ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۴
معاشرے کی بگاڑ اور اس کا سدباب
جناب مولانا منصور احمد صاحب حقانی؛ صحافی: روزنامہ سیاسی تقدیر دہلی، لکھنؤ، کولکاتہ اور ممبئی ایڈیشن
ہر سال کی طرح امسال بھی پورے ملک بالخصوص علاقۂ سیمانچل میں جلسوں کا گویا ایک موسم شروع ہوگیا ہے اور ہر جگہ آپ کو اصلاح معاشرہ کے عنوان سے بے شمار اشتہارات دیکھنے کو مل جائیں گے؛ مگر جہاں ایک طرف ہر سطح پر تمام دینی جماعتیں اور مدارس و مساجد کے ذمہ داران سرگرم ہیں، تو وہیں دوسری جانب اصلاح معاشرہ کے کام، مسلم معاشرے میں روایتی بنتے جارہے ہیں؛ کیوں کہ معاشرے کا اصلاحی کام صرف لچھے دار تقریروں اور جلسوں تک ہی محدود ہوتا جارہا ہے؛ حالاں کہ کسی زمانے میں ان تقریروں اور جلسوں نے بھی معاشرے کی اصلاح کے لئے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا؛ لیکن اب یہ جلسے صرف چندہ جمع کرنے کا ایک خاص طریقہ ہے؛ اس لئے موجودہ دور میں ان سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ حضرات علمائے کرام اور علاقے کی سرکردہ شخصیات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کے عمل کو سنجیدہ غور و فکر اور ایک لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ اصلاح معاشرہ کے عنوانات سے منعقدہ اجلاس کی اصلاح وقت کی شدید ترین ضرورت ہے، ورنہ یہ پیشہ ورانہ اجلاس ہم سب کے لئے قیامت میں پکڑ کا ذریعہ بن جائیں گے؛ لہٰذا اس رسمی اجلاس پر جتنا بھی جلدی ہوسکے قدغن لگایا جائے، اگر اصلاح معاشرہ کی بات کی جائے تو مسلم معاشرے کی اسلامی تعلیمات سے عملی دوری سماج کے بگاڑ کا سب سے بڑا سبب ہے؛ اس لئے سب سے پہلے مسلم سماج میں فرداً فرداً اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دعوت دینے کی ضرورت ہے اور یہ کام کسی ایک جماعت یا تحریک کا کام نہیں ہے، بلکہ امت مسلمہ کے ہر ایک باشعور تعلیم یافتہ اور دانشور کا کام ہے؛ کیوں کہ جو شخص بھی خود کو مسلمان کہتا ہے اس کا یہ کہنا فی الواقع اس بات کا اقرار اور اعلان ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے مشن کا علم بردار ہے۔ اور نصح و خیر خواہی ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔ فی الوقت معاشرے کی اصلاح تو ہر دینی جماعت کے منشور میں شامل ہے اور علمائے کرام، مصلحین اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد انفرادی طور پر بھی اصلاحی کوششوں میں مصروف ہے، اس کے علاوہ ملک بھر میں سیکڑوں چھوٹے بڑے گروپ، ادارے، نوجوانوں کی فلاحی تنظیمیں، مسجد کمیٹیاں اور اصلاحی انجمنیں وغیرہ بھی معاشرے کی اصلاح کو اپنا اہم مقصد قرار دیتی ہیں؛ لیکن ان سب کی کوششوں کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے بجائے بگاڑ و خرافات اور ہر قسم کی برائیاں عروج پر ہیں۔ جب کہ ہرسال رسمی طور پر جلسے اور اجتماعات ہوتے ہیں اور معاشرتی برائیوں کی مذمت پر خوب ابوزید سروجی کی طرح لچھیدار تقریریں بھی ہوتے ہیں اور مختلف معاشرتی موضوعات پر اسلامی موقف بھی بیان کئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل برائی کی جو جڑیں ہیں وہاں تک ہماری رسائی نہیں ہے؛ بلکہ ہم درج بالا امور کو ہی اصلاح معاشرہ کی واحد سرگرمی سمجھنے لگے ہیں۔ اگر ہم زمینی سطح کی باریک بینی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ جہاں نوجوان نسلوں میں تیزی کے ساتھ منشیات کا لت بڑھتا جارہا ہے تو وہیں دوسری طرف جھوٹ، فریب، بدعنوانی، دھوکہ دھڑی اور سود کا چلن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
دراصل ان تمام مسائل پر از سر نو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ آج کے دور میں معاشرے کی اصلاح کے تقاضے کیا ہیں؟ اور اس سلسلے میں جد و جہد کے کون سے پہلو زیادہ مؤثر اور کارگر ہوسکتے ہیں؟ معاشرے کی اصلاح کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ خالص مقامی سطح پر جائزہ لیا جائے اور حکمت عملی بنائی جائے۔ قومی یا ریاستی سطح پر موضوعات کا تعین کرکے تقریروں اور جلسوں کا سلسلہ، کسی زمانے کی ضرورتوں کے لئے یقیناً مناسب تھا، لیکن آج کے مسائل کے حل کے لیے یہ کافی نہیں ہے؛ بلکہ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہربستی کے مخصوص حالات پر غور کرکے وہاں کی خرابیوں کی تشخیص، اُن خرابیوں کے اسباب کی تعیین اور اس کے مطابق اصلاح کی حکمت عملی پھر اس حکمت عملی کو اصلاح کا عمل مکمل ہونے تک صبر و استقلال کے ساتھ روبہ عمل لانا، میرے خیال میں اصلاح معاشرہ کے اسی حکمت عملی کی فی الوقت ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہر علاقے میں کچھ ایسی بستیوں کو ترقی دینے کی ضرورت ہے جو اسلام کی تعلیمات کی زیادہ سے زیادہ آئینہ دار اور عملی نمونہ ہوں اور دیگر بستیوں کے لیے بھی روشنی کا مینارہ بن سکیں۔ اس کام کو انجام دینے کے لئے خالص مقامی سطحوں پر منصوبہ بندی بنایا جائے اور منصوبہ بندی کے لیے یہ ضروری ہے کہ زیر بحث برائی کے اصل سبب یا اس کی اصلاح کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا اندازہ لگایا جائے اور ان رکاوٹوں کے حسب حال حکمت عملی بنائی جائے؛ کیونکہ معاشرے کی اصلاح کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ برائی کے حقیقی سبب پر غور کیا جائے اور اس کے مطابق اصلاح کی مناسب حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ تمام برائیوں کے لیے ایک ہی حکمت عملی یا ایک ہی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی بعض خرابیوں میں ایک سے زیادہ اسباب بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے ہر سبب اصلاح کی ایک جداگانہ حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے۔
لہذا راقم الحروف معاشرتی خرابیوں کے چند اہم اسباب تحریر کرنے کی جسارت کر رہا ہے اللہ کرے معاشرے کی اصلاح کیلئے مفید ثابت ہو۔ کسی نامناسب معاشرتی رویہ کا پہلا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں غلط سوچ گھر کر گئی ہو۔ جس کے نتیجے میں مصلح جس چیز کو برائی سمجھ رہا ہے، معاشرہ اس کو سرے سے برائی ہی نہیں سمجھتا ہو، مثلاً مغربی معاشرہ جنسی اباحیت، عریانی، اور ہم جنسی وغیرہ کو سرے سے برائی ہی نہیں سمجھتے بلکہ؛ انھیں انسانی آزادی کا جز سمجھتے ہیں، جو ان کے نزدیک ایک مثبت قدر ہے؛ اس لیے یہ برائیاں وہاں عام ہیں۔ اگر ان برائیوں کی اصلاح درکار ہو تو پہلی ضرورت یہ ہے کہ ان کی سوچ بدلی جائے اور یہ یقین پیدا کیا جائے کہ یہ برائی ہے۔ اس طرح مختلف حکمت عملی سے ہم موجودہ دور میں معاشرے کی اصلاح کرسکتے ہیں۔ جیسے ماضی میں اصلاح معاشرہ کی سب سے کامیاب کوشش وہ تھی جس کا بیڑا اس زمانے کے علماء نے اٹھایا تھا اور جس کا ہدف بدعات و خرافات تھا۔ معاشرہ قبر پرستی اور بدعات و خرافات کو دین کا جز سمجھتا تھا۔ علما نے اس غلط تصور کی اصلاح کی کوششیں کیں اور اس محاذ پر قابل قدر کامیابی بھی حاصل کی۔
آج امت کا ایک بڑا طبقہ اگر بدعات و خرافات سے دور ہے، تو یہ انہیں اکابر علماء کی قربانیوں کا صدقہ ہے۔ چوں کہ ان ساری برائیوں کا اصل سبب جہالت، غلط تصورات اور غلط عقیدے تھے اس لیے ان کو دور کرنے کے لیے صحیح معلومات عام کرنے، اور عوام میں بیداری لانے کے طریقے اختیار کیے گئے۔ مضامین اور کتابوں کی اشاعت، جلسوں اور تقریروں کے ذریعہ عوام میں صحیح معلومات اور صحیح سوچ عام کرنے کی کوشش ہوئی۔ آج بھی وہ برائیاں جو معلومات کی کمی کی وجہ سے، یا غلط سوچ اور عقیدے کی وجہ سے مسلمانوں میں عام ہیں، ان کے علاج میں جلسوں اور تقریروں کا طریقہ مفید ہوسکتا ہے۔ جیسے طلاق کا بدعی طریقہ، وراثت کی عدم تقسیم، لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا، بیویوں اور دیگر خواتین کی حق تلفی، وغیرہ برائیاں شامل ہیں۔ یہ سب وہ برائیاں ہیں جو معاشرے میں معلومات کی کمی یا غلط تصورات کے عام ہونے سے ہوتا ہے۔ اس لیے صحیح معلومات کی ترویج سے ان پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے، معلومات کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی دور جدید میں بہت سے ترقی یافتہ اور مؤثر طریقے موجود ہیں۔ عوام کو کوئی بات سمجھانے کے لیے سب سے مؤثر زبان کلچر کی زبان ہوتی ہے۔ اسی طرح اب سوشل میڈیا کے ذرائع خصوصاً سوشل میڈیا پر پھیلائے جارہے ویڈیو اور کامیڈی وغیرہ معلومات کی ترسیل اور سوچ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
مصلحین کو یہ ذرائع بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب مسلم معاشرے میں بہت کم برائیاں ایسی ہیں جن کے چلن کا اصل سبب معلومات کی یا بیداری کی کمی ہے۔ اکثر برائیاں وہ ہیں، جن کا برا ہونا سب جانتے ہیں؛ مگر اس کے باوجود بھی وہ رائج ہیں۔ اُن کے ازالے کے لیے کچھ اور تدابیر درکار ہیں۔ برائی کی دوسری بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ برائی یا غلط رویہ کو مستحکم روایت کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ معاشرہ اپنی ایسی غلط روایتوں کو بھی پوری قوت سے تھامے رکھتا ہے اور ان روایات کو بدلنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ بہت سی برائیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے تعلق سے معاشرے میں کسی کو ان کے برائی ہونے پر کوئی شبہ نہیں ہوتا؛ لیکن روایت کی گہری جڑیں تبدیلی کی راہ میں مزاحم ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر روایتیں بنتی کیسے ہیں؟ اس پر بھی محققین نے کافی کام کیا ہے۔ بعض روایتیں حکومتوں کے قوانین بناتی ہیں، بعض کسی زمانے کی مخصوص تمدنی ضرورتوں کے پیش نظر رواج پاتی ہیں اور پھر سماج میں گہری جگہ بنالیتی ہیں؛ لیکن اکثر روایتیں سماج کے بااثر افراد اور خاندانوں کے طور طریقے ہوتے ہیں۔ یہ طور طریقے لوگوں کے ذہنوں پر بچپن سے نقش ہوجاتے ہیں، پھر لوگ ان طریقوں کو ناگزیر سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک عام آدمی ان طریقوں کی اتباع میں تہذیب، شائستگی، خوشی و طمانیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ سماج میں لوگ ایک دوسرے سے ان طریقوں کی توقع کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ گہری روایت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی روایت کو نہ اپنانا چاہے تو اسے بہت سے عزیزوں اور پورے سماج کے توقعات کو توڑ کر ان کی دل شکنی کا سبب بننا پڑتا ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے اس لیے کمزور لوگ، غلط روایت کو غلط سمجھنے کے باوجود، اس کو اختیار کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں اور ایسی غلط روایتیں چاہ کر بھی ختم نہیں ہوپاتی ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال شادی بیاہ کے رسوم، تکلفات، جہیز اور جوڑے گھوڑے کے چلن وغیرہ ہیں۔ یہ شادی بیاہ سے جڑی سماجی روایات ہیں۔
آج ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ یہ غلط رسوم و رواج ہیں؛ اس لیے تقریر کرکے انھیں غلط کہنے سے لوگوں کی سوچ اور علم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یقیناً بار بار ان برائیوں کی شناعت بیان کرتے رہنا بھی ضروری ہے؛ تاکہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر اور اس کے لاشعور میں ان برائیوں سے نفرت جاگزیں ہوسکے؛ لیکن صرف تقریر و تذکیر یا ان کاموں کے برے ہونے سے آگاہی، اس طرح کی برائیوں کے خاتمے کے لیے کافی نہیں؛ بلکہ روایات کو ختم کرنے کے عملی طریقوں کی تفصیل میں گئے بغیر ہم اپنے معاشرے کی صورت حال میں تبدیلی نہیں لا کرسکتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر سماج میں کچھ بااثر افراد اور خاندان روایتوں کو بنانے اور بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کا عمل اور رویہ یا تو روایت کو جواز اور استحکام بخشتا ہے یا اس روایت کے سلسلے میں سماج کی بیزاری اور نفرت کو بڑھاتا ہے؛ اس لیے کسی روایت کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے بااثر افراد آگے بڑھیں، جس طرح رسول اللہ ﷺ نے سماج کی بعض روایات کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے خود کو اور اپنے خاندان کو پیش کیا؛ چنانچہ خطبۂ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بعض اہم سماجی اصلاحات کا اعلان فرمایا، تو یہ ضروری سمجھا کہ خطبے ہی میں اپنے خاندان کی جانب سے سب سے پہلے اس پر عمل کا بھی اعلان فرمادیں، مثلاً زمانۂ جاہلیت میں بہائے گئے خون کے بدلہ کو معاف فرمانے کا اعلان کیا، تو ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمایا کہ سب سے پہلا خون جو میں معاف کرتا ہوں وہ (آپﷺ کے چچا زاد) ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا خون ہے۔ (ربیعہؓ کے بیٹے آدم کا بنو بکر اور بنو ہذیل کے درمیان قبائلی جنگ میں ناحق قتل ہوا تھا اور ربیعہؓ اس خون کا مطالبہ رکھتے تھے)، اس کے علاوہ سود کی حرمت کے اعلان کے ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ پہلا سود جو میں (محمدﷺ) ختم کرتا ہوں، وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ اب وہ پوری طرح کالعدم ہوگیا ہے، اسی طرح روایات کے خاتمے کے سلسلے میں ام المومنین زینب بنت جحشؓ کا کردار خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سماج کی گہری روایات کو توڑنے میں سب سے زیادہ کلیدی کردار کچھ بااثر لوگوں کا حوصلہ مند اقدام ہوتا ہے۔ ام المومنین کا تاریخی رول اس اصول کو سند عطا کرتا ہے۔ وہ قریش کے ایک نہایت معزز خاندان کی دختر تھیں اور خود آپ ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں۔ آپﷺ کے حکم پر انھوں نے آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ نکاح فرمایا۔ جو عرب معاشرے کی ایک بہت ہی مضبوط روایت کی بیخ کنی تھی۔ اُس معاشرے میں یہ تصور بھی ممکن نہیں تھا کہ اونچے خاندان کی کوئی شریف زادی کسی غلامی کا پس منظر رکھنے والے شخص سے شادی کرے۔ یہ مضبوط روایت صرف تقریر و تذکیر سے ختم ہونے والی نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے خود اپنے خاندان کو آگے بڑھا کر، انسانی مساوات کے اسلامی نظریے کو سماج کے لیے قابل قبول بنادیا۔ بعد میں اللہ کے فیصلے کے تحت حضرت زیدؓ سے ان کی طلاق ہوئی اور ایک اور غلط روایت کو توڑنے کے لیے رسول اللہ ﷺ اور حضرت زینب نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت زینبؓ سے نکاح فرمایا جو آپ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے کی مطلقہ تھیں۔ عرب معاشرے میں منہ بولے بیٹے کو وہی مقام حاصل تھا جو حقیقی بیٹے کا ہوتا ہے اور اس کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح بھی بہو سے نکاح کی طرح ناقابل تصور حد تک ناپسندیدہ اور معیوب تھا۔
آپ ﷺ نے خود آگے بڑھ کر سماج کی اس گہری روایت پر کاری ضرب لگائی۔ مخالفین کے اس طعنے کی پروا نہیں کی کہ نعوذ باللہ آپ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے۔ آپؐ کے اس عمل پر آج تک معاندین اسلام آپ ﷺ کی کردار کشی کی ناپاک کوشش کرتے رہتے ہیں؛ لیکن اسلام کے اس اصول کو عملاً نافذ کرنے کے لئے کہ منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹے نہیں ہوتے، کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے اس عمل کو، جو سماج کے نزدیک ناپسندیدہ تھا، خود انجام دے کر سماج میں اسے قابل قبول بنادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا قرآن میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ "فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا" پس جب زید نے اس سے اپنا رشتہ کاٹ لیا تو ہم نے اس کو تم سے بیاہ دیا کہ مومنوں کے لیے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں، جب کہ وہ ان سے اپنا تعلق بالکل کاٹ لیں، کوئی تنگی باقی نہ رہے۔ (الاحزاب ۳۷) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راست خدائی منصوبہ تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سماج میں کسی روایت کی جڑ بہت گہری ہو تو اسے بدلنے کے لیے صرف وعظ و نصیحت کافی نہیں ہوتی بلکہ کچھ بااثر لوگوں کا اس روایت کو ختم کرنے کے لیے عملاً سامنے آنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بااثر افراد اور خاندانوں کا کسی روایت کے خلاف عمل، اس روایت کی جڑ کو کمزور کر دیتا ہے۔ اور روایت کے برعکس عمل کو سماج میں قابل قبول بنادیتا ہے۔ اس لیے ایسی روایتوں کے خاتمے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ بستی کے سربر آوردہ لوگ، علمائے کرام، سیاسی قائدین، اہل ثروت وغیرہ میں سے کچھ لوگوں کو اسے عملاً توڑنے کے لیے تیار کیا جائے۔ چند افراد کا حوصلہ و ہمت کے ساتھ آگے بڑھنا، خاندان اور سماج کی مخالفتوں اور طعن و تشنیع کی پروا نہ کرنا، اور روایت پر اپنے عمل سے کاری ضرب لگانا، یہ کسی مستحکم روایت کے خاتمے کی لازمی ضرورت ہے۔ یہ مصلحین کے پروگرام کا جز ہونا چاہیے کہ وہ ہر بستی اور شہر میں وہاں کی غلط روایتوں کے خاتمے کے لیے کچھ بااثر افراد اور خاندانوں کو تشکیل کرکے کھڑا کریں اور ان کے اس اقدام کا اس طرح مثبت چرچا کریں کہ اسے سماج کی پسندیدگی کی سند حاصل ہوجائے۔ سماج کی گہری روایتوں کو بدلنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ کچھ مستقل گروہ ان روایتوں کے خلاف مستقل اور مسلسل برسر پیکار رہیں۔ ان کی شناعت کا احساس پیدا کریں۔ سماج میں ان روایتوں کو ناپسندیدہ بنانے کی جستجو کریں۔ اچھی مثالوں اور نمونوں کو سامنے لائیں، اس کی تشہیر کریں۔ ان کی توقیر اور عزت افزائی کرکے اچھے رویے کو سماج میں قابل قبول بنائیں۔ یہ ایک مستقل کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ ہر مسلم محلے اور گاؤں میں اس فریضے کو انجام دینے کے لیے نوجوانوں کی تنظیمیں، گروپ یا ٹولیاں منظم کی جائیں اور وہ مستقل برائی کے خاتمے کی جد و جہد کریں۔ اپنے محلے یا گاؤں میں مستقل مصلح اور نگراں کا کردار ادا کریں۔ برائیوں کی روک تھام کے لیے پر امن؛ لیکن زبردست دباؤ پیدا کرنے والے طریقے اختیار کریں۔حسن البنا شہیدؒ نے اپنی تحریک کی ابتدا اسی انداز کی کوششوں سے کی تھی۔ بچپن ہی میں انھوں نے دیگر بچوں کو ساتھ لے کر اسماعیلیہ میں جمیعت اخلاق ادبیہ قائم کی۔ دمنہور پہنچے تو وہاں کچھ اور نوعمر ساتھیوں کو ساتھ لے کر سلسلہ حصافیہ خیریہ قائم کی اور قاہرہ میں جمیعت مکارم اخلاق قائم کی۔ ان سب تنظیموں کے ذریعہ انہوں نے نوجوانوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کو گھروں، محلوں، کلبوں، قحوہ خانوں وغیرہ میں گھوم گھوم کر منکرات کے ازالے کے مستقل کام کے لیے متحرک کردیا تھا، آج ہمیں ایسی ہی تحریک اپنے معاشرے میں چلانے کی ضرورت ہے۔ اسی سے ملتی جلتی قسم وہ ہے جس میں برائی روایت تو نہیں؛ لیکن ایک عادت یا رویہ بن جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں، مسلم محلوں میں صفائی اور سلیقے کے فقدان کی شکایت بہت عام ہے۔ گالی گلوچ اور فحش گوئی کئی معاشروں کی نمایاں ترین برائی بن گئی ہے یا نوجوانوں میں رات دیر تک جاگنے اور صبح دیر تک سونے کی عادت کی اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں۔ یہ برائی علم کی کمی کی وجہ سے یا غلط عقیدے کی وجہ سے نہیں ہے۔ کوئی بھی اسے اچھی بات نہیں سمجھتا۔ یہ کوئی سماجی روایت بھی نہیں ہے؛ بلکہ محض ایک اجتماعی عادت ہے۔ سماج کی عادتوں کو بدلنے کے لیے جو طریقے اختیار کئے جاتے ہیں، ان میں بھی جہد کاروں کا رول بہت اہم ہوتا ہے۔ جو غلط عادت کے نقصان کو مختلف طریقوں سے واضح کرتے رہتے ہیں۔ ان عادتوں سے پاک مثالی بستیاں، گلیاں یا کالونیاں تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں سے اجتماعی عہد لیتے ہیں۔ اور نئی اچھی عادتوں کی مشق کراتے ہیں اور ان کے فروغ کی منظم کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت عالمی طاقتیں، معاشرے میں اپنی پسندیدہ قدروں کی ترویج کے لیے بہت منظم کوششیں کررہی ہیں اور سرکاری مشنیری کے ساتھ رضاکاروں اور رضا کار تنظیموں کی بھی تربیت کررہی ہیں اور گہرے مطالعہ و تحقیق کے بعد سماجی عادات کی تبدیلی کے نہایت مؤثر طریقے رائج کررہی ہیں، جیسے ماحولیات کا تحفظ، تعلیم نسواں کا فروغ، حفاظتی ٹیکوں کو عام کرنا اور اسی طرح ہمارے ملک میں صفائی مہم (سوچھ بھارت) اور کھلے مقامات پر رفع حاجت کی روک تھام کی بڑی مہمیں چلیں۔ ان سب مہمات میں جو منصوبہ بند، ہمہ گیر اور سماجی نفسیات کی نفیس تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، ان کا ہمیں مطالعہ کرنا چاہیے اور اسی طرح منظم کوششیں اپنے معاشرے سے غیر اسلامی روایات کے خاتمے کے لیے کرنا چاہیے۔ بعض برائیوں کے ساتھ سماج کے کچھ طبقات کے مادی مفادات وابستہ ہوجاتے ہیں؛ اس لیے وہ اس برائی کی اصلاح نہیں چاہتے اور اصلاح کی راہ میں شدید مزاحم ہوجاتے ہیں؛ بلکہ برائی کے فروغ کی منظم کوشش بھی کرتے ہیں۔ جیسے زرعی زمینوں کے مالکین اپنی زمینوں کی تقسیم کو پسند نہیں کرتے اس لیے لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے؛ کیوں کہ اس سے ان کی عزت و توقیر اور روزی روٹی وابستہ ہوتی ہے؛ اس لیے اس کا خاتمہ انھیں گوارا نہیں ہوتا۔ ان مفادات حاصلہ کو بے نقاب کیے بغیر، متعلقہ برائیوں کا خاتمہ آسان نہیں ہے۔ بعض برائیاں اس لیے ختم نہیں ہوتیں کہ ان کے خاتمے کی راہ میں عملی مشکلات حائل ہوتی ہیں، جب تک ان مشکلات پر قابو نہیں پایا جائے گا اس وقت تک ان کا حل ممکن نہیں ہے۔ اور کچھ مشکلات شرعی ہیں جن کا اجتہادی بصیرت کے ساتھ حل ڈھونڈنا ضروری ہے۔ مثلاً بیوی کےلئے خلع حاصل کرنا یا نکاح فسخ کرانا، ہمارے ملک کے بیشتر علاقوں میں آج بھی نہایت مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔ یہ مسئلہ خاندانوں میں بہت سی برائیوں کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب تک اس عمل کو آسان نہیں بنایا جائے گا، اس سے منسلک سماجی برائیوں پر تقریروں اور اجتماعات کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسی طرح معاشرے میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کی پھیلی ہوئی وبا کے درمیان مسلمان لڑکے اور لڑکیاں کس طرح با عفت زندگی گزاریں؟ ایسی کیا شکل ہو کہ وہ اپنی تعلیم بھی یکسوئی سے پوری کرسکیں اور جائز و حلال طریقے سے فطری جنسی تقاضوں کی تکمیل بھی کرسکیں؟ ایسے مسائل کے مناسب شرعی حل جب تک ڈھونڈے نہیں جائیں گے، یعنی ایسے حل جو جدید معاشرے کی ضرورتوں کو شریعت کے دائرے میں پورا کرسکیں، اس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ کچھ مشکلات وہ ہیں جن کا حل اداراجاتی تعاون کے بغیر ممکن نہی، جیسے ازدواجی تنازعات، خاندانی پیچیدگیاں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بہت سے مسائل ایک مناسب شعبہ کے ذریعہ آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ آج ہمارے ملک کے ہر چرچ میں لازمی طور پر فیملی کونسلنگ سینٹر ہے؛ لیکن مسلم معاشرے میں اس کا کوئی انتظام نہیں ہے، بڑے شہروں میں اس خلا کو مغرب زدہ این جی اوز پُر کر رہی ہیں اور وہ مسائل حل کرنے کے بہانے، خاندانوں اور خواتین کو اسلام اور اسلامی قدروں سے دور کردیتے ہیں؛ مگر اس طرف کسی کی بھی توجہ نہیں جاتی ہے، اسی طرح نشے اور ڈرگس سے چھٹکارا، گندی عادتوں سے نجات اور تنازعات کی یکسوئی جیسے دسیوں کام ہیں، جن کے لیے ادارے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ادارے جو اسلامی تعلیمات کے بھی پابند ہوں اور متعلقہ میدانوں میں ہورہی جدید ترین سائنسی تحقیقات سے بھی استفادہ کرنے کی لیاقت رکھتے ہوں۔کچھ مشکلات وہ ہیں جو بعض نہایت اثر انگیز تہذیبی ذرائع کا متبادل فراہم کرنے کا تقاضا کرتی ہیں، جیسے جدید میڈیا، فلمیں اور اشتہارات یہ سب خاص تہذیبی تصورات کو فروغ دے رہے ہیں۔ ابھی تک ان پر مغرب کی اباحیت پسند قدروں کا غلبہ تھا؛ لیکن اب تیزی سے ہمارے ملک کی مشرکانہ قدریں بھی ان پر حاوی ہوتی جارہی ہیں، جن سے بچوں کے کارٹون فلم اور ان فلموں کے اثرات کو بچوں کے دل و دماغ میں گہرائی تک نقش کردیتے ہیں اور یہ سب اتنی منظم اور دیرپا اثرات کی حامل تہذیبی قوتیں ہیں کہ ان کا مناسب متبادل ڈھونڈنا اصلاح معاشرہ کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اسی طرح بعض برائیاں شدید غربت اور معاشی بدحالی کی پیدا کردہ ہوتی ہیں؛ کیوں کہ غربت کے نتیجے میں ناخواندگی اور جہالت بھی بہت سی سماجی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ اگر درپیش مسائل کو حل کرنے کی ٹھوس تدابیر پر غور کیا جائے اور اس کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تو معاشرے کی اصلاح کا امکان روشن تر ہوجائے گا۔
دراصل ان تمام مسائل پر از سر نو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ آج کے دور میں معاشرے کی اصلاح کے تقاضے کیا ہیں؟ اور اس سلسلے میں جد و جہد کے کون سے پہلو زیادہ مؤثر اور کارگر ہوسکتے ہیں؟ معاشرے کی اصلاح کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ خالص مقامی سطح پر جائزہ لیا جائے اور حکمت عملی بنائی جائے۔ قومی یا ریاستی سطح پر موضوعات کا تعین کرکے تقریروں اور جلسوں کا سلسلہ، کسی زمانے کی ضرورتوں کے لئے یقیناً مناسب تھا، لیکن آج کے مسائل کے حل کے لیے یہ کافی نہیں ہے؛ بلکہ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہربستی کے مخصوص حالات پر غور کرکے وہاں کی خرابیوں کی تشخیص، اُن خرابیوں کے اسباب کی تعیین اور اس کے مطابق اصلاح کی حکمت عملی پھر اس حکمت عملی کو اصلاح کا عمل مکمل ہونے تک صبر و استقلال کے ساتھ روبہ عمل لانا، میرے خیال میں اصلاح معاشرہ کے اسی حکمت عملی کی فی الوقت ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہر علاقے میں کچھ ایسی بستیوں کو ترقی دینے کی ضرورت ہے جو اسلام کی تعلیمات کی زیادہ سے زیادہ آئینہ دار اور عملی نمونہ ہوں اور دیگر بستیوں کے لیے بھی روشنی کا مینارہ بن سکیں۔ اس کام کو انجام دینے کے لئے خالص مقامی سطحوں پر منصوبہ بندی بنایا جائے اور منصوبہ بندی کے لیے یہ ضروری ہے کہ زیر بحث برائی کے اصل سبب یا اس کی اصلاح کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا اندازہ لگایا جائے اور ان رکاوٹوں کے حسب حال حکمت عملی بنائی جائے؛ کیونکہ معاشرے کی اصلاح کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ برائی کے حقیقی سبب پر غور کیا جائے اور اس کے مطابق اصلاح کی مناسب حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ تمام برائیوں کے لیے ایک ہی حکمت عملی یا ایک ہی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی بعض خرابیوں میں ایک سے زیادہ اسباب بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے ہر سبب اصلاح کی ایک جداگانہ حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے۔
لہذا راقم الحروف معاشرتی خرابیوں کے چند اہم اسباب تحریر کرنے کی جسارت کر رہا ہے اللہ کرے معاشرے کی اصلاح کیلئے مفید ثابت ہو۔ کسی نامناسب معاشرتی رویہ کا پہلا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں غلط سوچ گھر کر گئی ہو۔ جس کے نتیجے میں مصلح جس چیز کو برائی سمجھ رہا ہے، معاشرہ اس کو سرے سے برائی ہی نہیں سمجھتا ہو، مثلاً مغربی معاشرہ جنسی اباحیت، عریانی، اور ہم جنسی وغیرہ کو سرے سے برائی ہی نہیں سمجھتے بلکہ؛ انھیں انسانی آزادی کا جز سمجھتے ہیں، جو ان کے نزدیک ایک مثبت قدر ہے؛ اس لیے یہ برائیاں وہاں عام ہیں۔ اگر ان برائیوں کی اصلاح درکار ہو تو پہلی ضرورت یہ ہے کہ ان کی سوچ بدلی جائے اور یہ یقین پیدا کیا جائے کہ یہ برائی ہے۔ اس طرح مختلف حکمت عملی سے ہم موجودہ دور میں معاشرے کی اصلاح کرسکتے ہیں۔ جیسے ماضی میں اصلاح معاشرہ کی سب سے کامیاب کوشش وہ تھی جس کا بیڑا اس زمانے کے علماء نے اٹھایا تھا اور جس کا ہدف بدعات و خرافات تھا۔ معاشرہ قبر پرستی اور بدعات و خرافات کو دین کا جز سمجھتا تھا۔ علما نے اس غلط تصور کی اصلاح کی کوششیں کیں اور اس محاذ پر قابل قدر کامیابی بھی حاصل کی۔
آج امت کا ایک بڑا طبقہ اگر بدعات و خرافات سے دور ہے، تو یہ انہیں اکابر علماء کی قربانیوں کا صدقہ ہے۔ چوں کہ ان ساری برائیوں کا اصل سبب جہالت، غلط تصورات اور غلط عقیدے تھے اس لیے ان کو دور کرنے کے لیے صحیح معلومات عام کرنے، اور عوام میں بیداری لانے کے طریقے اختیار کیے گئے۔ مضامین اور کتابوں کی اشاعت، جلسوں اور تقریروں کے ذریعہ عوام میں صحیح معلومات اور صحیح سوچ عام کرنے کی کوشش ہوئی۔ آج بھی وہ برائیاں جو معلومات کی کمی کی وجہ سے، یا غلط سوچ اور عقیدے کی وجہ سے مسلمانوں میں عام ہیں، ان کے علاج میں جلسوں اور تقریروں کا طریقہ مفید ہوسکتا ہے۔ جیسے طلاق کا بدعی طریقہ، وراثت کی عدم تقسیم، لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا، بیویوں اور دیگر خواتین کی حق تلفی، وغیرہ برائیاں شامل ہیں۔ یہ سب وہ برائیاں ہیں جو معاشرے میں معلومات کی کمی یا غلط تصورات کے عام ہونے سے ہوتا ہے۔ اس لیے صحیح معلومات کی ترویج سے ان پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے، معلومات کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی دور جدید میں بہت سے ترقی یافتہ اور مؤثر طریقے موجود ہیں۔ عوام کو کوئی بات سمجھانے کے لیے سب سے مؤثر زبان کلچر کی زبان ہوتی ہے۔ اسی طرح اب سوشل میڈیا کے ذرائع خصوصاً سوشل میڈیا پر پھیلائے جارہے ویڈیو اور کامیڈی وغیرہ معلومات کی ترسیل اور سوچ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
مصلحین کو یہ ذرائع بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب مسلم معاشرے میں بہت کم برائیاں ایسی ہیں جن کے چلن کا اصل سبب معلومات کی یا بیداری کی کمی ہے۔ اکثر برائیاں وہ ہیں، جن کا برا ہونا سب جانتے ہیں؛ مگر اس کے باوجود بھی وہ رائج ہیں۔ اُن کے ازالے کے لیے کچھ اور تدابیر درکار ہیں۔ برائی کی دوسری بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ برائی یا غلط رویہ کو مستحکم روایت کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ معاشرہ اپنی ایسی غلط روایتوں کو بھی پوری قوت سے تھامے رکھتا ہے اور ان روایات کو بدلنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ بہت سی برائیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے تعلق سے معاشرے میں کسی کو ان کے برائی ہونے پر کوئی شبہ نہیں ہوتا؛ لیکن روایت کی گہری جڑیں تبدیلی کی راہ میں مزاحم ہوتی ہیں۔
سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر روایتیں بنتی کیسے ہیں؟ اس پر بھی محققین نے کافی کام کیا ہے۔ بعض روایتیں حکومتوں کے قوانین بناتی ہیں، بعض کسی زمانے کی مخصوص تمدنی ضرورتوں کے پیش نظر رواج پاتی ہیں اور پھر سماج میں گہری جگہ بنالیتی ہیں؛ لیکن اکثر روایتیں سماج کے بااثر افراد اور خاندانوں کے طور طریقے ہوتے ہیں۔ یہ طور طریقے لوگوں کے ذہنوں پر بچپن سے نقش ہوجاتے ہیں، پھر لوگ ان طریقوں کو ناگزیر سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک عام آدمی ان طریقوں کی اتباع میں تہذیب، شائستگی، خوشی و طمانیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ سماج میں لوگ ایک دوسرے سے ان طریقوں کی توقع کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ گہری روایت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی روایت کو نہ اپنانا چاہے تو اسے بہت سے عزیزوں اور پورے سماج کے توقعات کو توڑ کر ان کی دل شکنی کا سبب بننا پڑتا ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے اس لیے کمزور لوگ، غلط روایت کو غلط سمجھنے کے باوجود، اس کو اختیار کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں اور ایسی غلط روایتیں چاہ کر بھی ختم نہیں ہوپاتی ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال شادی بیاہ کے رسوم، تکلفات، جہیز اور جوڑے گھوڑے کے چلن وغیرہ ہیں۔ یہ شادی بیاہ سے جڑی سماجی روایات ہیں۔
آج ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ یہ غلط رسوم و رواج ہیں؛ اس لیے تقریر کرکے انھیں غلط کہنے سے لوگوں کی سوچ اور علم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یقیناً بار بار ان برائیوں کی شناعت بیان کرتے رہنا بھی ضروری ہے؛ تاکہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر اور اس کے لاشعور میں ان برائیوں سے نفرت جاگزیں ہوسکے؛ لیکن صرف تقریر و تذکیر یا ان کاموں کے برے ہونے سے آگاہی، اس طرح کی برائیوں کے خاتمے کے لیے کافی نہیں؛ بلکہ روایات کو ختم کرنے کے عملی طریقوں کی تفصیل میں گئے بغیر ہم اپنے معاشرے کی صورت حال میں تبدیلی نہیں لا کرسکتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر سماج میں کچھ بااثر افراد اور خاندان روایتوں کو بنانے اور بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کا عمل اور رویہ یا تو روایت کو جواز اور استحکام بخشتا ہے یا اس روایت کے سلسلے میں سماج کی بیزاری اور نفرت کو بڑھاتا ہے؛ اس لیے کسی روایت کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے بااثر افراد آگے بڑھیں، جس طرح رسول اللہ ﷺ نے سماج کی بعض روایات کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے خود کو اور اپنے خاندان کو پیش کیا؛ چنانچہ خطبۂ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بعض اہم سماجی اصلاحات کا اعلان فرمایا، تو یہ ضروری سمجھا کہ خطبے ہی میں اپنے خاندان کی جانب سے سب سے پہلے اس پر عمل کا بھی اعلان فرمادیں، مثلاً زمانۂ جاہلیت میں بہائے گئے خون کے بدلہ کو معاف فرمانے کا اعلان کیا، تو ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمایا کہ سب سے پہلا خون جو میں معاف کرتا ہوں وہ (آپﷺ کے چچا زاد) ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا خون ہے۔ (ربیعہؓ کے بیٹے آدم کا بنو بکر اور بنو ہذیل کے درمیان قبائلی جنگ میں ناحق قتل ہوا تھا اور ربیعہؓ اس خون کا مطالبہ رکھتے تھے)، اس کے علاوہ سود کی حرمت کے اعلان کے ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ پہلا سود جو میں (محمدﷺ) ختم کرتا ہوں، وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ اب وہ پوری طرح کالعدم ہوگیا ہے، اسی طرح روایات کے خاتمے کے سلسلے میں ام المومنین زینب بنت جحشؓ کا کردار خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سماج کی گہری روایات کو توڑنے میں سب سے زیادہ کلیدی کردار کچھ بااثر لوگوں کا حوصلہ مند اقدام ہوتا ہے۔ ام المومنین کا تاریخی رول اس اصول کو سند عطا کرتا ہے۔ وہ قریش کے ایک نہایت معزز خاندان کی دختر تھیں اور خود آپ ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں۔ آپﷺ کے حکم پر انھوں نے آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ نکاح فرمایا۔ جو عرب معاشرے کی ایک بہت ہی مضبوط روایت کی بیخ کنی تھی۔ اُس معاشرے میں یہ تصور بھی ممکن نہیں تھا کہ اونچے خاندان کی کوئی شریف زادی کسی غلامی کا پس منظر رکھنے والے شخص سے شادی کرے۔ یہ مضبوط روایت صرف تقریر و تذکیر سے ختم ہونے والی نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے خود اپنے خاندان کو آگے بڑھا کر، انسانی مساوات کے اسلامی نظریے کو سماج کے لیے قابل قبول بنادیا۔ بعد میں اللہ کے فیصلے کے تحت حضرت زیدؓ سے ان کی طلاق ہوئی اور ایک اور غلط روایت کو توڑنے کے لیے رسول اللہ ﷺ اور حضرت زینب نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت زینبؓ سے نکاح فرمایا جو آپ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے کی مطلقہ تھیں۔ عرب معاشرے میں منہ بولے بیٹے کو وہی مقام حاصل تھا جو حقیقی بیٹے کا ہوتا ہے اور اس کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح بھی بہو سے نکاح کی طرح ناقابل تصور حد تک ناپسندیدہ اور معیوب تھا۔
آپ ﷺ نے خود آگے بڑھ کر سماج کی اس گہری روایت پر کاری ضرب لگائی۔ مخالفین کے اس طعنے کی پروا نہیں کی کہ نعوذ باللہ آپ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے۔ آپؐ کے اس عمل پر آج تک معاندین اسلام آپ ﷺ کی کردار کشی کی ناپاک کوشش کرتے رہتے ہیں؛ لیکن اسلام کے اس اصول کو عملاً نافذ کرنے کے لئے کہ منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹے نہیں ہوتے، کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے اس عمل کو، جو سماج کے نزدیک ناپسندیدہ تھا، خود انجام دے کر سماج میں اسے قابل قبول بنادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا قرآن میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ "فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا" پس جب زید نے اس سے اپنا رشتہ کاٹ لیا تو ہم نے اس کو تم سے بیاہ دیا کہ مومنوں کے لیے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں، جب کہ وہ ان سے اپنا تعلق بالکل کاٹ لیں، کوئی تنگی باقی نہ رہے۔ (الاحزاب ۳۷) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راست خدائی منصوبہ تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سماج میں کسی روایت کی جڑ بہت گہری ہو تو اسے بدلنے کے لیے صرف وعظ و نصیحت کافی نہیں ہوتی بلکہ کچھ بااثر لوگوں کا اس روایت کو ختم کرنے کے لیے عملاً سامنے آنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بااثر افراد اور خاندانوں کا کسی روایت کے خلاف عمل، اس روایت کی جڑ کو کمزور کر دیتا ہے۔ اور روایت کے برعکس عمل کو سماج میں قابل قبول بنادیتا ہے۔ اس لیے ایسی روایتوں کے خاتمے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ بستی کے سربر آوردہ لوگ، علمائے کرام، سیاسی قائدین، اہل ثروت وغیرہ میں سے کچھ لوگوں کو اسے عملاً توڑنے کے لیے تیار کیا جائے۔ چند افراد کا حوصلہ و ہمت کے ساتھ آگے بڑھنا، خاندان اور سماج کی مخالفتوں اور طعن و تشنیع کی پروا نہ کرنا، اور روایت پر اپنے عمل سے کاری ضرب لگانا، یہ کسی مستحکم روایت کے خاتمے کی لازمی ضرورت ہے۔ یہ مصلحین کے پروگرام کا جز ہونا چاہیے کہ وہ ہر بستی اور شہر میں وہاں کی غلط روایتوں کے خاتمے کے لیے کچھ بااثر افراد اور خاندانوں کو تشکیل کرکے کھڑا کریں اور ان کے اس اقدام کا اس طرح مثبت چرچا کریں کہ اسے سماج کی پسندیدگی کی سند حاصل ہوجائے۔ سماج کی گہری روایتوں کو بدلنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ کچھ مستقل گروہ ان روایتوں کے خلاف مستقل اور مسلسل برسر پیکار رہیں۔ ان کی شناعت کا احساس پیدا کریں۔ سماج میں ان روایتوں کو ناپسندیدہ بنانے کی جستجو کریں۔ اچھی مثالوں اور نمونوں کو سامنے لائیں، اس کی تشہیر کریں۔ ان کی توقیر اور عزت افزائی کرکے اچھے رویے کو سماج میں قابل قبول بنائیں۔ یہ ایک مستقل کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ ہر مسلم محلے اور گاؤں میں اس فریضے کو انجام دینے کے لیے نوجوانوں کی تنظیمیں، گروپ یا ٹولیاں منظم کی جائیں اور وہ مستقل برائی کے خاتمے کی جد و جہد کریں۔ اپنے محلے یا گاؤں میں مستقل مصلح اور نگراں کا کردار ادا کریں۔ برائیوں کی روک تھام کے لیے پر امن؛ لیکن زبردست دباؤ پیدا کرنے والے طریقے اختیار کریں۔حسن البنا شہیدؒ نے اپنی تحریک کی ابتدا اسی انداز کی کوششوں سے کی تھی۔ بچپن ہی میں انھوں نے دیگر بچوں کو ساتھ لے کر اسماعیلیہ میں جمیعت اخلاق ادبیہ قائم کی۔ دمنہور پہنچے تو وہاں کچھ اور نوعمر ساتھیوں کو ساتھ لے کر سلسلہ حصافیہ خیریہ قائم کی اور قاہرہ میں جمیعت مکارم اخلاق قائم کی۔ ان سب تنظیموں کے ذریعہ انہوں نے نوجوانوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کو گھروں، محلوں، کلبوں، قحوہ خانوں وغیرہ میں گھوم گھوم کر منکرات کے ازالے کے مستقل کام کے لیے متحرک کردیا تھا، آج ہمیں ایسی ہی تحریک اپنے معاشرے میں چلانے کی ضرورت ہے۔ اسی سے ملتی جلتی قسم وہ ہے جس میں برائی روایت تو نہیں؛ لیکن ایک عادت یا رویہ بن جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں، مسلم محلوں میں صفائی اور سلیقے کے فقدان کی شکایت بہت عام ہے۔ گالی گلوچ اور فحش گوئی کئی معاشروں کی نمایاں ترین برائی بن گئی ہے یا نوجوانوں میں رات دیر تک جاگنے اور صبح دیر تک سونے کی عادت کی اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں۔ یہ برائی علم کی کمی کی وجہ سے یا غلط عقیدے کی وجہ سے نہیں ہے۔ کوئی بھی اسے اچھی بات نہیں سمجھتا۔ یہ کوئی سماجی روایت بھی نہیں ہے؛ بلکہ محض ایک اجتماعی عادت ہے۔ سماج کی عادتوں کو بدلنے کے لیے جو طریقے اختیار کئے جاتے ہیں، ان میں بھی جہد کاروں کا رول بہت اہم ہوتا ہے۔ جو غلط عادت کے نقصان کو مختلف طریقوں سے واضح کرتے رہتے ہیں۔ ان عادتوں سے پاک مثالی بستیاں، گلیاں یا کالونیاں تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں سے اجتماعی عہد لیتے ہیں۔ اور نئی اچھی عادتوں کی مشق کراتے ہیں اور ان کے فروغ کی منظم کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت عالمی طاقتیں، معاشرے میں اپنی پسندیدہ قدروں کی ترویج کے لیے بہت منظم کوششیں کررہی ہیں اور سرکاری مشنیری کے ساتھ رضاکاروں اور رضا کار تنظیموں کی بھی تربیت کررہی ہیں اور گہرے مطالعہ و تحقیق کے بعد سماجی عادات کی تبدیلی کے نہایت مؤثر طریقے رائج کررہی ہیں، جیسے ماحولیات کا تحفظ، تعلیم نسواں کا فروغ، حفاظتی ٹیکوں کو عام کرنا اور اسی طرح ہمارے ملک میں صفائی مہم (سوچھ بھارت) اور کھلے مقامات پر رفع حاجت کی روک تھام کی بڑی مہمیں چلیں۔ ان سب مہمات میں جو منصوبہ بند، ہمہ گیر اور سماجی نفسیات کی نفیس تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، ان کا ہمیں مطالعہ کرنا چاہیے اور اسی طرح منظم کوششیں اپنے معاشرے سے غیر اسلامی روایات کے خاتمے کے لیے کرنا چاہیے۔ بعض برائیوں کے ساتھ سماج کے کچھ طبقات کے مادی مفادات وابستہ ہوجاتے ہیں؛ اس لیے وہ اس برائی کی اصلاح نہیں چاہتے اور اصلاح کی راہ میں شدید مزاحم ہوجاتے ہیں؛ بلکہ برائی کے فروغ کی منظم کوشش بھی کرتے ہیں۔ جیسے زرعی زمینوں کے مالکین اپنی زمینوں کی تقسیم کو پسند نہیں کرتے اس لیے لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے؛ کیوں کہ اس سے ان کی عزت و توقیر اور روزی روٹی وابستہ ہوتی ہے؛ اس لیے اس کا خاتمہ انھیں گوارا نہیں ہوتا۔ ان مفادات حاصلہ کو بے نقاب کیے بغیر، متعلقہ برائیوں کا خاتمہ آسان نہیں ہے۔ بعض برائیاں اس لیے ختم نہیں ہوتیں کہ ان کے خاتمے کی راہ میں عملی مشکلات حائل ہوتی ہیں، جب تک ان مشکلات پر قابو نہیں پایا جائے گا اس وقت تک ان کا حل ممکن نہیں ہے۔ اور کچھ مشکلات شرعی ہیں جن کا اجتہادی بصیرت کے ساتھ حل ڈھونڈنا ضروری ہے۔ مثلاً بیوی کےلئے خلع حاصل کرنا یا نکاح فسخ کرانا، ہمارے ملک کے بیشتر علاقوں میں آج بھی نہایت مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔ یہ مسئلہ خاندانوں میں بہت سی برائیوں کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب تک اس عمل کو آسان نہیں بنایا جائے گا، اس سے منسلک سماجی برائیوں پر تقریروں اور اجتماعات کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسی طرح معاشرے میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کی پھیلی ہوئی وبا کے درمیان مسلمان لڑکے اور لڑکیاں کس طرح با عفت زندگی گزاریں؟ ایسی کیا شکل ہو کہ وہ اپنی تعلیم بھی یکسوئی سے پوری کرسکیں اور جائز و حلال طریقے سے فطری جنسی تقاضوں کی تکمیل بھی کرسکیں؟ ایسے مسائل کے مناسب شرعی حل جب تک ڈھونڈے نہیں جائیں گے، یعنی ایسے حل جو جدید معاشرے کی ضرورتوں کو شریعت کے دائرے میں پورا کرسکیں، اس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ کچھ مشکلات وہ ہیں جن کا حل اداراجاتی تعاون کے بغیر ممکن نہی، جیسے ازدواجی تنازعات، خاندانی پیچیدگیاں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بہت سے مسائل ایک مناسب شعبہ کے ذریعہ آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ آج ہمارے ملک کے ہر چرچ میں لازمی طور پر فیملی کونسلنگ سینٹر ہے؛ لیکن مسلم معاشرے میں اس کا کوئی انتظام نہیں ہے، بڑے شہروں میں اس خلا کو مغرب زدہ این جی اوز پُر کر رہی ہیں اور وہ مسائل حل کرنے کے بہانے، خاندانوں اور خواتین کو اسلام اور اسلامی قدروں سے دور کردیتے ہیں؛ مگر اس طرف کسی کی بھی توجہ نہیں جاتی ہے، اسی طرح نشے اور ڈرگس سے چھٹکارا، گندی عادتوں سے نجات اور تنازعات کی یکسوئی جیسے دسیوں کام ہیں، جن کے لیے ادارے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ادارے جو اسلامی تعلیمات کے بھی پابند ہوں اور متعلقہ میدانوں میں ہورہی جدید ترین سائنسی تحقیقات سے بھی استفادہ کرنے کی لیاقت رکھتے ہوں۔کچھ مشکلات وہ ہیں جو بعض نہایت اثر انگیز تہذیبی ذرائع کا متبادل فراہم کرنے کا تقاضا کرتی ہیں، جیسے جدید میڈیا، فلمیں اور اشتہارات یہ سب خاص تہذیبی تصورات کو فروغ دے رہے ہیں۔ ابھی تک ان پر مغرب کی اباحیت پسند قدروں کا غلبہ تھا؛ لیکن اب تیزی سے ہمارے ملک کی مشرکانہ قدریں بھی ان پر حاوی ہوتی جارہی ہیں، جن سے بچوں کے کارٹون فلم اور ان فلموں کے اثرات کو بچوں کے دل و دماغ میں گہرائی تک نقش کردیتے ہیں اور یہ سب اتنی منظم اور دیرپا اثرات کی حامل تہذیبی قوتیں ہیں کہ ان کا مناسب متبادل ڈھونڈنا اصلاح معاشرہ کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اسی طرح بعض برائیاں شدید غربت اور معاشی بدحالی کی پیدا کردہ ہوتی ہیں؛ کیوں کہ غربت کے نتیجے میں ناخواندگی اور جہالت بھی بہت سی سماجی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ اگر درپیش مسائل کو حل کرنے کی ٹھوس تدابیر پر غور کیا جائے اور اس کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تو معاشرے کی اصلاح کا امکان روشن تر ہوجائے گا۔