ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۴
خلیفہ رسول ﷺ عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ
جناب حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری المظاہری؛ استاذ:حدیث و فقہ، مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش
آپ علیہ السلام پر سلسلہ نبوت ختم ہوگیا آپ کے بعد خلافت کا آغاز ہوا آپ کے چار خلیفہ ہیں جن کادور تیس سال پر محیط ہے لہذا آپ کوخلفائے راشدین مھدیین کی مختصر سیرت سے آگاہ کرتے ہیں
سب سے پہلے خلیفہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں
آپ کا نام عبداللہ لقب صدیق اور عتیق کنیت ابوبکر ہے آپ کا نسب آٹھویں پشت میں رسول خدا ﷺ سے مل جاتا ہے آپ علیہ السلام کی آٹھویں پشت میں ایک نام ہے مرہ ان کے دوبیٹے تھے کلاب اور تیم کلاب کی اولاد میں آنحضرتﷺ اور تیم کی ذریت میں سے حضرت صدیق اکبرہیںصدیق اکبر کی ولادت باسعادت
حضور ﷺ کی ولادت باسعادت سے دوسال کچھ ماہ بعد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے آپ کا رنگ سفید تھا جسم لاغر رخساروں پر گوشت کم تھا پیشانی ابھری ہوئی تھی آخر عمر میں بال سفید ہوگئے تھے آپ مہدی اور نیل کا خضاب کرتے تھے نرم دل اور نہایت بردبار تھے رسول ﷺ کی رفاقت میں سابق وفائق تھے حیات نبی ﷺ میں آپﷺکی وزیر اور بعد الممات آپﷺکےجانشین ہوئے خلیفۂ رسول ﷺ کا مبارک خطاب آپ رضی اللہ عنہ کے سواکسی کے لیے استعمال نہیں ہوا آپ رضی اللہ عنہ کے بعد والے خلفاء امیر المومنین کے لقب سے ملقب ہوئے آپ رضی اللہ عنہ نےدوسال تین ماہ نودن تخت خلافت پر متمکن رہ کر 7جمادی الاخریٰ سنہ13ھ کو مابین مغرب وعشاء اس دار فانی سے رحلت کی اور اپنے حبیب ﷺ کے پہلو میں اسی روضۂ مقدس کے اندر قیامت تک کے لئے جائے استراحت پائی آپ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں تین لڑکے عبداللہ، عبدالرحمن اور محمد تھے اور تین ہی لڑکیاں اسماء ، عائشہ اور ام کلثوم تھیں
حالات قبل از اسلام
اشراف قریش میں سے تھے بڑی عزت وثروت اور وجاہت کے مالک تھے تمام اہل مکہ اس قدر مانتے تھے کہ دیت اور تاوان تک کے مقدمات کا فیصلہ انہیں کے متعلق تھا اہلِ عرب کے انساب کے سب سے بڑے عالم تھے نہایت فصیح اللسان تھے زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی شراب نہیں پی اور نہ کبھی بت پرستی کی اور زنامیں ملوث ہوئے ( ازالۃ الخفاء)
حالات بعد اسلام قبل ہجرت
آپ کے مسلمان ہوجانے سے خود بخود لوگوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوئی اور پھر آپ نے بھی تبلیغ کا کام شروع کردیا ایک جماعت بشمول عثمان غنی ، عبد الرحمن بن عوف، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبید اللہ، سعد بن ابی وقاص فاتح ایران انہیں کی ہدایت سے اسلام لائی ،
جب ابتداء نبوت میں تبلیغ کا حکم ملا اور یہ آیت اتری فاصدع بماتومر کہ اے نبی ﷺ احکام خداوندی کی تبلیغ کی تکلیف برداشت کیجئے تو صدیق اکبر نے عرض کیا یارسول اللہ آپ ابتدا نہ کریں قریش کے جہلا واشرار توحید کا بیان اور شرک کا بطلان سن کر جس سے اب تک ان کے کان ناآشنا ہیں خدا جانے کس قدر مشتعل ہوں لہذا ابتدا مجھے کرنے دیجئے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت صدیق نے ایک خطبہ پڑھا جس میں حق تعالٰی کی توحید، آنحضرتﷺ کی رسالت اور شرک کی مذمت بیان کی یہ پہلی تقریر تھی جو اسلام میں ہوئی اس کے بعد مکاروں نے اس قدر ایذائیں صدیق اکبر کو دیں اور جس ذوق سے صدیق نے ان کو برداشت کیا وہ بجائے خود ایک دفتر عشق ہے کئی مرتبہ رسول ﷺ کو مکاروں کے نرغے سے بچا یا ایک بار کاواقعہ ہے نافرمانان قریش صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے رسول ﷺ کا ذکر کررہے تھےکہ وہ ہمارے معبودان باطلہ کی مذمت کرتے ہیں اتنے میں حضور ﷺ وہاں تشریف لے آئے سب نے آپ کوگھیرلیااور آپ کی گردن میں چادر ڈال کر کھینچنا شروع کردی کسی نے جاکر صدیق اکبر کو خبر کردی کہ ادرک صاحبک وہ بے تاب ہوکر پہنچے اور کہنے لگے تمہاری خرابی ہو أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ یعنی کیا تم لوگ ایسے شخص کو قتل کئے ڈالتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس معجزات لیکر آیا ہے یہ سن کر نااہلوں نے رسول ﷺ کو چھوڑ دیا اور حضرت صدیق اکبر پر جھک پڑے اور اس قدر اذیت دی کہ صدیق اکبر بےہوش ہوگئے اور کئی دن تک بے ہوش رہے کبھی کبھی ہوش آتا تو حضور ﷺ کی خیریت ہی دریافت کرتے اور پھر بیہوش ہوجاتےجب کئی دن کے بعد مکمل ہوش آیا تو پہلا سوال یہ تھا کہ مجھے حضور ﷺ کے پاس لے چلو چنانچہ لوگ پکڑ کر لے گئے جب یہ رسول ﷺ کے سامنے پہنچے ہیں اس وقت کی حالت الفاظ میں بیان کی ہی نہیں جاسکتی جب کامل تیرہ برس مکہ والوں کی طرف سے ہرقسم کے ظلم و ستم اٹھاکر سرور انبیاء اور حضرات صحابہ امتحان خداوندی میں کھرے ثابت ہوچکے تو وحی الہی میں آپ کو مکہ سے مدینہ ہجرت کر نے کا حکم ہوا تو اس سفر ہجرت میں جمیع صحابہ کے مابین سے معیت نبی ﷺ کے لیے خدا اور رسولِ خُدا ﷺ نے صدیق اکبر کو منتخب فرمایا،حالات بعد ہجرت
ہجرت کے بعد ان روح فرسا مصائب کا تو خاتمہ ہوچکا تھا جو مکہ میں ہرآن پیش آتے رہتے لیکن مدینہ منورہ میں دوسری قسم کی خدمات مسلمانوں کے سپرد کی گئیں قتال کی اجازت دی گئی اور معارک کا ایک سلسلہ قائم ہوا رسولِ خدا ﷺکوانیس معرکے پیش آئے جن میں سب سے پہلا بدر کا اور سب سے آخر تبوک کامعرکہ ہوا ان تمام میں حضرت صدیق حضور ﷺ کے ہمراہ رہے ۔
خلافت صدیق اکبر کابیان
رسولِ خُدا ﷺکی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کا اجتماع ہوا تاکہ کسی خلیفہ کاتقررکریں ان کی چاہت تھی کہ ایک خلیفہ انصار میں سے اور ایک مہاجرین میں سے ہو مگر دو خلیفہ کاتقررجس قدر باعث افتراق ہوتا ظاہر ہے لہذا حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما نے نظم خلافت کے درست کرنے کو رسولِ خدا کے دفن پر مقدم فرمایا اور یہی ہونا بھی چاہیے تھاکیونکہ تجھیز وتکفین میں دیر ہونے سے عام اموات کی طرح جسم مقدس میں نعوذ باللہ کسی قسم کی خرابی کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہ تھا البتہ اگر خلافت کا انتظام بگڑ جاتا اور کوئی ایسا شخص خلافت کے لیے منتخب ہوجاتا جس میں سیاسی قابلیت اور روحانی قوت اس درجے کی نہ ہوتی تو اس کی اصلاح ناممکن تھی چنانچہ باتفاق رائے صدیق اکبر کو خلیفہ منتخب کرلیا اور سب نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی بیعت کی ابتدا ایک انصاری نے کی (تاریخ الخلفاء)
حضرت صدیق اکبر کی معیشت
اسلام سے پہلے مکہ کے بڑے تجار میں آپ کا شمار ہوتا تھا صاحب ثروت ودولت تھے کپڑے کی تجارت کرتے تھے مگر اسلام کے بعد ساری دولت راہ خدا میں منشاء رسول ﷺ کے مطابق صرف کردی حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ پہننے کو نہ کرتا تھا نہ تہبند ایک کمبل تھا جس میں بجائے گھنڈی کے تکمہ کے کانٹے لگے رہتے تھے ہجرت کے بعد بقدر ضرورت تجارت کا سلسلہ قائم کیا جس کی آمدنی آپ کی گذران کے لیے ہی کافی ہوتی تھی خلافت کے بعد کچھ دنوں تک تو یہ سلسلہ قائم رہا مگر حضرت عمر اوعبیدہ نے قائم نہ رہنے دیا کہ مہمات خلافت میں اس سے خلل واقع ہوگا اور مسلمانوں سے مشورہ کے بعد بیت المال سے ڈھائی ہزار درھم سالانہ آپ کا وظیفہ طے کر دیا قریب وفات فرمایا کہ عمر بن خطاب نے زبردستی بیت المال سے میرا وظیفہ مقرر کردیا تھا یہاں تک کہ اب تک چھ ہزار درھم بیت المال کے میرے خرچ میں آچکے ہیں میرا فلاں باغ بیچ کر یہ رقم بیت المال میں جمع کر دینا (طبقات بن سعد)
صدیق اکبر کا کفن
یہ بات پیچھے لکھدی گئی ہے کہ 7جمادی الاخریٰ سنہ13ھ میں مابین مغرب وعشاء صدیق اکبر کی وفات کا سانحہ پیش آیا اور آپ کو روضۂ مقدس میں حضور ﷺ کے پہلو ہی دفن کیا گیا آپ نے اپنے کفن کے متعلق وصیت کی تھی کہ یہی لباس جو میں پہنے ہوئے ہوں میرا کفن ہوگا ایک جگہ اس میں زعفران کا رنگ ہے اس کو دھو ڈالنا آپ دنیا سے بالکل پاک دامن گئے اپنے زمانہ خلافت میں اپنے کسی قرابت دار کو کوئی عہدہ نہیں دیا کسی مقام کا افسر نہیں بنایا اپنے بعد خلافت کے لیے حضرت عمر فاروق کو جو ان کے بعد سب سے عظیم تھے نامزد کردیا آپ کی خلافت میں امن و امان کا یہ حال تھا کہ فاروق اعظم جواس وقت مدینہ منورہ کے قاضی تھے فرماتے ہیں کہ پورا پورا مہینہ گزرجاتا تھا مگر ایک بھی مقدمہ نہ آتا تھا (طبقات بن سعد ج3) رب سے دعا ہے کہ وہ ان حضرات کے توسط سے امت کے منتشر شیرازے کو متحد کردے آمین ۔وماتوفیقی الا باللہ
آپ کا نام عبداللہ لقب صدیق اور عتیق کنیت ابوبکر ہے آپ کا نسب آٹھویں پشت میں رسول خدا ﷺ سے مل جاتا ہے آپ علیہ السلام کی آٹھویں پشت میں ایک نام ہے مرہ ان کے دوبیٹے تھے کلاب اور تیم کلاب کی اولاد میں آنحضرتﷺ اور تیم کی ذریت میں سے حضرت صدیق اکبرہیں
جب ابتداء نبوت میں تبلیغ کا حکم ملا اور یہ آیت اتری فاصدع بماتومر کہ اے نبی ﷺ احکام خداوندی کی تبلیغ کی تکلیف برداشت کیجئے تو صدیق اکبر نے عرض کیا یارسول اللہ آپ ابتدا نہ کریں قریش کے جہلا واشرار توحید کا بیان اور شرک کا بطلان سن کر جس سے اب تک ان کے کان ناآشنا ہیں خدا جانے کس قدر مشتعل ہوں لہذا ابتدا مجھے کرنے دیجئے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت صدیق نے ایک خطبہ پڑھا جس میں حق تعالٰی کی توحید، آنحضرتﷺ کی رسالت اور شرک کی مذمت بیان کی یہ پہلی تقریر تھی جو اسلام میں ہوئی اس کے بعد مکاروں نے اس قدر ایذائیں صدیق اکبر کو دیں اور جس ذوق سے صدیق نے ان کو برداشت کیا وہ بجائے خود ایک دفتر عشق ہے کئی مرتبہ رسول ﷺ کو مکاروں کے نرغے سے بچا یا ایک بار کاواقعہ ہے نافرمانان قریش صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے رسول ﷺ کا ذکر کررہے تھےکہ وہ ہمارے معبودان باطلہ کی مذمت کرتے ہیں اتنے میں حضور ﷺ وہاں تشریف لے آئے سب نے آپ کوگھیرلیااور آپ کی گردن میں چادر ڈال کر کھینچنا شروع کردی کسی نے جاکر صدیق اکبر کو خبر کردی کہ ادرک صاحبک وہ بے تاب ہوکر پہنچے اور کہنے لگے تمہاری خرابی ہو أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ یعنی کیا تم لوگ ایسے شخص کو قتل کئے ڈالتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس معجزات لیکر آیا ہے یہ سن کر نااہلوں نے رسول ﷺ کو چھوڑ دیا اور حضرت صدیق اکبر پر جھک پڑے اور اس قدر اذیت دی کہ صدیق اکبر بےہوش ہوگئے اور کئی دن تک بے ہوش رہے کبھی کبھی ہوش آتا تو حضور ﷺ کی خیریت ہی دریافت کرتے اور پھر بیہوش ہوجاتےجب کئی دن کے بعد مکمل ہوش آیا تو پہلا سوال یہ تھا کہ مجھے حضور ﷺ کے پاس لے چلو چنانچہ لوگ پکڑ کر لے گئے جب یہ رسول ﷺ کے سامنے پہنچے ہیں اس وقت کی حالت الفاظ میں بیان کی ہی نہیں جاسکتی جب کامل تیرہ برس مکہ والوں کی طرف سے ہرقسم کے ظلم و ستم اٹھاکر سرور انبیاء اور حضرات صحابہ امتحان خداوندی میں کھرے ثابت ہوچکے تو وحی الہی میں آپ کو مکہ سے مدینہ ہجرت کر نے کا حکم ہوا تو اس سفر ہجرت میں جمیع صحابہ کے مابین سے معیت نبی ﷺ کے لیے خدا اور رسولِ خُدا ﷺ نے صدیق اکبر کو منتخب فرمایا،