ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۳
تپتے صحرا کا، تناور درخت
حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب المظاہری، ناظم مدرسہ عربیہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش وسرپرست ماہنامہ الفاران
چھٹی صدی عیسوی عالم عر ب کا بد ترین دور کہلاتاہے جسکا دامن اَن گنت قہر سامانیوں، بے شمار عیبوں اور لاتعداد تعدّیوں سے بھر ا پڑا ہے۔
یہ دور انسانیت کے مستقبل، اسکی بقاء اور تر قی کے لحاظ سے حددرجہ تاریک اور مایوس کن تھا۔ انسان اپنی منزل مقصود سے بے خبر تھا۔ اسکی صلاحیتوں کا اصل نشانہ کچھ موہوم خیالات، اسکی کوششوں کا حاصل کچھ چھوٹے چھوٹے دائر ے تھے جہاں اسکی ذہانت اور قوت عمل صرف ہورہی تھی۔
وہ عادات وروایات اور رسم و رواج کے شکنجہ میں جکڑے، قبائلی اور نسبی عصبیت میں گرفتار تھے ایک معمولی واقعہ اکثر بڑی خون ریزیوں اور طویل جنگوں کا سبب بن جاتا۔ معرکہ آرائی، زور آزمائی، با ہمی تفاخر اور کبر و نخوت اسکی گھٹی میں پڑی تھی، شراب و کباب اسکے دل بہلانے کاانمول تحفہ اور بے گنا ہوں کوتہ تیغ کرنا وقت کا محبوب مشغلہ تھا۔
ساراماحول گرم اور پورا معاشرہ بارودی سرنگ بناہوا تھا گویا ریگذار عر ب ظلم و فساد، شرک و اوہام، بے دینی مزاج اور لادینی انداز ان کے رگ و ریشہ میں پیوست تھے سارا عرب جہالت بلکہ نیم حیوانیت کے عالم میں زندگی بسر کررہاتھا۔
مصرو یو نان میں دیوی اور عقول عشرہ خدا کے شریک کا ر سمجھے جاتے تھے، یمن میں کواکب پر ستی کا زور تھا، حمیر کا قبیلہ سورج کی پرستش کر تاتھا، کنانہ کا خدا مہتاب تھا۔
سارا عرب360 بتوں کو اپنا معبود بر حق جانتاتھا۔ انہیں بتوں میں کوئی کا شت و زراعت کا دیوتا تھا، کوئی پانی برسانے کا خدا، تو کوئی اور چیز کا معبود تھا۔
ہر بت کی پوجااور اسکی خدائیت کا گن گایا جاتا، اسی طرح عطارد کو خدا مانتاتوکوئی مشتری کو اپنا حاجت رواء گردانتا، ہر ایک کا مذہب اور اس کا خدا ایک خود ساختہ خداتھا۔ جسکی دیکھ ریکھ، نقش و نگار، بناؤسنگار خود مخلوق کرتی۔ خدا خاموش تماشائی اپنی خدائی پر اتر اتا، عقل و شعور کے بیگا نے عربوں پر کہانت، جھاڑپھونک کا گہرا نقش چھا یا ہوا تھا۔
خدا پر ستی ایک شئی عجیب تھی،خداپرست سماج میں بد عتی سمجھاجاتا تھا،ورقہ بن نوفل جیسے دو چار اہل بصیرت کے سوا سارا عرب نفسانی خواہشوں کا غلام،خود ساختہ معبودوں کا پرستار اور ہد ایت کی روشنی سے یکسر محروم تھا۔ گویا جز یرۃُ العر ب پر شب ِدیجور کا سیا ہ با دل اور جہالت و عصیاں کی تاریکی چھائی ہوئی تھی، ظلم و استبداد کی اندھی اور بہری قومیں انسانیت کے وجود سے تہذیب و ا خلاق کے پیرا ہن نوچ رہی تھی۔
ریگستانِ عر ب شرک و نافرمانی کا اڈہ، بدتہذیبی اور بے دینی کا مرکز بناہوا تھا۔ ایسی گھٹاٹوپ فضاء اور گھپ اندھیر دنیاکو تابناک بناناتھا، ایسی تابناکی اور تابند گی جو ساری ظلمتوں کو محوکردے اور تار یکیوں پر چھا جائے، ہر گمراہی کو نور ہدایت سے بدل دے، منتشراجزا ء کو اتحاد کی لڑی میں پرودے جو ظلم و ستم کو عدل و انصاف میں تبدیل کردے۔
ایسی منظم و سا ئشتہ سوسائٹی کیلئے ایک ایسی ہستی اور ایک ایسی ذات کی تخلیق کی ضرورت تھی جو ہر صفت کمال سے متصف اور کفر و ضلالت کو مٹانے کی طاقت رکھتی ہو جو تڑپتی روح کو سکون،پیاسی زمین کو سیرابی اور بلبلاتی دنیا کو طمانیت بخشے، جو انسانیت کا پیکرِ عظیم ہو، اخلاق و کردار کا بہترین مجسمہ اور کامل ترین انسان ہو۔
اللہ تعالیٰ نے بے تاب اور لب گور کائنات پر رحم فرمایا اور ایسی ذات کی وجود آرائی کا فیصلہ فرمایا۔ جسکی اہمیت و عظمت کا یہ عالم کہ اگر اسکی پیدائش منظور نہ ہوتی تو نہ یہ عرش و فرش بنتے، نہ یہ کائنات کا گلدستہ سجتا، نہ رونقیں ہوتیں اور نہ ہی دنیا کایہ نقش جمیل ہوتا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک مجسمہ ئ نوری کی تخلیق فرمائی اور حضرت محمد ﷺ کو مستندرائے کے مطابق ۲۱/ربیع الاول مطابق ۰۲ / اپریل ۱۷۵ء کو بطن حضرت آمنہ سے ظلمت کدہ ئ دہرمیں جلو ہ افروز اور جہاں تاب فرمایا۔
ولادت باسعادت کی شب، ایوانِ کسریٰ متزلزل اور اسکے عالیشان محل کے چودہ کنگرے گرگئے، آتشکدہ ئفارس بجھ گیا،دریائے سادہ خشک ہوگیا، صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی، بتکدے مٹی میں مل گئے،آزر کدہ کی آتش بازیاں ماند پڑگئیں، خزاں رسید ہ چمن میں بہار آنے لگی، یہ وہ سال تھا جبکہ اصحاب فیل نے کعبہ پر ہاتھیوں سے حملہ کیا تھا اور اللہ کے حکم سے ابا بیل نے انہیں شکست فاش دی تھی۔
آ پ ﷺ عرب کے اس بنجر،بے آب و گیا ہ ریتیلے میدان میں پید ا ہوئے تھے جو ظلمتوں اور جہالتوں کے اندھیروں میں ڈوباہواتھا۔ یہ جلوہ آفرینی ناگفتہ ماحول میں ہوئی مگر پر ورش کی کیفیت انوکھی اور نرالی تھی۔ دنیا میں تشریف آوری سے پہلے والدِ محترم حضرت عبد اللہ رحلت فرماگئے، کمسنی ہی میں ماں کی ممتااور شفقت بھر ی گود اور والدہ کا مبارک سایہ سرسے اٹھ چکا تھا۔یہ وہ حالات ہیں جن میں اکثر بچوں کی فطرت اور تربیت میں بڑی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ مگر آپ ﷺ کی پرورش تو خالص قدرت کی نگرانی میں ہوئی۔ عنفوان شباب رنگا رنگی،سر مستی اور مدہوشی کا ہوتا ہے مگر آپ کی جوانی کچھ اور ہی کیفیت سے گذری۔ جبکہ قدم قدم پر فتنہ سامانیوں کا ہجوم، برائیوں کا جمگھٹا، نفس کی رغبت اور اسکی تکمیل کی سہولیات، بت خانے بھی تھے اور شاہد انِ سیمیں بدن کے خلوت کدے بھی، نغمہ ورقص کی محفلیں بھی تھیں، فحش وبدکاری کے اڈے بھی، شرک و بد عات کاماحول بھی تھا، کذب ولایعنی مشاغل کا مرکز بھی، بنصرت خداوندی کبھی آ پ ﷺ نہ ان آلائشوں کے قریب بھٹکے اور نہ ہی ان رنگین جلووں سے متأثر ہوئے۔
آ پ کی جوانی چاندنی سے زیا دہ اجلی اورپھول سے بڑھ کر بے داغ ثابت ہوئی، تاریخ نہیں بتا سکتی کہ حضرت ﷺ کے کسی دشمن نے آپ کے کردار کے بارے میں کبھی اظہار شک کیا ہو۔
آپ ﷺنے مطالعہ ئ فطرت کیلئے غار حراکی گوشہ نشی فرمائی، زندگی گذارنے کیلئے بکر یاں چرائیں اور سوداگر ی کی، زندگی بنانے کیلئے چشم و گوش کو واکیا اور ہر چیزکو دیدہئ عبرت کی نگاہ سے دیکھا اور آپ دنیا کے اندھیروں میں چراغ بن کر نمودار ہوئے جسکی روشنی سے چہار دانگِ عالم منور ہوا۔ عر ب کے اس خشک ریگستان میں ایساپھول بنکر مہکے، جسکی مست کردینے والی مہک کے آگے،مشک و گلاب کی کوئی حقیقت نہ تھی۔، دنیا کا کوئیگوشہ ایسانہیں رہاکہ جسمیں آپ کی مہک نے سرایت نہ کی ہو یہ ہمارے آقاء مدنی حضرت محمدصلی اللہ ﷺ کی ذات بابر کت اور دین مبین کے برحق ہو نیکی بیّن دلیل ہے کہ اس کا مل ترین انسان نے بارشاد خداوندی آخر ی اور کامل اصلاح کا کام اپنے ہاتھو ں لیکر کمر ہمت باندھی،مردہ بستی اور خوابیدہ قوم کو جوایک مدت سے وحدہٗ لاشریک کو فراموش کرکے بتوں کے آگے سربسجود تھی۔
یہی وہ جامع شخصیت تھی کہ جس نے خد ا فراموش قوم کو زندگی کی صحیح ڈگر اور اصل مقصد سے روشناس کرایا اور ایسا راستہ دکھایا کہ جسمیں تاقیامت مزید اصلا ح کی ضرورت اور ترمیم کی حاجت نہ رہی اور حسب فرمان خداوندی اس مقدس اور کا مل تر ین مذہب کو اسلام کے بر گذیدہ نام سے موسوم کیا۔ بیشک! فخر کونین حضرت ﷺ نے انسان کے مختلف حیثیتوں اور صداقت کے مختلف پہلووں پرغائر نظر ڈالی کہ جو اختلافات صدیوں سے عقدہئ لا ینحل چلے آرہے تھے سب مٹ گئے، اک ایسی صدا لگائی، جس نے گھروں سے نکل کر مید ان تک اور مسجد سے بازاروں تک کی کا یا پلٹ دی۔
دنیا کی رت بدل گئی، انسانوں کے مزاج بدل گئے، ذہن بدلا، زاویہ ئ نگاہ بد لے، اخلا قی قدریں بدلیں، دستور وقانون بدلے،حقوق و فرائض کی قسمیں بدلیں، حلا ل و حرام کے پیمانے بد لے، دلوں میں خداکی محبت کا شعلہ بھڑکا، انسانوں کو اک نئی دُھن لگ گئی، قلوب میں نئی حرارت، دماغوں میں نیا جذبہ اور سروں میں نیا سودا سماگیا اور اک ایسے مذہب کا سلسلہ شروع ہوا جو نوع انسانی کی فلاح کامل کا ذریعہ اور نجا ت کا سبب بنا۔ جوش ملیح آبادی نے کیا خوب حق ادا کیا ہے۔
دراصل سرگروہ انبیا ء ﷺ کی روحانی طاقت نے اک نئی دنیا بنائی،نئی زندگی، نیا کلچر، نئی تہذیب اور نئی سلطنت پید ا کی۔ آپ کے طرز عمل نے وحشت و بربر یت،ظلم و فساد، کفر وبد عات، شرک و اوہام،شراب و کباب غرض ہرشیطانی ماحول کو بدل کر اُنس وانسانیت، عدل و انصاف، توحید واعتقاد، اخلاق و شرافت کی تعلیم کی فضا ء قائم کی۔زمانہ کے خارستان کو گلستان بناکر مہکا یا اور دنیا کے ہرانسان کو صراط مستقیم کی دعوت دیکر ایک کامیاب زندگی کی شاہ راہ دکھائی،زندگی کی راہوں میں صالح عقیدہ کی روشنی بخشی، تعلیم او ر ہدایت سے دنیا کو روشناس کرایا جسمیں اخوت و مؤدّت، انسانیت اور یکسانیت کا درس عظیم ہے، دونوں جہاں کی کامیابی کا راز پنہاں اور مضمر ہے۔ ہم اس برگذیدہ ہستی کی بلند پایہ انسانیت اور عظیم شخصیت پر لاکھوں درود و سلام کا تحفہ پیش کرتے ہیں۔
اللہ نے آپ کوتپتے صحرا میں تناور درخت اور جھلستی دنیا کے لئے رحمت کا نمونہ بناکر بھیجااور رحمت اللعالمین کہہ کر آپ کو پکارا،جتنے بھی نبی دنیا میں تشریف لائے سب کسی نہ کسی ایک علاقہ کیلئے مخصوص تھے مگر آپ کو اللہ نے پوری دنیا کیلئے نبی بناکر بھیجا اور جو کتاب دی اسکو تمام آسمانی کتابوں کا نچوڑ بنایا آپ نے نفس کا تزکیہ کیا، افکار کو درست کیا،
اخلا ق کو بلند یوں تک پہنچایا، اعمال کی اصلا ح کی، تقویٰ کی تعلیم دی، احسان کا سبق پڑھایا، عفوودرگذرکرنا سکھایا،عزم و استقلال سے جمنا سکھایا، خدمت خلق کی طرف راغب کیا،کردار کی تعمیر کی آپ کے اخلا ق آئینہ تھے اور آپ کاعمل نمونہ،آپ کا ظاہرو باطن بھی ایک تھا اور قول وعمل بھی ایک تھا۔ ایسی ذات جو ہر چیز میں کمال تک پہونچی ہوئی ہو، وہ ذاتِ اقدس ہی ہوسکتی ہے آپ کو اسوقت بھی عرب کے لوگ صادق اور امین کہتے تھے جبکہ آپ اللہ کے نبی نہیں بنے تھے اور اسوقت بھی لوگوں نے آپ کی صداقت، دیانت اور امانت اور خدمت کی تمام لوگوں نے گواہی دی جب آپ نے رسول ہونے کا اعلان کیا۔
آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ جو معاشرہ آپ نے تیا ر کیا اسمیں نہ کسی کے درمیان کوئی فرق تھااور نہ ہی کوئی امتیاز چنانچہ دنیا نے دیکھاکہ اس معاشرہ میں غلا م آقابن گئے،جو پَست تھے وہ بلند ہوگئے،جو اطاعت گذار تھے سالار بن گئے اورجو حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے انکے اعزاز پر بڑے بڑے معزز لوگ بھی رشک کرنے لگے آپ ﷺنے دنیا کو نمونہئ اخلا ق، نیا نظام تعلیم،نیانظام معاشرت اور نیا نظام حکومت دے کر ثابت کردیا کہ پاکیزہ اصولوں پر ایک صالح نظام کس طر ح تعمیر ہو سکتاہے آج بھی ان اصولوں پر عمل کرکے دنیا میں امن و سکون اور خوشحالی لاسکتے ہیں۔