ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۴
نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اسوۂ حسنہ تجھے یہ درس دیتا ہے
حضرت مولانا محمد سراج الہدی ندوی ازہری ، استاذ: دار العلوم سبیل السلام، حیدرآباد
اللہ تعالیٰ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سارے انس و جن کے رسول ہیں، جنہیں خاتم الانبیاء و المرسلین، رحمۃ للعالمین اور شفیع المذنبین جیسے متعدد القاب عنایت کیے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت ہی ساری انسانیت کے لیے سفینۂ نجات ہے، اسے اپنے لیے ذریعۂ نجات نہ سمجھنا، اس سے انحراف کرنا، منھ موڑ لینا، اپنی دنیا و آخرت برباد کرنا ہے۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مانا، اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی سیرت و تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارے، "لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو اللہ و الیوم الآخر و ذکر اللہ کثیرًا"(سورۃ الأحزاب:21) تمہارے لیے یقیناً رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور روزِ آخرت سے امید رکھتا ہو اور کثرت سے یادِ الٰہی کرتا ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہم قرآن کی تفسیر ہوجائیں، ہمارا کوئی بھی کام کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو؛ اسی لیے تو زندگی کے چھوٹے بڑے ہر طرح کے مسئلے کا حل شریعت اسلامیہ نے پیش کیا ہے۔ آج کے پُر فتن دور میں بھی اسوۂ نبوی شریعت اسلامیہ کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے، اور قیامت تک کرتا رہے گا۔ آئیے! ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے ماحول میں جب کہ چہار جانب مادیت کا غلبہ ہے، خوفِ آخرت سے بے توجہی ہے، اپنے مقصدِ تخلیق سے نا واقفیت اور بے اعتنائی ہے، دینی و دعوتی حکمتوں کی جگہ جوش و ولولہ اور وقتی ابال نے لے لیا ہے، سوشل میڈیا حفاظتِ وقت اور کثرتِ معلومات سے زیادہ ضیاعِ وقت اور اخلاقی بگاڑ کا سامان فراہم کر رہا ہے، ایسے نازک اور ناگفتہ بہ حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور ان کا اسوۂ حسنہ ہمیں کیا درس دیتا ہے؟
مقصد میں استقامت:
ہم اہلِ ایمان کی زندگی کا ایک مقصد ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ذمہ داری دی ہے، جس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی لگادی، اور وہ ہے ایمان و اسلام پر قائم رہنا اور اسے عام کرنا، لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا دین پہونچانا، حالات جیسے بھی ہوں، مادیت کا دور دورہ جتنا بھی ہو، ہمیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ ایمانی و دعوتی مشن پر استقامت کے ساتھ رہنا ہے، دنیا کی دو کوڑیوں اور اپنے تھوڑے سے مفاد کے لیے اس کا سودا نہیں کرنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ از اوّل تا آخر دیکھ جائیے، وہی مکہ جو آپ کا ادب و احترام کیا کرتا تھا، آپ کو "الصادق الأمین" کہا کرتا تھا، آپ کی ذہانت و فطانت کا معترف تھا، نبوت کے اعلان کے ساتھ ہی "ساحر و شاعر" کہنے لگا، اور دیگر قابلِ نفرت اوصاف سے یاد کرنے لگا؛ لیکن قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزم و حوصلے اور ایمانی و دعوتی مشن کے استقامت پر، ظلم کیا گیا، گالی گلوج کیا گیا، راہ میں کانٹے بچھائے گئے، جسم اطہر پر کوڑا کرکٹ ڈالا گیا، عبادت میں خلل ڈالا گیا، لالچ دیا گیا، دعوتِ اسلام سے باز رہنے کے لیے سمجھوتے کی پیش کش کی گئی، بائیکاٹ کیا گیا، تین سالوں تک شعبِ ابی طالب میں قید رہے، آپ اور آپ کے ماننے والے اہلِ ایمان پر ظلم و ستم کے نِت نئے حربے استعمال کیے گئے، حوصلے پست کرنے کی لاکھ کوششیں کی گئیں؛ لیکن آپ نے اپنا دینی و دعوتی سفر جاری رکھا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غلبہ دیا، دشمنوں کو منھ کی کھانی پڑی، اور کچھ ایسے بھی ہوئے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ یہی ہے اپنے مقصد و مِشن میں استقامت۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: "فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا انہ بما تعملون بصیر" (سورۃ ھود: 112)، تو اے پیغمبر! جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے، اس پر تم اور وہ لوگ بھی جو توبہ کرکے تمہارے ساتھ ہوگئے ہیں، ثابت قدم رہو، اور حد سے نہ بڑھو، بے شک جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو نصیحت کی تو فرمایا: "قل ربی اللہ ثم استقم" (حدیث)، تم کہو: میرا رب اللہ ہے، پھر اسی پر ثابت قدم رہو۔
حکمت و مصلحت اور منصوبہ بندی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ حکمت و مصلحت اور منصوبہ بندی کی راہ بتلاتی ہے، پوری سیرتِ طیبہ پڑھ جائیے، کوئی بھی کام حکمت و مصلحت سے خالی نظر نہیں آئے گا۔ کتنے ہی نئے ایمان لانے والوں کو حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کی کہ ابھی سرِ راہ اپنے ایمان کااظہار نہ کرو، اہلِ ایمان کی جان کی حفاظت کے لیے حبشہ جانے کی اجازت دی، بیعتِ عقبہ اولیٰ و ثانیہ کتنے مخفی انداز میں ہوئی، اور یہیں سے ہجرت کی راہ ہموار ہوئی، ہجرت ہی کے واقعے کو لے لیجیے، انتہائی رازدارانہ انداز میں دوپہر کے وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر جانا اور سفر کی تیاری کے لیے کہنا، پھر شب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر لٹا کر سفرِ ہجرت کے لیے نکل پڑنا، تین دنوں تک غارِ ثور میں قیام کرنا، جو اصلًا مدینہ کے مخالف سمت، یمن کے رخ پر ہے، پھر راتوں میں غار ثور تک حضرت عبد اللہ بن ابی بکر کا آنا، دشمنوں کی پلاننگ سے باخبر کرنا، دن میں حضرت عامر بن فہیرہ کا بکریوں کو چراتے چراتے یہاں تک لے آنا، اور تین دنوں کے بعد عبد اللہ بن اریقط کا وہاں آنا اور مدینہ کا راستہ بتانا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے قبا اور قبا سے مدینہ جانا۔ جب جہاد کی نوبت آئی تو اس کے لیے میدانِ جہاد میں مناسب جگہوں کا انتخاب کرنا، غزوۂ احزاب کے موقع سے خندق کھدوانا، جس کا تصور اہلِ عرب کے درمیان نہیں تھا، یہ سب کام موقع و محل کو دیکھتے ہوئے مکمل حکمت و مصلحت اور منصوبہ بندی کے تحت پیش آئے، کبھی آناً فاناً فیصلہ لیا گیا اور کبھی بہت پہلے ہی منصوبہ بندی کی گئی؛ لیکن بہر صورت حکمت و مصلحت، دانشمندی اور مضبوط پلاننگ کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ ہمیں بھی اپنی زندگی میں ان باتوں سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔
دعوت و تبلیغ کے لیے عصری وسائل:
قرآن کریم نے متعدد آیتوں میں دعوت و تبلیغ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا، ایک جگہ فرمایا: "و انذر عشیرتک الاقربین و اخفض جناک لمن اتبعک من المؤمنین" (سورۃ الشعراء: 214، 215) اور (اے پیغمبر! سب سے پہلے) اپنے قریبی رشتوں داروں کو (اللہ کے) عذاب سے ڈراؤ اور جو ایمان والے تمہارے پیرو ہوگئے ہیں، ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ۔ دوسری جگہ فرمایا: "فاصدع بما تؤمر و اعرض عن المشرکین" (سورۃ الحجر:94)، پس جو حکمتم کو ملا ہے وہ (لوگوں کو) سنادو اور مشرکوں کی پروا مت کرو۔ ایک اور جگہ فرمایا: "ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ"(سورۃ النحل:125)، (اے پیغمبر! لوگوں کو) دانائی (کی باتوں) اور اچھی نصیحتوں سے اپنے پروردگار کی طرف بلاؤ اور بہترین طریقے سے ان کے ساتھ بحث کرو؛ لیکن کہیں بھی دعوتی وسائل و ذرائع کا واضح انداز میں تذکرہ نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے لحاظ سے دعوتی پیغامات لوگوں تک پہونچائے، اس کے لیے چھوٹی بڑی مجالس کا رخ کیا، کوہِ صفا پر چڑھ کر آواز لگائی، نئے آنے والوں سے ملاقاتیں کیں، انہیں سمجھایا، حکمرانوں کے نام خطوط لکھے اور سفراء روانہ کیے، یہ سب وہ وسائل و ذرائع تھے، جو اس زمانے میں رائج تھے، آپ نے انہیں اختیار کیا، عصری وسائل سے اعراض نہیں کیا، اپنی آنکھیں بند نہ کرلیں؛ بلکہ انہیں اپنے دعوتی مشن کے لیے پورے طور پر اختیار کیا۔ ہمیں بھی اپنے اپنے زمانے میں اس کی طرف توجہ دیتے ہوئے، دعوتِ دین کے لیے عصری وسائل اختیار کرنے چاہیئیں، سوشل میڈیا کو مثبت کاموں کے لیے اختیار کرنا چاہیے؛ تاکہ صحیح انداز میں کامیابی مل سکے، ہمارا زمانہ تو سوشل میڈیا کے لحاظ سے انتہائی ترقی کا زمانہ ہے۔ ہمیں دعوت و تبلیغ، خیر کی اشاعت اور سماج کی اصلاح کے لیے موجودہ اسباب و وسائل سے بھر پور انداز میں مستفید ہونا چاہیے۔
رجوع الی اللہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ دنیا دار الاسباب ہے، کسی بھی کام کے لیے اسباب و وسائل مطلوب ہوتے ہیں، اسباب و وسائل بھی اصلاً دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک کا تعلق تو ظاہر سے ہے، جسے ہر آدمی سمجھ سکتا ہے، جیسے: دوڑ دھوپ، جہد مسلسل، سعیِ پیہم، محنت و مشقت، تعلقات و روابط وغیرہ، اور دوسرے کا تعلق باطن سے ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ جس بات کے داعی ہیں، اس پر آپ کو بھی یقینِ کامل اور اطمینانِ قلبی ہو، آپ اپنی دعوت پر خود بھی عمل پیرا ہوں، ظاہری و باطنی اخلاقِ حسنہ کے پیکر ہوں، قول و فعل اور علم و عمل میں تضاد نہ ہو۔ ان دونوں (ظاہری و باطنی) اسباب و وسائل سے متصف ہونے کے بعد، ہمیں صاحبِ ایمان ہونے کی حیثیت مکمل طور پر "رجوع الی اللہ"ہونا بھی ضروری ہے، اللہ تعالیٰ سے مانگیے اور خوب مانگیے، اور اسی سے خیر کی امید رکھیے، اسے ہی "توکل علی اللہ" کہتے ہیں۔ اسباب و وسائل اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالٰی سے لَو لگائیے ، اور نتیجہ اسی پر چھوڑ دیجیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو دیکھ جائیے، انفرادی مسئلہ ہو یا اجتماعی، میدان جنگ ہو یا کوئی اور مرحلہ، اساب و وسائل اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالٰی کی طرف متوجہ ہوتے اور خوب ہوتے، دعا میں محو ہوجاتے، شانۂ مبارک سے چادر گرجاتی اور احساس تک نہ ہوتا، روتے روتے داڑھی تر ہوجاتی، ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی کی جانب رجوع ہوئے، اسی سے لَو لگایا اور اسی کی ذات پر بھروسہ کیا۔
