ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۴
مدارس اسلامیہ کے منتظمین و معلمین کی خدمت میں چند معروضات !
جناب حضرت مولانا و مفتی محمد اطہرصاحب قاسمی، نائب صدر جمعیت علماء بہار
ملک بھر میں تسبیح کے دانوں کی طرح پھیلے ہوئے مدارسِ اسلامیہ کے قیام کا مقصد کتاب وسنت اور ان سے ماخوذ علوم وفنون ہیں؛ان ہی کی افہام و تفہیم،تعلیم وتعلّم،توضیح وتشریح،تعمیل واتباع،دعوت و تبلیغ اور ملت اسلامیہ میں نسلاً بعد نسل ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے،جو اس تسلسل کو تاقیامت قائم و جاری رکھ سکیں۔اگر ہم اور مختصر کرنا چاہیں تو کہ سکتے ہیں کہ قیام مدارس کا مقصد کتاب وسنت کی تعلیم و تربیت اور اس کی دعوت وتبلیغ ہے۔
ام المدارس دارالعلوم دیوبند اور اس کی فکر و منہج پر قائم ملک بھر کے مدارسِ اسلامیہ اپنے قیام کے وقت سے ہی الحمد للّٰہ اسی فکر ونہج پر عمل پیرا ہیں۔مرور زمانہ،نت نئی تبدیلیوں اور جدید ترین ترقیاتی منظرنامے میں بھی اکابرین ملت اسلامیہ نے دنیا بھر کے تمام تر اعتراضات اور الزام تراشیوں کو برداشت کرتے ہوئے نصاب و نظام تعلیم میں کسی قسم کی ایسی بنیادی ترمیم آج تک نہیں کی،جو ان مدارس کے قیام کی روح کے منافی ہو۔
آج مجھے قیام مدارس کے ان ہی روحانی فیوض وبرکات پر ایک مختصر سا مشاہدہ پیش کرنا ہے جس کا حسین خواب ہمارے تمام اکابرین امت نے ملک بھر کے ہر چھوٹے بڑے مدارس و مکاتب سے کررکھی تھی/ ہے۔لیکن ان خوابوں کی تعبیر پر اب رفتہ رفتہ گہن لگتا جارہے اور مدارس اسلامیہ سے باہر کی دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ تو دور اندرون خانہ بھی معاملہ خراب ہوتا جارہاہے۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کتاب وسنت کی تعلیم کی جس امانت کے تحفظ و بقاء اور اس کی نشر واشاعت کے لئے جن مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا یا لایا جارہا ہے،ان میں تعلیم حاصل کرنے والے بیشتر طلبہ بلکہ بعض منتظمین حضرات اور اساتذہ کرام تک میں کتاب وسنت پر کماحقہ عمل میں کمی آتی جارہی ہے اور اسلام کے موثر اسلامی رنگ سے وہ محروم ہوتے جارہے ہیں۔
تمام تر محنت و مشقت،جدو جہد،نسل نو کی تعمیر و ترقی اور دینی خدمات کے اعتراف کے باوجود فی الوقت معدودے چند مدارس(جن کو کسی صاحب نسبت عالم دین کا فیض حاصل ہے)کو چھوڑ کر بیشتر کی صحیح صورت حال یہ ہے کہ طلبہ مدارس میں آزاد خیالی،عمل سے تہی دامنی،تواضع کے بجائے سخت مزاجی،فکر صالح سے محرومی،نماز جیسے اہم فرض کی ادائیگی سے عدم دلچسپی،اسکولی بچوں جیسی وضع قطع کی خواہش،چہرے اور کپڑوں میں بناؤ سنگار،ہیر اسٹائل،قطع لحیہ،ٹخنوں سے نیچے پاجامہ،رنگ برنگے کپڑے،گل اور پڑیے کی لت،فلم بینی اور سب سے خطرناک زہر وہاٹسپ و فیس بک میں انہماک؛طلبہ مدارس کی یہ وہ موٹی موٹی خامیاں ہیں جو روز افزوں ہیں۔
الحاصل اصولی طور پر مدارس کے تین بنیادی عناصر ہیں۔تعمیری وجود،نظام تعلیم اور نظام تربیت؛جبکہ مدارس کے منتظمین و معلمین ان عناصر ثلاثہ کے معمار اور اس روحانی چمن کے باغباں ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ معمار و باغباں جن صلاحیتوں کے حامل اور جن اوصاف وکمالات سے متصف ہوں گے،ادارہ اسی نہج پر ترقی کی منزلیں طے کرے گا۔ساڑھے چودہ سو سال سے آج تک امت مسلمہ کو علم و عمل سے متصف جتنے رجال کار فراہم ہوئے ہیں وہ اکابر و اسلاف کے ان ہی خطوط پر عمل پیرا ہونے کے ثمرات ہیں۔عربی کہاوت ہے کہ "الناس علی دین ملوکہم" کہ عموماً لوگ اپنے امراء و سربراہان کے طور طریقے کی پیروی کرتے ہیں۔
ہمارے مدارس نے ماضی میں اپنی کوکھ سے جن نامور ہستیوں کو جنم دیا ان کے پیچھے حسب ضرورت تعمیری وجود اور معیاری نظام تعلیم کے ساتھ مثالی نظام تربیت کا اہم کردار تھا۔
مدارس کے منتظمین و معلمین صاحب اخلاص و تواضع اور وصف امانت و دیانت سے بدرجہ اتم متصف تھے،وہ علمی ذوق کے ساتھ عملی میدان کے بھی شہسوار تھے۔منتظمین کے ساتھ معلمین بھی باحوصلہ،سلیم الطبع،متحمل مزاج،شریف النفس،سنت و شریعت کے پابند،صاحب نسبت اور رب العالمین کے حضور اپنی ذمےداریوں کی احساس جواب دہی کے جذبات سے وہ سرشار ہوتے تھے۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ نونہالان ملت اسلامیہ کی معیاری تعلیم کے ساتھ مثالی تربیت کی ذمےدارایاں خدا نے ان کے کاندھوں پر ڈال دی ہے؛اس لئے وہ طلبہ عزیز کے تئیں بھی حددرجہ خیرخواہی،شفقت و رحم دلی اور ان کی عمدہ سے عمدہ دینی و اخلاقی تعمیر وترقی کے حریص تھے۔
افسوس صد افسوس کہ رفتہ رفتہ ہم نے اپنی منزل کا نشان اور محنتوں کا عنوان ہی بدل لیا،تمام تر محنتوں و کوششوں کا محور معیاری تعلیم اور مثالی تربیت کی جگہ اقتصادی ترقی،تعمیر و تزئین اور شہرت و ناموری بن کر رہ گیا اور اس بھول بھلیے کے چکر میں اصل مقصد ہی پیچھے چھوٹ گیا۔نتیجہ سامنے ہے کہ ملک ہی نہیں،دنیا بھر کی مسلم قوم جو نونہالان ملت کی علمی و عملی آبیاری کے لئے روزانہ لاکھوں کروڑوں روپے ان مدارسِ اسلامیہ پر صرف کررہی ہے،ان سے واپس انہیں وہی مل رہا ہے جو ہم سب کے سامنے ہے۔
آج بڑا مدرسہ وہی کہلاتا ہے جہاں بڑی بڑی عمارتیں،طلبہ کی کثرت اور ہٹو بچو کے نعرے ہوں۔حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ بڑا مدرسہ وہی ہے جو بڑے یعنی اللہ کو پسند آجائے،جہاں تعمیر برائے تعلیم اور تعلیم برائے تعمیل یعنی رضاء الٰہی ہو(اصلاحی کلمات)۔محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ جسم مدرسہ کی تعمیر و تزئین کے مقابلے میں عمدگی تعلیم کو ترجیح دینی چاہئے(مجالس ابرار)
خیر باتیں طویل ہوگئیں۔گفتگو سمیٹتے ہوئے آج مجھے قیام مدارس کے گم گشتہ ان ہی روحانی فیوض وبرکات کا ایک مختصر سا مشاہدہ پیش کرنا ہے جو گذشتہ 28/ اکتوبر 2022 کو ایک سفر کے دوران محب السنہ حضرت اقدس مولانا عبد المنان صاحب قاسمی دامت برکاتہم مجاز محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی نور اللہ مرقدہ بانی و ناظم مدرسہ امدادیہ اشرفیہ طیب نگر راجوپٹی سیتامڑھی بہار کے یہاں نظر آیا۔
احقر کی سعادت کہ حضرت والا ڈیڑھ سال سے اپنے یہاں مدعو کررہے تھے لیکن امروز و فردا میں تاخیر ہوتی گئی۔زہے نصیب کہ گذشتہ روز بحیثیت ممتحن حضرت والا کے ادارے میں حاضری ہوئی تو اولا تو انہوں نے بے انتہا شفقت و محبت کا معاملہ فرمایا،خوب سے خوب تر ضیافت کروائی،ام المدارس دارالعلوم دیوبند سے فراغت، قیام امروہہ اور اکابرین بطورِ خاص قطب زماں حضرت اقدس مولانا قاری صدیق احمد باندوی علیہ الرحمہ کے حکم پر ریاست بہار میں دینی علوم کی خدمت،دارالعلوم بالا ساتھ کنہواں اور پھر موجودہ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ کی وجہ بناء،اس کو پروان چڑھانے کی دلخراش داستان،ادارہ میں تشریف لانے والے اکابرین؛قطب زماں حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی،فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی،خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی وغیرہ پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔حتی کہ ادارہ کی نئی پرانی عمارت کے ساتھ مختلف حصوں میں منقسم زمین کی مکمل سیر بھی کرائی،ان کے بڑے فرزند مفتی عبد الباقی صاحب قاسمی بھی"الولد صنو ابیہ"کا مصداق نکلے۔
عاجز کو حضرت والا کے ادارے میں تقریباً 20 گھنٹے قیام کا موقع ملا۔حضرت والا کا تواضع دیکھئے کہ انہوں نے گفتگو کے دوران فرمایا کہ مفتی صاحب!میں نے آپ کو ادارہ کے بچوں کے امتحان کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے امتحان کے لئے بلایا ہے۔
میں نے اس بیس گھنٹے میں اپنی آنکھوں سے جو کچھ مشاہدہ کیا ہے وہ محض اس جذبے کے ساتھ رقم کررہاہوں کہ منتظمین و معلمین مدارس بالخصوص ریاست بہار کے اہل مدارس وہاں جاکر اس کا مشاہدہ کریں اور اسی نہج پر اہل دل اکابر کی حقیقی سرپرستی میں نونہالان ملت اسلامیہ کی آبیاری کا فریضہ انجام دیں۔
مشاہدہ کی جھلکیاں:
(1)اساتذہ کرام انتہائی متواضع،خوش اخلاق و خوش مزاج اور اپنے امور مفوضہ کے تئیں بےپناہ حساس نظر آئے۔
(2)طلبہ عزیز کی تعداد اس وقت تقریباً 300 (تین سو) تھی، جس میں نورانی قاعدہ اور حفظ و ناظرہ و فارسی سے لےکر دورہ حدیث شریف تک کے طلبہ تھے۔
(3)نماز کی اذان تمام تر حروف و مخارج کی ادائیگی کے ساتھ نیز مروجہ مد و جزر کے برعکس یکساں کہی جاتی تھی۔
(4)تمام طلبہ کو دیکھا کہ وہ اذان ہوتے ہی صحن مدرسہ میں قائم وسیع وعریض مسجد ابرار میں حاضر ہوجاتے۔
(5)طلبہ جاتے آتے مکمل وقار و سنجیدگی کا لحاظ رکھتے،مروجہ ہڑبونگ بازی اور شور شرابے کی کوئی گذر نہیں تھی۔
