ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۴
ماہ ربیع الاول کا پیغام
جناب مولانا و مفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری مظاہری ، استاذ: حدیث و فقہ، مدرسہ قادریہ مسروالا، ہماچل پردیش
ربیع الاول ہجری سال کا تیسرا مہینہ ہے اسی ماہ مبارک میں ہمارے آقا محمد ﷺ کی ولادت باسعادت اور وفات پر ملال کا سانحہ پیش آیا اس وجہ سے اس ماہ کی اہمیت دیگر شہور کے مقابلے میں دیگر گوں و مختلف ہےاس ماہ میں چونکہ دنیا کوتابناک کرنے کے لئےحضور ﷺ تشریف لائے تھے تو اس میں لوگوں کی طرف سے خرافات وبدعات کا رونما ہوناامربدیہی ہے ہم خرافات کی نشاندہی کے بعد سنن و آداب کو معرضِ تحریر لانے کی سعی مسعود سے مستفید ہونگے تاکہ امت بدعات کو ترک کرکے سنت نبوی ﷺ کولائحۂ عمل بناکر دربار رب میں مقبول اورشافع محشر کی سفارش کی سزاوار ٹہرے اس دار فانی میں جو بھی نمودار ہوا چاہےوہ انسان ہویادیگرخلق خدا وہ زوال پذیر لازمی ہوگا تقریباً 1496ساقبل دنیا میں وہ عظیم الشان ہستی بمشیت الہی جلوہ افر…
سیرت رسول کے درخشاں پہلو
نبی ﷺ کا نسب تمام دنیا میں سب سے شریف ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی اس کا انکار نہ کرسکے بخاری ومسلم اور دیگر کتب احادیث کے مطابق شاہ روم نے ابوسفیان سے حضور ﷺ کے متعلق معلوم کیا تو ابوسفیان نے دشمنی کے باوجود یہی جواب دیا کہ بہت شریف النسب ہے ،
حضور ﷺ کا نسب والد گرامی کی طرف سے
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان یہاں تک نسب باجماع امت ثابت ہے اور یہاں سے آدم تک باقی میں اختلاف ہے لہذا باقی بوجہ اختلاف کثیر ترک کردیا
والدہ ماجدہ کی طرف سے حضور ﷺ کا نسب
محمد بن آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کلاب بن مرہ میں جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا نسب جمع ہو جاتا ہے
مواہب لدنیہ میں دلائل ابونعیم سے مرفوعاً روایت ہے جبریل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں پوری دنیا کےمشرق ومغرب میں پھرا مگر بنی ہاشم سے افضل کوئی خاندان نہیں دیکھا
ولادت سے پہلے حضور ﷺ کی برکات کاظہور
حضور ﷺ کی والدہ نے فرمایا کہ جب آپ ان کے بطن میں بصورت حمل مستقر ہوئے تو انہیں خواب میں بشارت دی گئی کہ تم اس امت کے سردار کے ساتھ حاملہ ہوئی ہو لہذا جب یہ دنیا میں آئے تو یوں دعا کرناکہ میں ان کو ایک خدا کی پناہ میں دیتی ہوں اور ان کا نام محمد رکھنا (سیرت بن ہشام)
حضور ﷺ کی ولادت باسعادت
اس بات پر جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ ولادت باسعادت ماہ ربیع الاول میں اس سال ہوئی جس میں واقعہ فیل پیش آیا جس کا تذکرہ قرآن پاک کی سورۂ فیل میں موجود ہے کہ اصحاب فیل نے بیت اللہ پر ہاتھیوں کے ذریعے حملہ کیا اور خدا نے ان کو ابابیل جیسے حقیر پرندوں کے توسط سے شکست دی ،علامہ محی الدین، الخیاط المصری کی الدروس التاریخ الاسلامی کے 14پرمرقوم ہے کہ واقعہ فیل 20اپریل 571 عیسوی میں پیش آیا جس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کی پیدائش حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پانچسو اکہتر سال بعد میں ہوئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور موسی علیہ السلام کی وفات کے مابین مؤرخین کی تحقیق کے مطابق ایک ہزار سات سو سولہ (1716) برس کا فاصلہ ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان پانچسو پینتالیس (545) سال اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور طوفان نوح علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار اکیاسی (1081) برس اور طوفان نوح اور آدم علیہ کے درمیان دوہزار دوسو بیالیس (2242) سال کافاصلہ ہے مؤرخین کی اس تحقیق کی بنا پر آپ صلی اللہ کی ولادت باسعادت اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان چھ ہزار ایک سو پچپن (6155) سال ہوتے ہیں علامہ محی الدین خیاط نے یہی تفصیل لکھی ہے لیکن حافظ حدیث ابنِ عساکر نے اس میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں (تاریخ ابنِ عساکر 21ج1) اور شمشی تقویم کے حساب سے حضور ﷺ کی پیدائش سے ابتک چودہ سو اکیاون (1451) سال ہوگئے ہیں، اس کو بھی جوڑ دیں تو آدم کی پیدائش سے ابتک سات ہزار چھ سو چھ (7606) سال ہوگئے ہیں اور قمری تقویم کے مطابق اگرچہ حضور ﷺ کی پیدائش سے ابتک چودہ سو ستانوے (1497) سال ہوگئے ہیں تواس تحقیق پر انسان کی ابتک مدۃ العمر 7606سال ہے،
حضورﷺ کا عدل
آپ ﷺ ہمیشہ عدل و انصاف کی تلقین فرماتے اور خود بھی اس پر عمل کرتے ۔ عرب کے ایک معزز قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت چوری میں پکڑی گئی ، لوگ چاہتے تھے کہ وہ سزا سے بچ جائے، آپ کے پروردہ اور محبوب حضرت اسامہ بن زید ؓنے سفارش کی۔ آپ ؐنے اس سفارش پر سخت ناگواری کا اظہار کیا اور اس خاتون پر سزا جاری فرمائی۔ (صحیح بخاری ، حدیث نمبر :3475)۔
عدل وانصاف کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ یہود بھی اپنے معاملات طے کرانے کیلئے آپؐ کے پاس آتے تھے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ربیع بنت نضرنے ایک لڑکی کا دانت توڑ دیا، ان لوگوں نے قصاص کامطالبہ کیا، ربیع کے لوگوں نے دوسرے فریق سے معافی کی درخواست کی ، جسے ان لوگوں نے قبول نہیں کیا ، اب دونوں فریق بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے، حضور ؐ نے قصاص جاری کرنے کا حکم فرمایا، ان کے بھائی انس بن نضر نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑ دیا جائے گا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا، آپ ؐ نے فرمایا: قصاص اللہ تعالیٰ کی کتاب کا فیصلہ ہے؛ چنانچہ دوسرا فریق راضی ہوگیا، اور انہوں نے معاف کردیا۔ آپؐ نے فرمایا : اللہ کے بعض ایسے بندے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرمادیتے ہیں۔ (بخاری حدیث نمبر : 3703)
اولاد کے درمیان عدل کی تلقین
حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ کے اصرار پر ان کے والد نے ان کو کچھ ہبہ کرنا چاہا، جب وہ اس کے لئے تیار ہوگئے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس پر حضور ﷺ کو گواہ بنایا جائے؛ چنانچہ یہ دونوں حضرات اپنے صاحبزادہ نعمانؓ کو لے کر آپ کی خدمت میں پہنچے اور آپ کو گواہ بنانا چاہا، آپؐ نے حضرت بشیرؓ سے پوچھا: کیا اس کے علاوہ تمہاری کوئی اور اولاد بھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم نے ان سب کو اسی طرح ہبہ کیا ہے انہوں نے عرض کیا : نہیں۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا : پھر تو میں اس پر گواہ نہیں بن سکتا ؛ کیوںکہ میں ایسے کام پر گواہ نہیں بن سکتا جو ظلم پر مبنی ہو ۔ (مسلم حدیث نمبر : 1423)
بیویوں کے درمیان عدل
جیسے آپ اولاد کے درمیان انصاف اور برابری کا حکم دیتے تھے، اسی طرح بیویوں کے درمیان بھی عدل کا پورا لحاظ فرماتے تھے، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ ہم میں سے ایک کو دوسرے پر باری کے معاملہ میں ترجیح نہیں دیتے تھے، روزانہ تمام ازواج سے ملاقات فرماتے تھے؛ لیکن جن کی باری ہوتی تھی، ان ہی کے پاس شب گزارتے تھے: حتی یبلغ إلی التی ھو یومھا فیبیت۔ (ابو دادؤ ، حدیث نمبر : 2135) جب آپ ﷺ سفر میں تشریف لے جاتے اور کسی زوجہ مطہرہ کو ساتھ لے جانا ہوتا تو اپنے طورپر انتخاب نہیں فرماتے؛ بلکہ قرعہ اندازی کرتے اور جن کا نام نکل آیا ، ان کو ساتھ لے جاتے۔ (بخاری، حدیث نمبر : 5211) اس درجہ عدل و انصاف کے باوجود حضرت عائشہؓ کی طرف آپ کا قلبی رجحان تھا تو فرماتے تھے: اے اللہ! جو چیز میرے اختیار میں ہے، اس میں تو میں عادلانہ تقسیم کررہا ہوں؛ لیکن جس چیز کے آپ مالک ہیں، میں مالک نہیں ہوں ، یعنی: قلبی رجحان، اس میں میری پکڑ نہ فرمائیں: فلا تلمنی فیما تملک ولا أملک۔ (ابوداؤد حدیث نمبر : 2134)
فیصلہ کرنے میں عدل
اگر کوئی شخص قاضی یا حَکَم ہو تو اس کے لئے آپؐ نے خاص طورپر عدل کی تاکید فرمائی، آپؐ نے فرمایا: قاضی تین قسم کے ہیں : ایک جنت میں جائےگا اور دو دوزخ میں، جس نے مقدمہ میں یہ بات سمجھ لی کہ کون حق پر ہے اور اس کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنت میں جائے گا، اور جس نے حق اور ناحق کو سمجھ لیا پھر بھی غلط فیصلہ کیا، یا اس میں حق و ناحق کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی اور جہالت کے باوجود فیصلہ کردیا تو ان دونوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 3552)
حضور ﷺ کی سخاوت
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور آپ کی شان اجود الناس بالخیر اور اکرم الناس بالخیر تھی۔ سب سے زیادہ جود و کرم کے ساتھ حاجتمندوں، ضرورتمندوں اور محتاجوں پر خرچ کرتے تھے۔ آپ کے خرچ کرنے اور سخاوت کرنے کی شان ’’الریح المرسلہ‘‘ تیز ہوا کی طرح تھی جو کچھ مال غنیمت، تحائف، ہدایا، عطیات، صدقات، خیرات آتے وہ فوراً خرچ کردیتے۔ آپ کی شان سخاوت سے ہر کوئی ’’الریح المرسلہ‘‘ تیز ہوا کی طرح فیضیاب ہوتا تھا اور تیز ہوا کی طرح یہ چیزیں آپ کے پاس رکتی نہ تھی بلکہ مستحقین تک فوری پہنچ جاتیں۔ جو کچھ دن کو آتا وہ رات آنے سے پہلے پہلے بٹ جاتا تھا اور تقسیم ہوجاتا تھا۔
رمضان المبارک میں خلق سخاوت کا اظہار کمال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان سخاوت اور یہ خلق جود و کرم رمضان المبارک میں اپنے کمال پر دکھائی دیتا تھا۔ اس لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمت روایت کرتے ہیں:ـ کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم اجود الناس بالخير واجود ماکان في شهر رمضان وکان اذالقيه جبرئيل عليه السلام اجود بالخير من الريح المرسلة. ( بخاري مسلم حدیث نمبر1802)حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان المبارک میں بہت سخاوت فرماتے اور جب بھی جبرائیل امین علیہ السلام آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو آپ تیز ہوا سے زیادہ سخاوت فرماتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے فاقہ کشوں کا فاقہ ختم کرتے، غریبوں اورمحتاجوں کی غربت کا خاتمہ کرتے، ضرورتمندوں کی حاجتوں کو پورا کرتے، تنگدستوں کی تنگدستی دور کرتے۔ افراد امت کی بدحالی کو اپنی شان سخاوت کے ساتھ خوشحالی میں بدلتے رہتے تھے والسلام
سیرت رسول کے درخشاں پہلو
نبی ﷺ کا نسب تمام دنیا میں سب سے شریف ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی اس کا انکار نہ کرسکے بخاری ومسلم اور دیگر کتب احادیث کے مطابق شاہ روم نے ابوسفیان سے حضور ﷺ کے متعلق معلوم کیا تو ابوسفیان نے دشمنی کے باوجود یہی جواب دیا کہ بہت شریف النسب ہے ،
حضور ﷺ کا نسب والد گرامی کی طرف سے
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان یہاں تک نسب باجماع امت ثابت ہے اور یہاں سے آدم تک باقی میں اختلاف ہے لہذا باقی بوجہ اختلاف کثیر ترک کردیا
والدہ ماجدہ کی طرف سے حضور ﷺ کا نسب
محمد بن آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کلاب بن مرہ میں جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا نسب جمع ہو جاتا ہے
مواہب لدنیہ میں دلائل ابونعیم سے مرفوعاً روایت ہے جبریل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں پوری دنیا کےمشرق ومغرب میں پھرا مگر بنی ہاشم سے افضل کوئی خاندان نہیں دیکھا
ولادت سے پہلے حضور ﷺ کی برکات کاظہور
حضور ﷺ کی والدہ نے فرمایا کہ جب آپ ان کے بطن میں بصورت حمل مستقر ہوئے تو انہیں خواب میں بشارت دی گئی کہ تم اس امت کے سردار کے ساتھ حاملہ ہوئی ہو لہذا جب یہ دنیا میں آئے تو یوں دعا کرناکہ میں ان کو ایک خدا کی پناہ میں دیتی ہوں اور ان کا نام محمد رکھنا (سیرت بن ہشام)
حضور ﷺ کی ولادت باسعادت
اس بات پر جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ ولادت باسعادت ماہ ربیع الاول میں اس سال ہوئی جس میں واقعہ فیل پیش آیا جس کا تذکرہ قرآن پاک کی سورۂ فیل میں موجود ہے کہ اصحاب فیل نے بیت اللہ پر ہاتھیوں کے ذریعے حملہ کیا اور خدا نے ان کو ابابیل جیسے حقیر پرندوں کے توسط سے شکست دی ،علامہ محی الدین، الخیاط المصری کی الدروس التاریخ الاسلامی کے 14پرمرقوم ہے کہ واقعہ فیل 20اپریل 571 عیسوی میں پیش آیا جس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کی پیدائش حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پانچسو اکہتر سال بعد میں ہوئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور موسی علیہ السلام کی وفات کے مابین مؤرخین کی تحقیق کے مطابق ایک ہزار سات سو سولہ (1716) برس کا فاصلہ ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان پانچسو پینتالیس (545) سال اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور طوفان نوح علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار اکیاسی (1081) برس اور طوفان نوح اور آدم علیہ کے درمیان دوہزار دوسو بیالیس (2242) سال کافاصلہ ہے مؤرخین کی اس تحقیق کی بنا پر آپ صلی اللہ کی ولادت باسعادت اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان چھ ہزار ایک سو پچپن (6155) سال ہوتے ہیں علامہ محی الدین خیاط نے یہی تفصیل لکھی ہے لیکن حافظ حدیث ابنِ عساکر نے اس میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں (تاریخ ابنِ عساکر 21ج1) اور شمشی تقویم کے حساب سے حضور ﷺ کی پیدائش سے ابتک چودہ سو اکیاون (1451) سال ہوگئے ہیں، اس کو بھی جوڑ دیں تو آدم کی پیدائش سے ابتک سات ہزار چھ سو چھ (7606) سال ہوگئے ہیں اور قمری تقویم کے مطابق اگرچہ حضور ﷺ کی پیدائش سے ابتک چودہ سو ستانوے (1497) سال ہوگئے ہیں تواس تحقیق پر انسان کی ابتک مدۃ العمر 7606سال ہے،
حضورﷺ کا عدل
آپ ﷺ ہمیشہ عدل و انصاف کی تلقین فرماتے اور خود بھی اس پر عمل کرتے ۔ عرب کے ایک معزز قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت چوری میں پکڑی گئی ، لوگ چاہتے تھے کہ وہ سزا سے بچ جائے، آپ کے پروردہ اور محبوب حضرت اسامہ بن زید ؓنے سفارش کی۔ آپ ؐنے اس سفارش پر سخت ناگواری کا اظہار کیا اور اس خاتون پر سزا جاری فرمائی۔ (صحیح بخاری ، حدیث نمبر :3475)۔
عدل وانصاف کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلم کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ یہود بھی اپنے معاملات طے کرانے کیلئے آپؐ کے پاس آتے تھے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ ربیع بنت نضرنے ایک لڑکی کا دانت توڑ دیا، ان لوگوں نے قصاص کامطالبہ کیا، ربیع کے لوگوں نے دوسرے فریق سے معافی کی درخواست کی ، جسے ان لوگوں نے قبول نہیں کیا ، اب دونوں فریق بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے، حضور ؐ نے قصاص جاری کرنے کا حکم فرمایا، ان کے بھائی انس بن نضر نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑ دیا جائے گا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا، آپ ؐ نے فرمایا: قصاص اللہ تعالیٰ کی کتاب کا فیصلہ ہے؛ چنانچہ دوسرا فریق راضی ہوگیا، اور انہوں نے معاف کردیا۔ آپؐ نے فرمایا : اللہ کے بعض ایسے بندے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرمادیتے ہیں۔ (بخاری حدیث نمبر : 3703)
اولاد کے درمیان عدل کی تلقین
حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں کہ ان کی والدہ کے اصرار پر ان کے والد نے ان کو کچھ ہبہ کرنا چاہا، جب وہ اس کے لئے تیار ہوگئے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس پر حضور ﷺ کو گواہ بنایا جائے؛ چنانچہ یہ دونوں حضرات اپنے صاحبزادہ نعمانؓ کو لے کر آپ کی خدمت میں پہنچے اور آپ کو گواہ بنانا چاہا، آپؐ نے حضرت بشیرؓ سے پوچھا: کیا اس کے علاوہ تمہاری کوئی اور اولاد بھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا : ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم نے ان سب کو اسی طرح ہبہ کیا ہے انہوں نے عرض کیا : نہیں۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا : پھر تو میں اس پر گواہ نہیں بن سکتا ؛ کیوںکہ میں ایسے کام پر گواہ نہیں بن سکتا جو ظلم پر مبنی ہو ۔ (مسلم حدیث نمبر : 1423)
بیویوں کے درمیان عدل
جیسے آپ اولاد کے درمیان انصاف اور برابری کا حکم دیتے تھے، اسی طرح بیویوں کے درمیان بھی عدل کا پورا لحاظ فرماتے تھے، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ ہم میں سے ایک کو دوسرے پر باری کے معاملہ میں ترجیح نہیں دیتے تھے، روزانہ تمام ازواج سے ملاقات فرماتے تھے؛ لیکن جن کی باری ہوتی تھی، ان ہی کے پاس شب گزارتے تھے: حتی یبلغ إلی التی ھو یومھا فیبیت۔ (ابو دادؤ ، حدیث نمبر : 2135) جب آپ ﷺ سفر میں تشریف لے جاتے اور کسی زوجہ مطہرہ کو ساتھ لے جانا ہوتا تو اپنے طورپر انتخاب نہیں فرماتے؛ بلکہ قرعہ اندازی کرتے اور جن کا نام نکل آیا ، ان کو ساتھ لے جاتے۔ (بخاری، حدیث نمبر : 5211) اس درجہ عدل و انصاف کے باوجود حضرت عائشہؓ کی طرف آپ کا قلبی رجحان تھا تو فرماتے تھے: اے اللہ! جو چیز میرے اختیار میں ہے، اس میں تو میں عادلانہ تقسیم کررہا ہوں؛ لیکن جس چیز کے آپ مالک ہیں، میں مالک نہیں ہوں ، یعنی: قلبی رجحان، اس میں میری پکڑ نہ فرمائیں: فلا تلمنی فیما تملک ولا أملک۔ (ابوداؤد حدیث نمبر : 2134)
فیصلہ کرنے میں عدل
اگر کوئی شخص قاضی یا حَکَم ہو تو اس کے لئے آپؐ نے خاص طورپر عدل کی تاکید فرمائی، آپؐ نے فرمایا: قاضی تین قسم کے ہیں : ایک جنت میں جائےگا اور دو دوزخ میں، جس نے مقدمہ میں یہ بات سمجھ لی کہ کون حق پر ہے اور اس کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنت میں جائے گا، اور جس نے حق اور ناحق کو سمجھ لیا پھر بھی غلط فیصلہ کیا، یا اس میں حق و ناحق کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی اور جہالت کے باوجود فیصلہ کردیا تو ان دونوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 3552)
حضور ﷺ کی سخاوت
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور آپ کی شان اجود الناس بالخیر اور اکرم الناس بالخیر تھی۔ سب سے زیادہ جود و کرم کے ساتھ حاجتمندوں، ضرورتمندوں اور محتاجوں پر خرچ کرتے تھے۔ آپ کے خرچ کرنے اور سخاوت کرنے کی شان ’’الریح المرسلہ‘‘ تیز ہوا کی طرح تھی جو کچھ مال غنیمت، تحائف، ہدایا، عطیات، صدقات، خیرات آتے وہ فوراً خرچ کردیتے۔ آپ کی شان سخاوت سے ہر کوئی ’’الریح المرسلہ‘‘ تیز ہوا کی طرح فیضیاب ہوتا تھا اور تیز ہوا کی طرح یہ چیزیں آپ کے پاس رکتی نہ تھی بلکہ مستحقین تک فوری پہنچ جاتیں۔ جو کچھ دن کو آتا وہ رات آنے سے پہلے پہلے بٹ جاتا تھا اور تقسیم ہوجاتا تھا۔
رمضان المبارک میں خلق سخاوت کا اظہار کمال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان سخاوت اور یہ خلق جود و کرم رمضان المبارک میں اپنے کمال پر دکھائی دیتا تھا۔ اس لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمت روایت کرتے ہیں:ـ کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم اجود الناس بالخير واجود ماکان في شهر رمضان وکان اذالقيه جبرئيل عليه السلام اجود بالخير من الريح المرسلة. ( بخاري مسلم حدیث نمبر1802)حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان المبارک میں بہت سخاوت فرماتے اور جب بھی جبرائیل امین علیہ السلام آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو آپ تیز ہوا سے زیادہ سخاوت فرماتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے فاقہ کشوں کا فاقہ ختم کرتے، غریبوں اورمحتاجوں کی غربت کا خاتمہ کرتے، ضرورتمندوں کی حاجتوں کو پورا کرتے، تنگدستوں کی تنگدستی دور کرتے۔ افراد امت کی بدحالی کو اپنی شان سخاوت کے ساتھ خوشحالی میں بدلتے رہتے تھے والسلام