ماہنامہ الفاران

ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۴

مرنے کے بعد کا مقام

جناب حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری المظاہری؛ استاذ:حدیث و فقہ، مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش

یہ دنیا اور اس کی جملہ نعمتیں فانی ہیں اسکے بعد آنے والی زندگی اور مقامات باقی ہیں ان میں سے ایک مقام جنت ہے،جنت وہ باغ جس کے متعلق انبیاء کی تعلیمات پرایمان لا کر نیک اور اچھے کام کرنے والوں کو خوشخبری دی گئی ہے۔ یہ ایسا حسین اور خوبصورت باغ ہے جس کی مثال کوئی نہیں ۔یہ مقام مرنے کے بعد قیامت کے دن ان لوگوں کو ملے گا جنہوں نے دنیا میں ایمان لا کر نیک اور اچھے کام کیے ہیں۔ قرآن مجید نے جنت کی یہ تعریف کی ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہوں گی، عالیشان عمارتیں ہوں گی،خدمت کے لیے حور و غلمان ملیں گے، انسان کی تمام جائز خواہشیں پوری ہوں گی، اور لوگ امن اور چین سے ابدی زندگی بسر کریں گے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ:’’جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جنھیں کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے ان کی تعریف سنی ہے نہ ہی ان کا تصور کسی آدمی کے دل میں پیدا ہوا ہے۔‘‘(مسلم: 2825) ارشاد باری تعالیٰ ہے ابدی جنتوں میں جتنی لوگ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباؤاجداد، ان کی بیویوں اور اولادوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے، جنت کے ہر دروازے سے فرشتے اہل جنت کے پاس آئیں گے اور کہیں گے تم پر سلامتی ہو یہ جنت تمھارے صبر کا نتیجہ ہے آخرت کا گھر تمھیں مبارک ہو‘‘۔(سورۂ رعدآیت نمبر: 23،24) ۔
حصول جنت کےلیے انسان کو کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے تو اسے ادا کرکے اس کامالک ضرور بنے۔ اور جہنم بہت ہی بری قیام گاہ،بہت ہی برا مقام اور بہت ہی برا ٹھکانہ ہےجسے اللہ تعالی نے کافروں،منافقوں،مشرکوں فاسقوں وفاجروں کے لئے تیار کر رکھا ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جنت اور جہنم دونوں کا بار بار تذکرہ فرمایا ہے۔اور جہنم کا تذکرہ نسبتا زیادہ کیا ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ انسانوں کی اکثریت ترغیب سے زیادہ ترہیب کو قبول کرتی ہے۔جہنم وہ ہولناک اور المناک عقوبت خانہ ہے جس کی ہولناکی کا اندازہ لگانا دنیوی زندگی میں محال ہے۔انسان كو اپنی اس عارضی اور دنیاوی زندگی میں جہنم سے آزادی کا سامان کرنا چاہیے اور جہنم کی طرف لے جانے والے راستوں سے اجنتاب کرنا چاہیے ۔
جنت کی تعمیر
رسول ﷺ نے فرمایاجنت کى ایک اینٹ سونے کى ایک چاندى کى ہے اور اس کا گارا مشک کا ہے اور اس کى کنکریاں موتى اور یاقوت کى ہیں اور اس کى مٹى زعفران ہے۔ ( ترمذى حدىث نمبر2534)جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا اندر باہر سے اور باہر اندر سے نظر آتا ہے۔( ابن حبان، حدىث نمبر509)
جنت کے درجات کے نام
جنت کے تمام درجات کے ناموں کی تصریح کتب میں موجود نہیں، البتہ بعض درجات کے نام نصوص کی روشنی میں علماءِ کرام نے لکھے ہیں، جیسے (1)دارُالْجَلال (2)دارُالْقَرار (3)دارُالسَّلام (4)جَنّۃُالعَدْن (5)جَنّۃُالْمَاوٰی (6)جَنّۃُالْخُلْد (7)جَنّۃُ الْفِرْدَوس (8)جَنّۃُالنِّعیم۔ (روح البیان،ج1،ص82) جنت میں مختلف اعمال والوں کے داخلے کے لیے مختلف دروازے ہوں گے،صحیح یہ ہے کہ تمام دروازوں کے نام کا احاطہ ممکن نہیں ، البتہ بعض اعمال والوں کے لیے بعض دروازوں کے نام اور ان کی تعیین روایات میں موجود ہے۔ایسی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے شراح نے ان دروازوں میں سے آٹھ دروازوں کا ذکر فرمایاہے، جیساکہ آٹھ کے عدد کا ذکر روایات میں بھی موجود ہے، ملاعلی قاریؒ کے بقول حدیث میں "في الجنة"کے الفاظ مذکور ہیں ، یعنی جنت میں یہ دروازے ہیں ،(ان کے علاوہ کی نفی نہیں )
جنت کے درجات کی تعداد
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جنت میں سو درجے ہیں ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ زمین وآسمان کے درمیان ہے اور فردوس (صورۃً اور معنًی) اپنے درجات (کی بلندی) کے اعتبار سے سب جنتوں سے اعلی وبرتر ہے اور اسی فردوس سے بہشت کی چاروں نہریں نکلتی ہیں اور فردوس ہی کے اوپر عرشِ الہٰی ہے، پس جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو (جو سب سے اعلی وبرتر ہے) (بخاری حدیث نمبر 2790)۔
اس روایت کی تشریح میں شارحِ مشکوۃ علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی لکھتے ہیں: "سو درجے" میں سو کا عدد تعیین وتحدید کے لیے نہیں، بلکہ "کثرت" کے اظہار کے لیے بھی ہوسکتا ہے، اس کی تائید حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس مرفوع روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو بیہقی نے نقل کیا ہے اور جس میں جنت کے درجات کی تعداد قرآن کی آیتوں کے برابر بیان کی گئی ہے، روایت کے الفاظ یہ ہیں: "عدد درج الجنة عدد آي القران فمن دخل الجنة من أهل القرآن؛ فلیس فوقه درجة." اور یہ بھی ممکن ہے کہ " سو " سے یہ خاص عدد ہی مراد ہو اور اس کے ذریعہ جنت کے کثیر درجات میں صرف ان سو درجوں کا بیان کرنا مقصود ہو ، جن میں سے ہر دو درجوں کا درمیانی فاصلہ مذکورہ فاصلہ سے کم یا زیادہ ہوگا۔دیلمی نے مسند فردوس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ جنت میں ایک درجہ وہ ہے جس تک اصحابِ ہموم کے علاوہ اور کوئی نہیں پہنچے گا۔
جنت کے برتن
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا: ”دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ساری چیزیں چاندی کی ہیں اور دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ان کی ساری چیزیں سونے کی ہیں۔ جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف اس کے چہرے پہ پڑی کبریائی کی چادر ہو گی، جو دیدار سے مانع ہو گی(بخاری حدیث نمبر 3243,مسلم حدیث نمبر 2838)
جنتی کی عمر
جنّت میں جو بھی جائے گاچاہے دنیا میں بچہ تھا یا بوڑھا ، سب تیس(30)سال کے جوان ہوں گے۔ (ترمذی حدیث نمبر 2571)
جنتی کی لمبائی
نبیﷺ نے فرمایا جو شخص جنّت میں جائے گا وہ آدم علیہ السَّلام کی صُورت پر ہوگا اور ساٹھ(60) ہاتھ لمبا ہوگا۔ (مسلم حدیث : 7163) ایک ہاتھ تقریباً آدھے گز کا ہوتا ہے تو یوں جنّت میں سب تیس (30) برس اور تیس گز کے معلوم ہوں گے
جنتی مرد کی قوت
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں مومن کو جنسی اختلاط کی اتنی اتنی قوت عطا کی جائے گی عرض کیا گیا یا رسول اللہ کیا ایک مرد اتنی عورتوں سے جنسی اختلاط ( مباشرت ) کی طاقت رکھے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( جنت میں ایک مرد کو ) سو مردوں کی قوت عطا کی جائے کی ( اور جب اس کو اتنی قوت حاصل ہوگی تو پھر وہ کئی کئی عورتوں سے جنسی اختلاط کی طاقت کیوں نہیں رکھے گا ۔ " (ترمذی حدیث نمبر 2536 )
جنت میں حور عین
حور عین سے مراد خوب روعورتیں ہیں قرآن کریم اور صحیح احادیث کے حوالہ سے ان کی چند صفات یہ ہیں: پاک وصاف ہوں گی، جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گی، خوب گوری چٹی اور بڑی بڑی آنکھوں والی ہوں گی، ہم عمر ہوں گی، نگاہیں نیچی رکھنے والی ہوں گی، اس سے پہلے انھیں کسی انسان یا جنات نے نہیں چھویا ہوگا، محفوظ موتیوں کے مانند ہوگی۔ (سورہٴ بقرہ، سورہٴ صافات اور سورہٴ واقعہ وغیرہ) ہرحور ایسی ہوگی کہ اگر وہ زمین کی طرف جھانک لے تو اس کے حسن کی وجہ سے پوری دنیا روشن ہوجائے اور اس کی خوشبو سے پوری دنیا معطر ہوجائے اور اس کی اوڑھنی دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (بخاری حدیث نمبر 6568) ۔ شدت حسن اور لطافت سے کئی کئی جوڑے پہننے کے باوجود ان کی پنڈلیوں کا گودا نظر آئے گا (ترمذی حدیث نمبر 2535)
