ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۴
شیخ الاسلام ؒ اور ان کاعشق رسول
جناب حضرت مفتی محمد منابظر نعمانی صاحب قاسمی، استاذ:جامعہ حسینیہ،مدنی نگر،کشن گنج،بہار
قائد حریت،بطل جلیل، مجاہد ِ آزادی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ (1879 ء تا 1957ء) کی ذات ِ گرامی کسی تعارف کا قطعاً محتاج نہیں، آپ کی پوری زندگی اتباع سنت کا ٓآئینہ دار تھی، آپ نے آزادی ئ ہند اور وطن عزیز کی استخلاص کے لئے آپ نے وہ کارہائے نمایاں انجام دی ہیں جو بلاشبہ تاریخ آزادی ئ ہند میں روشن باب کا درجہ رکھتی ہیں، اس کے لئے آپ سلاخوں میں بھی گئے، صعوبیتیں بھی برداشت کیں، قید وبند کی اذیتیں بھی سہیں، غیر تو غیر اپنے اور بیگانے سب کے طعنے بھی سنے مگر آپ عزیمت واستقلال کے ایسے کوہ ِ گراں تھے کہ پائے استقامت میں لغزش تو کیا کبھی تزلزلتک پیدا نہیں ہوا، بلکہ ہر طرح کے مصائب وآلام اور غموں کے کوہ ہائے گراں کو بھی یہ کہہ کر سہہ گئے کہ:
مصائب میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے ناکامیوں پر اشک برسانا نہیں آتا
۹۱/ شوال المکرم 1396ھ کو آپ کی ولادت ہوئی اورحضرت شیخ الہند ؒ کی خدمت میں رہ کر آپ نے علوم ومعار میں کمال پیدا کیا، پھر حضرت گنگوہی ؒ کی فیض صحبت میں سلوک ومعرفت کی راہیں طے کیں، پھر تقریباً چودہ سالوں تک مسجد بنوی ا میں درس حدیث دینے کا شرف حاصل کیا، اس کے بعد استخلاص وطن کے لئے اسارت ِ مالٹا میں ۳/ سال گذارنے کے بعد تقریباً ۱۳/ سالوں تک دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث رہے، اس دوران تین ہزار آٹھ سو چھبیس (3826) طلبہئ کرام نے آپ سے اکتساب ِ فیض کر کے اپنی علمی تشنگی بجھائی، اور ساتھ ہی آپ جمعیۃ علماء ہند کے صدر رہ کر ملک وملت کی سیاسی رہنمائی اور ملی قیادت کرنے کے علاوہ وعظ وارشاد اور بیعت وتلقین بھی کرتے رہے، چنانچہ 167/ حضرات نے آپ سے شرف بیعت واجازت اور خرقہ ئ خلافت پانے کے بعد اکناف عالم میں امت کی اصلاح وتزکیہ کا اہم ترین فریضہ انجام دیا اور دے رہے ہیں۔
یہ سب اتباع سنت وشریعت کا لازمی نتیجہ تھیں، پھر آپ نے اس میں وہ کمال حاصل کیا تھا جو دوسروں کے حصہ میں کم ہی آتی ہیں، چنانچہ ایک دفعہ آپ نے مواجہہ شریف پر حاضری دی اور سلام عقیدت پیش کیا تو ”وعلیکم السلام یا ولدی“ کے مبارک جواب سے آپ کو خود آقاء نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا۔
آپ کو ذات ِ رسا لت مآب ا سے بے پناہ عقیدت ومحبت تھی اور یہ عقیدت ومحبت صرف زبانی دعوے کی حد تک نہیں تھا؛بلکہ اس کا تعلق زبان سے کہیں زیادہمضبوط اور گہرا تعلق آپ کے عمل وایمان سے تھا، یہی وجہ تھی آپ ں کا تذکر ہ یا نام نامی بھی آتا تو آپ تڑپ جاتے، چنانچہ ایک مرتبہ یہ شعر ؎ہاں اے حبیب! رخ سے ہٹا دو نقاب کو
آپ کی نظرسے گذراتو آپ ایسے بے خود ہوئے کہ مواجہہ شریف پر تشریف لائے اور دیر تک گنگناتے رہے پھر دفعۃ ً آپ پراستغراق کی سی کیفیت طاری ہوئی اور زریات سے مشرف ہوئے۔
آپ کو مدینہ منورہ میں قیام کے دوران تقریباً ۴۱/ سالوں تک مسجد نبوی ا میں درس حدیث دینے کا شرف حاصل رہا، اس دوران آپ پر عموماً وجد کی سی کیفیت طاری ہوتی اور آپ اپنے مخصوص لب ولہجہ اور سوزِ عشق میں تڑپ کر قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا کہنے کے بجائے قَالَ ہٰذَا الرَّسُولُ ا یَا قَالَ صَاحِب ہٰذا لقََبْرِ الْاَعْظَمْ فرماتے۔
اللہ رب العزت نے حضرات اکابر علماء دیوبند کو عشق رسول امیں وہ منتہا ء عطا فرمایا ہے جو بلاشبہ ان ہی کے کمال ِ ایمان کا حصہ تھا، چنانچہ حضرت شیخ الاسلام ؒ قیام مدینہ کے دوران روضہ ئ اطہر کو اپنی دارھی سے صاف کرتے، بھلا اس عشق ومحبت کا بھی کوئی جواب ہوسکتا ہے؟
آپ نے مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ سے اسارت ِ مالٹا کے لئے روانہ ہوتے ہوئے عشق ومحبت بھرے نعت کے یہ اشعار پڑھے، جس سے ہجر دیار ِ حبیب کا غم اور آپ کے سوزِ عشق کا اندازہ بخوبی لگا یا جاسکتا ہے، آپ بھی ان اشعار کو پڑھئے اور اپنی سوزِ عشق کو ہوا دیجئے!سلامت رہے تیرے روضے کی جالی
چمکتا رہے تیرے روضہ کا منظر
ہمیں بھی عطاہو وہ شوقِ ابوذر
ہمیں بھی عطا ہو وہ جذبہ بلالی
مجھے ناکامیوں پر اشک برسانا نہیں آتا
یہ سب اتباع سنت وشریعت کا لازمی نتیجہ تھیں، پھر آپ نے اس میں وہ کمال حاصل کیا تھا جو دوسروں کے حصہ میں کم ہی آتی ہیں، چنانچہ ایک دفعہ آپ نے مواجہہ شریف پر حاضری دی اور سلام عقیدت پیش کیا تو ”وعلیکم السلام یا ولدی“ کے مبارک جواب سے آپ کو خود آقاء نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا۔
آپ کو ذات ِ رسا لت مآب ا سے بے پناہ عقیدت ومحبت تھی اور یہ عقیدت ومحبت صرف زبانی دعوے کی حد تک نہیں تھا؛بلکہ اس کا تعلق زبان سے کہیں زیادہمضبوط اور گہرا تعلق آپ کے عمل وایمان سے تھا، یہی وجہ تھی آپ ں کا تذکر ہ یا نام نامی بھی آتا تو آپ تڑپ جاتے، چنانچہ ایک مرتبہ یہ شعر ؎
آپ کو مدینہ منورہ میں قیام کے دوران تقریباً ۴۱/ سالوں تک مسجد نبوی ا میں درس حدیث دینے کا شرف حاصل رہا، اس دوران آپ پر عموماً وجد کی سی کیفیت طاری ہوتی اور آپ اپنے مخصوص لب ولہجہ اور سوزِ عشق میں تڑپ کر قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا کہنے کے بجائے قَالَ ہٰذَا الرَّسُولُ ا یَا قَالَ صَاحِب ہٰذا لقََبْرِ الْاَعْظَمْ فرماتے۔
اللہ رب العزت نے حضرات اکابر علماء دیوبند کو عشق رسول امیں وہ منتہا ء عطا فرمایا ہے جو بلاشبہ ان ہی کے کمال ِ ایمان کا حصہ تھا، چنانچہ حضرت شیخ الاسلام ؒ قیام مدینہ کے دوران روضہ ئ اطہر کو اپنی دارھی سے صاف کرتے، بھلا اس عشق ومحبت کا بھی کوئی جواب ہوسکتا ہے؟
آپ نے مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ سے اسارت ِ مالٹا کے لئے روانہ ہوتے ہوئے عشق ومحبت بھرے نعت کے یہ اشعار پڑھے، جس سے ہجر دیار ِ حبیب کا غم اور آپ کے سوزِ عشق کا اندازہ بخوبی لگا یا جاسکتا ہے، آپ بھی ان اشعار کو پڑھئے اور اپنی سوزِ عشق کو ہوا دیجئے!
چمکتا رہے تیرے روضہ کا منظر
ہمیں بھی عطاہو وہ شوقِ ابوذر
ہمیں بھی عطا ہو وہ جذبہ بلالی