ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۴
امیدوں کا چراغ بجھا نہیں!
مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
مقدمہ
مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم
ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
مسلمانوں کی آبادی اب دنیا کے تقریبا ً ہر ملک میں پائی جاتی ہے، اور وہ ملک جن میں وہ اکثریت میں ہیں ایک معتدبہ تعداد رکھتے ہیں،یہ تعدا دایسی ہے کہ بین الاقوامی سیاست اور دیگر معاملات میں نظر انداز نہیں کی جاسکتی،مسلمانوں کے یہ ملک اقتصادی لحاظ سے بھی مضبوط ہیں، ان میں سے متعدد ملک اپنے معدنی ذخائر کے لحاظ سے دنیا کے اولین ملکوں میں شمار کئے جاتے ہیں اور ان کے بعض ذخائر ایسے ہیں کہ دنیا کے انتہائی بڑے ملک اپنے کو ان کا محتاج محسوس کرتے ہیں، مسلمان اگر امت واحدہ کے طور پر کام کریں تو دنیا کی بین الاقوامی سیاست اور رائے عامہ ان کی مرضی کے خلاف نہیں ہوسکتی، ان کی رعایت کے بغیر دنیا کا کوئی کام انجام نہیں پاسکتا۔
مسلمانوں کو اللہ تعالی کی طرف سے جو دین عطاء کیا گیا ہے، وہ تمام انسانیت کی فلاح اور صلاح کا ضامن ہے، وہ نہ صرف خودمسلمانوں کی عزت و قوت کا باعث ہے، بلکہ ساری دنیا کی عزت و قوت کا سر چشمہ یہ دین بن سکتا ہے،لیکن اس امر کی طرف توجہ تمام دنیا کو کیا خود مسلمانوں کو بھی نہیں ہے، وہ نہ اپنے دین کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور نہ بحیثیت ایک بین الاقوامی اور عظیم تر ملت ہونے کے اپنی طاقت کو سمجھتے ہیں، وہ اپنے دین کی اس اہمیت اور اپنی عظیم طاقت سے فائدہ اٹھانے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے اور اس کے لیے جو سودمند طریقہ ہے اس کو اختیار نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی اہمیت سے واقف نہیں کراتے، یہ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ وہ خود بھی اس سے صحیح فائدہ اٹھائیں اور دوسروں کو بھی اس کی اہمیت و افادیت سے واقف کرائیں، مسلمانوں کو اللہ تعالی کی طرف سے امت دعوت بنایا گیا ہے، ان کی افادیت اس پانی کی طرح ہے جس سے انسانوں کی پیاس بجھتی ہے، اور خشک کھیتیاں سیراب ہوکر سرسبز و شاداب ہوتی ہیں، لیکن اس وقت مسلمان خود اپنی پیاس نہیں بجھا پارہے ہیں، اور خود اپنی کھیتیوں کو سر سبز و شاداب نہیں بنا پارہے ہیں، اس وقت دنیا کے ملکوں میں کم ایسے ملک ہوں گے جہاں مسلمانوں پر بحیثیت مسلمان زمین تنگ نہ ہو، ان کو بے بسی اور لاچارگی کا سامنا نہ ہو۔ ان کا حال یہ ہوگیا ہے کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں ان کو سیاسی اور اقتصادی دشواریوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں ان کو اپنے دین پر صحیح طور پرعمل کرنے اور اس کو نافذ کرنے میں طرح طرح کی دشواریاں پیش آرہی ہیں۔
یہ صورت حال اگر مسلمان ایک کمزور، بے قیمت اور وسائل زندگی سے محروم قوم ہوتے تو سمجھ میں آسکتی تھی یا ان کی تعداد بہت کم ہوتی توبھی سمجھ میں آسکتی تھی، لیکن ان کے موجودہ حجم کی صورت میں کہ دنیا کی پانچ ارب آبادی میں وہ ایک ارب سے زیادہ ہیں۔ دنیا کے سیاسی طور پر ڈیڑھ سوتسلیم شدہ ملکوں میں ایک تہائی کے قریب ہیں۔ متحدہ اقوام میں وہ جس رائے کی طرف ہوجائیں اس رائے کا ناکام ہونا ممکن نہیں۔ وہ دنیا کے ملکوں کی برادری میں کوئی ایک موقف اپنائیں تو ان کے موقف کو گرایانہیں جاسکتا، وہ اپنی زمینی دولتوں کو صحیح ڈھنگ سے استعمال کریں تو دنیا کے بڑے بڑے ملک ان کے قدموں پر گر جائیں گے۔ وہ متحدہوکر اپنی سیاست بنائیں تو دنیا میں کوئی بڑا فیصلہ ان کی رائے معلوم کئے بغیر نہ ہوسکے گا۔
لیکن ہو کیا رہاہے؟ مسلمانوں کی ان تمام طاقتوں اور صلاحیتوں کے باوجودان کے برعکس حالات میں چھوٹے سے چھوٹا گروہ بھی آپس میں کئی ٹکڑوں میں بنا ہوا ہے اور ایسی عداوت ہے کہ دشمن سے بھی نہ ہوگی۔ بھائی بھائی سے جدا ہے، بلکہ اس کو گرانے اور شکست دینے کی خاطر دشمن سے بھی مدد لے لیتا ہے۔ اسلام کی عزت ملت کی عزت اور ادارہ کی عزت کے بجائے صرف اپنی عزت کی فکر میں لگا ہوا ہے۔ وہ اپنی عزت کے خواہ وہ صرف دکھاوے کی اور جھوٹی عزت ہو اپنے خاندان کی اپنی ملت کی عزت کو برباد کر سکتا ہے۔ افراد سے لیکر اداروں، حکومتوں اور بین الاقوامی برادری تک بھی مسلمانوں کا یہ طرز عمل نظر آرہاہے، ایسی صورت میں اس قوم کی ترقی و کامیابی کی اچھی توقعات کہاں قائم کی جاسکتی ہیں؟ لیکن اس سب کے باوجود اس عظیم دین کے تابعداروں کے لیے مایوسی کی بات نہیں ہے۔ اس میں امید کی کرن ان اسلامی تعلیمات میں ہے جو ہم کو قرآن کریم اور حدیث سے ملتی ہیں۔ ان کو اگر ہم اپنا سکیں توہم اپنی تمام کمزوریوں کو دور کر سکتے ہیں، اور مسلمانوں کی تاریخ میں باربار پیش آیاہے کہ امت اتنی گر گئی کہ اس کا اٹھنا دشوار محسوس ہونے لگا، اتنے میں خدا کا ایک بندہ اٹھا اور اس نے اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر چلتے ہوئے اصلاح کی جدو جہد کی اور وہ جدو جہد کامیاب ہوئی، اسی لیے یہ امت اتار چڑھاؤ سے تو گزری لیکن ختم یا تباہ نہ ہوئی۔
آج ضرورت ہے کہ ہم غور کریں کہ ہم اپنی ان کمزوریوں کو کیسے دور کر سکتے ہیں، جو ہم کو تباہی و بربادی میں ڈالے ہوئے ہیں، ہم کو چاہیے کہ ہم ان کمزوریوں کی اصلاح کی فکر کی طرف جلد ہی توجہ کریں، باہر کے دشمن سے لڑنے سے قبل ہم کو اپنے اند ر کے دشمن سے لڑنا ہوگا۔ بخار میں مبتلا آدمی کو پہلے اپنے بخار کو دور کرنے کی فکر کرنا چاہیے تاکہ وہ صحت کیساتھ طاقت آزمائی میں مضبوط ثابت ہو سکے۔ ہماری طاقت وعظمت کا راز اس میں پوشیدہ ہے تَعَاوَنُوْاعَلَی الْبِرِّ وَالَّتقْوٰی وَلاَتَعَاوَنُوْاعَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان(سورہ مائدہ آیت ۲) کہ نیکی کے کام میں اورتقویٰ و احتیاط کے سلسلہ میں آپس میں تعاون کرو۔ معصیت کے کام اور دوسرے پر زیادتی کے سلسلے میں تعاون نہ کرو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَا تَحَاسَدُوْا، ولَا تَنَاجَشُوْا، ولَا تَبَاغَضُوْا، ولَا تَدَابَرُوْا، ولَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ، وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللَّہِ إِخْوَانًا، الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُہُ، ولَا یَخْذُلُہُ، ولَا یَحْقِرُہُ، التَّقْوَی ہَاہُنَا ویُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہٖ ثَلَاثَ مِرَارٍ- بِحَسْبِ اِمْرِءٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ: دَمُہٗ، وَمَالُہٗ، وَعِرْضُہٗ(مُسْلِم حدیث نمبر ۰۱۵۱)حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور بغیر خرید کے ارادے کے کسی چیز کی قیمت میں اضافہ نہ کرو اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، کینہ نہ رکھو اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے تدبیریں نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی خریدوفروخت کی چیز پر خریدو فروخت نہ کرے اور اے اللہ کے بندوبھائی بھائی بن کر رہو مسلمان مسلمان کا بھائی ہے لہٰذا کوئی مسلمان دوسرے مسلمان پر ظلم نہ کرے اس کو رسوا نہ کرے اور اس کی توہین نہ کرے اور اللہ کا ڈر تو یہاں ہے اللہ کے حبیب نے اپنے سینے کی طر ف تین مرتبہ اشارہ فرمایا کہ کسی آدمی کے بد بخت ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو ذلیل کرے،ہر مسلمان کی مسلمان پر تین چیزیں حرام ہیں اس کا خون بہانا،اس کا مال ہڑپنا اور اس کی بے عزتی کرنا۔
ہم تنہا ان دو نصیحتوں کو اپنے سامنے رکھیں اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالیں تو ہماری وحدت مضبوط دیوار کی طرح بن سکتی ہے۔ ہماری طاقت ناقابل شکست چٹان بن سکتی ہے، ہمارا معاشرہ شاندار سیرت و کردار کا معاشرہ بن سکتاہے کہ جس کو دیکھ کر ہمارے دشمن رشک کریں اور صرف رشک ہی نہیں بلکہ اس کی طرف مائل ہونے اور اس کی نقل کرنے کی طرف لپک کر بڑھیں اور ہماری رہنمائی اور سرپرستی میں اپنے کو دے دینے کے خواہشمند ہوں، کیا ایسا ہمارے ماضی میں نہیں ہوا؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ۳۲ سال کے عرصہ میں جو معاشرہ تربیت دیکر تیار کیا تھا اس معاشرہ نے دنیا کے ایک بڑے حصہ کو اپنا گرویدہ اور نیاز مندنہیں بنا لیا؟ حالانکہ ا ن کی مادی طاقت اپنے دشمنوں کی مادی طاقت سے کم تھی،ان کی تعداد ان کے دشمنوں کی تعداد سے کم تھی،انکے وسائل وسامان ِزندگی اپنے دشمنوں کے وسائل اورسامان زندگی سے کم تھے،لیکن انکے پاس ایمان کی طاقت تھی،بے غرضی اور اخلاص کی طاقت تھی۔اللہ کے حکم کے سامنے سر جھکادینے اور خواہش نفس پر غالب رہنے کی طاقت تھی،اورآج ہمارے پاس یہ طاقتیں موجود نہیں،ہم خدا کے حکم اور ملت کے مفاد کے لیے اپنی اندرونی خواہش و جذبہ کوبھی قربان نہیں کرسکتے۔
