ماہنامہ الفاران

ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۴

دکھڑے: نہ نفرتوں کی وجہ ملی،نہ محبتوں کا صلہ ملا!

جناب حضرت مولانا کبیر الدین صاحب فاران المظاہری؛ ناظم: مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ "الفاران"

”دکھڑے“
نہ نفرتوں کی وجہ ملی،نہ محبتوں کا صلہ ملا!
زندگی کے صحن میں کبھی دھوپ آتی ہے، تو کبھی چھاؤں بھی، کبھی مسرت و شادمانی، تو کبھی حزن و الم بھی، کبھی موسم خزاں، تو کبھی فصل بہار بھی۔
انسانی زندگی اُنھیں انگنت آلام ومصائب، اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃَ لِّاُولِی الْاَبْصَار(سورۃ آل عمران آیت ۰۹۱)، خوشی اور مسرت سے دوچار ہوتی رہتی ہے، مصیبت و کلفت، اکثر عبرت و موعظت کے لیے آتی ہے اور مسرت وشادمانی زندگی میں انعامات خداوندی کی قدردانی کے لیے بھی ہوتی ہے۔لَئِن شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَءِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(سورہ ابراہیم آیت ۷)
غم بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور یہ دلوں کو نرم کرتاہے،کیونکہ سخت دلوں میں اللہ کی محبت نہیں سماتی۔
در اصل حزن وملال سے نصیحت حاصل کرنا اور خوشیوں کے موقع سے اپنے کو یاد الٰہی اور منعم حقیقی کے شکر میں مستغرق کرنا یہ کمالِ انسانی کی پہچان ہے۔ ظفَر آدمی،اس کو نہ جانیے گا
وہ ہو کیساہی،صاحب فہم وذکا
جسے عیش میں،یاد خدانہ رہی
جسے طیش میں،خوف خدا نہ رہا
اس دنیا میں کوئی ایسانہیں جنہیں ان حالات سے دوچار نہ ہونا پڑ تاہو۔اگر دکھ نہ ہو تو خوشیاں اپنی قدریں ہی کھودیتی ہیں،غم اور خوشی ایک ہی صنف کی دو چیزیں ہیں۔امام طبرانیؒ نے اوسط میں احمد کی روایت نقل کی ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کا پختہ یقین یہ نہ ہوجائے کہ جو حالات اس کو پیش آئے ہیں وہ آنے ہی تھے اور جو حالات اس پر نہیں آئے ہیں وہ آہی نہیں سکتے تھے۔
وَإِن یَمْسَسْکَ اللّہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہُ إِلاَّ ہُوَ وَإِن یُرِدْکَ بِخَیْْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہِ یُصِیْبُ بِہِ مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْم (سورہ یونس آیت ۷۰۱)
در اصل انسان جن حالا ت سے بھی دوچار ہو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ جو کچھ بھی پیش ہو ا وہ اللہ کی طرف سے مقدر تھا معلوم نہیں کہ اس میں میرے لیے کیا چیز چھپی ہوئی ہو،تقدیر پر یقین انسان کی ایمانی حفاظت اور وسوسوں سے اطمینان کا ذریعہ ہے۔ایسے موقعوں پر جہاں انسان اپنے اعمال سے سبق حاصل کرتاہے اور اللہ سے قربت کو یقینی بناتاہے۔ وہیں انسان اور انسانی زندگی میں اپنے اور غیروں کا فرق بھی نکھر کر سامنے آجاتاہے۔ وَلَقَدْ أَرْسَلنَا إِلَی أُمَمٍ مِّن قَبْلِکَ فَأَخَذْنَاہُمْ بِالْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُونَ(سورہ انعام آیت ۲۴)ایسی ہی آزمائشوں اور تجربات سے انسانی زندگی دوچار رہتی ہے ایسی گھڑی میں یہ بات منقح اور ستھری ہوجاتی ہے کہ یہ دنیا کیا اور دنیوی آلام ومصائب کیااور ایک وہ سہارا جس پر عموما ً نظر نہیں ہوتی بالآخر وہی کار آمداوروہی دستگیری کے لیے سامنے کھڑانظر آتاہے۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُم مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِکُم مَّسَّتْہُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُواْ حَتَّی یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ مَعَہُ مَتَی نَصْرُ اللّہِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّہِ قَرِیْبٌ(سورہ بقرہ آیت ۴۱۲)
فطر ت ِانسانی ہے جب مشکل آتی ہے تو اپنوں کو تلاش کرتاہے لیکن جن کو وہ تلاش کرتاہے اکثروہ اپنے نہیں ہوتے۔جوساتھ ہو کر برُا سوچے اس سے برُا دشمن بھی نہیں ہوتا اس لیے اپنی آستین چیک کرتے رہا کریں کہ کہیں انجانے میں کوئی سانپ نہ پل رہاہو۔ گو ذراسی بات پر،برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا، کچھ لوگ پہچانے گئے
مشہور سپہ سالار صلاح الدین ایوبیؒ نے ایک موقع پر فرمایا میں ہزاروں، لاکھوں دشمنوں کا تنہا مقابلہ کر سکتاہوں لیکن قوم کے غداروں، آستین کے سانپوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ جب تک تمہارے اندر غدار موجود ہیں تم کبھی نہیں جیت سکتے فتح تمہار امقدر نہیں بن سکتی۔ خدا بچائے ایسے ہم نشینوں سے
چھپائے بیٹھے ہیں جو سانپ آستینوں میں
اکثر لوگ چائے کی پتی کی طرح ہوتے ہیں جس کو کھولتے پانی میں ڈالے بغیر پتا نہیں چلتا کہ اس کا اصلی رنگ کیا ہے مفکر کا قول ہے”آزمائش بہت سے نقاب الٹ دیتی ہے کہیں پارسائی کا، کہیں صبر کا، کہیں ہمدردی کا،توکہیں اخلاق کا کھوٹے کو کھرے سے الگ کرنے کا قدرت کا طریقہ یہی ہے“
دنیا میں دو قسم کے لوگوں میں اعلیٰ اخلاق ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی تربیت بہت اعلیٰ ہو یا وہ لوگ جن کا مقصدِ حیات بہت بلند ہو۔
لوگوں کی اَنا اور موقع پرستی بڑی خونخوار ہوتی ہے اس کا پتاکبھی وقت پر نہیں چلتا آپ جن کی قدر ومنزلت کو پروان چڑھانے کے لیے زبان و قلم کی سیاہی بکھیرتے ہیں جن کی عزت افزائی کے لیے ایران توران کی ہانکتے رہتے ہیں ااور مقولہ ”پیر نمی پرند،مریداں می پرانند“ اور جنہیں بلا استحقاق کے اپنا مقرب و محترم بنانے کی سعی کرتے ہیں اور جب کبھی وقت کروٹیں بدلتاہے تو اس کے پینترے یوں گویا ہوتے ہیں۔ جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خوں ہم نے دیا ...جب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں ایسے موقع پر لوگ اتنا کچھ سبق دے دیتے ہیں کہ پھر ساری زندگی کسی اورسے کچھ سیکھنے کی طلب ہی محسوس نہیں ہوتی ان میں کچھ ذی وجاہت بھی ہوتے ہیں،کچھ ذی حشم بھی، دوست کی شکل میں بھی اور کچھ خیر خواہ کے روپ میں بھی۔
سچ جانیے! ہمارے پاس یہی زندگی اور اکیلی دنیا ہے جسے دوسروں کے لیے غیر محفوظ کر کے ہم محفوظ نہیں رہ سکتے۔ سوچوں کے بدلنے سے، نکلتا ہے نیا دن... سورج کے چمکنے کو، سویرا نہیں کہتے عقلمند کا قول ہے زندگی میں جُوجھنا سیکھیں ٹوٹنا نہیں۔ حالا ت سے راضی رہنے کی ادا جب آجاتی ہے تو زندگی خود بخود پرسکون اور ہر لمحہ خوشگوار ہوجاتاہے۔ زندگی کی یہ واحد جنگ ہوتی ہے جسے ہم صرف تنہا جیت سکتے ہیں۔ ہمت جو ہو تو، چھین لو دست جفا سے تیغ... اہل ستم سے، رحم و کرم کا سوال کیا! بیتے حالات کولوگ اکثر طوالت کے خوف سے مرتب نہیں کرتے جن سے وہ گذرتے ہیں اوربہت اپنے اعمال کی بربادی کے خوف سے تذکرہ نہیں کرتے اور کچھ لوگ ہیں جو دوسروں کی نصیحت اور عبرت کے لیے قلم کا سہار الیتے ہیں۔ جو سچ کہوں تو برا لگے، جو دلیل دو ں تو ذلیل ہوں
یہ سماج جہل کی زد میں ہے،یہاں بات کرنا حرام ہے
(جاری)

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی