ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۴
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات
جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری،جنرل سکریٹری: ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)
تاریخِ عالم کی وسعتوںپر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں ان کی بے کرانیوں میں ایک ایسا دور نظر آتا ہے، جو اخلاقی پراگندگی اور ذہنی دیوالگی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا ہے، ایسا بدتر دور نہ کبھی اس سے پہلے اس روئے زمین پر رونما ہوا تھا اور نہ ہی کبھی رونما ہوگا، یہ وہ دور ہے جسے ہم اور آپ ” دورِ جاہلیت “ کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔
دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں تھی جو اس دور کے اندر نہیں پائی جاتی تھی، لوگ توحید کے نام سے نا آشنا اور شرک کے متوالے بنے ہوئے تھے، بت پرستی عام تھی، جہالت کا دور دورہ تھا، علمی پسماندگی اورعملی زبوں حالی کا طوطا بولتا تھا، زنا کاری اور بے حیائی معمولی بات تھی، بے گناہوں پرظلم و ستم اور معصوموں پر جور و جفا کا بازار گرم تھا، شراب نوشی اور حرام خوری ان کے یہاںکوئی معنی نہیں رکھتی تھی، عورتوں کے حقوق تلف کئے جاتے تھے، جیتی جاگتی معصوم دوشیزاؤں کو سپردِ خاک کردیا جاتا تھا، انسانیت سوزی اور نفس کشی اس معاشرے کا جزء لاینفک تھی، معمولی سی معمولی بات پر تلوار بے نیام ہو جاتی تھی، اور پھر تلوار اس وقت تک نیام میں نہیں پہنچتی تھی،جب تک کہ گلی کوچوں میں بےگناہ انسانوں کے خون کے دھارے نہ بہہ پڑتے تھے،اور اخلاق و کردار کی پستی کا یہ عالم تھا کہ لوگ برائی کر کے شرمندہ ہونے کے بجائے ایسے خوش ہوتے تھے جیسے انہوں نے دنیا جہان کی دولت اپنے دامن میں سمیٹ لی ہو۔
ظلم و ستم کی اس چکی میں پستی ہوئی مخلوق کی آہ و بکا اور تلواروں کی چھاؤں میںلُٹتی ہوئی عصمتوں کی چیخ و پکار سے ارض و سماء سہمے ہوئے تھے،شاخِ گل پر بیٹھے پرندوں کی نواسنجیوں میں معصوم دوشیزاؤں کی فریاد آسمان کا جگر چاک کر رہی تھی،اور بے کس و مجبور کی آس بھری نگاہیں اس شاہ راہ کو تک رہی تھیں، جس میں کسی رحمت کے ایسے فرشتے کا ظہور ہوتا جو اپنے اخلاق کی بلندی اور کردار کی عمدگی سے ان ساری برائیوں کا قلع قمع کردیتا اور جادۂ حق سے بھٹکے انسانوں کے قافلوں کو اپنی پیاری تعلیمات اور پاکیزہ اخلاق کی بدولت درست سمت عطا کرتا۔
بالآخر کسی مجبور و بےکس کی دعا بارگاہِ اجابت میں مقبول ہو ہی گئی اور پھر اس ظلمت کدے میں محمد بن عبداللہ کی شکل میں ایک ایسے چراغ کی روشنی پھوٹی جس کی بھینی بھینی کرنوں سے اس ظلمت کدے کو نورکدہ بننا تھا، جس کی پیاری تعلیمات اور پاکیزہ ہدایات سے سارے عالم کو بہرہ ور ہونا تھا اورجس کے بتائے ہوئے اصول پر چل کر انسانوں کو بامراد و شاد کام ہونا تھا۔
چنانچہ غارِ حرا سے اس چراغِ ہدایت کے جل اٹھتے ہی یک بیک اس ظلمت کدے سے اندھیریاں اپنادامن سمیٹنے لگیں، برائیاں کنارے لگنے لگیںاور شرک و کفر،صنم پرستی اور جہالت پروری کے گھروندوں پر توحید و تعلیم کی بجلیاں کوندنے لگیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس چراغ سے پھوٹنے والی شعاعیں دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے تک پھیل گئیں،جن سے پورا عالم اچانک جگمگا اٹھا ۔ اپنے لہو سے کردی روشن گلیاں اس ویرانے کی
گرچہ بہت تاریک تھیں راہیں شہرِ وفا تک جانے کی اس ذات اقدس نے بےراہ انسانوں کو سیدھی راہ بتائی، انہیں جینے کا طریقہ، اور زندگی گزارنے کا سلیقہ بتایا،خالق کائنات کی ذات تک اس کے بندوں کو پہونچانے کےلئے ان کو توحید کے نغمے سنایا،بےمقصد زندگی کی مضرتوں سے انہیں خبردار کیا، بندگانِ خدا کو انسانیت نوازی اور محبت و الفت کا درس سنایا، نفرت و حقارت اور کبر و کدورت کے انجام سے انہیں آگاہ کیا، ہر موڑ پر بےکسوں اور فریادیوں کی دستگیری کی، ظالموں اور مظلوموں کی مدد کی، اس طور پر کہ ظالم کو ظلم سے روکا اور مظلوم کے زخموں کو اپنے دلاسوں سے سینکا، مہمانوں کی خاطرمدارات کی،عورتوں کے حقوق کے ضیاع پر قدغن لگایا، معصوم دوشیزاؤں کے زندہ درگور کرنے کے بھیانک انجام سے ڈرایا، اپنے دشمنوں کو گلے لگایا، اپنی راہ میں کانٹے بچھانے والوں پر پیار کی شبنم چھڑکی، دوستوں کے ساتھ وفاداری نبھائی، وعدوں معاہدوں کی مکمل پاسداری کی ، بیماروں کی عیادت کی اور دوسروں کو ان کی عیادت پر جنت کا مژدہ سنایا۔
جب سے یہ جہانِ آب و گل وجود میں آیا ہے تب ہی سے اس گلشن حیات میں ہر طرح کے پھول کھلے ہیں، ہر مذہب کے راہنماؤں نے زندگی گزارنے کے اصول اور طریقے بتائے ہیں، اخلاقی تعلیمات کے ذریعے اپنے ماننے والوں کو سنوارنے کی کوشش کی ہے ،لیکن جو پاکیزہ تعلیمات،اخلاقی تربیت، اور روحانی شفافیت ہمارے نبی کریم ﷺ کے پاکیزہ مذہب میں ہے کسی اور مذہب میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں، آپﷺ نے جس مؤمنانہ فراست اور مخلصانہ ذکاوت سے زندگی کے ہر موڑ اور حیاتِ فانی کے ہر نشیب و فراز پر اپنی امت کی رہنمائی کی ہے دوسرے مذہب کے لوگ اس کی گرد تک بھی نہیں پہونچ سکتے۔
پیغمبر محمد ﷺ کی اخلاقی تعلیمات کا یہ دائرہ صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں تھا، بلکہ آپ نے جس طرح انسانوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی ہدایت فرمائی ہے، ٹھیک اسی طرح بےزبان جانوروں اور بے بول پرندوں کے ساتھ بھی حسنِ اخلاق برتنے کا حکم جاری فرمایا ہے، کہ کسی بھی بے زبان جانور اور بے بول پرندے کو ناحق ایذا نہ پہونچاؤ اور نہ ہی انہیں کسی اذیت میں مبتلا کرو۔
حتی کہ چیونٹی جیسی حقیر سی مخلوق اور پرندوں جیسی ادنی سی خلقت کے ساتھ بھی ناروا سلوک سے آپؐ نے اپنی امت کو کافی سختی کے منع کیا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ کو اطلاع ملی کہ ” کچھ لوگوں نے چیونٹیوں کی ایک بستی کو آگ لگا دی ہے “ یہ سنتے ہی آپ کے اندر کےچھپےہوئے دریائے رحمت میں ابال پیدا ہوا، اور آئندہ آپ نے سختی کے ساتھ ایسی حرکت سے باز رہنے کی تاکید کی، اسی طرح ایک بار ایک صحابی نے ایک پرندے کے نوزائیدہ اور بےبال و پر والے چوزوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر دربارِ نبویؐ میں اس حال میں پیش کیا کہ ان کے پیچھے ان کی دکھیاری ماں فریادیں کرتی پھر رہی تھی اور اپنے بچوں کی جدائی کے غم میں نالۂ فراق بلند کر رہی تھی، جب نبیٔ اکرم ﷺ کو پورے واقعہ کا علم ہوا تو آپ کے چہرۂ انور پر خفگی کی لکیریںابھر آئیں اور آپ نے فورا اس شخص کو حکم دیا کہ جہاں سے ان چوزوں کو اٹھا کر لائے ہو انہیں فورا وہیں رکھ آؤ۔ { ابوداؤد}
کوئی ہرگز یہ تصور نہ کرے کہ رسولِ خدا ﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلے اخلاقیات کے یہ درس صرف آپ کی زبانی جمع خرچ تک ہی محدود تھے، اور العیاذ باللہ آپ کی ذات عالیہ ان اوصاف سے عاری تھی، ہرگز نہیں ہرگز نہیں، آپ ﷺ کی ذاتِ اطہر نے نہ صرف یہ کہ اپنی امت کو اخلاقیات کا یہ درس دیا ہے بلکہ خود اس راہِ عمل پر چل کر امت کو بیش بہا نمونہ بھی عطاکیا ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ آپ ﷺ کی ذات سراپا اخلاق تھی، اور آپ کا وجود کردار کی اعلی چوٹیوں پر متمکن تھا تو یہ بےجا نہ ہوگا۔
کیونکہ خود خداوند قدوس نے اپنے کلامِ پاک میں اپنے نبی ﷺ کے بلند اخلاق کی دل کھول کر تعریف کی ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے ” إِنَّك لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظیمٍ“ { سورۃ القلم } یعنی اے نبی! آپ بلند اخلاق پر فائز ہیں، اسی طرح آپ کی خوش خلقی کو بیان کرنے لئے ایک دوسری جگہ ارشاد باری ہے، ” وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ‘ { سورۂ آل عمران }یعنی اے نبی! اگر آپ بدخلق اور سخت قلب ہوتے تو لوگ آپ سے اپنا رشتہ ناطہ توڑ لیتے، نیز ایک حدیث میں خود آپ نے اپنی زبانِ مبارک سے ارشاد فرمایا” بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکارِمَ الأَخْلَاقِ“ { رواہ احمد } یعنی میری بعثت اخلاق کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے۔
آپ کے انہی اخلاقِ عالیہ کا ہی ثمرہ تھا کہ جب غارِ حرا میں آپ پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا، تو اس نئی چیز { وحی }کے بوجھ کی وجہ سے آپ پر لرزہ طاری ہوگیا، ڈر کے مارے آپ تھر تھر کانپنے لگے حتی کہ آپ کو اپنی جان کے چلے جانے کا اندیشہ لاحق ہوگیا، اسی حالت ِنزار میں آپ اپنے گھر تشریف لے آئے اور حالِ دل کی پوری کیفیت اپنی رفیقۂ حیات حضرت خدیجہؓ بنت خویلد سے کہہ سنائی، تو اس کے جواب میں حضرت خدیجہؓ کا جو رویہ تھا اور جن الفاظِ حکیمانہ سے حضرت خدیجہؓ نے آپ کی ڈھارس بندھائی تھی وہ آج بھی تاریخ کے دامن میں حرف بحرف موجود ہے، آپؓ نے کہا تھا { جس کا ترجمہ یہ ہے }” خدا کی قسم، خدا آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا، اور نہ ہی کبھی آپ کو بےیار و مددگار چھوڑے گا کیونکہ آپ تو اخلاقِ فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں“۔ ایسے اوصافِ حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔
قرآنِ کریم کی ان مذکورہ آیات اور احادیثِ رسولﷺ کے ان مذکورہ فرمودات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ اخلاق کے کس بلند درجہ پر فائز تھے، اور عملی اعتبار سے آپ کے اندر اخلاقی پہلو کس قدر نمایاں تھے۔
یہی نہیں بلکہ آپ کے دورِ زندگی میں ایک وہ دن بھی آیا تھا جب آپ نے اخلاق و کردار کی منتہائے رفعت پر کمندیں ڈال دی تھی، اس دن اخلاق و کردار کے سارے کنگرے آپ کے سامنے سرنگوں نہیں ہوگئے تھے، اور یہ وہ دن تھا جب آپ فاتحِ مکہ کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تھے۔
چنانچہ ۸ھ کا سال تھا جب آپ اہل عرب اور دشمنانِ اسلام کی ساری سیلابی قوتوں کو روندتے ہوئے ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے، اور ٣٦٠/ بتوں سے خانۂ خدا کو صاف کیا تھا، اس دن جب آپ ساری کارروائی سے فارغ ہو کر ایک جگہ کھڑے تھے، اور خانۂ کعبہ کی کنجی آپ کی مخروطی انگلیوں میں پھیرے لگا رہی تھی، تو اس وقت کلیدبردارِ کعبہ آپ کے سامنے سہما کھڑا تھا، دہشت کے مارے آپ کے خون کے پیاسے اور جانی دشمنوں کی سانسیں گلے میں آکر اٹک گئی تھیں، پورے مجمع پر سکوت طاری تھا اور سکوت بھی ایسا سکون آور کہ ہر شخص کی دھڑکن کی دھک دھک کرتی آواز اس کے پردۂ سماعت سے آ ٹکرا رہی تھی، مجرمین کی رحم طلب نگاہیں آپ سے رحم و کرم کی بھیک مانگ رہی تھیں، ایسے وقت میں آپ کے پاس ایک سنہرا موقع تھا کہ آپ تلوار کے دستے کو مضبوطی سے تھام لیتے اور اس وقت تک مجرمین کی گردنوں پر تیغ زنی کرتے رہتے جب تک کہ ان کے خون آپ کی انگلیوں کو تلوار کے دستے پر چمٹا نہ دیتے۔
لیکن! قربان جائیں رحمۃ للعالمین ﷺکے اخلاقِ عالیہ پر کہ یک بیک آپ کی معصوم نگاہیں مسکرا اٹھتی ہیں اور کافی دیر سے سربمہر ہونٹ جنبش میں آتے ہیں اور سکوت کے اس پردے کو چیرتے ہوئے اہل قریش کو یہ مژدہ سناتے ہیں ” أَیُّہَا القُرَیشْ!إِذْھَبُوا أَنْتُم الطُّلَقَاءُ “ اے اہل قریش! جاؤ اپنے گھروں کو جاؤ! تم سب آزاد ہو، آج تمہارے کندھے پر رحمۃ اللعالمین کا مخاطب جرم و گناہ کا بوجھ رکھنے نہیں آیا بلکہ اس کو اتار کر انہیں ہلکا کرنے آیا ہے،آج بدلہ کا دن نہیں بلکہ معافی کا دن ہے۔
یہ ہیں پیغمبر محمد ﷺ کی اخلاقی تعلیمات جو ہمیں صرف اپنوں سے ہی نہیں، بلکہ اپنے دشمنوں اور عداوت خواہوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنے کا درس دیتی ہیں،لیکن صد افسوس کہ آج ہم ان کے ماننے والے اپنے نبی کے اس صفت خاص سے دور بہت دور نظر آتے ہیں۔
آج اخلاقِ نبوی کے لہو سے روشن ہوئے اس چراغ کو چودہ صدیاں گزر چکی ہیں، اور اتنے ہی عرصہ پہلے اس کو روشن کرنے والے بھی مٹی کی آغوش میں جا سوگئے ہیں، تاہم ان کی زندہ و جاوید روح آج بھی ہمارے کانوں کو یہ کہتی ہوئی جھنجھوڑتی رہتی ہے کہ: اب جس کا جی چاہے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر راہ رکھ دیا
دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں تھی جو اس دور کے اندر نہیں پائی جاتی تھی، لوگ توحید کے نام سے نا آشنا اور شرک کے متوالے بنے ہوئے تھے، بت پرستی عام تھی، جہالت کا دور دورہ تھا، علمی پسماندگی اورعملی زبوں حالی کا طوطا بولتا تھا، زنا کاری اور بے حیائی معمولی بات تھی، بے گناہوں پرظلم و ستم اور معصوموں پر جور و جفا کا بازار گرم تھا، شراب نوشی اور حرام خوری ان کے یہاںکوئی معنی نہیں رکھتی تھی، عورتوں کے حقوق تلف کئے جاتے تھے، جیتی جاگتی معصوم دوشیزاؤں کو سپردِ خاک کردیا جاتا تھا، انسانیت سوزی اور نفس کشی اس معاشرے کا جزء لاینفک تھی، معمولی سی معمولی بات پر تلوار بے نیام ہو جاتی تھی، اور پھر تلوار اس وقت تک نیام میں نہیں پہنچتی تھی،جب تک کہ گلی کوچوں میں بےگناہ انسانوں کے خون کے دھارے نہ بہہ پڑتے تھے،اور اخلاق و کردار کی پستی کا یہ عالم تھا کہ لوگ برائی کر کے شرمندہ ہونے کے بجائے ایسے خوش ہوتے تھے جیسے انہوں نے دنیا جہان کی دولت اپنے دامن میں سمیٹ لی ہو۔
ظلم و ستم کی اس چکی میں پستی ہوئی مخلوق کی آہ و بکا اور تلواروں کی چھاؤں میںلُٹتی ہوئی عصمتوں کی چیخ و پکار سے ارض و سماء سہمے ہوئے تھے،شاخِ گل پر بیٹھے پرندوں کی نواسنجیوں میں معصوم دوشیزاؤں کی فریاد آسمان کا جگر چاک کر رہی تھی،اور بے کس و مجبور کی آس بھری نگاہیں اس شاہ راہ کو تک رہی تھیں، جس میں کسی رحمت کے ایسے فرشتے کا ظہور ہوتا جو اپنے اخلاق کی بلندی اور کردار کی عمدگی سے ان ساری برائیوں کا قلع قمع کردیتا اور جادۂ حق سے بھٹکے انسانوں کے قافلوں کو اپنی پیاری تعلیمات اور پاکیزہ اخلاق کی بدولت درست سمت عطا کرتا۔
بالآخر کسی مجبور و بےکس کی دعا بارگاہِ اجابت میں مقبول ہو ہی گئی اور پھر اس ظلمت کدے میں محمد بن عبداللہ کی شکل میں ایک ایسے چراغ کی روشنی پھوٹی جس کی بھینی بھینی کرنوں سے اس ظلمت کدے کو نورکدہ بننا تھا، جس کی پیاری تعلیمات اور پاکیزہ ہدایات سے سارے عالم کو بہرہ ور ہونا تھا اورجس کے بتائے ہوئے اصول پر چل کر انسانوں کو بامراد و شاد کام ہونا تھا۔
چنانچہ غارِ حرا سے اس چراغِ ہدایت کے جل اٹھتے ہی یک بیک اس ظلمت کدے سے اندھیریاں اپنادامن سمیٹنے لگیں، برائیاں کنارے لگنے لگیںاور شرک و کفر،صنم پرستی اور جہالت پروری کے گھروندوں پر توحید و تعلیم کی بجلیاں کوندنے لگیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس چراغ سے پھوٹنے والی شعاعیں دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے تک پھیل گئیں،جن سے پورا عالم اچانک جگمگا اٹھا ۔
گرچہ بہت تاریک تھیں راہیں شہرِ وفا تک جانے کی اس ذات اقدس نے بےراہ انسانوں کو سیدھی راہ بتائی، انہیں جینے کا طریقہ، اور زندگی گزارنے کا سلیقہ بتایا،خالق کائنات کی ذات تک اس کے بندوں کو پہونچانے کےلئے ان کو توحید کے نغمے سنایا،بےمقصد زندگی کی مضرتوں سے انہیں خبردار کیا، بندگانِ خدا کو انسانیت نوازی اور محبت و الفت کا درس سنایا، نفرت و حقارت اور کبر و کدورت کے انجام سے انہیں آگاہ کیا، ہر موڑ پر بےکسوں اور فریادیوں کی دستگیری کی، ظالموں اور مظلوموں کی مدد کی، اس طور پر کہ ظالم کو ظلم سے روکا اور مظلوم کے زخموں کو اپنے دلاسوں سے سینکا، مہمانوں کی خاطرمدارات کی،عورتوں کے حقوق کے ضیاع پر قدغن لگایا، معصوم دوشیزاؤں کے زندہ درگور کرنے کے بھیانک انجام سے ڈرایا، اپنے دشمنوں کو گلے لگایا، اپنی راہ میں کانٹے بچھانے والوں پر پیار کی شبنم چھڑکی، دوستوں کے ساتھ وفاداری نبھائی، وعدوں معاہدوں کی مکمل پاسداری کی ، بیماروں کی عیادت کی اور دوسروں کو ان کی عیادت پر جنت کا مژدہ سنایا۔
جب سے یہ جہانِ آب و گل وجود میں آیا ہے تب ہی سے اس گلشن حیات میں ہر طرح کے پھول کھلے ہیں، ہر مذہب کے راہنماؤں نے زندگی گزارنے کے اصول اور طریقے بتائے ہیں، اخلاقی تعلیمات کے ذریعے اپنے ماننے والوں کو سنوارنے کی کوشش کی ہے ،لیکن جو پاکیزہ تعلیمات،اخلاقی تربیت، اور روحانی شفافیت ہمارے نبی کریم ﷺ کے پاکیزہ مذہب میں ہے کسی اور مذہب میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں، آپﷺ نے جس مؤمنانہ فراست اور مخلصانہ ذکاوت سے زندگی کے ہر موڑ اور حیاتِ فانی کے ہر نشیب و فراز پر اپنی امت کی رہنمائی کی ہے دوسرے مذہب کے لوگ اس کی گرد تک بھی نہیں پہونچ سکتے۔
پیغمبر محمد ﷺ کی اخلاقی تعلیمات کا یہ دائرہ صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں تھا، بلکہ آپ نے جس طرح انسانوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی ہدایت فرمائی ہے، ٹھیک اسی طرح بےزبان جانوروں اور بے بول پرندوں کے ساتھ بھی حسنِ اخلاق برتنے کا حکم جاری فرمایا ہے، کہ کسی بھی بے زبان جانور اور بے بول پرندے کو ناحق ایذا نہ پہونچاؤ اور نہ ہی انہیں کسی اذیت میں مبتلا کرو۔
حتی کہ چیونٹی جیسی حقیر سی مخلوق اور پرندوں جیسی ادنی سی خلقت کے ساتھ بھی ناروا سلوک سے آپؐ نے اپنی امت کو کافی سختی کے منع کیا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ کو اطلاع ملی کہ ” کچھ لوگوں نے چیونٹیوں کی ایک بستی کو آگ لگا دی ہے “ یہ سنتے ہی آپ کے اندر کےچھپےہوئے دریائے رحمت میں ابال پیدا ہوا، اور آئندہ آپ نے سختی کے ساتھ ایسی حرکت سے باز رہنے کی تاکید کی، اسی طرح ایک بار ایک صحابی نے ایک پرندے کے نوزائیدہ اور بےبال و پر والے چوزوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر دربارِ نبویؐ میں اس حال میں پیش کیا کہ ان کے پیچھے ان کی دکھیاری ماں فریادیں کرتی پھر رہی تھی اور اپنے بچوں کی جدائی کے غم میں نالۂ فراق بلند کر رہی تھی، جب نبیٔ اکرم ﷺ کو پورے واقعہ کا علم ہوا تو آپ کے چہرۂ انور پر خفگی کی لکیریںابھر آئیں اور آپ نے فورا اس شخص کو حکم دیا کہ جہاں سے ان چوزوں کو اٹھا کر لائے ہو انہیں فورا وہیں رکھ آؤ۔ { ابوداؤد}
کوئی ہرگز یہ تصور نہ کرے کہ رسولِ خدا ﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلے اخلاقیات کے یہ درس صرف آپ کی زبانی جمع خرچ تک ہی محدود تھے، اور العیاذ باللہ آپ کی ذات عالیہ ان اوصاف سے عاری تھی، ہرگز نہیں ہرگز نہیں، آپ ﷺ کی ذاتِ اطہر نے نہ صرف یہ کہ اپنی امت کو اخلاقیات کا یہ درس دیا ہے بلکہ خود اس راہِ عمل پر چل کر امت کو بیش بہا نمونہ بھی عطاکیا ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ آپ ﷺ کی ذات سراپا اخلاق تھی، اور آپ کا وجود کردار کی اعلی چوٹیوں پر متمکن تھا تو یہ بےجا نہ ہوگا۔
کیونکہ خود خداوند قدوس نے اپنے کلامِ پاک میں اپنے نبی ﷺ کے بلند اخلاق کی دل کھول کر تعریف کی ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے ” إِنَّك لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظیمٍ“ { سورۃ القلم } یعنی اے نبی! آپ بلند اخلاق پر فائز ہیں، اسی طرح آپ کی خوش خلقی کو بیان کرنے لئے ایک دوسری جگہ ارشاد باری ہے، ” وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ‘ { سورۂ آل عمران }یعنی اے نبی! اگر آپ بدخلق اور سخت قلب ہوتے تو لوگ آپ سے اپنا رشتہ ناطہ توڑ لیتے، نیز ایک حدیث میں خود آپ نے اپنی زبانِ مبارک سے ارشاد فرمایا” بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکارِمَ الأَخْلَاقِ“ { رواہ احمد } یعنی میری بعثت اخلاق کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے۔
آپ کے انہی اخلاقِ عالیہ کا ہی ثمرہ تھا کہ جب غارِ حرا میں آپ پر نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا، تو اس نئی چیز { وحی }کے بوجھ کی وجہ سے آپ پر لرزہ طاری ہوگیا، ڈر کے مارے آپ تھر تھر کانپنے لگے حتی کہ آپ کو اپنی جان کے چلے جانے کا اندیشہ لاحق ہوگیا، اسی حالت ِنزار میں آپ اپنے گھر تشریف لے آئے اور حالِ دل کی پوری کیفیت اپنی رفیقۂ حیات حضرت خدیجہؓ بنت خویلد سے کہہ سنائی، تو اس کے جواب میں حضرت خدیجہؓ کا جو رویہ تھا اور جن الفاظِ حکیمانہ سے حضرت خدیجہؓ نے آپ کی ڈھارس بندھائی تھی وہ آج بھی تاریخ کے دامن میں حرف بحرف موجود ہے، آپؓ نے کہا تھا { جس کا ترجمہ یہ ہے }” خدا کی قسم، خدا آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا، اور نہ ہی کبھی آپ کو بےیار و مددگار چھوڑے گا کیونکہ آپ تو اخلاقِ فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں“۔ ایسے اوصافِ حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔
قرآنِ کریم کی ان مذکورہ آیات اور احادیثِ رسولﷺ کے ان مذکورہ فرمودات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ اخلاق کے کس بلند درجہ پر فائز تھے، اور عملی اعتبار سے آپ کے اندر اخلاقی پہلو کس قدر نمایاں تھے۔
یہی نہیں بلکہ آپ کے دورِ زندگی میں ایک وہ دن بھی آیا تھا جب آپ نے اخلاق و کردار کی منتہائے رفعت پر کمندیں ڈال دی تھی، اس دن اخلاق و کردار کے سارے کنگرے آپ کے سامنے سرنگوں نہیں ہوگئے تھے، اور یہ وہ دن تھا جب آپ فاتحِ مکہ کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تھے۔
چنانچہ ۸ھ کا سال تھا جب آپ اہل عرب اور دشمنانِ اسلام کی ساری سیلابی قوتوں کو روندتے ہوئے ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تھے، اور ٣٦٠/ بتوں سے خانۂ خدا کو صاف کیا تھا، اس دن جب آپ ساری کارروائی سے فارغ ہو کر ایک جگہ کھڑے تھے، اور خانۂ کعبہ کی کنجی آپ کی مخروطی انگلیوں میں پھیرے لگا رہی تھی، تو اس وقت کلیدبردارِ کعبہ آپ کے سامنے سہما کھڑا تھا، دہشت کے مارے آپ کے خون کے پیاسے اور جانی دشمنوں کی سانسیں گلے میں آکر اٹک گئی تھیں، پورے مجمع پر سکوت طاری تھا اور سکوت بھی ایسا سکون آور کہ ہر شخص کی دھڑکن کی دھک دھک کرتی آواز اس کے پردۂ سماعت سے آ ٹکرا رہی تھی، مجرمین کی رحم طلب نگاہیں آپ سے رحم و کرم کی بھیک مانگ رہی تھیں، ایسے وقت میں آپ کے پاس ایک سنہرا موقع تھا کہ آپ تلوار کے دستے کو مضبوطی سے تھام لیتے اور اس وقت تک مجرمین کی گردنوں پر تیغ زنی کرتے رہتے جب تک کہ ان کے خون آپ کی انگلیوں کو تلوار کے دستے پر چمٹا نہ دیتے۔
لیکن! قربان جائیں رحمۃ للعالمین ﷺکے اخلاقِ عالیہ پر کہ یک بیک آپ کی معصوم نگاہیں مسکرا اٹھتی ہیں اور کافی دیر سے سربمہر ہونٹ جنبش میں آتے ہیں اور سکوت کے اس پردے کو چیرتے ہوئے اہل قریش کو یہ مژدہ سناتے ہیں ” أَیُّہَا القُرَیشْ!إِذْھَبُوا أَنْتُم الطُّلَقَاءُ “ اے اہل قریش! جاؤ اپنے گھروں کو جاؤ! تم سب آزاد ہو، آج تمہارے کندھے پر رحمۃ اللعالمین کا مخاطب جرم و گناہ کا بوجھ رکھنے نہیں آیا بلکہ اس کو اتار کر انہیں ہلکا کرنے آیا ہے،آج بدلہ کا دن نہیں بلکہ معافی کا دن ہے۔
یہ ہیں پیغمبر محمد ﷺ کی اخلاقی تعلیمات جو ہمیں صرف اپنوں سے ہی نہیں، بلکہ اپنے دشمنوں اور عداوت خواہوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنے کا درس دیتی ہیں،لیکن صد افسوس کہ آج ہم ان کے ماننے والے اپنے نبی کے اس صفت خاص سے دور بہت دور نظر آتے ہیں۔
آج اخلاقِ نبوی کے لہو سے روشن ہوئے اس چراغ کو چودہ صدیاں گزر چکی ہیں، اور اتنے ہی عرصہ پہلے اس کو روشن کرنے والے بھی مٹی کی آغوش میں جا سوگئے ہیں، تاہم ان کی زندہ و جاوید روح آج بھی ہمارے کانوں کو یہ کہتی ہوئی جھنجھوڑتی رہتی ہے کہ:
ہم نے تو دل جلا کے سر راہ رکھ دیا