(6)طلبہ میں جاتے آتے صحیح تلفظ کے ساتھ سلام کا کافی رواج دیکھا۔
(7)مسجد کے مصلے پر وہ حالت تشہد میں بیٹھتے اور ہر طالب علم کی نگاہ جھکی ہوئی سامنے مصلے پر ہوتی۔
(8)جب تک تکبیر کہ نہیں دی جاتی کسی طالب علم کے جسم میں لگتا کہ کوئی حرکت نہیں ہے،گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔
(9)ہر نماز میں دیکھا کہ کوئی استاذ ہیں جن کے ہاتھوں میں پرچی ہے اور وہ چند بچوں کے نام پکار رہے ہیں اور بچے حاضر حاضر کی آوازیں لگارہے ہیں۔
(10)بعد فجر دیکھا کہ سارے بچوں نے قطار بند ہوکر دوڑ لگائی،پھر سات بجے گھنٹہ لگتے ہی قبلہ رو ہوکر اولا مناجات پڑھا،پھر تصحیح اذان و تکبیر کے بعد تلاوت قرآن کے فوائد پڑھے گئے اور ایک استاذ نے عملی طور پر ہاتھ میں قرآن کریم لےکر ایک رکوع کی تلاوت کی۔آدھے منٹ کی دعاء ہوئی اور طلبہ قطار کے ساتھ اپنی اپنی درس گاہوں میں پہنچ گئے۔
(11)جس استاذ نے قرآن کریم کی تلاوت کی ان سے ہم نے بات کی تو بتایا کہ روزانہ قرعہ اندازی کے ذریعے طے ہوتاہے کہ آج اور ابھی کس استاذ کو تلاوت کرنی ہے۔ساتھی ہی ایک ایک قرآن کریم پر جزدان چڑھے ہوئے دیکھے۔
(12)بارہ بجے دن میں گھنٹی بجی تو دیکھا کہ بچے کھانا لےکر اپنے اپنے کمرہ جارہے ہیں،میں نے کئی بچوں کی پلیٹیں دیکھیں تو باریک چاول پر گاڑھے شوربہ والے گوشت کا سالن تھا۔
(13)نمازِ ظہر کے بعد اول و آخر گیارہ بار درود شریف اور درمیان میں ایک بار تسبیح کے دانے پر حسبنا اللہ و نعم البدل کا ورد کیا گیا۔
(14)عصر بعد مجالس ابرار حضرت ہردوئی نور اللہ مرقدہ اور ورق ورق حکمت حضرت حکیم اختر صاحب نوراللہ مرقدہ کی تعلیم ہوئی،پھر چبوترے پر تمام طلبہ نے ورزش(کسرت) کی۔
(15)مغرب بعد درجہ حفظ کے بچوں نے اوابین کی نماز ادا کی اور بقیہ بچوں نے درجہ وار تصحیح اذان و اقامت کی جس کا عملی مشق صبح کے مناجات کے وقت کیا گیا تھا۔
(16)عشاء بعد لاحول ولاقوۃ الا اللہ لا منجا ولا ملجا الا الیہ،اول و آخر گیارہ بار درود شریف اور درمیان میں سورہ انشراح پھر چند سیکنڈ کی دعاء ہوئی۔
(17)جس وقت کسی طالب علم کو ہم نے آواز لگائی تو جھٹ سے وہ اس طرح بات سننے کے لئے لپکا جیسے کہ کوئی اہم واقعہ رونما ہوگیا ہے۔
(18)بیشتر طلبہ صحت مند نظر آئے،ان کے چہرے پر خون کے آثار نمایاں تھے جو اس بات کی غماز ہے کہ ادارہ میں کھانا کا نظام بھی مناسب ہے۔
(19)تلاش بسیار کے باوجود کسی طالب علم کی ڈاڑھی کٹی ہوئی نہیں پائی،اکا دکا بچوں کے علاوہ سبھوں کے کپڑے سفید تھے،سب کے پاجامے بھی ٹخنوں سے اوپر تھے۔
(20)آخری بات یہ کہ تربیت سے متعلق ان تمام امور کے ساتھ ہم نے جس جماعت کی جن کتابوں کا امتحان لیا،بیشتر طلبہ صلاحیت و استعداد کے لحاظ سے بھی اعلیٰ نمبرات کے حامل تھے۔