ہمیں اور آپ کو بھی بحیثیتِ مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو گہرائی و گیرائی کےساتھ پڑھنے، اس سے نصیحت لینے، اور اپنی زندگی کو بھی اسی انداز میں متصف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی میں ہمارے لیے دونوں جہان کی کامیابی ہے۔ ایک شعر پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں:نبی کا اسوۂ حسنہ تجھے یہ درس دیتا ہے
کہ تیری زندگی قرآن کی تفسیر ہوجائے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہم قرآن کی تفسیر ہوجائیں، ہمارا کوئی بھی کام کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو؛ اسی لیے تو زندگی کے چھوٹے بڑے ہر طرح کے مسئلے کا حل شریعت اسلامیہ نے پیش کیا ہے۔ آج کے پُر فتن دور میں بھی اسوۂ نبوی شریعت اسلامیہ کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے، اور قیامت تک کرتا رہے گا۔ آئیے! ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے ماحول میں جب کہ چہار جانب مادیت کا غلبہ ہے، خوفِ آخرت سے بے توجہی ہے، اپنے مقصدِ تخلیق سے نا واقفیت اور بے اعتنائی ہے، دینی و دعوتی حکمتوں کی جگہ جوش و ولولہ اور وقتی ابال نے لے لیا ہے، سوشل میڈیا حفاظتِ وقت اور کثرتِ معلومات سے زیادہ ضیاعِ وقت اور اخلاقی بگاڑ کا سامان فراہم کر رہا ہے، ایسے نازک اور ناگفتہ بہ حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور ان کا اسوۂ حسنہ ہمیں کیا درس دیتا ہے؟
مقصد میں استقامت:
ہم اہلِ ایمان کی زندگی کا ایک مقصد ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ذمہ داری دی ہے، جس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی لگادی، اور وہ ہے ایمان و اسلام پر قائم رہنا اور اسے عام کرنا، لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا دین پہونچانا، حالات جیسے بھی ہوں، مادیت کا دور دورہ جتنا بھی ہو، ہمیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ ایمانی و دعوتی مشن پر استقامت کے ساتھ رہنا ہے، دنیا کی دو کوڑیوں اور اپنے تھوڑے سے مفاد کے لیے اس کا سودا نہیں کرنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ از اوّل تا آخر دیکھ جائیے، وہی مکہ جو آپ کا ادب و احترام کیا کرتا تھا، آپ کو "الصادق الأمین" کہا کرتا تھا، آپ کی ذہانت و فطانت کا معترف تھا، نبوت کے اعلان کے ساتھ ہی "ساحر و شاعر" کہنے لگا، اور دیگر قابلِ نفرت اوصاف سے یاد کرنے لگا؛ لیکن قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزم و حوصلے اور ایمانی و دعوتی مشن کے استقامت پر، ظلم کیا گیا، گالی گلوج کیا گیا، راہ میں کانٹے بچھائے گئے، جسم اطہر پر کوڑا کرکٹ ڈالا گیا، عبادت میں خلل ڈالا گیا، لالچ دیا گیا، دعوتِ اسلام سے باز رہنے کے لیے سمجھوتے کی پیش کش کی گئی، بائیکاٹ کیا گیا، تین سالوں تک شعبِ ابی طالب میں قید رہے، آپ اور آپ کے ماننے والے اہلِ ایمان پر ظلم و ستم کے نِت نئے حربے استعمال کیے گئے، حوصلے پست کرنے کی لاکھ کوششیں کی گئیں؛ لیکن آپ نے اپنا دینی و دعوتی سفر جاری رکھا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غلبہ دیا، دشمنوں کو منھ کی کھانی پڑی، اور کچھ ایسے بھی