ہمارے کسی معمولی ذاتی مفاد کا نقصان ہو یا اپنی جھوٹی عزت کے کسی جزو کو دھکا پہنچتا ہو تو ہم شریف سے شریف آدمی کو ذلیل کرکے رکھ دیں۔ملت کے بڑے سے بڑے مفاد کو قربان کر دیں۔خدا اور رسول کے اہم سے اہم حکم کو پامال کردیں،ایسی صورت میں نتیجہ معلوم ہے کے پہلے ملت کی تباہی پھر اسکے افراد کی بربادی اور ذلت،آج افسوس کی یہی بات ہے کہ امت اسلامیہ بین الاقوامی،پھر بین الملکی،پھرمن حیث الجماعت پھر من حیث الافراد“ایسی ذلت و نکبت میں مبتلا نظر آرہی ہے او رحضور صلی االلہ علیہ وسلم کا وہ فرمان آج کے حال پر منطبق ہو رہاہے کہ عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُوشِکُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الأَکَلَۃُ إِلَی قَصْعَتِہَا فَقَالَ قَاءِلٌ وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَءِذٍ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَءِذٍ کَثِیرٌ وَلَکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّیْلِ وَلَیَنْزِعَنَّ اللَّہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمُ الْمَہَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللَّہُ فِی قُلُوبِکُمُ الْوَہَنَ فَقَالَ قَاءِلٌ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا الْوَہَنُ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ(ابو داؤد حدیث نمبر ۷۹۲۴) کہ تم تعداد کی زیادتی کے باوجود سیلاب کے لا ئے ہوئے جھاگ کی طرح ہوگے،یعنی دیکھنے میں بہت لیکن حقیقت و افادیت میں کچھ نہیں۔
ان حالات میں امیدوں کا چراغ بجھا نہیں ہے، ”امیدوں کا چراغ“مایوس کن حالات میں توجہ دلاتا ہے کہ اچھی اور پاکیزہ زندگی، گناہوں سے استغفار، اللہ کی طرف رجوع وانابت کی فکر، دعوت کا عمل،سخت اور مضطرب حالات سے نکال کر اچھے حالات پیدا کرنے کابڑا ذریعہ بنتا ہے اور تاریخ کی مثالوں سے بار بار پتا چلتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کو بھولنے سے اچھے حالات خراب ہوجاتے ہیں،اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع وانابت سے خراب حالات اچھے حالات میں بدل جاتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ کتاب اپنے عنوان اور مضامین کیساتھ ایک مفید کتاب کے طور پر سامنے ہے، جو ایمانیات عبادات،معاشرت،اخلاق، اصلاح نفس، ارشاد و تربیت، تعلیم ودعوت، سیرت و تاریخ، وصیت و نصیحت، اقتباس، تراشوں اور اسلامیات وسماجیات سے متعلق اہم مضامین کا مجموعہ مولانا کبیر الدین فاران مظاہری صاحب کا مرتب کردہ ہے مولانا فاران، مولانا مفتی عبد العزیز صاحب رائے پوری ؒ (سابق ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور)کے تربیت یافتہ اور خاص شاگردوں میں رہے ہیں اور ان کے مشورں کے مطابق دین و تعلیم دین کی اشاعت کے عمل کے لیے کوشش کرتے رہے ہیں اور انکا ایک اچھا تعلیمی ادارہ مدرسہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش میں واقع ہے جہاں علماء ومشائخ کی تشریف آوری ہوتی رہتی ہے،ان کی تقریروں اور تحریروں کے مجموعے پہلے سے بھی (مسرت وغم،مادیت و مذہب کی کشمکش، علم دین کیا اور کیوں،فاران ریڈیائی تقریریں، خطبات فاران، استاذ فرش سے عرش تک لیجانے والی ذات، دعوت و تبلیغ، تذکیر و تانیث، مسنون دعائیں اور مٹی کا چراغ) شائع ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اس کا نفع عام ہو۔وَمَا ذَلِکَ عَلَی اللَّہِ بِعَزِیْزٍ (سورہ فاطر آیت ۷۱)
ندوۃ العلماء، لکھنؤ ۸
/ صفر ۲۴۴۱ھ ۲۶
/ستمبر ۰۲۰۲ء