ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۴
سکون کی تلاش
جناب حضرت مولانا کبیر الدین صاحب فاران مظاہری، ناظم : مدرسہ قادریہ،مسروالا، ہماچل پردیش و سر پرست ماہنامہ "الفاران"
یہ رنگ بدلتی دنیا روشنیوں کا دور کہلاتی ہے جو ترقی کی اتھاہ منزلیں طے کر رہی ہیں جس کے مزاج میں ہر آن تغیر و تبدل رچا بسا ہے۔
آج انسانیت کے دامن میں،علم و دانش کی بھر پور تجلیا ں ہیں،تہذیب و تمدن کے بے پناہ اُجالے ہیں،آج انسان زمین پر چل ہی نہیں رہا ہے،بلکہ ہواؤں کے دوش پر اُڑ بھی رہا ہے، خلاؤں میں اسٹیشن بنا رہا ہے اور چاند پر کمندیں ڈالی جا چکی ہیں، سورج کی کرنوں کو مسخر کیا جا رہا ہے،زمین کے پوشیدہ خزانے باہر نکالے جا رہے ہیں،پہاڑوں کی سر بفلک چوٹیاں سر کی جا رہی ہیں۔
کل کا انسان جن باتوں پر یقین نہ کر سکتا تھا آج کا آدمی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہے اور وہ ہماری روز مرہ کی زندگی کے معمولات میں شامل ہیں۔
آج انسان کو پرندہ کی طرح فضاء میں اُڑتے دیکھ کر،حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کی اڑان کو جادو،شعبدہ بازی اور دھوکانہیں سمجھا جاتا۔
سائنس نے فاصلوں کو ختم کر کے، دنیا کو کھیل کا میدان بنا دیا ہے، دوری اور نزدیکی کے تمام پردے اٹھا دئے ہیں،ان سر بستہ رازوں کو کھول کر رکھ دیا ہے، جو کل تک آنکھوں سے اوجھل اور پردہئ جہل میں پڑے تھے۔
غرض کہ مادی اعتبار سے انسان نے کافی ترقی کر لی ہے،مرّیخ میں آبادی، چاند کے دھندلکوں میں انسان، سمندر کی تہہ میں موتی، زمین کے جگر میں تیل، پہاڑوں کی کوکھ میں چھپے زخیرے، دولت کی فرا وانی،عیش و عشرت کے بے شمار وسائل اورظاہری فلاح و بہبود کے منظم ادارے۔
مگر،ان ترقیوں کی تہہ تک جائیے!تو یہ تمام تر ترقّیاں صرف ”چیزوں“کی ہوئی ہیں جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ بدستور غیر ترقی یافتہ حالت میں پڑا ہوا ہے، انسان پیچھے اور چیزیں آگے۔
مادی ترقی نے روحانی لحاظ سے انسان کو بہت پیچھے ڈ ھکیل دیا ہے اس نے تمام تر توجہات خارجی دنیا کو حسین بنانے پر کی اور باطنی تزکیہ سے یکسر صرفِ نظر کیا۔مغرب میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے۔
افسوس کے بے چشمہئ حیواں ہے یہ ظلمات
آج انسان کے پاس بے پناہ دولت ہے،راحت وآرام کے لامتناہی وسائل ہیں لیکن دولت سے تو ہم صرف گدّے خرید سکتے ہیں،مگر میٹھی نیند نہیں خرید سکتے،دولت سے ہم عینک تو خرید سکتے ہیں مگر نظر نہیں خرید سکتے، دولت سے ادویات خرید سکتے ہیں، مگر صحت نہیں خرید سکتے دولت سے آلاتِ جدیدہ خرید سکتے مگر حادثوں کو ٹال نہیں سکتے، دولت سے کتابیں خریدی جا سکتی ہیں، مگر علم نہیں خرید سکتے، دولت سے سخاوت کی جا سکتی ہے مگر عبادت نہیں خریدی جا سکتی،دولت سے ہم جسمانی راحت تو خرید سکتے ہیں مگر روحانی مسرت اور سکون نہیں خرید سکتے،دولت کے خزانے پر،ہوتے ہوئے بھی،بے چینی دروازے پر رینگتی ہے پہلے لوگ اونٹوں کے کوہانوں پر سفر کرتے تھے مگر سکون تھا، آج ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں مگر سکون نہیں، پہلے جنگل کی تیرہ و تاریک وادیوں سے صحیح سالم منزل تک پہنچ جاتا تھا مگر آج شہر کے چوراہوں پر، بجلی کی روشنی تلے،منزل تک پہنچ جانا ایک اتفاق ہے۔
یاں! جسم و کردار کے، نیلام ہیں چوراہوں پر۔
یہ ترقی ہے، تو پھر قہرِ خدا کیا ہوگا
روشنیوں کے اس دور میں حالت یہ ہے کہ قدم قدم پر خطرات کے اڈے ہیں، آج عالی شان بلڈنگ اجڑے دلوں کا مسکن ہے، شاندار حکومت اندرونی سازشوں کا شکار ہے رہبر، رہزن کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔
تسخیرِ آسماں، کے ارادے بجا مگر۔
پہلے زمیں کو، مر کزِ امن و اماں بنا
بے خدا تہذیب نے انسانیت کی گاڑی کو دلدل میں لا کھڑا کردیا ہے، ایک ایسے چوراہے پر، جسکی کوئی منزل نہیں، ایک ایسی اندھی بہری مشین،جو نہ روح رکھتی ہے نہ دل،نہ عقیدنہ ہی ضمیر، اس نے زندگی سے ایمانی روح اور حلاوت سلب کرلی ہے عقیدہ کی گہرائی اور دل کا سکون چھین لیا ہے۔
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا،جو قدم راہ پے تھے۔
روشنی لائی ہے،منزل سے بہت دور مجھے
بھلا!جو تہذیب دنیا میں راحت نہ دے پائی، وہ آخرت میں کیا سکون پہنچاسکے گی، حیرت ہے کہ ہم روح جیسے بلند و برتر چیز کو مادہ جیسی کم تر چیز کے ذریعہ خوش کرنا چاہتے ہیں
تسخیرِ مہر و ماہ، مبارک تجھے مگر۔
دل میں اگر نہیں،تو کہیں روشنی نہیں
در اصل وہ باتیں جن سے دل کے نگر میں اصلاح کا نور فروزاں اور دل کو سکون اور چین نصیب ہو سکتا ہے وہ ہے خدا کا خوف اور خد کی ہدایت کی پیروی۔ یہ وہ پائدار اور مستحکم بنیاد ہے جس پر چل کر انسان اپنی زندگی کو سنوار سکتا ہے اور سکون سے دامنِ مراد بھر سکتا ہے، انسان جتنا مذہب اور خدا پرستی سے دور ہوتا چلا جائیگا سکون سے اتنا ہی محروم رہیگا۔
بے رونقی،جمود، تعطل، سکوتِ مرگ۔
ایساہے کائنات کا نقشہ تیرے بغیر
حضرت خواجہ عبداللہ انصاریؒ فرماتے ہیں ”بر ہوا پری مگسے باشی، بر آب روی خسے باشی، دل بدست آرکہ کسے باشی“ اگر بزورِ کرامت ہوا پر بھی اُڑو گے، تو کیا ہے گویا مکھی ہو جاؤگے، کہ وہ بھی تو ہوا میں بلا تکلف اُڑتی ہے،پانی پر چلوگے تو یوں سمجھ کہ تنکا ہو گئے، کیوں کہ وہ بھی تو پانی کی سطح پر بہتاہو اجاتا ہے ہاں! اپنے دل کو قابو میں کرو تب انسان بنوگے۔
عار ف باللہ حضرت مولانا احمد علی پرتاب گڑھیؒ نے فرمایا ”کہ دل کو دل بناؤ“ دل تو جانور کے بھی ہوتا ہے، مگر دل وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے جسمیں اللہ کا خوف ہو اللہ کا ذکر کرتا ہو۔
مولانا آزاد ؒ فرماتے ہیں! ”ایوان و محل نہ ہو تو کسی درخت کے سائے سے کام لے لیں،دیبا و مخمل کا فرش نہ ملے، تو سبزہئ خود رو کے فرش پر جا بیٹھیں، اگر برقی روشنی کے کنول میسر نہیں،تو آسمان کے قندیلوں کو کون بجھا سکتا ہے!اگر دنیا کی ساری مصنوعی خوشنمائیاں اوجھل ہو گئی ہیں، تو ہو جائیں،صبح اب بھی ہر روز مسکرائے گی،چاندنی اب بھی ہمیشہ جلوہ فروشیاں کرے گی لیکن اگر دلِ زندہ پہلو میں نہ رہے تو خدا را بتلائیے!اسکا بدل کہاں ڈھونڈیں، اسکی خالی جگہ بھرنے کے لئے کس چولہے کے انگارے کام دیں گے“مجھے یہ ڈر ہے، دلِ زندہ تو نہ مر جائے۔
کہ زندگی تو،عبارت ہے تیرے جینے سے
اسی لئے حضرات انبیاء کرام علیہ الصلوٰۃ و السلام نے قلبِ انسانی کو اپنا موضوع ٹھہرایا اور دل کی کلیں درست کرنے پر پورا زور صرف کیا اور بتایا کہ قلب درست کرو!تاکہ سارا انسان درست ہو جائے اگر انسان کے پہلو میں دھڑکنے والا یہ دل سنور جائے تو اسے سکون وقرار ہوگا،جدھر جائے گا،فرحت و انبساط کے خزانے لٹاتا جائے گا۔
سرورِکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ عالی ہے! جسم انسانی میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اگر وہ بگڑ جائے، تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور وہ گوشت کا ٹکڑا ”دل“ہے۔
جہانِ زندگی کی ساری رونقیں، اسی میکدہ سے وابستہ ہیں، یہ اجڑا ساری دنیا اجڑ گئی،یہ آباد ہوا تو گلستانِ جہاں سر سبز و شاداب ہو ا۔
ہماری اس دنیا کی سَرو پری اور برتر مخلوق انسان ہے اور اس سے اوپر صرف ایک ہی ذات ہے اور وہ ہے اس کا خالق”خدا“
یہ واقعہ اس حقیقت کو پا لینے کے لئے کافی ہے کہ انسان کے لئے سکون و طمانیت کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ وہ اپنے پالنہار کو پالے،اس سے کم تر کوئی چیز اس کے لئے سکون اور راحت کا سبب نہیں بن سکتی اس حقیقت کو قرآن نے بیان کیا ہے۔
”جو لوگ اللہ پر ایمان لائے انکے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان ملتا ہے“اللہ اللہ ہے، تو یارو جان ہے۔
ورنہ یارو، جان بھی بے جان ہے
آج انسانیت کے دامن میں،علم و دانش کی بھر پور تجلیا ں ہیں،تہذیب و تمدن کے بے پناہ اُجالے ہیں،آج انسان زمین پر چل ہی نہیں رہا ہے،بلکہ ہواؤں کے دوش پر اُڑ بھی رہا ہے، خلاؤں میں اسٹیشن بنا رہا ہے اور چاند پر کمندیں ڈالی جا چکی ہیں، سورج کی کرنوں کو مسخر کیا جا رہا ہے،زمین کے پوشیدہ خزانے باہر نکالے جا رہے ہیں،پہاڑوں کی سر بفلک چوٹیاں سر کی جا رہی ہیں۔
کل کا انسان جن باتوں پر یقین نہ کر سکتا تھا آج کا آدمی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہے اور وہ ہماری روز مرہ کی زندگی کے معمولات میں شامل ہیں۔
آج انسان کو پرندہ کی طرح فضاء میں اُڑتے دیکھ کر،حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کی اڑان کو جادو،شعبدہ بازی اور دھوکانہیں سمجھا جاتا۔
سائنس نے فاصلوں کو ختم کر کے، دنیا کو کھیل کا میدان بنا دیا ہے، دوری اور نزدیکی کے تمام پردے اٹھا دئے ہیں،ان سر بستہ رازوں کو کھول کر رکھ دیا ہے، جو کل تک آنکھوں سے اوجھل اور پردہئ جہل میں پڑے تھے۔
غرض کہ مادی اعتبار سے انسان نے کافی ترقی کر لی ہے،مرّیخ میں آبادی، چاند کے دھندلکوں میں انسان، سمندر کی تہہ میں موتی، زمین کے جگر میں تیل، پہاڑوں کی کوکھ میں چھپے زخیرے، دولت کی فرا وانی،عیش و عشرت کے بے شمار وسائل اورظاہری فلاح و بہبود کے منظم ادارے۔
مگر،ان ترقیوں کی تہہ تک جائیے!تو یہ تمام تر ترقّیاں صرف ”چیزوں“کی ہوئی ہیں جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ بدستور غیر ترقی یافتہ حالت میں پڑا ہوا ہے، انسان پیچھے اور چیزیں آگے۔
مادی ترقی نے روحانی لحاظ سے انسان کو بہت پیچھے ڈ ھکیل دیا ہے اس نے تمام تر توجہات خارجی دنیا کو حسین بنانے پر کی اور باطنی تزکیہ سے یکسر صرفِ نظر کیا۔
عار ف باللہ حضرت مولانا احمد علی پرتاب گڑھیؒ نے فرمایا ”کہ دل کو دل بناؤ“ دل تو جانور کے بھی ہوتا ہے، مگر دل وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے جسمیں اللہ کا خوف ہو اللہ کا ذکر کرتا ہو۔
مولانا آزاد ؒ فرماتے ہیں! ”ایوان و محل نہ ہو تو کسی درخت کے سائے سے کام لے لیں،دیبا و مخمل کا فرش نہ ملے، تو سبزہئ خود رو کے فرش پر جا بیٹھیں، اگر برقی روشنی کے کنول میسر نہیں،تو آسمان کے قندیلوں کو کون بجھا سکتا ہے!اگر دنیا کی ساری مصنوعی خوشنمائیاں اوجھل ہو گئی ہیں، تو ہو جائیں،صبح اب بھی ہر روز مسکرائے گی،چاندنی اب بھی ہمیشہ جلوہ فروشیاں کرے گی لیکن اگر دلِ زندہ پہلو میں نہ رہے تو خدا را بتلائیے!اسکا بدل کہاں ڈھونڈیں، اسکی خالی جگہ بھرنے کے لئے کس چولہے کے انگارے کام دیں گے“
سرورِکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ عالی ہے! جسم انسانی میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اگر وہ بگڑ جائے، تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور وہ گوشت کا ٹکڑا ”دل“ہے۔
جہانِ زندگی کی ساری رونقیں، اسی میکدہ سے وابستہ ہیں، یہ اجڑا ساری دنیا اجڑ گئی،یہ آباد ہوا تو گلستانِ جہاں سر سبز و شاداب ہو ا۔
ہماری اس دنیا کی سَرو پری اور برتر مخلوق انسان ہے اور اس سے اوپر صرف ایک ہی ذات ہے اور وہ ہے اس کا خالق”خدا“
یہ واقعہ اس حقیقت کو پا لینے کے لئے کافی ہے کہ انسان کے لئے سکون و طمانیت کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ وہ اپنے پالنہار کو پالے،اس سے کم تر کوئی چیز اس کے لئے سکون اور راحت کا سبب نہیں بن سکتی اس حقیقت کو قرآن نے بیان کیا ہے۔
”جو لوگ اللہ پر ایمان لائے انکے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان ملتا ہے“