور اسے اپنی عزت و آبرو کا کوئی خطرہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ (اہل ِ دل کے تڑپادینے والے واقعات: ۵۶۹/۱) اللہ کرے کہ وہ زمانہ آج بھی واپس آجاے اور ہم سب انہیں بزرگوں کے نشانِ راہ پر چلنے والے بن جائیں، آمین۔