ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۴
واہ رے وطن تیرے انصاف کے دو پیمانے!
منصور احمد حقانی، صدر: الحق ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، ارریہ، بہار
اس میں کوئی شک نہیں کہ مفلسی انسانی غور و فکر اور حس لطافت کو مٹا دیتی ہے اور بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھلتی ہے، اس بات کا ادراک وطن عزیز میں بسنے والے ہر فرد کو ہوتا جارہا ہے، جس کا اظہار کرتے ہوئے اپوزیشن کے لیڈروں نے بارہا کہا ہے کہ بھارت کہیں سری لنکا نہ بن جائے؛ کیوں کہ پچھلے چند سالوں میں آسمان چھوتی مہنگائی نے باشندگان ہند کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ اشیائے خورد و نوش، بجلی ، رسوئی گیس اور پٹرول کے علاوہ ٹیلی فون سے جڑی تمام سہولیات کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے، ہر طرف ہر سطح پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، ایک طرف عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، تو وہیں دوسری جانب بنیادی سہولیات سے کوسوں دور بھی ہیں، جرائم کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حالات نے لوگوں کو چوریوں اور دوسروں کے ساتھ بے ایمانی اور فراڈ کرنے پر مجبور کردیاہے؛ کیوں کہ نوجوان نسل کی اکثریت کے پاس نہ تعلیم ہے اور نہ ہنر جن کے پاس تعلیم اور ہنر ہے وہ بھی بے روزگار ہیں، ان حالات میں اگر نوجوان جرائم کی طرف راغب ہو رہے ہیں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے، اور حکومت ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنے اندھ بھکتوں کو "مسلم مکت بھارت" کا لولی پاپ تھمائے ہوئی ہے اور اندھ بھکتوں کو ایسا لگتا ہے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں، ہر طرف امن و امان ہے اور عنقریب ہی ہندو راشٹر بن جائے گا، جب کہ ایسا کچھ نہیں ہے؛ بلکہ یہ سب دھوکہ ہے۔ عوام کو جھوٹے دعوے نہیں چاہیئے، عوام کو تو دو وقت کی روٹی، صاف پانی، رہنے کے لیے گھر، صحت کی سہولیات، تعلیم اور روزگار، جو کسی بھی معاشرے میں زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات ہیں ملنی چاہیے۔ اگر حکومت عوام کی بنیادی ضرویات مہیا نہیں کر سکتی تو ایسی حکومت کو ناکام ترین حکومت ہی کہا جاسکتا ہے۔
افسوس کہ ملک فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھوں میں غلام ہوچکا ہے اور یہ حکومت اپنی نااہلی کا ملبہ ماضی کے مغل حکومتوں پر گرا کر سنگھی ذہنیت کے لوگوں سے داد تحسین وصول کرنا چاہ رہی ہے؛ مگر اقتدار کی کرسی پر ناجائز قبضہ کرنے والو! یاد رکھو! یہ ہندوستانی عوام بے وقوف نہیں ہے، وقت آنے پر بڑی بڑی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکوا دیے ہیں، فی الوقت ملک میں غربت، بے چینی، مایوسی، افراتفری پھیلی ہے، اور بے روزگاری کے باعث چوری، قتل، دھوکا دہی، ریپ کیسز اور دیگر جرائم میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملک میں جہاں مزدور اور محنت کش طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے ، وہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور پروفیشنل افراد بھی بے روزگار ہیں، یعنی روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، یہ ملکی معیشت کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب ہے۔ ان سب کے باوجود آئے دن ملک میں اشتعال انگیز تقاریر اور بھاشنوں کے ذریعہ بھائی چارہ اور قومی یک جہتی کو ختم کرنے کی ناپاک کوششیں جاری ہیں۔ بےحس حکومت اور بےشرم اندھ بھکتوں کو شاید معلوم نہیں کہ وطن عزیز بھارت، صدیوں سے امن، اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا گہوارہ رہا ہے، گنگا جمنی تہذیب کا سنگم رہا ہے، یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ساتھ ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کے غم وخوشی میں برابرشریک ہوتے آئے ہیں؛ مگر افسوس کہ عوام کو انہیں باتوں میں الجھاکر فرقہ پرست طاقتوں نے ملک کو نفرت کے دہکتے انگاروں میں جھونک دیا ہے، جہاں مسلمانوں کے خلاف آئے دن پروپیگنڈہ تیار کر کے ایک طبقہ کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کے سبب ملک میں کبھی مذہب کی بنیاد پر ماب لنچنگ ہوتی ہے، تو کبھی نعروں کی تکرار ہوتی ہے، جب نفرت میں اندھے ہوکرجھنڈ کی شکل میں کچھ لوگ کسی نہتے اوربے گناہ انسان کو پکڑلیتے ہیں، تو اسے مختلف طریقوں سے مجبور کرتے ہیں اور ایسا بھی مرحلہ آتا ہے کہ اسے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتے ہیں، اس طرح کے واقعات ہندوستان کے ماتھے پر کلنک اور بدنما داغ ہیں، ارباب اقتدار نہ صرف اسے شہ دے رہے ہیں؛ بلکہ مجرموں کو بچانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اقلیتوں (مسلمانوں) کے لیے نہیں ہے؟ اگر واقعی حکومت سب کے لیے ہے، تو پھر سب کی خوشحالی اور تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں؛ تاکہ ہر ذات، برادری اور ہر مذہب کے لوگ بلا خوف رہیں، تجارت کریں، سفر کریں، کسی طرح کی کوئی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، ایک انسان دوسرے کو انسان سمجھے، ایک برادرِ وطن دوسرے کو برادرِ وطن سمجھے، ایک پڑوسی دوسرے کو پڑوسی سمجھے اور یہ تبھی ممکن ہے جب انصاف کا دامن تھاما جائے، ورنہ انصاف سے منہ موڑ نے کی بنیاد پر ملزموں اور مجرموں کے حوصلے بلند ہوں گے اور یہ آئین کے ساتھ مذاق ہوگا، یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مجرم کو کیفر کردار تک پہنچا نے کے بجائے اس کو بچانا قانون کی خلاف ورزی ہے، جمہوریت کی توہین ہے، ناانصافی ہے، ملک کے عوام سے دھوکہ ہے اور قول وفعل میں تضاد ہے، اگر حکومت اس رویے پر قائم رہتی ہے تو اقلیتوں کا اعتماد کیسے حاصل کرسکتی ہے، پھر تو اقلیتوں کے اندر سے یہ آواز بھی اٹھنے لگے گی کہ حکومت اقلیتوں کو جھوٹی تسلی دے ر ہی ہے اقلیتیں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگیں گی، اب وزیراعظم کو خود سوچنا چاہیے کہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس جیسا دیا گیا نعرہ کیسے کامیاب ہوگا، کسی کے جذبات کو مجروح کرکے اس کا دل نہیں جیتا جاسکتا، کسی کے ساتھ نا انصافی کرکے اس کا اعتماد حاصل نہیں کیا جاسکتا، کسی کو تکلیف پہنچا کر اسے خوش نہیں رکھا جاسکتا، یعنی مذکورہ نعرہ کی کامیابی کے لیے انصاف ضروری ہے، تبھی ملک و ملت کا بھلا ہوگا، ورنہ کسی کی عبادت گاہوں کو شہید کر کے اور کسی کے تعلیمی اداروں کو گراکر اپنی خواہشات کا محل تعمیر کرنے والے کا انجام بڑا عبرتناک ہوتا ہے، فی الوقت ملک جن حالات سے دوچار ہے، اس کی فکر کسی کو نہیں ہے، نہ مرکزی سرکار کو اور نہ ہی ریاستی سرکار کو، ہر کسی کو بس یہ فکر ہے کہ اس ملک سے مسلمان کیسے ختم ہوجائے؟ اسی لئے تو ملک میں زعفرانی سیاست اپنی مخصوص زبان بول رہی ہے، کبھی طلاق، کبھی حجاب، کبھی نماز، کبھی اذان، کبھی مسجد، کبھی لاؤڈ اسپیکر، کبھی کورونا، کبھی تاج محل، کبھی قطب مینار،کبھی مدارس، کبھی مدارس کے نصاب اور کبھی آبادی پر اعتراض وغیرہ، آخر ایسا کیوں؟ فرقہ پرست حکومت کے نشانے پر مسلمان اور ان کی تعلیمی ادارے ہی کیوں ہیں؟ کیوں مدارس کو دہشت گردی کا اڈا کہا جانے لگا؟ آخر کیا بات ہے جو مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو دہشت گرد بتاکر مطعون کیا جاتا ہے؟ جب کہ مدارس اسلامیہ کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے؛ مگر پھر بھی حکومت کے نشانے پر مدارس ہی کیوں ہیں؟ اس کے ذمہ دار کہیں ہم مسلمان ہی تو نہیں ہیں؟ آخر اُترپردیش کے وزیراعلیٰ نے ریاست کے غیر تسلیم شدہ مدرسوں کے سروے کا حکم کیوں جاری کیا ہے؟ جسے لے کر ارباب مدارس کافی فکر مند ہیں۔ دراصل گزشتہ دنوں لکھنؤ کے گوسائی گنج حلقہ کے ایک مدرسے میں مدرس کے ذریعہ بچے کو لوہے کی زنجیر سے باندھ کر زودوکوب کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ قومی اطفال کمیشن نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے، 15جون کو مدرسہ تعلیمی بورڈ کی میٹنگ میں مدرسہ بورڈ کے علاوہ دیگر سبھی مدارس کا سروے کرانے کی تجویز پیش کی تھی۔ تجویز کو اتفاق رائے سے منظور کرکے حکومت کو بھیجا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں حکومت نے 30/ اگست کو غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرانے کا حکم نامہ جاری کیا۔ سروے کی زد میں دارالعلوم دیوبند اورندوۃالعلماء جیسے بڑے اداروں سے ملحق مدرسے ، این جی او کے تحت چل رہے مدارس اور مساجد میں دینی تعلیم دینے والے مکاتب بھی آئیں گے۔ اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ قصوروار کون ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ یو پی اور آسام میں مدارس پر شکنجہ کسنے ، معمولی خلاف ورزیوں کو بہانہ بناکر مدارس بندکرنے، عمارت منہدم کرنے،مدارس و مساجد میں کام کرنے والوں کو بلا دلیل دہشت گرد بتانے اوربغیر ثبوت کارروائی کرنا، آئین میں دیے گیے حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، ہمیں مدارس کی بقا و تحفظ کے لیے کمر بستہ ہونا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ ناقابل برداشت امور کو بھی چھوڑنا ہوگا۔
اور ہم حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ امن و امان کے ساتھ ہمارے دینی اداروں کو چلنے دیا جائے، ہم اپنے دینی اداروں میں کسی بھی قسم کی حکومتی مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور یاد رکھو! مدرسوں کا وجود ملک کے لیے ہے، آج بھی ملک کی تاریخ مدارس کے بغیر ادھورا اور نا مکمل ہے؛ لہٰذا مدارس اسلامیہ مسلمانوں کی مذہبی ملکیت ہے، اس کے اخراجات عام مسلمانوں کی جیب سے وابستہ ہیں؛ اس لئے ان مدارس میں کسی کو دخل اندازی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ اگر فرقہ پرست حکومت کے سر پر سروے کا زیادہ ہی بھوت سوار ہے، تو وہ آر ایس ایس کے اسکولوں کا سروے کرائیں جہاں سالانہ لاکھوں کروڑوں روپئے سرکاری خزانہ سے صرف ہوتے ہیں؛ لیکن ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ ملک میں زہریلی سیاست نے جمہوری تانے بانے کو تارتار کر کے منافرت کی فضائیں قائم کر چکی ہے اس نااہل حکومت کے اشاروں پر بھگوا تنظیمیں ہر وہ کام کرنے کی ضدپراڑی ہیں،جس سے دونوں فرقوں کے درمیان نفرت اوردُوری پیداہو۔ اسی لئے مدارس کے سروے کا ڈھونگ رچا گیا اور بہانہ بنایا گیا کہ ہم مدارس کے تعلیمی نظام کو بہتر بنائیں گے، حالاں کہ تعلیم کی منصوبہ بندی میں کوئی بُرائی نہیں ہے،لیکن نیت کا صاف ہونا ضروری ہے۔ اگر حکومت کو اقلیتی طبقات اور بالخصوص مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا خیال ہے اور وہ مدارس کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبود کے لیے سنجیدہ ہے، تو اُسے مدرسوں میں پڑھنے والے صرف چار فیصدی بچوں کے لیے متفکر ہونے کی بجائے عصری تعلیم حاصل کرنے والے 96 فیصد مسلم بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے ایماندارانہ کوشش کرنی چاہئے اور انصاف سے کام لینا چاہیے کیونکہ انصاف اور مساوات کی ضرورت سب کو ہے۔ ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے بڑی بڑی حکومتیں تباہ ہو گئیں نمرود، فرعون، شداد، ھامان یہ سب ظالم تھے ظلم و ناانصافی ان کا شیوہ تھا لیکن انجام کیا ہوا آج پوری دنیا ان پر لعنت بھیج رہی ہے یہ حقیقت ہے کہ انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن ناقابل افسوس بات یہ ہے کہ کسی مذہبی اور دیندار سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے خوب اچھالا جاتا ہے یہاں تک کہ شریعت اور اسلام تک کو نشانے پر لے لیا جاتا ہے اور شریعت و سنت پر چلنے والے کو بدنام کیا جاتا ہے، جس سے لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق نفرت پیدا ہوجائے تاکہ عوام الناس ان کو نظر حقارت سے دیکھیے، جس سے ان کی دنیا و آخرت کی بربادی مقدر بن جائے، ایسے نامساعد حالات میں دین پر کار بند اور نماز و سنت کے پابند اسلامی بھائی بہنوں کو مزید محتاط ہونا چاہیے کہ معمولی سی بے احتیاطی بھی کبھی کبھی زبردست نقصان کا باعث بن جایا کرتی ہے۔
افسوس کہ ملک فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھوں میں غلام ہوچکا ہے اور یہ حکومت اپنی نااہلی کا ملبہ ماضی کے مغل حکومتوں پر گرا کر سنگھی ذہنیت کے لوگوں سے داد تحسین وصول کرنا چاہ رہی ہے؛ مگر اقتدار کی کرسی پر ناجائز قبضہ کرنے والو! یاد رکھو! یہ ہندوستانی عوام بے وقوف نہیں ہے، وقت آنے پر بڑی بڑی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکوا دیے ہیں، فی الوقت ملک میں غربت، بے چینی، مایوسی، افراتفری پھیلی ہے، اور بے روزگاری کے باعث چوری، قتل، دھوکا دہی، ریپ کیسز اور دیگر جرائم میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملک میں جہاں مزدور اور محنت کش طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے ، وہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور پروفیشنل افراد بھی بے روزگار ہیں، یعنی روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، یہ ملکی معیشت کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب ہے۔ ان سب کے باوجود آئے دن ملک میں اشتعال انگیز تقاریر اور بھاشنوں کے ذریعہ بھائی چارہ اور قومی یک جہتی کو ختم کرنے کی ناپاک کوششیں جاری ہیں۔ بےحس حکومت اور بےشرم اندھ بھکتوں کو شاید معلوم نہیں کہ وطن عزیز بھارت، صدیوں سے امن، اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا گہوارہ رہا ہے، گنگا جمنی تہذیب کا سنگم رہا ہے، یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ساتھ ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کے غم وخوشی میں برابرشریک ہوتے آئے ہیں؛ مگر افسوس کہ عوام کو انہیں باتوں میں الجھاکر فرقہ پرست طاقتوں نے ملک کو نفرت کے دہکتے انگاروں میں جھونک دیا ہے، جہاں مسلمانوں کے خلاف آئے دن پروپیگنڈہ تیار کر کے ایک طبقہ کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کے سبب ملک میں کبھی مذہب کی بنیاد پر ماب لنچنگ ہوتی ہے، تو کبھی نعروں کی تکرار ہوتی ہے، جب نفرت میں اندھے ہوکرجھنڈ کی شکل میں کچھ لوگ کسی نہتے اوربے گناہ انسان کو پکڑلیتے ہیں، تو اسے مختلف طریقوں سے مجبور کرتے ہیں اور ایسا بھی مرحلہ آتا ہے کہ اسے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتے ہیں، اس طرح کے واقعات ہندوستان کے ماتھے پر کلنک اور بدنما داغ ہیں، ارباب اقتدار نہ صرف اسے شہ دے رہے ہیں؛ بلکہ مجرموں کو بچانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اقلیتوں (مسلمانوں) کے لیے نہیں ہے؟ اگر واقعی حکومت سب کے لیے ہے، تو پھر سب کی خوشحالی اور تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں؛ تاکہ ہر ذات، برادری اور ہر مذہب کے لوگ بلا خوف رہیں، تجارت کریں، سفر کریں، کسی طرح کی کوئی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، ایک انسان دوسرے کو انسان سمجھے، ایک برادرِ وطن دوسرے کو برادرِ وطن سمجھے، ایک پڑوسی دوسرے کو پڑوسی سمجھے اور یہ تبھی ممکن ہے جب انصاف کا دامن تھاما جائے، ورنہ انصاف سے منہ موڑ نے کی بنیاد پر ملزموں اور مجرموں کے حوصلے بلند ہوں گے اور یہ آئین کے ساتھ مذاق ہوگا، یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مجرم کو کیفر کردار تک پہنچا نے کے بجائے اس کو بچانا قانون کی خلاف ورزی ہے، جمہوریت کی توہین ہے، ناانصافی ہے، ملک کے عوام سے دھوکہ ہے اور قول وفعل میں تضاد ہے، اگر حکومت اس رویے پر قائم رہتی ہے تو اقلیتوں کا اعتماد کیسے حاصل کرسکتی ہے، پھر تو اقلیتوں کے اندر سے یہ آواز بھی اٹھنے لگے گی کہ حکومت اقلیتوں کو جھوٹی تسلی دے ر ہی ہے اقلیتیں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگیں گی، اب وزیراعظم کو خود سوچنا چاہیے کہ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس جیسا دیا گیا نعرہ کیسے کامیاب ہوگا، کسی کے جذبات کو مجروح کرکے اس کا دل نہیں جیتا جاسکتا، کسی کے ساتھ نا انصافی کرکے اس کا اعتماد حاصل نہیں کیا جاسکتا، کسی کو تکلیف پہنچا کر اسے خوش نہیں رکھا جاسکتا، یعنی مذکورہ نعرہ کی کامیابی کے لیے انصاف ضروری ہے، تبھی ملک و ملت کا بھلا ہوگا، ورنہ کسی کی عبادت گاہوں کو شہید کر کے اور کسی کے تعلیمی اداروں کو گراکر اپنی خواہشات کا محل تعمیر کرنے والے کا انجام بڑا عبرتناک ہوتا ہے، فی الوقت ملک جن حالات سے دوچار ہے، اس کی فکر کسی کو نہیں ہے، نہ مرکزی سرکار کو اور نہ ہی ریاستی سرکار کو، ہر کسی کو بس یہ فکر ہے کہ اس ملک سے مسلمان کیسے ختم ہوجائے؟ اسی لئے تو ملک میں زعفرانی سیاست اپنی مخصوص زبان بول رہی ہے، کبھی طلاق، کبھی حجاب، کبھی نماز، کبھی اذان، کبھی مسجد، کبھی لاؤڈ اسپیکر، کبھی کورونا، کبھی تاج محل، کبھی قطب مینار،کبھی مدارس، کبھی مدارس کے نصاب اور کبھی آبادی پر اعتراض وغیرہ، آخر ایسا کیوں؟ فرقہ پرست حکومت کے نشانے پر مسلمان اور ان کی تعلیمی ادارے ہی کیوں ہیں؟ کیوں مدارس کو دہشت گردی کا اڈا کہا جانے لگا؟ آخر کیا بات ہے جو مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو دہشت گرد بتاکر مطعون کیا جاتا ہے؟ جب کہ مدارس اسلامیہ کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے؛ مگر پھر بھی حکومت کے نشانے پر مدارس ہی کیوں ہیں؟ اس کے ذمہ دار کہیں ہم مسلمان ہی تو نہیں ہیں؟ آخر اُترپردیش کے وزیراعلیٰ نے ریاست کے غیر تسلیم شدہ مدرسوں کے سروے کا حکم کیوں جاری کیا ہے؟ جسے لے کر ارباب مدارس کافی فکر مند ہیں۔ دراصل گزشتہ دنوں لکھنؤ کے گوسائی گنج حلقہ کے ایک مدرسے میں مدرس کے ذریعہ بچے کو لوہے کی زنجیر سے باندھ کر زودوکوب کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ قومی اطفال کمیشن نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے، 15جون کو مدرسہ تعلیمی بورڈ کی میٹنگ میں مدرسہ بورڈ کے علاوہ دیگر سبھی مدارس کا سروے کرانے کی تجویز پیش کی تھی۔ تجویز کو اتفاق رائے سے منظور کرکے حکومت کو بھیجا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں حکومت نے 30/ اگست کو غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرانے کا حکم نامہ جاری کیا۔ سروے کی زد میں دارالعلوم دیوبند اورندوۃالعلماء جیسے بڑے اداروں سے ملحق مدرسے ، این جی او کے تحت چل رہے مدارس اور مساجد میں دینی تعلیم دینے والے مکاتب بھی آئیں گے۔ اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ قصوروار کون ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ یو پی اور آسام میں مدارس پر شکنجہ کسنے ، معمولی خلاف ورزیوں کو بہانہ بناکر مدارس بندکرنے، عمارت منہدم کرنے،مدارس و مساجد میں کام کرنے والوں کو بلا دلیل دہشت گرد بتانے اوربغیر ثبوت کارروائی کرنا، آئین میں دیے گیے حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، ہمیں مدارس کی بقا و تحفظ کے لیے کمر بستہ ہونا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ ناقابل برداشت امور کو بھی چھوڑنا ہوگا۔
اور ہم حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ امن و امان کے ساتھ ہمارے دینی اداروں کو چلنے دیا جائے، ہم اپنے دینی اداروں میں کسی بھی قسم کی حکومتی مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور یاد رکھو! مدرسوں کا وجود ملک کے لیے ہے، آج بھی ملک کی تاریخ مدارس کے بغیر ادھورا اور نا مکمل ہے؛ لہٰذا مدارس اسلامیہ مسلمانوں کی مذہبی ملکیت ہے، اس کے اخراجات عام مسلمانوں کی جیب سے وابستہ ہیں؛ اس لئے ان مدارس میں کسی کو دخل اندازی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ اگر فرقہ پرست حکومت کے سر پر سروے کا زیادہ ہی بھوت سوار ہے، تو وہ آر ایس ایس کے اسکولوں کا سروے کرائیں جہاں سالانہ لاکھوں کروڑوں روپئے سرکاری خزانہ سے صرف ہوتے ہیں؛ لیکن ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ ملک میں زہریلی سیاست نے جمہوری تانے بانے کو تارتار کر کے منافرت کی فضائیں قائم کر چکی ہے اس نااہل حکومت کے اشاروں پر بھگوا تنظیمیں ہر وہ کام کرنے کی ضدپراڑی ہیں،جس سے دونوں فرقوں کے درمیان نفرت اوردُوری پیداہو۔ اسی لئے مدارس کے سروے کا ڈھونگ رچا گیا اور بہانہ بنایا گیا کہ ہم مدارس کے تعلیمی نظام کو بہتر بنائیں گے، حالاں کہ تعلیم کی منصوبہ بندی میں کوئی بُرائی نہیں ہے،لیکن نیت کا صاف ہونا ضروری ہے۔ اگر حکومت کو اقلیتی طبقات اور بالخصوص مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا خیال ہے اور وہ مدارس کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبود کے لیے سنجیدہ ہے، تو اُسے مدرسوں میں پڑھنے والے صرف چار فیصدی بچوں کے لیے متفکر ہونے کی بجائے عصری تعلیم حاصل کرنے والے 96 فیصد مسلم بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے ایماندارانہ کوشش کرنی چاہئے اور انصاف سے کام لینا چاہیے کیونکہ انصاف اور مساوات کی ضرورت سب کو ہے۔ ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے بڑی بڑی حکومتیں تباہ ہو گئیں نمرود، فرعون، شداد، ھامان یہ سب ظالم تھے ظلم و ناانصافی ان کا شیوہ تھا لیکن انجام کیا ہوا آج پوری دنیا ان پر لعنت بھیج رہی ہے یہ حقیقت ہے کہ انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن ناقابل افسوس بات یہ ہے کہ کسی مذہبی اور دیندار سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے خوب اچھالا جاتا ہے یہاں تک کہ شریعت اور اسلام تک کو نشانے پر لے لیا جاتا ہے اور شریعت و سنت پر چلنے والے کو بدنام کیا جاتا ہے، جس سے لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق نفرت پیدا ہوجائے تاکہ عوام الناس ان کو نظر حقارت سے دیکھیے، جس سے ان کی دنیا و آخرت کی بربادی مقدر بن جائے، ایسے نامساعد حالات میں دین پر کار بند اور نماز و سنت کے پابند اسلامی بھائی بہنوں کو مزید محتاط ہونا چاہیے کہ معمولی سی بے احتیاطی بھی کبھی کبھی زبردست نقصان کا باعث بن جایا کرتی ہے۔