الحاصل مدارس اسلامیہ کے منتظمین کے ساتھ معلمین بھی اگر سنت و شریعت کے پابند، اپنے عظیم مقصد کے قدرداں اور دونوں مل جل کر اپنے طلبہ عزیز کی معیاری تعلیم اور مثالی تربیت کے خوبصورت جذبات سے سرشار ہوں گے اور ان میں رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوکر جواب دہی کے احساسات دامن گیر ہوں گے تو بلاشبہ چڑھتے سورج کی طرح یقین کامل ہے کہ ان کے نیک ہاتھوں سے تیار ہونے والی نسلیں بھی اپنے اکابر و اسلاف کا بہترین نمونہ ہوں گی ۔
ان شاء اللہ۔
ام المدارس دارالعلوم دیوبند اور اس کی فکر و منہج پر قائم ملک بھر کے مدارسِ اسلامیہ اپنے قیام کے وقت سے ہی الحمد للّٰہ اسی فکر ونہج پر عمل پیرا ہیں۔مرور زمانہ،نت نئی تبدیلیوں اور جدید ترین ترقیاتی منظرنامے میں بھی اکابرین ملت اسلامیہ نے دنیا بھر کے تمام تر اعتراضات اور الزام تراشیوں کو برداشت کرتے ہوئے نصاب و نظام تعلیم میں کسی قسم کی ایسی بنیادی ترمیم آج تک نہیں کی،جو ان مدارس کے قیام کی روح کے منافی ہو۔
آج مجھے قیام مدارس کے ان ہی روحانی فیوض وبرکات پر ایک مختصر سا مشاہدہ پیش کرنا ہے جس کا حسین خواب ہمارے تمام اکابرین امت نے ملک بھر کے ہر چھوٹے بڑے مدارس و مکاتب سے کررکھی تھی/ ہے۔لیکن ان خوابوں کی تعبیر پر اب رفتہ رفتہ گہن لگتا جارہے اور مدارس اسلامیہ سے باہر کی دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ تو دور اندرون خانہ بھی معاملہ خراب ہوتا جارہاہے۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کتاب وسنت کی تعلیم کی جس امانت کے تحفظ و بقاء اور اس کی نشر واشاعت کے لئے جن مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا یا لایا جارہا ہے،ان میں تعلیم حاصل کرنے والے بیشتر طلبہ بلکہ بعض منتظمین حضرات اور اساتذہ کرام تک میں کتاب وسنت پر کماحقہ عمل میں کمی آتی جارہی ہے اور اسلام کے موثر اسلامی رنگ سے وہ محروم ہوتے جارہے ہیں۔
تمام تر محنت و مشقت،جدو جہد،نسل نو کی تعمیر و ترقی اور دینی خدمات کے اعتراف کے باوجود فی الوقت معدودے چند مدارس(جن کو کسی صاحب نسبت عالم دین کا فیض حاصل ہے)کو چھوڑ کر بیشتر کی صحیح صورت حال یہ ہے کہ طلبہ مدارس میں آزاد خیالی،عمل سے تہی دامنی،تواضع کے بجائے سخت مزاجی،فکر صالح سے محرومی،نماز جیسے اہم فرض کی ادائیگی سے عدم دلچسپی،اسکولی بچوں جیسی وضع قطع کی خواہش،چہرے اور کپڑوں میں بناؤ سنگار،ہیر اسٹائل،قطع لحیہ،ٹخنوں سے نیچے پاجامہ،رنگ برنگے کپڑے،گل اور پڑیے کی لت،فلم بینی اور سب سے خطرناک زہر وہاٹسپ و فیس بک میں انہماک؛طلبہ مدارس کی یہ وہ موٹی موٹی خامیاں ہیں جو روز افزوں ہیں۔
الحاصل اصولی طور پر مدارس کے تین بنیادی عناصر ہیں۔تعمیری وجود،نظام تعلیم اور نظام تربیت؛جبکہ مدارس کے منتظمین و معلمین ان عناصر ثلاثہ کے معمار اور اس روحانی چمن کے باغباں ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ معمار و باغباں جن صلاحیتوں کے حامل اور جن اوصاف وکمالات سے متصف ہوں گے،ادارہ اسی نہج پر ترقی کی منزلیں طے کرے گا۔ساڑھے چودہ سو سال سے آج تک امت مسلمہ کو علم و عمل سے متصف جتنے رجال کار فراہم ہوئے ہیں وہ اکابر و اسلاف کے ان ہی خطوط پر عمل پیرا ہونے کے ثمرات ہیں۔عربی کہاوت ہے کہ "الناس علی دین ملوکہم" کہ عموماً لوگ اپنے امراء و سربراہان کے طور طریقے کی پیروی کرتے ہیں۔
ہمارے مدارس نے ماضی میں اپنی کوکھ سے جن نامور ہستیوں کو جنم دیا ان کے پیچھے حسب ضرورت تعمیری وجود اور معیاری نظام تعلیم کے ساتھ مثالی نظام تربیت کا اہم کردار تھا۔
مدارس کے منتظمین و معلمین صاحب اخلاص و تواضع اور وصف امانت و دیانت سے بدرجہ اتم متصف تھے،وہ علمی ذوق کے ساتھ عملی میدان کے بھی شہسوار تھے۔منتظمین کے ساتھ معلمین بھی باحوصلہ،سلیم الطبع،متحمل مزاج،شریف النفس،سنت و شریعت کے پابند،صاحب نسبت اور رب العالمین کے حضور اپنی ذمےداریوں کی احساس جواب دہی کے جذبات سے وہ سرشار ہوتے تھے۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ نونہالان ملت اسلامیہ کی معیاری تعلیم کے ساتھ مثالی تربیت کی ذمےدارایاں خدا نے ان کے کاندھوں پر ڈال دی ہے؛اس لئے وہ طلبہ عزیز کے تئیں بھی حددرجہ خیرخواہی،شفقت و رحم دلی اور ان کی عمدہ سے عمدہ دینی و اخلاقی تعمیر وترقی کے حریص تھے۔
افسوس صد افسوس کہ رفتہ رفتہ ہم نے اپنی منزل کا نشان اور محنتوں کا عنوان ہی بدل لیا،تمام تر محنتوں و کوششوں کا محور معیاری تعلیم اور مثالی تربیت کی جگہ اقتصادی ترقی،تعمیر و تزئین اور شہرت و ناموری بن کر رہ گیا اور اس بھول بھلیے کے چکر میں اصل مقصد ہی پیچھے چھوٹ گیا۔نتیجہ سامنے ہے کہ ملک ہی نہیں،دنیا بھر کی مسلم قوم جو نونہالان ملت کی علمی و عملی آبیاری کے لئے روزانہ لاکھوں کروڑوں روپے ان مدارسِ اسلامیہ پر صرف کررہی ہے،ان سے واپس انہیں وہی مل رہا ہے جو ہم سب کے سامنے ہے۔
آج بڑا مدرسہ وہی کہلاتا ہے جہاں بڑی بڑی عمارتیں،طلبہ کی کثرت اور ہٹو بچو کے نعرے ہوں۔حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ بڑا مدرسہ وہی ہے جو بڑے یعنی اللہ کو پسند آجائے،جہاں تعمیر برائے تعلیم اور تعلیم برائے تعمیل یعنی رضاء الٰہی ہو(اصلاحی کلمات)۔محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ جسم مدرسہ کی تعمیر و تزئین کے مقابلے میں عمدگی تعلیم کو ترجیح دینی چاہئے(مجالس ابرار)
خیر باتیں طویل ہوگئیں۔گفتگو سمیٹتے ہوئے آج مجھے قیام مدارس کے گم گشتہ ان ہی روحانی فیوض وبرکات کا ایک مختصر سا مشاہدہ پیش کرنا ہے جو گذشتہ 28/ اکتوبر 2022 کو ایک سفر کے دوران محب السنہ حضرت اقدس مولانا عبد المنان صاحب قاسمی دامت برکاتہم مجاز محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی نور اللہ مرقدہ بانی و ناظم مدرسہ امدادیہ اشرفیہ طیب نگر راجوپٹی سیتامڑھی بہار کے یہاں نظر آیا۔
احقر کی سعادت کہ حضرت والا ڈیڑھ سال سے اپنے یہاں مدعو کررہے تھے لیکن امروز و فردا میں تاخیر ہوتی گئی۔زہے نصیب کہ گذشتہ روز بحیثیت ممتحن حضرت والا کے ادارے میں حاضری ہوئی تو اولا تو انہوں نے بے انتہا شفقت و محبت کا معاملہ فرمایا،خوب سے خوب تر ضیافت کروائی،ام المدارس دارالعلوم دیوبند سے فراغت، قیام امروہہ اور اکابرین بطورِ خاص قطب زماں حضرت اقدس مولانا قاری صدیق احمد باندوی علیہ الرحمہ کے حکم پر ریاست بہار میں دینی علوم کی خدمت،دارالعلوم بالا ساتھ کنہواں اور پھر موجودہ مدرسہ امدادیہ اشرفیہ کی وجہ بناء،اس کو پروان چڑھانے کی دلخراش داستان،ادارہ میں تشریف لانے والے اکابرین؛قطب زماں حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی،فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی،خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی وغیرہ پر تفصیلی گفتگو فرمائی۔حتی کہ ادارہ کی نئی پرانی عمارت کے ساتھ مختلف حصوں میں منقسم زمین کی مکمل سیر بھی کرائی،ان کے بڑے فرزند مفتی عبد الباقی صاحب قاسمی بھی"الولد صنو ابیہ"کا مصداق نکلے۔
عاجز کو حضرت والا کے ادارے میں تقریباً 20 گھنٹے قیام کا موقع ملا۔حضرت والا کا تواضع دیکھئے کہ انہوں نے گفتگو کے دوران فرمایا کہ مفتی صاحب!میں نے آپ کو ادارہ کے بچوں کے امتحان کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے امتحان کے لئے بلایا ہے۔
میں نے اس بیس گھنٹے میں اپنی آنکھوں سے جو کچھ مشاہدہ کیا ہے وہ محض اس جذبے کے ساتھ رقم کررہاہوں کہ منتظمین و معلمین مدارس بالخصوص ریاست بہار کے اہل مدارس وہاں جاکر اس کا مشاہدہ کریں اور اسی نہج پر اہل دل اکابر کی حقیقی سرپرستی میں نونہالان ملت اسلامیہ کی آبیاری کا فریضہ انجام دیں۔
مشاہدہ کی جھلکیاں:
(1)اساتذہ کرام انتہائی متواضع،خوش اخلاق و خوش مزاج اور اپنے امور مفوضہ کے تئیں بےپناہ حساس نظر آئے۔
(2)طلبہ عزیز کی تعداد اس وقت تقریباً 300 (تین سو) تھی، جس میں نورانی قاعدہ اور حفظ و ناظرہ و فارسی سے لےکر دورہ حدیث شریف تک کے طلبہ تھے۔
(3)نماز کی اذان تمام تر حروف و مخارج کی ادائیگی کے ساتھ نیز مروجہ مد و جزر کے برعکس یکساں کہی جاتی تھی۔
(4)تمام طلبہ کو دیکھا کہ وہ اذان ہوتے ہی صحن مدرسہ میں قائم وسیع وعریض مسجد ابرار میں حاضر ہوجاتے۔
(5)طلبہ جاتے آتے مکمل وقار و سنجیدگی کا لحاظ رکھتے،مروجہ ہڑبونگ بازی اور شور شرابے کی کوئی گذر نہیں تھی۔
(6)طلبہ میں جاتے آتے صحیح تلفظ کے ساتھ سلام کا کافی رواج دیکھا۔
(7)مسجد کے مصلے پر وہ حالت تشہد میں بیٹھتے اور ہر طالب علم کی نگاہ جھکی ہوئی سامنے مصلے پر ہوتی۔
(8)جب تک تکبیر کہ نہیں دی جاتی کسی طالب علم کے جسم میں لگتا کہ کوئی حرکت نہیں ہے،گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔
(9)ہر نماز میں دیکھا کہ کوئی استاذ ہیں جن کے ہاتھوں میں پرچی ہے اور وہ چند بچوں کے نام پکار رہے ہیں اور بچے حاضر حاضر کی آوازیں لگارہے ہیں۔
(10)بعد فجر دیکھا کہ سارے بچوں نے قطار بند ہوکر دوڑ لگائی،پھر سات بجے گھنٹہ لگتے ہی قبلہ رو ہوکر اولا مناجات پڑھا،پھر تصحیح اذان و تکبیر کے بعد تلاوت قرآن کے فوائد پڑھے گئے اور ایک استاذ نے عملی طور پر ہاتھ میں قرآن کریم لےکر ایک رکوع کی تلاوت کی۔آدھے منٹ کی دعاء ہوئی اور طلبہ قطار کے ساتھ اپنی اپنی درس گاہوں میں پہنچ گئے۔
(11)جس استاذ نے قرآن کریم کی تلاوت کی ان سے ہم نے بات کی تو بتایا کہ روزانہ قرعہ اندازی کے ذریعے طے ہوتاہے کہ آج اور ابھی کس استاذ کو تلاوت کرنی ہے۔ساتھی ہی ایک ایک قرآن کریم پر جزدان چڑھے ہوئے دیکھے۔
(12)بارہ بجے دن میں گھنٹی بجی تو دیکھا کہ بچے کھانا لےکر اپنے اپنے کمرہ جارہے ہیں،میں نے کئی بچوں کی پلیٹیں دیکھیں تو باریک چاول پر گاڑھے شوربہ والے گوشت کا سالن تھا۔
(13)نمازِ ظہر کے بعد اول و آخر گیارہ بار درود شریف اور درمیان میں ایک بار تسبیح کے دانے پر حسبنا اللہ و نعم البدل کا ورد کیا گیا۔
(14)عصر بعد مجالس ابرار حضرت ہردوئی نور اللہ مرقدہ اور ورق ورق حکمت حضرت حکیم اختر صاحب نوراللہ مرقدہ کی تعلیم ہوئی،پھر چبوترے پر تمام طلبہ نے ورزش(کسرت) کی۔
(15)مغرب بعد درجہ حفظ کے بچوں نے اوابین کی نماز ادا کی اور بقیہ بچوں نے درجہ وار تصحیح اذان و اقامت کی جس کا عملی مشق صبح کے مناجات کے وقت کیا گیا تھا۔
(16)عشاء بعد لاحول ولاقوۃ الا اللہ لا منجا ولا ملجا الا الیہ،اول و آخر گیارہ بار درود شریف اور درمیان میں سورہ انشراح پھر چند سیکنڈ کی دعاء ہوئی۔
(17)جس وقت کسی طالب علم کو ہم نے آواز لگائی تو جھٹ سے وہ اس طرح بات سننے کے لئے لپکا جیسے کہ کوئی اہم واقعہ رونما ہوگیا ہے۔
(18)بیشتر طلبہ صحت مند نظر آئے،ان کے چہرے پر خون کے آثار نمایاں تھے جو اس بات کی غماز ہے کہ ادارہ میں کھانا کا نظام بھی مناسب ہے۔
(19)تلاش بسیار کے باوجود کسی طالب علم کی ڈاڑھی کٹی ہوئی نہیں پائی،اکا دکا بچوں کے علاوہ سبھوں کے کپڑے سفید تھے،سب کے پاجامے بھی ٹخنوں سے اوپر تھے۔
(20)آخری بات یہ کہ تربیت سے متعلق ان تمام امور کے ساتھ ہم نے جس جماعت کی جن کتابوں کا امتحان لیا،بیشتر طلبہ صلاحیت و استعداد کے لحاظ سے بھی اعلیٰ نمبرات کے حامل تھے۔
الحاصل مدارس اسلامیہ کے منتظمین کے ساتھ معلمین بھی اگر سنت و شریعت کے پابند، اپنے عظیم مقصد کے قدرداں اور دونوں مل جل کر اپنے طلبہ عزیز کی معیاری تعلیم اور مثالی تربیت کے خوبصورت جذبات سے سرشار ہوں گے اور ان میں رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوکر جواب دہی کے احساسات دامن گیر ہوں گے تو بلاشبہ چڑھتے سورج کی طرح یقین کامل ہے کہ ان کے نیک ہاتھوں سے تیار ہونے والی نسلیں بھی اپنے اکابر و اسلاف کا بہترین نمونہ ہوں گی ۔
ان شاء اللہ۔