ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۴
نہ کر تقدیر کا شکوہ…
جناب حضرت مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری، استاذ:دارالعلوم سبیل السلام،حیدرآباد
اللہ تبارک وتعالی کا ایک نظام ہے،اس نے اپنے ازلی وابدی علم کی بنیاد پر سب کی تقدیر یں لکھ دی ہیں،کسے کیا ملنا ہے؟ کہاں ملنا ہے؟کتنا ملنا ہے؟اور کیسے ملناہے؟لیکن اس نے خاص مصلحتوں کی وجہ سے تقدیر یں عیاں نہیں کیں، بلکہ اچھے اور بُرے دونوں راستے بتادئیے، پھر فرمایا جو جیسا کرے گا ویسا پائیگا ”کل نفس بماکسبت رھینۃ“ ہر شخص اپنے عمال کے بدلہ میں محبوس ہو گا (المدثر:۸۳) اور فرمایا ”فمن یعمل مثقال ذرۃ خیر یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شر یرہ“ سوجو شخص ذرہ برابر نیکی کریگا وہ اس کو دیکھ لیگا اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال: ۷)
خدا کا فیصلہ صحیح فیصلہ ہوتاہے،وہ اپنی مخلوق کے لئے کبھی برا نہیں چاہتا،اس کے نزدیک کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں، سب کی قدیں برابر ہیں، ساری کائنات اس کی مخلوق ہے، اس سے سب سے زیادہ قریب وہ ہے جو اس کی بات سب سے زیادہ مانے،اس کے احکام کی خلاف ورزی نہ کرے،اور اپنے دل ودماغ کو حسد وبغض،کفر ونفاق اور کینہ وکپٹ سے پوری طرح پاک رکھے،اسی لئے اس نے ہمیں غور و خوض کرنے کے واسطے عقل وشعور کی دولت سے مالامال کیا تاکہ ہم حق کو جان سکیں اور اچھے برے میں فرق کرسکیں، ہاتھ دئیے تاکہ کام کرسکیں اور دوسروں کے کام آسکیں،آنکھیں دیں تاکہ صحیح اور درست راستہ دیکھ سکیں،کان دئیے تاکہ اس (خدا)کے احکامات سن سکیں،پاؤں دئیے تاکہ چلکر رزق کی تلاش کر سکیں اور دین کی دعوت چہار دانگ عالم میں پھیلا سکیں،ان سب کے ساتھ ساتھ اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا کہ ہم اپنی زندگی ان کی زندگی کے مطابق ڈھال سکیں ۔۔۔خدا کا نظام ہے،اس نے کسی کو چھوٹا اور کسی کو بڑا بنایا،کسی کو بڑھاپا تک رکھا اور کسی کو جوانی ہی میں اٹھالیا،کسی نے جوانی کی رنگینی دیکھی اور کوئی بچپن ہی میں چل بسا،کسی نے والدین کی گود میں پرورش پائی اور کوئی یتیم ہو کر رہا،کو ئی مال ودولت کی ریل پیل میں جیتارہا اور کوئی مجبور ولاچار ہوکر دوسرے کے کندھے کا بوجھ بنارہا …… آخر ایسا کیوں؟یہ سب خداکی قدرت ہے،وہ جو بہتر سمجھتا ہے کرتا ہے،ان میں ہمارا اور آپ کا کوئی اختیار نہیں، کیونکہ وہ حکیم بھی ہے اور حاکم بھی، اس کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ہے، اور نہ ہی اس کے اوپر کسی کا اختیار چلتا ہے، اگر ہم اس (اللہ)کی قربت چاہتے ہیں تو اس کی بات مانیں،قریب ہو جائنگے،اس میں (ان شاء اللہ) ہماری دنیاوی وجسمانی کوئی شئی رکاوٹ نہیں بنے گی۔یوں سمجھئے کہ اس نے ہماری قسمت یہ کہکر بنائی کہ دیکھو اچھے برے دو الگ الگ راستے ہیں،اچھا کروگے اچھی قسمت والے ہوگے اور اچھے نتائج برآمد ہوں گے،غلط کروگے بُری قسمت والے ہوگے اور آج نہ تو کل برے نتائج ضرور ظاہر ہوں گے،وہ کسی پر ظلم وزیادتی نہیں کرتا،اس کا فرمان ہے ”من عمل صالحاً فلنفسہ ومن أساء فعلیھا وماربک بظلام للعبید“ جو شخص نیک عمل کرتاہے وہ اپنے نفع کیلئے اور جو شخص برا عمل کرتاہے اس کا وبال اس پر پڑے گا اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ (حم السجدہ:۴۶)
یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ خدانے ہمیں مجبور محض بناکر نہیں بھیجا بلکہ اچھابرا،صحیح غلط اور دوست ودشمن پہچاننے کی سوجھ بوجھ عطا کی،اس نے ہمیں تعلیم دی کہ ہاتھ پرہاتھ دھرے نہ بیٹھا جائے،محنت سے کام کیا جائے،اگر کوئی شخص وقتی پریشانی ومصیبت کو دیکھکر اپنی قسمت کا رونا روتا ہے اور سست وکاہل بنا رہتاہے،منھ لٹکا ئے پھرتاہے،وہ حقیقت میں اپنی زندگی کا خون کررہا ہے اور وہ خدا کے نزدیک مجرم ہے کیونکہ وہ اس کے احکام کی خلاف ورزی کررہاہے۔
انسان کو چاہئے کہ وہ صحیح راستہ پر گامزن رہے،حقیقت سے کبھی منھ نہ موڑے،حلال وپاکیزہ رزق کی تلاش میں کوشاں رہے اچھا انسان بننے کی ہمیشہ کو شش کرے اور اس کے لئے محنت ولگن سے کام لے،عام طورسے ایسا ہوتاہے کہ منزل بہت دور نظر آتی ہے لیکن چلنے والا ہمت نہیں ہارتا اور اپنے جہد مسلسل کے ذریعہ مقصدکو پا لیتا ہے …… لیکن اس کے برعکس کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، انسان صحیح راستے پر چل رہاہوتاہے، بہت زیادہ محنت ومشقت بھی کرتاہے لیکن وہ چاہتا کچھ ہے اور ہو کچھ اور جاتاہے،وہ بنناکچھ اور چاہتا ہے اور بن کچھ اور جاتاہے،اس صورت میں اسے صبر سے کام لینا چاہئے اور خدا پر توکل کر کے اسی میں اپنے لئے خیر سمجھنا چاہئے،واویلا مچانا اور شور وغوغہ کرنا بے سود ہے،یہ تو بزدلی وکم ہمتی کی بات ہے اس پر گناہ تو مل سکتا ہے لیکن ثواب ملنے کی کوئی امید نہیں۔
دولفظوں میں یوں سمجھئے کہ انسان ہمیشہ جہد مسلسل اور عملِ پیہم کے ذریعہ صحیح راستہ اپنا ئے رہے،عارضی نتائج سے بالکل نہ گھبرائے،اگر بظاہر اچھے نتائج نہیں معلوم ہورہے ہیں تو صبر سے کام لے،اللہ سے دعا کرے،اسباب وعلل پر دوبارہ غور کرے، ہمت نہ ہارے،آج نہ تو کل آپ کی محنت ضرور پھل لائے گی،ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی چاہت پوری نہ ہو ناہی آپ کیلئے بہتر ہو”عسی أن تکر ھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی أن تحبوا شیئا و ھو شرلکم،واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون“ اور یہ بات ممکن ہے کہ کسی امر کو گراں سمجھو اور وہ تمہارے حق میں خیر ہو اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی امر کو مرغوب سمجھو اور وہ تمہارے حق میں خرابی ہو اور اللہ تعالی جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔ (البقرہ:۲۱۶)
آپ کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، محنت و لگن سے کام کیجئے، ایمان داری پر قائم رہئے، خدا کا ہر حال میں شکر ادا کیجئے اور صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رہئے،آپ کا صحیح راستہ اختیار کرنا،آپ کی اچھی قسمت کی طرف اشارہ کرتاہے اور غلط راستہ اختیار کرنا آپ کی ناکامی کو بتا تاہے جسے آپ آج نہ تو کل بری قسمت کا نام دیں گے، لہٰذانہ کر تقدیر کا شکوہ مقدر آزماتاجا
ملے گی خود بخود منزل قدم آگے بڑھاتاجا
خدا کا فیصلہ صحیح فیصلہ ہوتاہے،وہ اپنی مخلوق کے لئے کبھی برا نہیں چاہتا،اس کے نزدیک کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں، سب کی قدیں برابر ہیں، ساری کائنات اس کی مخلوق ہے، اس سے سب سے زیادہ قریب وہ ہے جو اس کی بات سب سے زیادہ مانے،اس کے احکام کی خلاف ورزی نہ کرے،اور اپنے دل ودماغ کو حسد وبغض،کفر ونفاق اور کینہ وکپٹ سے پوری طرح پاک رکھے،اسی لئے اس نے ہمیں غور و خوض کرنے کے واسطے عقل وشعور کی دولت سے مالامال کیا تاکہ ہم حق کو جان سکیں اور اچھے برے میں فرق کرسکیں، ہاتھ دئیے تاکہ کام کرسکیں اور دوسروں کے کام آسکیں،آنکھیں دیں تاکہ صحیح اور درست راستہ دیکھ سکیں،کان دئیے تاکہ اس (خدا)کے احکامات سن سکیں،پاؤں دئیے تاکہ چلکر رزق کی تلاش کر سکیں اور دین کی دعوت چہار دانگ عالم میں پھیلا سکیں،ان سب کے ساتھ ساتھ اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا کہ ہم اپنی زندگی ان کی زندگی کے مطابق ڈھال سکیں ۔۔۔خدا کا نظام ہے،اس نے کسی کو چھوٹا اور کسی کو بڑا بنایا،کسی کو بڑھاپا تک رکھا اور کسی کو جوانی ہی میں اٹھالیا،کسی نے جوانی کی رنگینی دیکھی اور کوئی بچپن ہی میں چل بسا،کسی نے والدین کی گود میں پرورش پائی اور کوئی یتیم ہو کر رہا،کو ئی مال ودولت کی ریل پیل میں جیتارہا اور کوئی مجبور ولاچار ہوکر دوسرے کے کندھے کا بوجھ بنارہا …… آخر ایسا کیوں؟یہ سب خداکی قدرت ہے،وہ جو بہتر سمجھتا ہے کرتا ہے،ان میں ہمارا اور آپ کا کوئی اختیار نہیں، کیونکہ وہ حکیم بھی ہے اور حاکم بھی، اس کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ہے، اور نہ ہی اس کے اوپر کسی کا اختیار چلتا ہے، اگر ہم اس (اللہ)کی قربت چاہتے ہیں تو اس کی بات مانیں،قریب ہو جائنگے،اس میں (ان شاء اللہ) ہماری دنیاوی وجسمانی کوئی شئی رکاوٹ نہیں بنے گی۔یوں سمجھئے کہ اس نے ہماری قسمت یہ کہکر بنائی کہ دیکھو اچھے برے دو الگ الگ راستے ہیں،اچھا کروگے اچھی قسمت والے ہوگے اور اچھے نتائج برآمد ہوں گے،غلط کروگے بُری قسمت والے ہوگے اور آج نہ تو کل برے نتائج ضرور ظاہر ہوں گے،وہ کسی پر ظلم وزیادتی نہیں کرتا،اس کا فرمان ہے ”من عمل صالحاً فلنفسہ ومن أساء فعلیھا وماربک بظلام للعبید“ جو شخص نیک عمل کرتاہے وہ اپنے نفع کیلئے اور جو شخص برا عمل کرتاہے اس کا وبال اس پر پڑے گا اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ (حم السجدہ:۴۶)
یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ خدانے ہمیں مجبور محض بناکر نہیں بھیجا بلکہ اچھابرا،صحیح غلط اور دوست ودشمن پہچاننے کی سوجھ بوجھ عطا کی،اس نے ہمیں تعلیم دی کہ ہاتھ پرہاتھ دھرے نہ بیٹھا جائے،محنت سے کام کیا جائے،اگر کوئی شخص وقتی پریشانی ومصیبت کو دیکھکر اپنی قسمت کا رونا روتا ہے اور سست وکاہل بنا رہتاہے،منھ لٹکا ئے پھرتاہے،وہ حقیقت میں اپنی زندگی کا خون کررہا ہے اور وہ خدا کے نزدیک مجرم ہے کیونکہ وہ اس کے احکام کی خلاف ورزی کررہاہے۔
انسان کو چاہئے کہ وہ صحیح راستہ پر گامزن رہے،حقیقت سے کبھی منھ نہ موڑے،حلال وپاکیزہ رزق کی تلاش میں کوشاں رہے اچھا انسان بننے کی ہمیشہ کو شش کرے اور اس کے لئے محنت ولگن سے کام لے،عام طورسے ایسا ہوتاہے کہ منزل بہت دور نظر آتی ہے لیکن چلنے والا ہمت نہیں ہارتا اور اپنے جہد مسلسل کے ذریعہ مقصدکو پا لیتا ہے …… لیکن اس کے برعکس کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، انسان صحیح راستے پر چل رہاہوتاہے، بہت زیادہ محنت ومشقت بھی کرتاہے لیکن وہ چاہتا کچھ ہے اور ہو کچھ اور جاتاہے،وہ بنناکچھ اور چاہتا ہے اور بن کچھ اور جاتاہے،اس صورت میں اسے صبر سے کام لینا چاہئے اور خدا پر توکل کر کے اسی میں اپنے لئے خیر سمجھنا چاہئے،واویلا مچانا اور شور وغوغہ کرنا بے سود ہے،یہ تو بزدلی وکم ہمتی کی بات ہے اس پر گناہ تو مل سکتا ہے لیکن ثواب ملنے کی کوئی امید نہیں۔
دولفظوں میں یوں سمجھئے کہ انسان ہمیشہ جہد مسلسل اور عملِ پیہم کے ذریعہ صحیح راستہ اپنا ئے رہے،عارضی نتائج سے بالکل نہ گھبرائے،اگر بظاہر اچھے نتائج نہیں معلوم ہورہے ہیں تو صبر سے کام لے،اللہ سے دعا کرے،اسباب وعلل پر دوبارہ غور کرے، ہمت نہ ہارے،آج نہ تو کل آپ کی محنت ضرور پھل لائے گی،ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی چاہت پوری نہ ہو ناہی آپ کیلئے بہتر ہو”عسی أن تکر ھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی أن تحبوا شیئا و ھو شرلکم،واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون“ اور یہ بات ممکن ہے کہ کسی امر کو گراں سمجھو اور وہ تمہارے حق میں خیر ہو اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی امر کو مرغوب سمجھو اور وہ تمہارے حق میں خرابی ہو اور اللہ تعالی جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔ (البقرہ:۲۱۶)
آپ کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، محنت و لگن سے کام کیجئے، ایمان داری پر قائم رہئے، خدا کا ہر حال میں شکر ادا کیجئے اور صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رہئے،آپ کا صحیح راستہ اختیار کرنا،آپ کی اچھی قسمت کی طرف اشارہ کرتاہے اور غلط راستہ اختیار کرنا آپ کی ناکامی کو بتا تاہے جسے آپ آج نہ تو کل بری قسمت کا نام دیں گے، لہٰذا
ملے گی خود بخود منزل قدم آگے بڑھاتاجا