مزیدحور کے بارے میں ہے کہ اس کے رخسار آئینہ سے زیادہ صاف وشفاف ہوں گے، جنتی کو اس کے چہرے میں اپنا چہرہ واضح طور پر نظر آئے گا اوراس کا معمولی ترین موتی ایسا ہوگا کہ اگر وہ دنیا میں آجائے تو مشرق ومغرب کو روشن کردے۔ ( مسند احمدج3ص75مشکوۃ ص500) ۔ ادنیٰ جنتی کو اسّی ہزار خادم اور بہتر بیویاں ملیں گی۔(ترمذی حدیث نمبر 2562)۔
جنت کا بازار
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک جنت میں بازار ہوگا جس میں ہر جمعہ کو اہلِ جنت آئیں گے، چنانچہ شمالی ہوا چلے گی اور ان کے چہروں اور کپڑوں سے گزرے گی جس سے ان کا حسن وجمال بڑھ جائے گا، جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹیں گے تو حسن وجمال میں بڑھ چکے ہوں گے، ان کے گھر والے ان سے کہیں گے کہ بخدا آپ لوگ تو ہمارے پاس سے جانے کے بعد مزید حسین وجمیل ہوگئے! تو اہلِ جنت اپنے اہلِ خانہ سے کہیں گے کہ آپ لوگ بھی ہمارے جانے کے بعد حسن وجمال میں بڑھ گئے ہیں۔ (مسلم حدیث نمبر 2833) ۔
جنتی آپس میں دنیا کے حالات کا تذکرہ کریں گے:
قرآن مجید میں ارشاد ہے:فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ۔قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ۔فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ۔كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوهُ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ۔(سورۂ طور ، آیت نمبر: 25_28)۔ترجمہ:یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے ) حالات پوچھیں گے۔ یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے، آخر کار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے بچا لیا۔ ہم پچھلی زندگی میں اُسی سے دعائیں مانگتے تھے، وہ واقعی بڑا ہی محسن اور رحیم ہے۔ جنتی دنیا کی تکالیف کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے:وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ۔(سورۂ فاطر،آیت نمبر:34) ترجمہ:اور وہ کہیں گے کہ تمام تر تعریف اللہ کی ہے، جس نے ہم سے ہر غم دور کردیا۔ بیشک ہمارا پروردگار بہت بخشنے والا، بڑا قدردان ہے۔
جنتی جنت کے میوے اور پھل دیکھ کر دنیا کے پھلوں کا ذکر کریں گے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے:كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا۔(سورۂ بقرہ،25 آیت نمبر:)ترجمہ: جب کبھی ان کو ان (باغات) میں سے کوئی پھل رزق کے طور پر دیا جائے گا تو وہ کہیں گے ” یہ تو وہی ہے، جو ہمیں پہلے بھی دیا گیا تھا “ اور انہیں وہ رزق ایسا ہی دیا جائے گا، جو دیکھنے میں ملتا جلتا ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیان فرما رہے تھے، ایک دیہاتی بھی مجلس میں حاضر تھا کہ اہل جنت میں سے ایک شخص اپنے رب سے کھیتی کرنے کی اجازت چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا، کیا اپنی موجودہ حالت پر تو راضی نہیں ہے؟ وہ کہے گا کیوں نہیں! لیکن میرا جی کھیتی کرنے کو چاہتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس نے بیج ڈالا۔ پلک جھپکنے میں وہ اگ بھی آیا۔ پک بھی گیا اور کاٹ بھی لیا گیا۔ اور اس کے دانے پہاڑوں کی طرح ہوئے۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! اسے رکھ لے، تجھے کوئی چیز آسودہ نہیں کر سکتی۔ یہ سن کر دیہاتی نے کہا کہ قسم اللہ کی وہ تو کوئی قریشی یا انصاری ہی ہوگا۔ کیونکہ یہی لوگ کھیتی کرنے والے ہیں۔ ہم تو کھیتی ہی نہیں کرتے۔ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی آ گئی۔(بخاری حدیث نمبر:2348)اس حدیث کی تشریح میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جنتی کےلئے دنیا کی امور میں سے جس چیز کی خواہش کریں گے، وہ سب ممکن ہوگا۔( فتح الباری:6/150، ط، دار الطیبہ،ریاض) ۔
دعا ہے رب قدیر سے ہم سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے اور سابقین اولین کے زمرے میں ہم سب کوجنۃالفردوس کامستحق ٹھہرائے ۔آمین

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی