ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۴
علامات قیامت
جناب حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری المظاہری؛ استاذ:حدیث و فقہ، مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش
قیامت کب وقوع پذیر ہوگی اس کاعلم تو اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں لیکن قیامت آنے سے پہلے پے درپے کچھ خاص واقعات دنیا میں رونما ہونگے جن کی نشاندہی حضور ﷺ نے کی ہے بس وہی علامات ہونگی جن کے بعد قیامت آن پہچے گی قرآن واحادیث کی روشنی میں ان کو یکجا کرنے کی کوشش ہے تاکہ نفع آسان ہو
قیامت کی چھ نشانیاں
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا (علماء کے ختم ہونے کی وجہ سے یا حکام کے یہاں ان کی قدر ومنزلت کم ہونے کی وجہ سے) اور جہالت کی کثرت ہوگی (احمقوں کا غلبہ ہونے کی وجہ سے جہالت عام ہوجائے گی) اور زنا بہت زیادہ ہو جائے گا (حیاء کے اٹھ جانے یا ختم ہوجانے کی وجہ سے) شراب نوشی عام ہوگی (جس سے بلاد وعباد میں فساد پھیل جائے گا) مردوں کی تعداد کم عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے گی یہاں تک کہ پچاس پچاس عورتوں کا ایک ایک ہی نگراں ہوگا (جنسی امور ضروریہ مردوں کی قلت کے باعث انجام نہ پاسکینگے بلکہ مردوں کا وجود کثرت غم ووہم اورحصولِ دینار ودرہم بنارہیگا ) (بخاری حدیث نمبر 80مسلم حدیث نمبر 2671ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ، دارمی مسند احمد)
جھوٹ کی کثرت
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے لوگ ہونگے (جو جھوٹی باتیں بنائیں گے یا نبوت کے دعوے دار ہونگے یا بدعات نکالنے والے جواپنی خواہشات فاسدہ اعتقادات باطلہ کو صحابہ کرام اور صالحین کی طرف منسوب کریں گے حالانکہ وہ جھوٹے ہونگے) لہذا ان سے بچے رہنا (مسلم حدیث نمبر 1454ابن ماجہ حدیث نمبر 3952مسنداحمدج5ص86)
امانت و حکومت کا نااہلوں کے سپرد ہونا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک دیہاتی نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ قیامت کب آئے گی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو(اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں خیانت ہونے لگے تو سمجھو کہ قیامت آن پہچی) اس نے پوچھا اس کا ضائع ہونا کس طرح ہے آپﷺنےفرمایاجب معاملہ نااہل کے سپرد کر دیا جائے قیامت کا انتظار کرو(یعنی ایسے لوگوں کو بادشاہ ونظماء بنادیا جائے جواس کے حقدار نہیں جیسے عورتیں ، لڑکے، جاہل، فاسق، بخیل، نامرد وغیرہ تمام مناصب و عہدوں کواسی پرقیاس کرلیا جائے جیسے تدریس، فتوی، امامت، خطابت وغیرہ جب دین و دنیا نااہل لوگوں کے ہاتھ میں ہونگے تو معاملات کی درستی ختم ہوجائے گی) (بخاری حدیث نمبر 59) سرزمین عرب کا چراگاہوں میں تبدیل ہونا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک مال کی کثرت نہ ہواور وہ بہنے نہ لگ جائے یہاں تک کہ آدمی اپنے مال کی زکوۃ لیکر نکلے گا تو اس سے کوئی زکوٰۃ قبول کرنے والا نہ ہوگا (مال اپنی کثرت کی وجہ سے نالے کے پانی کی طرح بہے گا تاکہ لوگوں کا کثرت سے اس کی طرف میلان ہو) اور عرب کی سرزمین چراگاہوں اور نہروں میں بدل جائے گی (سرزمین عرب میں زمین کی کافی آبادکاری ہوگی تو چراگاہوں اور پانی کی بھی کثرت ہوجائے گی )(مسلم ج2ص701) اور ایک روایت میں ہے کہ مکانات مقام اھاب یایھاب تک پہنچ جائیں گے (اھاب یایھاب مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر دو جگہیں ہیں اور مراد یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے گرد ونواح میں آبادی کی کثرت ہوجائے گی ) (بخاری حدیث نمبر 7120) مال کی تقسیم کرنے والا خلیفہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانے میں ایک خلیفہ ہوگا جومال کو تقسیم کریگا اور اس کو شمار نہیں کریگا اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ میری امت کے آخری دور میں ایک ایسا خلیفہ ہوگا جو مال کو دونوں ہاتھ بھر بھر کر دیگا اور اس کو شمار نہیں کریگا (مسلم حدیث نمبر 2914) دریائےفرات سے خزانےکاظہور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ فرات سونے کا خزانہ ظاہر کردے (فرات کوفہ کے قریب بہنے والا ایک مشہور دریا ہے اس حدیث میں اس کے پانی کے خشک ہونے اور خزانے کے ظاہر ہونے کی پیشین گوئی ہے) جو اس وقت تم میں سے موجود ہوتو وہ اس خزانہ میں ذرہ برابر بھی نہ لے (کیونکہ اس سے مال لینا تنازع اور باہمی مقاتل کاباعث ہوگا جیسا کہ اگلی روایت سے معلوم ہوگا) (بخاری حدیث نمبر 7119مسلم حدیث نمبر 2894ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دریائے فرات کی سونے کے پہاڑ والی جگہ نہ کھل جائے لوگ اس کی خاطر آپس میں لڑینگے جن کے ہر سو میں سے ننانوے قتل ہوجائیں گے اور ہر آدمی یہی سوچے گا کہ کاش بچنے والا شخص میں ہی ہوں (بخاری، مسلم، ابوداؤد حدیث نمبر 4313، ترمذی حدیث نمبر 2569، ابنِ ماجہ حدیث نمبر 4046 زمین کا چاندی سونا اگلنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ زمین اپنے جگر کے ٹکڑے سونے اور چاندی کی شکل میں پھینک دےگی (زمین سے سونا چاندی لوہا تانبا تیل پیٹرول وافر مقدار میں بہہ پڑے گا) قاتل آکر کہیگا کہ اس کی خاطر میں نے قتل کیا رشتہ داری توڑنے والا کہیگا کہ اس کی خاطر میں نے رشتہ داری توڑی تھی چور آکر کہیگا کہ اس کی خاطر میرا ہاتھ کاٹا گیا پھر لوگ اس سب کو چھوڑ دینگے اور اس میں سے کچھ بھی نہ لینگے (مجرم خود کہہ اٹھے گا کہ مال کی خواہش ومحبت میں میں نے یہ جرائم کیے اور مشقتیں برداشت کیں آج یہ کچھ کام نہیں آرہا اور نہ ہمیں اس کی حاجت ہے) (مسلم حدیث نمبر 1013، ترمذی حدیث نمبر 2208) پریشانی سے قبر پر لوٹ پوٹ ہونا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اس وقت تک دنیا ختم نہیں ہوگی جب تک آدمی کا گزر قبر کے پاس سے نہ ہوکہ وہ قبر کی مٹی پر لوٹ پوٹتے ہوئے کہیگا کاش میں اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا یہ دین کی خاطر نہیں بلکہ مصیبت کی وجہ سے کہیگا (مسلم حدیث نمبر 2231,ابن ماجہ حدیث نمبر 4037) سرزمین حجاز سے آگ کاظہور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت نہیں آئے گی جب تک سرزمین حجاز سے ایک ایسی آگ نہ نکلے جس سے بصری کے اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی (بخاری حدیث نمبر 7118، مسلم حدیث نمبر 2902) (بصری یہ ملک شام کا ایک شہر ہے جو دمشق سے پچاس میل کے فاصلے پر ہے حجاز جزیرہ عرب کاوہ صوبہ ہے جہاں مکہ ومدینہ واقع ہے اس جگہ سے نکلنے والی آگ کے متعلق روایات حدتواتر کوپہنچ چکی ہیں اس کا بڑا حصہ مدینہ منورہ میں ظاہر ہوا مگر اللہ تعالیٰ نےنبی ﷺ کی برکت سے اس شہر کے لوگوں کو آگ کی آفت سے محفوظ ومامون کریا یہ آگ بروز جمعہ 3جمادی الاخریٰ سنہ650ھ کوظاہر ہوئی اور باون دن تک مسلسل رہی ستائیس رجب بروز اتوار کو حجاز سے ختم ہوئی اس کی آمد مشرق کی جانب سے ہوئی اس آگ کاپھیلاؤ ایک ایسے بڑے شہر کے برابر تھا جس میں قلع یابرج ہوں اور اس میں اس طرح شور تھا کہ گویا آدمیوں کی ایک جماعت اسے کھینچ رہی ہو وہ آگ جس پہاڑ پر پہنچتی اسے شیشے کی طرح پگھلا کر راکھ بنادیتی اس میں بجلی کی طرح گرج سمندر کی طرح جوش تھا اس طرح محسوس ہوتا تھا کہ اس میں سے سرخ اور نیلی ندیاں بہہ کر نکل رہی ہیں اس آگ کی عجیب خاصیت تھی کہ پتھروں کو جلاڈالتی درختوں پر کوئی اثر نہ ڈالتی جنگل میں ایک پتھر تھا جس کاآدھا حصہ حرم مدینہ میں تھا اور آدھا حرم مدینہ سے باہر تھا جتنا باہر تھا اسے آگ نے جلا ڈالا اور دوسرے تک پہنچ کر بجھ گئی مدینہ والوں نے اہل حقوق کے حقوق ادا کردئیے اور بے شمار غلام آزاد کیے شب جمعہ میں اہلِ مدینہ مرد وزن حجرہ نبی ﷺ کے قریب ہوکر خوب روئے تو اللہ نے صبح تک ہی اس آگ کارخ شمال کی طرف پھیرکر مدینہ کومحفوظ فرمادیا اس سال اطراف عالم میں بہت سے حوادث ووقائع پیش آئے اور اس سے دوسرے سال کے دوران بغداد اور اطراف عالم میں منگولوں نے لڑائی کی وہ آگ بھڑکائی جس کا بیان مستقل کتب میں موجود ہے مغرب کی طرف دھکیلنے والی آگ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کرے گی (آخر زمانے میں قیامت کے بالکل قریب مشرق سے ایک آگ ظاہر ہوگی جو سب کو مغرب کی طرف دھکیل دے گی) (بخاری باب خروج النار و احمد فی المسند) زمانے کا سمٹنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا اس وقت تک قیامت نہ آئے گی جب تک زمانہ جلد از جلد نہ گزرنے لگے سال مہینے کی طرح مہینہ ہفتے کی طرح اور ہفتہ دن کی طرح ہوگااور دن ایک گھڑی کی طرح ہوگا اور گھڑی آگ کی ایک چنگاری کی طرح ہوگی (ترمذی حدیث نمبر 2332) (وقت کی برکت ختم ہو جائے گی اور وقت کے بہت سے فوائد سے محرومی ہوجاۓ گی لوگوں کی فکر و مشغولیت کثیر اور قلوب کے فاسد ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے بےشمارفتنےشدائدومصائب کے باعث معلوم نہ رہے گا کہ دن کب گزرا اور رات کس وقت بیت گئی) خلافت کا ارض مقدس میں اترنا عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غنیمت حاصل کرنے کے لئے پیدل روانہ فرمایا ہم واپس لوٹے ہم نے کچھ بھی غنیمت نہ پائی آپﷺنےہمارےچہروں پر مشقت کے آثار پائے توآپ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور اس طرح دعا فرمائی اے اللہ نہ تو ان کو میرے سپرد کر کہ میں ان کے سلسلے میں کمزور رہ جاؤں اور نہ ان کو ان کی جانوں کے حوالے کر کہ یہ اس سے عاجز آ جائیں اور نہ ہی ان کو لوگوں کے سپرد کر کہ لوگ دوسروں کو ان پر ترجیح دیں پھرآپﷺنےاپنادست اقدس میرے سرپر رکھا اور فرمایا اے ابن حوالہ جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدسہ میں اتر آئی (یعنی مسلمانوں کا دارالخلافہ مدینہ منورہ سے منتقل ہوکر ملک شام پہنچ گیا ہے) تو سمجھ لینا کہ زلزلے اور بڑے بڑے حادثے (جن کا تعلق قیامت سے ہے) قریب آپہنچے ہیں اور اس دن قیامت لوگوں سے اتنی قریب ہوگی جنتا میرا ہاتھ تم سے قریب ہے (ابوداؤد حدیث نمبر 2535)
مذکورہ بالا باتیں بالکل آخر زمانے میں واقع ہونگی جب بیت المقدس فتح ہو جائے گا اور اس پر مسلمانوں کا مکمل تسلط ہو جائے گا) قیامت کی پندرہ علامات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ جب مال غنیمت کو دولت قرار دیا جانے لگے جب امانت (کےمال) کومال غنیمت شمار کیا جانے لگے جب زکوۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سیکھا جانے لگے، جب مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے، جب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے، جب دوستوں کو قریب اور باپ کو دور کیا جانے لگے، جب مسجد میں شور وغل مچایا جانے لگے، جب قوم وجماعت کی سرداری اس قوم کے فاسق لوگ کرنے لگیں، جب آدمی کی تعظیم اس کے شر اور فتنے کے ڈر سے کی جانے لگے جب لوگوں میں گانے والیوں اور سازوباجوں کادور دورہ ہو جائے، جب شرابیں پی جانے لگیں جب اس امت کے بعد والے پہلے گزر جانے والوں پر لعنت کرنے لگیں تو اس وقت ان چیزوں کے جلد ہی ظاہر ہونے کا انتظار کرو سرخ یعنی تیز وتنداورشدید ترین طوفانی آندھی کا زلزلے کا زمین میں دھنس جانے کا شکل و صورتوں کے تبدیل ہونے کا پتھروں کے برسنے کا اور دوسری نشانیاں ظاہر ہونگی جو کہ اس طرح پے درپے ہونگی جس طرح پروئی ہوئی لڑی جس کے ایک دھاگے کو کاٹ دیا جائے تو اس سے پے درپے دانے گرجاتے ہیں۔ والسلام
قیامت کی چھ نشانیاں
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا (علماء کے ختم ہونے کی وجہ سے یا حکام کے یہاں ان کی قدر ومنزلت کم ہونے کی وجہ سے) اور جہالت کی کثرت ہوگی (احمقوں کا غلبہ ہونے کی وجہ سے جہالت عام ہوجائے گی) اور زنا بہت زیادہ ہو جائے گا (حیاء کے اٹھ جانے یا ختم ہوجانے کی وجہ سے) شراب نوشی عام ہوگی (جس سے بلاد وعباد میں فساد پھیل جائے گا) مردوں کی تعداد کم عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے گی یہاں تک کہ پچاس پچاس عورتوں کا ایک ایک ہی نگراں ہوگا (جنسی امور ضروریہ مردوں کی قلت کے باعث انجام نہ پاسکینگے بلکہ مردوں کا وجود کثرت غم ووہم اورحصولِ دینار ودرہم بنارہیگا ) (بخاری حدیث نمبر 80مسلم حدیث نمبر 2671ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ، دارمی مسند احمد)
جھوٹ کی کثرت
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے لوگ ہونگے (جو جھوٹی باتیں بنائیں گے یا نبوت کے دعوے دار ہونگے یا بدعات نکالنے والے جواپنی خواہشات فاسدہ اعتقادات باطلہ کو صحابہ کرام اور صالحین کی طرف منسوب کریں گے حالانکہ وہ جھوٹے ہونگے) لہذا ان سے بچے رہنا (مسلم حدیث نمبر 1454ابن ماجہ حدیث نمبر 3952مسنداحمدج5ص86)
امانت و حکومت کا نااہلوں کے سپرد ہونا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک دیہاتی نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ قیامت کب آئے گی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو(اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں خیانت ہونے لگے تو سمجھو کہ قیامت آن پہچی) اس نے پوچھا اس کا ضائع ہونا کس طرح ہے آپﷺنےفرمایاجب معاملہ نااہل کے سپرد کر دیا جائے قیامت کا انتظار کرو(یعنی ایسے لوگوں کو بادشاہ ونظماء بنادیا جائے جواس کے حقدار نہیں جیسے عورتیں ، لڑکے، جاہل، فاسق، بخیل، نامرد وغیرہ تمام مناصب و عہدوں کواسی پرقیاس کرلیا جائے جیسے تدریس، فتوی، امامت، خطابت وغیرہ جب دین و دنیا نااہل لوگوں کے ہاتھ میں ہونگے تو معاملات کی درستی ختم ہوجائے گی) (بخاری حدیث نمبر 59) سرزمین عرب کا چراگاہوں میں تبدیل ہونا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک مال کی کثرت نہ ہواور وہ بہنے نہ لگ جائے یہاں تک کہ آدمی اپنے مال کی زکوۃ لیکر نکلے گا تو اس سے کوئی زکوٰۃ قبول کرنے والا نہ ہوگا (مال اپنی کثرت کی وجہ سے نالے کے پانی کی طرح بہے گا تاکہ لوگوں کا کثرت سے اس کی طرف میلان ہو) اور عرب کی سرزمین چراگاہوں اور نہروں میں بدل جائے گی (سرزمین عرب میں زمین کی کافی آبادکاری ہوگی تو چراگاہوں اور پانی کی بھی کثرت ہوجائے گی )(مسلم ج2ص701) اور ایک روایت میں ہے کہ مکانات مقام اھاب یایھاب تک پہنچ جائیں گے (اھاب یایھاب مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر دو جگہیں ہیں اور مراد یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے گرد ونواح میں آبادی کی کثرت ہوجائے گی ) (بخاری حدیث نمبر 7120) مال کی تقسیم کرنے والا خلیفہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانے میں ایک خلیفہ ہوگا جومال کو تقسیم کریگا اور اس کو شمار نہیں کریگا اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ میری امت کے آخری دور میں ایک ایسا خلیفہ ہوگا جو مال کو دونوں ہاتھ بھر بھر کر دیگا اور اس کو شمار نہیں کریگا (مسلم حدیث نمبر 2914) دریائےفرات سے خزانےکاظہور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ فرات سونے کا خزانہ ظاہر کردے (فرات کوفہ کے قریب بہنے والا ایک مشہور دریا ہے اس حدیث میں اس کے پانی کے خشک ہونے اور خزانے کے ظاہر ہونے کی پیشین گوئی ہے) جو اس وقت تم میں سے موجود ہوتو وہ اس خزانہ میں ذرہ برابر بھی نہ لے (کیونکہ اس سے مال لینا تنازع اور باہمی مقاتل کاباعث ہوگا جیسا کہ اگلی روایت سے معلوم ہوگا) (بخاری حدیث نمبر 7119مسلم حدیث نمبر 2894ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دریائے فرات کی سونے کے پہاڑ والی جگہ نہ کھل جائے لوگ اس کی خاطر آپس میں لڑینگے جن کے ہر سو میں سے ننانوے قتل ہوجائیں گے اور ہر آدمی یہی سوچے گا کہ کاش بچنے والا شخص میں ہی ہوں (بخاری، مسلم، ابوداؤد حدیث نمبر 4313، ترمذی حدیث نمبر 2569، ابنِ ماجہ حدیث نمبر 4046 زمین کا چاندی سونا اگلنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ زمین اپنے جگر کے ٹکڑے سونے اور چاندی کی شکل میں پھینک دےگی (زمین سے سونا چاندی لوہا تانبا تیل پیٹرول وافر مقدار میں بہہ پڑے گا) قاتل آکر کہیگا کہ اس کی خاطر میں نے قتل کیا رشتہ داری توڑنے والا کہیگا کہ اس کی خاطر میں نے رشتہ داری توڑی تھی چور آکر کہیگا کہ اس کی خاطر میرا ہاتھ کاٹا گیا پھر لوگ اس سب کو چھوڑ دینگے اور اس میں سے کچھ بھی نہ لینگے (مجرم خود کہہ اٹھے گا کہ مال کی خواہش ومحبت میں میں نے یہ جرائم کیے اور مشقتیں برداشت کیں آج یہ کچھ کام نہیں آرہا اور نہ ہمیں اس کی حاجت ہے) (مسلم حدیث نمبر 1013، ترمذی حدیث نمبر 2208) پریشانی سے قبر پر لوٹ پوٹ ہونا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اس وقت تک دنیا ختم نہیں ہوگی جب تک آدمی کا گزر قبر کے پاس سے نہ ہوکہ وہ قبر کی مٹی پر لوٹ پوٹتے ہوئے کہیگا کاش میں اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا یہ دین کی خاطر نہیں بلکہ مصیبت کی وجہ سے کہیگا (مسلم حدیث نمبر 2231,ابن ماجہ حدیث نمبر 4037) سرزمین حجاز سے آگ کاظہور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت نہیں آئے گی جب تک سرزمین حجاز سے ایک ایسی آگ نہ نکلے جس سے بصری کے اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی (بخاری حدیث نمبر 7118، مسلم حدیث نمبر 2902) (بصری یہ ملک شام کا ایک شہر ہے جو دمشق سے پچاس میل کے فاصلے پر ہے حجاز جزیرہ عرب کاوہ صوبہ ہے جہاں مکہ ومدینہ واقع ہے اس جگہ سے نکلنے والی آگ کے متعلق روایات حدتواتر کوپہنچ چکی ہیں اس کا بڑا حصہ مدینہ منورہ میں ظاہر ہوا مگر اللہ تعالیٰ نےنبی ﷺ کی برکت سے اس شہر کے لوگوں کو آگ کی آفت سے محفوظ ومامون کریا یہ آگ بروز جمعہ 3جمادی الاخریٰ سنہ650ھ کوظاہر ہوئی اور باون دن تک مسلسل رہی ستائیس رجب بروز اتوار کو حجاز سے ختم ہوئی اس کی آمد مشرق کی جانب سے ہوئی اس آگ کاپھیلاؤ ایک ایسے بڑے شہر کے برابر تھا جس میں قلع یابرج ہوں اور اس میں اس طرح شور تھا کہ گویا آدمیوں کی ایک جماعت اسے کھینچ رہی ہو وہ آگ جس پہاڑ پر پہنچتی اسے شیشے کی طرح پگھلا کر راکھ بنادیتی اس میں بجلی کی طرح گرج سمندر کی طرح جوش تھا اس طرح محسوس ہوتا تھا کہ اس میں سے سرخ اور نیلی ندیاں بہہ کر نکل رہی ہیں اس آگ کی عجیب خاصیت تھی کہ پتھروں کو جلاڈالتی درختوں پر کوئی اثر نہ ڈالتی جنگل میں ایک پتھر تھا جس کاآدھا حصہ حرم مدینہ میں تھا اور آدھا حرم مدینہ سے باہر تھا جتنا باہر تھا اسے آگ نے جلا ڈالا اور دوسرے تک پہنچ کر بجھ گئی مدینہ والوں نے اہل حقوق کے حقوق ادا کردئیے اور بے شمار غلام آزاد کیے شب جمعہ میں اہلِ مدینہ مرد وزن حجرہ نبی ﷺ کے قریب ہوکر خوب روئے تو اللہ نے صبح تک ہی اس آگ کارخ شمال کی طرف پھیرکر مدینہ کومحفوظ فرمادیا اس سال اطراف عالم میں بہت سے حوادث ووقائع پیش آئے اور اس سے دوسرے سال کے دوران بغداد اور اطراف عالم میں منگولوں نے لڑائی کی وہ آگ بھڑکائی جس کا بیان مستقل کتب میں موجود ہے مغرب کی طرف دھکیلنے والی آگ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کرے گی (آخر زمانے میں قیامت کے بالکل قریب مشرق سے ایک آگ ظاہر ہوگی جو سب کو مغرب کی طرف دھکیل دے گی) (بخاری باب خروج النار و احمد فی المسند) زمانے کا سمٹنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا اس وقت تک قیامت نہ آئے گی جب تک زمانہ جلد از جلد نہ گزرنے لگے سال مہینے کی طرح مہینہ ہفتے کی طرح اور ہفتہ دن کی طرح ہوگااور دن ایک گھڑی کی طرح ہوگا اور گھڑی آگ کی ایک چنگاری کی طرح ہوگی (ترمذی حدیث نمبر 2332) (وقت کی برکت ختم ہو جائے گی اور وقت کے بہت سے فوائد سے محرومی ہوجاۓ گی لوگوں کی فکر و مشغولیت کثیر اور قلوب کے فاسد ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے بےشمارفتنےشدائدومصائب کے باعث معلوم نہ رہے گا کہ دن کب گزرا اور رات کس وقت بیت گئی) خلافت کا ارض مقدس میں اترنا عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غنیمت حاصل کرنے کے لئے پیدل روانہ فرمایا ہم واپس لوٹے ہم نے کچھ بھی غنیمت نہ پائی آپﷺنےہمارےچہروں پر مشقت کے آثار پائے توآپ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور اس طرح دعا فرمائی اے اللہ نہ تو ان کو میرے سپرد کر کہ میں ان کے سلسلے میں کمزور رہ جاؤں اور نہ ان کو ان کی جانوں کے حوالے کر کہ یہ اس سے عاجز آ جائیں اور نہ ہی ان کو لوگوں کے سپرد کر کہ لوگ دوسروں کو ان پر ترجیح دیں پھرآپﷺنےاپنادست اقدس میرے سرپر رکھا اور فرمایا اے ابن حوالہ جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدسہ میں اتر آئی (یعنی مسلمانوں کا دارالخلافہ مدینہ منورہ سے منتقل ہوکر ملک شام پہنچ گیا ہے) تو سمجھ لینا کہ زلزلے اور بڑے بڑے حادثے (جن کا تعلق قیامت سے ہے) قریب آپہنچے ہیں اور اس دن قیامت لوگوں سے اتنی قریب ہوگی جنتا میرا ہاتھ تم سے قریب ہے (ابوداؤد حدیث نمبر 2535)
مذکورہ بالا باتیں بالکل آخر زمانے میں واقع ہونگی جب بیت المقدس فتح ہو جائے گا اور اس پر مسلمانوں کا مکمل تسلط ہو جائے گا) قیامت کی پندرہ علامات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ جب مال غنیمت کو دولت قرار دیا جانے لگے جب امانت (کےمال) کومال غنیمت شمار کیا جانے لگے جب زکوۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سیکھا جانے لگے، جب مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے، جب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے، جب دوستوں کو قریب اور باپ کو دور کیا جانے لگے، جب مسجد میں شور وغل مچایا جانے لگے، جب قوم وجماعت کی سرداری اس قوم کے فاسق لوگ کرنے لگیں، جب آدمی کی تعظیم اس کے شر اور فتنے کے ڈر سے کی جانے لگے جب لوگوں میں گانے والیوں اور سازوباجوں کادور دورہ ہو جائے، جب شرابیں پی جانے لگیں جب اس امت کے بعد والے پہلے گزر جانے والوں پر لعنت کرنے لگیں تو اس وقت ان چیزوں کے جلد ہی ظاہر ہونے کا انتظار کرو سرخ یعنی تیز وتنداورشدید ترین طوفانی آندھی کا زلزلے کا زمین میں دھنس جانے کا شکل و صورتوں کے تبدیل ہونے کا پتھروں کے برسنے کا اور دوسری نشانیاں ظاہر ہونگی جو کہ اس طرح پے درپے ہونگی جس طرح پروئی ہوئی لڑی جس کے ایک دھاگے کو کاٹ دیا جائے تو اس سے پے درپے دانے گرجاتے ہیں۔ والسلام