ہوئے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ یہی ہے اپنے مقصد و مِشن میں استقامت۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: "فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا انہ بما تعملون بصیر" (سورۃ ھود: 112)، تو اے پیغمبر! جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے، اس پر تم اور وہ لوگ بھی جو توبہ کرکے تمہارے ساتھ ہوگئے ہیں، ثابت قدم رہو، اور حد سے نہ بڑھو، بے شک جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو نصیحت کی تو فرمایا: "قل ربی اللہ ثم استقم" (حدیث)، تم کہو: میرا رب اللہ ہے، پھر اسی پر ثابت قدم رہو۔
حکمت و مصلحت اور منصوبہ بندی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ حکمت و مصلحت اور منصوبہ بندی کی راہ بتلاتی ہے، پوری سیرتِ طیبہ پڑھ جائیے، کوئی بھی کام حکمت و مصلحت سے خالی نظر نہیں آئے گا۔ کتنے ہی نئے ایمان لانے والوں کو حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کی کہ ابھی سرِ راہ اپنے ایمان کااظہار نہ کرو، اہلِ ایمان کی جان کی حفاظت کے لیے حبشہ جانے کی اجازت دی، بیعتِ عقبہ اولیٰ و ثانیہ کتنے مخفی انداز میں ہوئی، اور یہیں سے ہجرت کی راہ ہموار ہوئی، ہجرت ہی کے واقعے کو لے لیجیے، انتہائی رازدارانہ انداز میں دوپہر کے وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر جانا اور سفر کی تیاری کے لیے کہنا، پھر شب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر لٹا کر سفرِ ہجرت کے لیے نکل پڑنا، تین دنوں تک غارِ ثور میں قیام کرنا، جو اصلًا مدینہ کے مخالف سمت، یمن کے رخ پر ہے، پھر راتوں میں غار ثور تک حضرت عبد اللہ بن ابی بکر کا آنا، دشمنوں کی پلاننگ سے باخبر کرنا، دن میں حضرت عامر بن فہیرہ کا بکریوں کو چراتے چراتے یہاں تک لے آنا، اور تین دنوں کے بعد عبد اللہ بن اریقط کا وہاں آنا اور مدینہ کا راستہ بتانا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے قبا اور قبا سے مدینہ جانا۔ جب جہاد کی نوبت آئی تو اس کے لیے میدانِ جہاد میں مناسب جگہوں کا انتخاب کرنا، غزوۂ احزاب کے موقع سے خندق کھدوانا، جس کا تصور اہلِ عرب کے درمیان نہیں تھا، یہ سب کام موقع و محل کو دیکھتے ہوئے مکمل حکمت و مصلحت اور منصوبہ بندی کے تحت پیش آئے، کبھی آناً فاناً فیصلہ لیا گیا اور کبھی بہت پہلے ہی منصوبہ بندی کی گئی؛ لیکن بہر صورت حکمت و مصلحت، دانشمندی اور مضبوط پلاننگ کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ ہمیں بھی اپنی زندگی میں ان باتوں سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔
دعوت و تبلیغ کے لیے عصری وسائل:
قرآن کریم نے متعدد آیتوں میں دعوت و تبلیغ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا، ایک جگہ فرمایا: "و انذر عشیرتک الاقربین و اخفض جناک لمن اتبعک من المؤمنین" (سورۃ الشعراء: 214، 215) اور (اے پیغمبر! سب سے پہلے) اپنے قریبی رشتوں داروں کو (اللہ کے) عذاب سے ڈراؤ اور جو ایمان والے تمہارے پیرو ہوگئے ہیں، ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ۔ دوسری جگہ فرمایا: "فاصدع بما تؤمر و اعرض عن المشرکین" (سورۃ الحجر:94)، پس جو حکمتم کو ملا ہے وہ (لوگوں کو) سنادو اور مشرکوں کی پروا مت کرو۔ ایک اور جگہ فرمایا: "ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ"(سورۃ النحل:125)، (اے پیغمبر! لوگوں کو) دانائی (کی باتوں) اور اچھی نصیحتوں سے اپنے پروردگار کی طرف بلاؤ اور بہترین طریقے سے ان کے ساتھ بحث کرو؛ لیکن کہیں بھی دعوتی وسائل و ذرائع کا واضح انداز میں تذکرہ نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے لحاظ سے دعوتی پیغامات لوگوں تک پہونچائے، اس کے لیے چھوٹی بڑی مجالس کا رخ کیا، کوہِ صفا پر چڑھ کر آواز لگائی، نئے آنے والوں سے ملاقاتیں کیں، انہیں سمجھایا، حکمرانوں کے نام خطوط لکھے اور سفراء روانہ کیے، یہ سب وہ وسائل و ذرائع تھے، جو اس زمانے میں رائج تھے، آپ نے انہیں اختیار کیا، عصری وسائل سے اعراض نہیں کیا، اپنی آنکھیں بند نہ کرلیں؛ بلکہ انہیں اپنے دعوتی مشن کے لیے پورے طور پر اختیار کیا۔ ہمیں بھی اپنے اپنے زمانے میں اس کی طرف توجہ دیتے ہوئے، دعوتِ دین کے لیے عصری وسائل اختیار کرنے چاہیئیں، سوشل میڈیا کو مثبت کاموں کے لیے اختیار کرنا چاہیے؛ تاکہ صحیح انداز میں کامیابی مل سکے، ہمارا زمانہ تو سوشل میڈیا کے لحاظ سے انتہائی ترقی کا زمانہ ہے۔ ہمیں دعوت و تبلیغ، خیر کی اشاعت اور سماج کی اصلاح کے لیے موجودہ اسباب و وسائل سے بھر پور انداز میں مستفید ہونا چاہیے۔
رجوع الی اللہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ دنیا دار الاسباب ہے، کسی بھی کام کے لیے اسباب و وسائل مطلوب ہوتے ہیں، اسباب و وسائل بھی اصلاً دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک کا تعلق تو ظاہر سے ہے، جسے ہر آدمی سمجھ سکتا ہے، جیسے: دوڑ دھوپ، جہد مسلسل، سعیِ پیہم، محنت و مشقت، تعلقات و روابط وغیرہ، اور دوسرے کا تعلق باطن سے ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ جس بات کے داعی ہیں، اس پر آپ کو بھی یقینِ کامل اور اطمینانِ قلبی ہو، آپ اپنی دعوت پر خود بھی عمل پیرا ہوں، ظاہری و باطنی اخلاقِ حسنہ کے پیکر ہوں، قول و فعل اور علم و عمل میں تضاد نہ ہو۔ ان دونوں (ظاہری و باطنی) اسباب و وسائل سے متصف ہونے کے بعد، ہمیں صاحبِ ایمان ہونے کی حیثیت مکمل طور پر "رجوع الی اللہ"ہونا بھی ضروری ہے، اللہ تعالیٰ سے مانگیے اور خوب مانگیے، اور اسی سے خیر کی امید رکھیے، اسے ہی "توکل علی اللہ" کہتے ہیں۔ اسباب و وسائل اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالٰی سے لَو لگائیے ، اور نتیجہ اسی پر چھوڑ دیجیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو دیکھ جائیے، انفرادی مسئلہ ہو یا اجتماعی، میدان جنگ ہو یا کوئی اور مرحلہ، اساب و وسائل اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالٰی کی طرف متوجہ ہوتے اور خوب ہوتے، دعا میں محو ہوجاتے، شانۂ مبارک سے چادر گرجاتی اور احساس تک نہ ہوتا، روتے روتے داڑھی تر ہوجاتی، ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی کی جانب رجوع ہوئے، اسی سے لَو لگایا اور اسی کی ذات پر بھروسہ کیا۔
ہمیں اور آپ کو بھی بحیثیتِ مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو گہرائی و گیرائی کےساتھ پڑھنے، اس سے نصیحت لینے، اور اپنی زندگی کو بھی اسی انداز میں متصف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی میں ہمارے لیے دونوں جہان کی کامیابی ہے۔ ایک شعر پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں:
کہ تیری زندگی قرآن کی تفسیر ہوجائے