ماہنامہ الفاران

ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۴

ترے خُلْق کو حق نے عظیم کہا۔تر ی خلْق کو حق نے جمیل کیا

جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب المظاہری؛ مدیر ماہنامہ"الفاران" و جنرل سکریٹری ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)

دینِ اسلام ایسا پاکیزہ مذہب ہے جو دینی،اخلاقی اور معاشرتی معاملات کیساتھ ساتھ زندگی کے تمام گوشوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، دینِ رحمت بالعموم انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کو اپنے اخلاق اچھے اور پاکیزہ رکھنے کی بہت اہمیت وتاکید اور بُرے اخلاق کی مذمت وبُرائی اور سخت وعید بیان کی گئی ہے۔اسی لئے قرآن واحادیث میں اخلاقِ حسنہ و حمیدہ (اچھے اور پاکیزہ اخلاق) کی فضیلت اہمیت،اخلاق رزیلہ وسیئہ(بُرے اور گندے اخلاق) کی مذمت اور بُرائی کو بڑی وضاحت کیساتھ ذکر کیا گیا ہےتاکہ مسلم اُمّہ قرآن وسنت پر عمل پیرا ہو کر اپنے اندر اچھے اور پاکیزہ اخلاق پیدا کر سکے اور بُرے اخلاق سے بچنے کا اہتمام کر سکے ۔
بدقسمتی سےآج کےہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرے میں اخلاقیات،تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کے آثار تک نہیں پائےجاتے جسکی بنیادی وجہ حضور نبی کریم ﷺ کے تعلیم دیئے ہوئے اخلاق سے دوری ہے،دوسری اقوام کا کیا کہنا جبکہ قومِ مسلم جس کو اخلاقیات کا مکمل درس دیا گیا ہے بغیر اخلاق کے ایمان کو ناقص اور نامکمل بتایا گیا ہے ۔اخلاق کی درستگی اور اسکی فضیلت و اہمیت پر قرآن کریم کی آیات اور احادیثِ مبارکہ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہےمگر وائے افسوس کہ آج وہی مسلم قوم اخلاق حسنہ میں پیچھے اور بداخلاقی میں آگے ہے یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ رسوا اور زوال پذیر ہے۔
اخلاقِ رزیلہ و سیئہ کا گھن ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور ہمیں احسان تک نہیں ہے۔وہ دین جسکی حقیقی پہچان اخلاقیات،جسکی تکمیل کیلئے حضور خاتم النبیین ﷺ مبعوث ہوئے،وہ دین جس نے معاملات اور انسانیت کے حقوق کو اصل دین قرار دیا،آج اسی دین کے ماننے والے اخلاقیات اور معاملات میں ایسی پستی و زوال میں گر چکے ہیکہ تھانے کچہریوں اور عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے ،گلی گلی محلہ محلہ لڑائی جھگڑا،گالی گلوچ،ظلم و زیادتی،فتنہ وفساد،بغض وعناد،حسد وجلن،حق تلفی اور مفاد پرستی عام ہے۔منشیات کے بازار،ہوس کے اڈے،شراب خانے،جوا،چوری،ڈاکہ زنی،قتل وغارت گری،زناکاری،رشوت خوری،سود،بددیانتی،جھوٹ،خوشامد،حرص،طمع،لالچ، ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی وزیادتی وغیرہ وغیرہ ۔
آخر وہ کونسا اخلاقی مرض اور بیماری ہے جو ہم مسلمانوں میں نہیں ہے،خودغرضی اور بدعنوانی و کرپشن کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے پایا نہیں جا رہا؟دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے یہاں عروج پر نہیں ہے،تشدد و تعصب،عصبیت و انتہا پسندی اور انسان دشمنی کے کونسے مظاہر ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرے میں دیکھنے کو نہیں ملتے۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان سب معاشرتی برائیوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم نصرتِ الٰہی کے امیدوار اور غلامیِ رسول ﷺ کے دعویدار ہیں، حقیقت تو یہی ہےکہ آج ہم مسلمان اپنی بداعمالیوں اور بداخلاقیوں کی وجہ سے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اور غیروں کے اسلام میں داخل ہونے کیلئے سخت رکاوٹ بنے ہوئے ہیں،لہذا مسلم اُمّہ کو فورا اخلاق رزیلہ وسیئہ سے تائب ہو کر اخلاقِ حسنہ و حمیدہ کیطرف آنا ہو گا، اسی میں معاشرتی سکون و سلامتی،راحت ومسرت اور دنیا وآخرت کی کامیابی و کامرانی ہے۔
پوری انسانیت میں اخلاق حمیدہ و حسنہ کا سب سے اعلٰی و ارفع مقام ومرتبہ حضور خاتم النبیین خاتم المعصومین سیدالاولین والآخرین حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے۔جسکو صراحت و وضاحت کیساتھ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرمایا۔چنانچہ حضور نبی کریم ﷺکے بارے میں ارشاد فرمایا ترجمہ! نٓ،قسم ہے قلم کی اور اُسکی جو کچھ وہ(فرشتے)لکھتے ہیں۔نہیں ہیں آپ ﷺ اپنے رب کے فضل سے مجنون اور بلاشبہ آپﷺ کیلئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں اور بیشک آپ (ﷺ) اخلاق کے اعلٰی پیمانے اور مرتبے پر فائز ہیں۔(سورۂ قلم آیت نمبر1.2.3.4) ترے خُلْق کو حق نے عظیم کہا۔تر ی خلْق کو حق نے جمیل کیا خُلق سے اخلاق وعادات مراد ہیں،آپﷺ کے خلق کو عظیم فرمایا ، کیونکہ آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی میں تمام مکارم اخلاق علی الوجہ الاتم موجود تھے اور آپ ﷺ قرآنی اخلاق و آداب کا مجسّم نمونہ تھے اسی لئے جب اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے آپﷺ کے خلق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان خلقہ القرآن کہ آپ ﷺ کا خلق (اخلاق)قرآن ہے یعنی آپ ﷺ کے تمام اعمال و اقوال و افعال اور اخلاق وعادات قرآنی تعلیم کے عین مطابق تھے۔حضرت سعد بن ہشام بن عامر رحمہ اللہ علیہ سے روایت ہےکہ میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کی خدمت میں خاطر ہو کر عرض کیا اے اُمّ المؤمنین(رضی اللہ عنھا) مجھے حضور نبی کریم ﷺ کے اخلاق کے متعلق خبر دیجیئے،تو اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق(حمیدہ) قرآن(مجید) کا عملی نمونہ تھے،کیا تم نے اللہ تعالی کا(سورۂ قلم میں) ارشاد نہیں پڑھا کہ وَ اِنک لَعلیٰ خلق عظیم .اور بیشک آپ(ﷺ)اخلاق کے اعلٰی پیمانے اور مرتبے پر فائز ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں نکاح سے الگ تھلگ رہنا چاہتا ہوں(یعنی میں نکاح نہیں کرنا چاہتا) اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنھا نے ارشاد فرمایا کہ آپ ایسا نہ کیجیئے کیا آپ (سورۂ احزاب کی ) یہ آیت نہیں پڑھتے کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔(سورۂ احزاب آیت نمبر 21)ترجمہ!حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اﷲ ﷺ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ اور رسول اللہﷺ نے نکاح بھی فرمایا اور آپ ﷺ کی اولاد بھی ہوئی۔ (مسند احمد 2440)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا تو اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ آپ ﷺ کے اخلاق قرآن کے مطابق تھے۔ (طبرانی 4434)آپ ﷺ نے علم و عبادت کی زینت اخلاق کو قرار دیا ہے قیامت کے دن مومن کے میزان میں عمل کے لحاظ سے جو چیز وزنی اور بھاری ہوگی وہ حسن اخلاق ہے۔حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا(ترجمہ)کہ کوئی بھی چیز میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی نہیں۔(سنن ابی داؤد:4799)
4-حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اچھا اخلاق ہی نیکی ہے اور برائی یہ ہے جو کرنے کے بعد تیرے دل میں کھٹکے اور تو ناپسند کرے کہ لوگوں کو تیری کی ہوئی برائی کا علم ہوجائے ۔(صحیح مسلم2553)
ایک اور حدیث میں مروی ہے کہ (ترجمہ) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بدزبان اور لڑنے جھگڑنے والے نہیں تھے۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں (جو لوگوں سے کشادہ پیشانی سے پیش آئے)۔صحیح البخاری 3559)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”ایمان کے لحاظ سے مومنوں میں سے اکمل وہ ہیں جو اُن میں سے اخلاق کے اعتبار سے بہت عمدہ ہیں اور تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہیں۔( ترمذی 627 ، ابن حبان 1311، ابوداؤد 4682)اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومنین میں سب سے کامل و مکمل وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق بہتر ہیں اور وہ اپنے گھر والوں کیساتھ زیادہ نرمی کا برتاؤ کرنے والے ہیں۔(مسند احمد24204,مصنف ابن ابی شیبہ 25828)
اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے بہتر(اخلاق و کردار والے)ہوں۔اور میں اپنے گھر والوں کیساتھ تم سب سے بہتر (اخلاق کا برتاؤ کرنے والا) ہوں۔ اور جب تمہارا کوئی ساتھی فوت ہو جائے تو تم اُس (کا بُرائی کے ساتھ تذکرہ کرنا) کو چھوڑ دو ۔(سنن الترمذی 3895)
حضرت ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالی پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو،اُسے چاہیئے کہ وہ اپنے پڑوسی کیساتھ اچھا برتاؤ کرے،اور جو شخص اللہ تعالی پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو،اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی ضیافت( مہمان نوازی) کرے۔اور جو شخص اللہ تعالی پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو،اُسے چاہیئے کہ وہ یا تو خیر (و بھلائی) کی بات کہے،ورنہ خاموش رہے۔ (مسلم شریف کتاب الایمان۔ 48؛؛77)
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے بہترین لوگ کون ہیں۔۔۔۔۔؟صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے عرض کیا!اے اللہ کے رسول ﷺ ! بیشک( ضرور بتائیے)،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو تم میں لمبی عمروں والے اور اچھے اخلاق والے ہوں ،( لمبی عمر کیساتھ اگر اخلاق اچھے ہوں تو یقیناً نامۂ اعمال میں نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔(مسند احمد 9235)
حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! لوگوں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب کونسا شخص ہے؟ تو حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے کہ جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ (ابن حبان 486)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ایک مجلس میں ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور اور قیامت کے دن میری مجلس کے سب سے زیادہ قریب کون ہو گا۔۔؟یہ بات آپﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ!بتائیے،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے۔(ابن حبان 485)
حضرت براء ابن عازب سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ تمام لوگوں میں چہرۂ(انور) کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین اور اخلاق کے اعتبار سے سب سے بہترین تھے۔ (بخاری شریف 3549.مسلم شریف 6212)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق والے تھے۔(بخاری شریف 6203. ومسلم شریف 2310)حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی کریم ہیں کرم ( سخاوت وکرم کے معاملہ) کو پسند فرماتے ہیں اور بلند اخلاق (اخلاق حسنہ و حمیدہ)کو پسند فرماتے ہیں اور ردّی اخلاق ( اخلاق رزیلہ و سیئہ ) کو مکروہ و ناپسند فرماتے ہیں۔ (طبرانی 5928, بیہقی 7646,مستدرک حاکم 151)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک بندہ اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے آخرت کے عظیم درجات اور بلند مقامات تک پہنچ جاتا ہے،حالانکہ وہ عبادت میں کمزور ہوتا ہےاور بیشک بندہ اپنے بُرے اخلاق کی وجہ سے جھنم کے نچلے درجے تک پہنچ جاتا ہے،حالانکہ وہ عبادت گزار ہوتا ہے۔ ( طبرانی 775 )ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت ہےکہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا مومن اپنے اخلاق کی وجہ سے رات بھر قیام کرنے والے اور دن بھر روزہ رکھنے والے کے درجات کو پا لیتا ہے۔ (ابو داؤد 4798,مستدرک حاکم.199،مسند احمد24595) حضرت عبدللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہےکہ جب حضرت معاذ ابن حبل رضی اللہ تعالی عنہ نے سفر کا ارادہ کیا تو عرض کیا!اے اللہ کے رسول ﷺ!مجھے کچھ وصیت فرما دیجیئے!آپ ﷺ نے فرمایا آپ اللہ تعالی کی عبادت کیجیئے،اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیجیئے۔تو حضرت معاذ ابن حبل رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا!اے اللہ کے رسول ﷺ!مجھے کچھ اور بھی وصیت فرما دیجیئے۔تو آپﷺ نے فرمایا کہ جب آپ کوئی بُرائی(گناہ)کریں،تو آپ(اسکے بعد)اچھائی کیجیئے۔(تاکہ بُرائی کا بدلہ اچھائی سے ہو جائے) تو حضرت معاذ ابن حبل رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا ! اے اللہ کے رسول ﷺ!مجھے کچھ اور بھی وصیت فرما دیجیئے۔تو آپ ﷺ نے فرمایا آپ (دین پر )استقامت اختیار کیجیئے اور اپنے اخلاق کو اچھا کیجیئے۔(مستدرک حاکم,کتاب الایمان،حدیث نمبر179)حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہےکہ مجھے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تعالی سے ڈرو(یعنی خشیئت الہی پیدا کرو)۔اور بُرائی کے بعد نیکی کرو جو اس بُرائی کو مٹا دے گی اور لوگوں کیلئے اچھے اخلاق والا برتاؤ کرو۔ (سنن الترمذی 1987)حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا (ترجمہ) کہ مجھے اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث (بھیجا گیا) فرمایا گیا ہے۔ (مسند احمد 8952)بعض روایات میں مصالح الاخلاق کی جگہ پر مکارم الاخلاق فرمایا گیا ہے،مکارم الاخلاق سے مراد بھی اچھے اور عمدہ اخلاق کی بلندیاں اور کمالات ہیں۔چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (ترجمہ)اللہ تعالی نے مجھے مکارم اخلاق و کمال محاسن کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا۔ ‘‘(شرح السنہ مشکوۃ المصابیح 5770)
حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آیا ہوں اور دنیا کو اخلاق کا بہترین نمونہ دکھانے آیا ہوں۔ چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی جماعت (حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین) کو اخلاقِ حسنہ و حمیدہ کی تربیت دے کر دنیا کے سامنے بہترین اخلاق و عادات کا حامل ایک معاشرہ پیش فرمایا۔ یہ حضور نبی کریمﷺ کا ایک بڑا معجزہ اور اعجاز ہے۔ اخلاق کی تعمیر، تشکیل اور تکمیل کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ نے جہاں اخلاق حسنہ کو اپنے عروج و کمال پر پہنچایا وہاں اخلاق سیئہ اور اخلاق شنیعہ کی قباحتوں سے آگاہ کیا اور ہر ہر خلق سیئہ اور خلق شنیعہ کی جڑیں آپ ﷺ نے کاٹ ڈالیں، دنیا بھر میں پھیلا ہوا کذب آپ ﷺ کے دور میں کمزور پڑگیا۔ وعدہ خلافی کا آپ ﷺ نے سدباب کیا۔ خیانت پر کاری ضرب لگائی۔ کبرو غرور کے بت کو زمین بوس کیا، حسد کی لعنت سے خبردار کیا، خودستائی کے صنم کو پاش پاش کیا۔ غیبت کا قلمع قمع کیا، تمسخرا و استہزاء کا خاتمہ کیا، بدظنی و بدگمانی پر پہرے بٹھائے، بخل کو اللہ کے انعامات کے خلاف جانا، بہتان اور تہمت کو معاشرتی اخوت و محبت کے خلاف تصور کیا، چغل خوری کو انسانی نفرت کی اساس قرار دیا، ظلم کو انسانی وجود کی عظمت کے خلاف گردانا، منافقت کو انسانی ذلت قرار دیا، بےجا خوشامد کو انسانی رفعت کے خلاف جانا، فحش گوئی کو حسن تکلم کے آداب کے منافی سمجھا، ریاء کو اعمال کے ضیاع کا سبب قرار دیا،حرص و طمع کو انسانیت کی تذلیل اور توہین جانا، غیظ و غضب کو انسانی وقار کے خلاف تسلیم کیا، عیب جوئی کو اپنی ذات سے بے وفائی اور بدعہدی جانا، غرضیکہ رسول اللہﷺ کا خلق عظیم دونوں اعتبار سے تھا۔ خلق حسنہ و حمیدہ کے اثباتی پہلو کے اعتبار سے اور خلق سیئہ و رزیلہ کے انسدادی پہلو کے لحاظ سے تھا۔ گویا کہ آپ ﷺ نے خلق حسنہ و حمیدہ کا اثبات کیا ہے اور خلق سیئہ و رزیلہ کا انسداد کیا ہے۔ خلق حسنہ و حمیدہ کو فروغ دیا ہے اور خلق رزیلہ و سیئہ کی ممانعت اور خاتمہ فرمایا۔
دعا ہےکہ اللہ تعالی ہمیں سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں اخلاق حسنہ و حمیدہ اپنانے اور اخلاق رزیلہ و سیئہ ترک کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العٰلمین۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی