ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۴
دعویٰ الفتِ احمد تو سبھی کرتے ہیں
جناب حضرت مولانا محمد سراج الہدی صاحب،ندوی ازہری ، استاذ: دار العلوم سبیل السلام، حیدرآباد
ہم نبی آخر الزماں سید الاولین والآخرین سے عشق و محبت کادعوی کرتے ہیں اور یقینا ہمیں کرنا بھی چاہیے؛ کیوں کے اللہ تعالیٰ کی اس لمبی چوڑی کائنات میں ان سے بڑھ کرہم سب کا کوئی محسن نہیں، تو آئیے ذرا قرآن سے دریافت کرتے ہیں کہ نبی سے عشق و محبت کی اصل دلیل اور علامت کیا ہے؟ تواس سلسلے میں قرآن کا ارشاد ہے: قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (آل عمران:۱۳)آپ ا کہدیجئے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ تعالی بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ اس آیت کریمہ سے صاف صاف ثابت ہو رہا ہے کہ آپ ا کے ساتھ محبت کی دلیل آپ کی اتباع اور فرمانبرداری کرنے میں ہے، جو شخص آپ ا سے محبت کا دعوی کرتا ہو اور آپ ا کی سنت کی پیروی بھی کرتا ہو، وہ اپنی محبت میں سچا ہے اور اگر سنت نبوی پر عمل پیرا نہیں ہے تو وہ جھوٹا ہے، ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
تعصی الالہ وانت تظھر حبہ۔ہذا لعمرک فی القیاس بدیع
لوکان حبک صادقا لاطعتہ۔ان المحب لمن یحب مطیع
ترجمہ:۔ تم اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہو اور اس سے محبت کا دعوی کرتے ہو، تمہاری زندگی کی قسم! یہ انتہائی نامعقول بات ہے، اگر تمہاری محبت سچی ہو تی تو تم اس کی فرمانبرداری کرتے؛ کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔
حبِّ رسول کا تقاضا تو یہ ہے کہ زندگی کی ہر موڑ پر ہم ان کی اطاعت وفرمانبرداری کریں، تب ہی ہم ان کے ساتھ جنت میں ہوسکتے ہیں، اللہ کا فرمان ہے”وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَ ءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولَ ءِکَ رَفِیْقا (النساء: ۹۶) اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ جنت میں ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین اور یہ لوگ بڑے اچھی ساتھی ہوں گے۔ خود اللہ کے رسول ا کا بھی ارشاد ہے: من احیا سنتی فقد احبنی و من احبنی کان معی فی الجنۃ (ترمذی: ۹/ ۹۸۲، حدیث نمبر: ۲۰۶۲) جس نے میری سنت کو زندہ کیا، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
ہم اپنے گریبان میں ذرا جھانک کر تو دیکھیں کہ حبِّ نبی کے دعویٰ میں ہم سچے ہیں یا جھوٹے؟ بنی ا نے تو مؤمن کامل ہو نے کی یہ شرط لگائی کہ آپ ا سے اپنے مال ودولت، آل واولاد اور جان سے بھی زیادہ محبت کی جائے (بخاری: ۵۱،مسلم:۴۴) تو کیا واقعی ہمیں اپنے نبی سے اتنی محبت ہے؟اگر ہاں! تو زندگی کے ہر شعبوں میں اس کا اظہار ہونا چاہئے۔ صرف سالانہ عید میلاد النبی کا جلسہ کر لینے سے محبت کا دعویٰ صحیح نہیں ہوتا۔ محبت تو اسے کہتے ہیں کہ محبو ب کی اک اک ادا پر ہم مرمٹیں۔ آئیے! رسول ا سے محبت کی چند جھلکیاں ہم آپ کو دکھاتے چلیں اور اپنی محبت کو بھی اسی پیمانے میں ناپتے چلیں۔
دیکھئے! ایک صحابہ حضرت حذیفہ بن یمان ہیں،خادم ساتھ ہے، ملک عجمی ہے، دسترخوان پر کھانا کھا رہے ہیں، لقمہ گر پڑا ہے، گرے ہوئے لقمہ کو صاف کر کے منھ میں ڈال رہے ہیں، خادم اشاروں میں یہ پیغام دے رہا ہے کہ عجمیوں میں یہ طریقہ معیوب ہے، وہ ایسے شخص کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، حضرت حذیفہ برہم ہو کر عشق رسول سے سرشار فرما رہے ہیں: ء ا ترک سنۃ حبیبی لہولاء الحمقاء۔ کیا میں اپنے محبوب ا کی سنت ان احمقوں (اور دین نا آشناؤں) کی وجہ سے چھوڑدوں؟
ایک دوسرے صحابی ابو مسعود بدری کا واقعہ ملاحظ کیجئے، ان کا کہنا ہے: میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا کہ میں نہ پیچھے سے ایک آوا ز سنی، غصہ کی وجہ سے میں آواز نہیں سمجھ سکا، جب وہ مجھ سے قریب ہوئے تو میں نے جانا کہ اللہ کے رسول ا ہیں اور کہہ رہے ہیں: اے ابو مسعود! جان لو کہ اللہ تجھ پر اس سے زیادہ قادر ہے، جتنا کہ تم اس غلام پر قادر ہو، ابو مسعود کہتے ہیں:میں نے کہا کہ اب کبھی بھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا، (مسلم: ۸/ ۳۷۴،حدیث نمبر: ۱۳۵۳، ابو داؤد) اسے کہتے ہیں رسول سے محبت کرنے والا۔ یہ دیکھئے حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ا نے سونے کی انگوٹھی پہنی تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں پہن لیں،پھر رسول اللہ ا نے فرمایا: میں نے سونے کی انگوٹھی پہنی تھی،اس کے بعد آپ ا نے اپنی انگوٹھی اتار کر پھینک دی اور فرمایا: ”انی لن البسہ ابداً“ اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا؛ چنانچہ لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں (البخاری:۸۹۲۷،مسلم:۱۶۰۲) یہ واقعہ بھی ملاحظہ کرتے چلئے کہ ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھ کر اللہ کے رسول ا نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا: تم میں سے کوئی شخص جہنم کا ایک شعلہ اٹھاکر اپنے ہاتھ میں رکھ لیتا ہے۔ جب اللہ کے رسول ا چلے گئے، اس آدمی سے کہا گیا، اپنی انگوٹھی اٹھا لو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ، اس نے کہا: اللہ کی قسم جسے اللہ کے رسول ا نے میرے ہاتھ سے اتار پھینکا ہے، میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا، (مسلم:۰۹۰۲) اسے کہتے ہیں نبی سے تعلق ومحبت، صرف زبان سے کہنا اور کردار سے خالی رہنا ناقص محبت ہے، ایسے کو سچا عاشقِ رسول نہیں کہا جا سکتا ہے، یہ تو چند مثالیں میں نے ذکر کی ہیں سیرت کی کتابیں اس طرح کے واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔
مختلف زمانہ کے تین بزرگوں کے واقعات اور سنتے چلئے جنہیں مولانا محمد رضوان القاسمیؒ نے اتباع سنت کا تذکرہ کرتے ہوئے”گلدستہئ سنت“ میں اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں: ”ذرا دوسری طرف نظر ڈالئے، یہ بزرگان دین کے سرخیل حضرت شبلی ہیں، آخری وقت ہے، بے ہوشی کی کیفیت طاری ہے؛ مگر اس کے باوجود وضو کے لئے اصرار کر رہے ہیں، متوسلین اور مریدین کہہ رہے ہیں کہ حضرت! اس حالت میں وضو سے آپ کو تکلیف ہوگی؛ مگر ماننے کے لئے تیار نہیں، وضو کرا دیا گیا، پھر فرما رہے ہیں: وضو کراؤ، مریدین کہہ رہے ہیں کہ حضرت! ابھی تو آپ کو وضو کرایا گیا ہے، فرماتے ہیں: وضو کراؤ، کیوں کہ وضو میں حضور کی سنت انگلیوں کے خلال کی بھی ہے، تم نے مجھے خلال نہیں کرایا، کیا میں دنیا سے اس حال میں جاؤں اور قبر میں حضورا کا سامنا اس طرح کروں کہ آپ اکی ایک سنت کو چھوڑنے کا الزام ہو، یہ کبھی نہیں ہوسکتا، جب دوبارہ انگلیوں کے خلال کی رعایت کے ساتھ وضو کرایا گیا تو وضو کی تکمیل کے ساتھ ہی ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، گویادی کس طرح سے جان تہہ تیغ داغ نے
لب پر تبسم اور نظر یار کی طرف
دیوبند چلئے، دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ سے ملئے، انگریز کا زمانہ ہے، مولانا کے نام گرفتاری کا وارنٹ جاری ہے، احباب و اعزہ کی خواہش اور اصرار پر مصلحتاً چھپ جاتے ہیں، تین دن کے بعد پھر باہر آجاتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ حالات ابھی ٹھیک نہیں ہوئے ہیں، پولیس آپ کی تلاش میں پھر رہی ہے، کچھ دنوں چھپے رہیں، مولانا نے نظر دور کی پائی تھی، کیا عجیب و غریب استدلال کرتے ہیں، اتباع رسول کے جذبے سے کس قدر سرشار ہیں، فرماتے ہیں:
”حالات جو بھی ہوں مگر میں تین دن سے زیادہ چھپا نہیں رہ سکتا، ہمارے آقا (سلام ہو ان پر، درود ہو ان پر) ہجرت کے موقع پر دشمنوں کے تعاقب سے غارِ ثور میں تین ہی دن چھپے رہے تھے، اس سے زیادہ دن چھپ کر میں سنت کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا“۔
یہ دیکھئے حیدرآباد ہے، محلہ کا نام گھانسی بازار ہے، یہاں ایک بزرگ حضرت مسکین شاہ صاحب تشریف فرما ہیں (مقبرہ ان کا علی آباد، حیدرآباد میں ہے) عمران کی کافی ہوچکی ہے، بالکل بوڑھے ہوگئے ہیں، آپ کی خدمت میں ایک خاتون آئی ہوئی ہیں، یہ بھی بہت بوڑھی ہیں، حضرت شاہ صاحبؒ سے اپنے حلقہئ ارادت میں لینے کی خواہش کرتے ہوئے ہاتھ بڑھاتی ہیں، حضرت شاہ صاحب ہاتھ کھینچ لیتے ہیں؛ کیوں کہ مرد کے لئے جائز نہیں کہ وہ اجنبی عورت کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے، اسی لئے عورتوں کو بیعت کرنے میں حضور کی سنت یہ ملتی ہے کہ کپڑے کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں تھاما، دوسرا ان کے ہاتھ میں دیا، حضرت مسکین شاہ صاحب ؒ ایساہی کرنا چاہتے ہیں، خاتون بول پڑتی ہیں: ”حضرت میں بوڑھی، آپ بھی بوڑھے، پھر ہاتھ میں ہاتھ رکھ کر بیعت کرنے میں کیا حرج ہے؟“ حضرت شاہ صاحبؒ جواب دیتے ہیں، ایسا جواب جس میں ان کی بصیرت، فراست اور تعلقِ شریعت و سنت پورے طور پر جلوہ گر ہے، فرماتے ہیں: ”یہ صحیح ہے کہ میں بھی بوڑھا ہوں، تم بھی بوڑھی ہو؛ مگر خدا کی شریعت اور اس کے رسول کی سنت تو جوان ہے۔“ (گلدستہئ سنت: ۹۱۔۸۱)
تاریخ کے اوراق اس طرح کی شخصیتوں کے کردار سے روشن ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے شب وروز کا جائزہ لیں کہ حبِّ نبوی کے دعویٰ میں ہم سچے ہیں یا جھوٹے؟اگر سچے ہیں تو ذہن ودماغ کی موجودگی اور حضوریئ قلب کے ساتھ سوچیں کہ نبی نے تمام شعبہئ حیات کے لئے جو اصول و ضوابط، طور طریقے اور ڈھنگ بتا ئے ہیں، کیا ہم اس پر عمل پیرا ہیں؟
افسوس صد افسوس! ہم نے نبی سے محبت کا دعوی تو کیا؛ لیکن ان کی سنتوں سے دوری اختیار کی اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا کبھی ارادہ نہیں کیا۔ ہم نے محبت کا دعوی تو کیا؛ لیکن ہمیشہ اپنی آل واولاد اور جان ہی کو عزیز جانتے رہے، ہم نے محبت کا دعوی تو کیا؛ لیکن جس طرح ہمارے نبی دوسروں کے لئے تڑپتے تھے، ہمیں دوسروں کی خاطر ایک آنسو بھی نہیں نکلا، ذرا غور کیجئے اور سوچئے کہ آخر یہ کیسی الفت و محبت ہے جس کی ہماری زندگی میں کوئی دلیل ہی نہیں..!سچ کہا ہے مولانا سید اصغر حسین نے:دعویٰ الفتِ احمد تو سبھی کرتے ہیں
کوئی نکلے تو ذرا رنج اٹھانے والا
لوکان حبک صادقا لاطعتہ۔ان المحب لمن یحب مطیع
حبِّ رسول کا تقاضا تو یہ ہے کہ زندگی کی ہر موڑ پر ہم ان کی اطاعت وفرمانبرداری کریں، تب ہی ہم ان کے ساتھ جنت میں ہوسکتے ہیں، اللہ کا فرمان ہے”وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَ ءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولَ ءِکَ رَفِیْقا (النساء: ۹۶) اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ جنت میں ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین اور یہ لوگ بڑے اچھی ساتھی ہوں گے۔ خود اللہ کے رسول ا کا بھی ارشاد ہے: من احیا سنتی فقد احبنی و من احبنی کان معی فی الجنۃ (ترمذی: ۹/ ۹۸۲، حدیث نمبر: ۲۰۶۲) جس نے میری سنت کو زندہ کیا، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
ہم اپنے گریبان میں ذرا جھانک کر تو دیکھیں کہ حبِّ نبی کے دعویٰ میں ہم سچے ہیں یا جھوٹے؟ بنی ا نے تو مؤمن کامل ہو نے کی یہ شرط لگائی کہ آپ ا سے اپنے مال ودولت، آل واولاد اور جان سے بھی زیادہ محبت کی جائے (بخاری: ۵۱،مسلم:۴۴) تو کیا واقعی ہمیں اپنے نبی سے اتنی محبت ہے؟اگر ہاں! تو زندگی کے ہر شعبوں میں اس کا اظہار ہونا چاہئے۔ صرف سالانہ عید میلاد النبی کا جلسہ کر لینے سے محبت کا دعویٰ صحیح نہیں ہوتا۔ محبت تو اسے کہتے ہیں کہ محبو ب کی اک اک ادا پر ہم مرمٹیں۔ آئیے! رسول ا سے محبت کی چند جھلکیاں ہم آپ کو دکھاتے چلیں اور اپنی محبت کو بھی اسی پیمانے میں ناپتے چلیں۔
دیکھئے! ایک صحابہ حضرت حذیفہ بن یمان ہیں،خادم ساتھ ہے، ملک عجمی ہے، دسترخوان پر کھانا کھا رہے ہیں، لقمہ گر پڑا ہے، گرے ہوئے لقمہ کو صاف کر کے منھ میں ڈال رہے ہیں، خادم اشاروں میں یہ پیغام دے رہا ہے کہ عجمیوں میں یہ طریقہ معیوب ہے، وہ ایسے شخص کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، حضرت حذیفہ برہم ہو کر عشق رسول سے سرشار فرما رہے ہیں: ء ا ترک سنۃ حبیبی لہولاء الحمقاء۔ کیا میں اپنے محبوب ا کی سنت ان احمقوں (اور دین نا آشناؤں) کی وجہ سے چھوڑدوں؟
ایک دوسرے صحابی ابو مسعود بدری کا واقعہ ملاحظ کیجئے، ان کا کہنا ہے: میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا کہ میں نہ پیچھے سے ایک آوا ز سنی، غصہ کی وجہ سے میں آواز نہیں سمجھ سکا، جب وہ مجھ سے قریب ہوئے تو میں نے جانا کہ اللہ کے رسول ا ہیں اور کہہ رہے ہیں: اے ابو مسعود! جان لو کہ اللہ تجھ پر اس سے زیادہ قادر ہے، جتنا کہ تم اس غلام پر قادر ہو، ابو مسعود کہتے ہیں:میں نے کہا کہ اب کبھی بھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا، (مسلم: ۸/ ۳۷۴،حدیث نمبر: ۱۳۵۳، ابو داؤد) اسے کہتے ہیں رسول سے محبت کرنے والا۔ یہ دیکھئے حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ا نے سونے کی انگوٹھی پہنی تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں پہن لیں،پھر رسول اللہ ا نے فرمایا: میں نے سونے کی انگوٹھی پہنی تھی،اس کے بعد آپ ا نے اپنی انگوٹھی اتار کر پھینک دی اور فرمایا: ”انی لن البسہ ابداً“ اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا؛ چنانچہ لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں (البخاری:۸۹۲۷،مسلم:۱۶۰۲) یہ واقعہ بھی ملاحظہ کرتے چلئے کہ ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھ کر اللہ کے رسول ا نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا: تم میں سے کوئی شخص جہنم کا ایک شعلہ اٹھاکر اپنے ہاتھ میں رکھ لیتا ہے۔ جب اللہ کے رسول ا چلے گئے، اس آدمی سے کہا گیا، اپنی انگوٹھی اٹھا لو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ، اس نے کہا: اللہ کی قسم جسے اللہ کے رسول ا نے میرے ہاتھ سے اتار پھینکا ہے، میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا، (مسلم:۰۹۰۲) اسے کہتے ہیں نبی سے تعلق ومحبت، صرف زبان سے کہنا اور کردار سے خالی رہنا ناقص محبت ہے، ایسے کو سچا عاشقِ رسول نہیں کہا جا سکتا ہے، یہ تو چند مثالیں میں نے ذکر کی ہیں سیرت کی کتابیں اس طرح کے واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔
مختلف زمانہ کے تین بزرگوں کے واقعات اور سنتے چلئے جنہیں مولانا محمد رضوان القاسمیؒ نے اتباع سنت کا تذکرہ کرتے ہوئے”گلدستہئ سنت“ میں اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں: ”ذرا دوسری طرف نظر ڈالئے، یہ بزرگان دین کے سرخیل حضرت شبلی ہیں، آخری وقت ہے، بے ہوشی کی کیفیت طاری ہے؛ مگر اس کے باوجود وضو کے لئے اصرار کر رہے ہیں، متوسلین اور مریدین کہہ رہے ہیں کہ حضرت! اس حالت میں وضو سے آپ کو تکلیف ہوگی؛ مگر ماننے کے لئے تیار نہیں، وضو کرا دیا گیا، پھر فرما رہے ہیں: وضو کراؤ، مریدین کہہ رہے ہیں کہ حضرت! ابھی تو آپ کو وضو کرایا گیا ہے، فرماتے ہیں: وضو کراؤ، کیوں کہ وضو میں حضور کی سنت انگلیوں کے خلال کی بھی ہے، تم نے مجھے خلال نہیں کرایا، کیا میں دنیا سے اس حال میں جاؤں اور قبر میں حضورا کا سامنا اس طرح کروں کہ آپ اکی ایک سنت کو چھوڑنے کا الزام ہو، یہ کبھی نہیں ہوسکتا، جب دوبارہ انگلیوں کے خلال کی رعایت کے ساتھ وضو کرایا گیا تو وضو کی تکمیل کے ساتھ ہی ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، گویا
”حالات جو بھی ہوں مگر میں تین دن سے زیادہ چھپا نہیں رہ سکتا، ہمارے آقا (سلام ہو ان پر، درود ہو ان پر) ہجرت کے موقع پر دشمنوں کے تعاقب سے غارِ ثور میں تین ہی دن چھپے رہے تھے، اس سے زیادہ دن چھپ کر میں سنت کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا“۔
یہ دیکھئے حیدرآباد ہے، محلہ کا نام گھانسی بازار ہے، یہاں ایک بزرگ حضرت مسکین شاہ صاحب تشریف فرما ہیں (مقبرہ ان کا علی آباد، حیدرآباد میں ہے) عمران کی کافی ہوچکی ہے، بالکل بوڑھے ہوگئے ہیں، آپ کی خدمت میں ایک خاتون آئی ہوئی ہیں، یہ بھی بہت بوڑھی ہیں، حضرت شاہ صاحبؒ سے اپنے حلقہئ ارادت میں لینے کی خواہش کرتے ہوئے ہاتھ بڑھاتی ہیں، حضرت شاہ صاحب ہاتھ کھینچ لیتے ہیں؛ کیوں کہ مرد کے لئے جائز نہیں کہ وہ اجنبی عورت کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے، اسی لئے عورتوں کو بیعت کرنے میں حضور کی سنت یہ ملتی ہے کہ کپڑے کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں تھاما، دوسرا ان کے ہاتھ میں دیا، حضرت مسکین شاہ صاحب ؒ ایساہی کرنا چاہتے ہیں، خاتون بول پڑتی ہیں: ”حضرت میں بوڑھی، آپ بھی بوڑھے، پھر ہاتھ میں ہاتھ رکھ کر بیعت کرنے میں کیا حرج ہے؟“ حضرت شاہ صاحبؒ جواب دیتے ہیں، ایسا جواب جس میں ان کی بصیرت، فراست اور تعلقِ شریعت و سنت پورے طور پر جلوہ گر ہے، فرماتے ہیں: ”یہ صحیح ہے کہ میں بھی بوڑھا ہوں، تم بھی بوڑھی ہو؛ مگر خدا کی شریعت اور اس کے رسول کی سنت تو جوان ہے۔“ (گلدستہئ سنت: ۹۱۔۸۱)
تاریخ کے اوراق اس طرح کی شخصیتوں کے کردار سے روشن ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے شب وروز کا جائزہ لیں کہ حبِّ نبوی کے دعویٰ میں ہم سچے ہیں یا جھوٹے؟اگر سچے ہیں تو ذہن ودماغ کی موجودگی اور حضوریئ قلب کے ساتھ سوچیں کہ نبی نے تمام شعبہئ حیات کے لئے جو اصول و ضوابط، طور طریقے اور ڈھنگ بتا ئے ہیں، کیا ہم اس پر عمل پیرا ہیں؟
افسوس صد افسوس! ہم نے نبی سے محبت کا دعوی تو کیا؛ لیکن ان کی سنتوں سے دوری اختیار کی اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا کبھی ارادہ نہیں کیا۔ ہم نے محبت کا دعوی تو کیا؛ لیکن ہمیشہ اپنی آل واولاد اور جان ہی کو عزیز جانتے رہے، ہم نے محبت کا دعوی تو کیا؛ لیکن جس طرح ہمارے نبی دوسروں کے لئے تڑپتے تھے، ہمیں دوسروں کی خاطر ایک آنسو بھی نہیں نکلا، ذرا غور کیجئے اور سوچئے کہ آخر یہ کیسی الفت و محبت ہے جس کی ہماری زندگی میں کوئی دلیل ہی نہیں..!سچ کہا ہے مولانا سید اصغر حسین نے:
کوئی نکلے تو ذرا رنج اٹھانے والا