ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۴
ہماری کامیابی دین پر چلنے میں ہے
جناب حضرت مولانا حمید اللہ صاحب قاسمی(کبیر نگری) پرنسپل :بیگم صاحبہ خیر صاحب نسواں انٹر کالج ، بستی (یوپی)
زمانہ کی تیزرفتار اور موجودہ دور ترقی نے ہر انسان کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے،جس سے زندگی کے تمام شعبہ جات میں ایک انقلاب آگیاہے جس کا”خیر القرون“کے زمانہ میں تصور بھی نہ تھا، آج وہ ہمارے آنکھوں کے سامنے ہے،انسانوں کے اندر عیش وآرام کے ہزاروں اسباب مہیا ہوگئے ہیں، شاید اسی لئے ہماری دین سے دوری پیدا ہوگئی ہے، مگر ہمیں تو اسلام کے طورطریقے کو اپنانا ہوگا تبھی ہم سوفیصد کامیاب ہوسکتے ہیں،کیونکہ دین سے جڑنے میں ہماری کامیابی ہے، اگر ہم دین سے نہیں جڑے توزمانہ کی تیز للکار اور اس کی اثرانگیزی سے ہم کبھی بھی نہیں بچ سکتے،کیونکہ موجودہ ترقی اور زمانہ کے للکار پر دور جدیدہ اور مغربیت کی مضبوط پکڑہے، اس لئے ہمیں سوچناہوگا اور غور کرناہوگا کہ ہمیں کونسا راستہ اختیار کرناہوگا، کس طریقے پر چلناہوگا،کونسی ڈگرہمیں اپنانی ہوگی،کس کے بتائے ہوئے راستہ پر لگنا ہوگااور کس کی کہی ہوئی باتوں کو مانناہوگا؟ دنیا میں اگر کوئی سچا اور سیدھا راستہ ہے تو وہ مذہب اسلام ہے، جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیکر دنیا میں تشریف لائے، یہی وہ طریقہ ہے جس کی اتباع کرنی ضروری ہے، اب قیامت تک کے سارے انسانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتبا ع کرنی ہوگی، تبھی جاکر پوری کامیابی حاصل ہوسکتی ہے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے لفظوں میں فرمادیا تھا ”کہ موسی علیہ السلام جب تک اس دنیا میں زندہ تھے، نبی اور رسول کی حیثیت سے زندہ تھے، اب اگر موسی کلیم اللہ بھی زمین پرآجائیں، تو جب تک محمدکا کلمہ نہیں پڑھ لیں گے، اس وقت تک پورے طورپر اللہ والے نہیں بن سکتے“۔
دنیامیں اگر کوئی سیدھا راستہ اور طریقہ ہے تو وہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور راستہ ہے، اسی راستہ پر چل کر ہم کامیاب ہوسکتے ہیں، چونکہ نبی کاطریقہ ہمارے لئے”اسوہ“ہے، اللہ تبارک وتعالی نے رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک کو نمونہ حیات بنا دیا ہے اور واضح طورپر یہ بتلادیا ہے کہ تمام مسائل کا حل آپ کی اتباع میں مضمرہے، جس کی زندگی اس کے مطابق ہوگی وہ کامیاب وکامران ہوگا اورجس کی زندگی اس اسوہ کے خلاف ہوگی وہ ناکام ونامراد ہوگا، ارشاد باری تعالی ہے ”لقدکان لکم فی رسول اللّٰہ اس وۃ حسنۃ“یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لئے (بلکہ پوری انسانیت کے لئے) اسوہ حسنہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالی نے انسانوں کو دو عدد میں بانٹ دیا ہے: ایک عدد تو ماننے والوں کی ہے او ردوسری عدد نا ماننے والوں کی ہے”ہوالذی خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن“ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم میں سے کچھ نہ ماننے والے ہیں اور کچھ ماننے والے ہیں، مگر ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایمان والوں سے اللہ تعالی کو ذاتی محبت ہے اور کافروں سے دشمنی ہے، اس لئے کہ کفر اور کافر کی بنیاد شیطانیت پرہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرماتاہے کہ ”وہ میرا بھی دشمن ہے اور تمہارا بھی دشمن“ اس کے برخلاف مؤمن کے لئے اللہ تعالی فرماتاہے”اللّٰہ ولی الذین آمنوا“ اللہ تعالی دوست ہے ایمان والوں کا۔
حضرت بایزید بسطامیؒ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالی کو ایمان والوں سے ذاتی محبت ہے، انہوں نے کہا بالکل، اس نے کہا دلیل کیاہے؟ بایزید بسطامی ؒنے کہا کہ دیکھئے محبت کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ محب اپنے محبوب کو جتنا کچھ دیدے، وہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ بھی نہیں دیا،اس کے برخلاف اگر محبوب اس کو تھوڑا سا بھی دیدے تو محب سمجھتا ہے کہ مجھے بہت کچھ مل گیا، تو اگر اصول کو سامنے رکھ کر قرآن مجیدپر نظر دوڑائیں تو آپ کو بات سمجھ میں آجائے گی،جس طرح اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو اتنی نعمتوں سے نوازا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرناچاہو توشمار نہیں کرسکتے، حتی کہ دنیا کے سارے درخت قلم بن جائے اور سمندروں کے پانی کوروشنائی بنالی جائے پھر اللہ کی نعمتوں کو ہم شمارنہیں کرسکتے،اللہ تعالی ان گنت نعمتیں دینے کے بعد پھر فرمایا”قل متاع الدنیا قلیل“دنیا کی متاع تھوڑی سی ہے، یعنی اتناسارا دینے کے بعدبھی اللہ تعالی فرمارہاہے کہ میں تمہیں تھوڑا سا دیاہوں۔
اللہ تعالی اتنا سارا دینے کے باوجود بھی یہ کہہ رہاہے کہ میں تم کو تھوڑا سا دیا ہوں، یعنی جو مومن بندے ہوتے ہیں جن کاتعلق دین سے ہوتا ہے، وہ اللہ تعالی کا شکر اداکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں بہت کچھ دیا، آنکھ دی ہے، کان دی ہے، ہاتھ اور پیر عطاکئے ہیں، صحت وتندرستی دی ہے، حسن اور خوبصورتی دی ہے، غرضیکہ اللہ تعالی نے سب کچھ دیاہے، اور جواللہ کے نافرمان ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں کچھ نہیں دیا، ان کی زبان سے ہمیشہ شکوہ اور ناشکری کے الفاظ نکلتے ہیں، مگر جو اللہ کی بات کو مانتے ہیں اور دین سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اورجن کو آخرت کی فکر ہوتی ہے وہ ہر حال میں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے، یہ زندگی اللہ کی امانت ہے، اس کو ہم اپنی مرضی کے مطابق نہیں گزارسکتے۔
اب ہر کام میں دیکھنا ہوگا کہ اللہ تعالی کا کیا حکم ہے؟ او رحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریقہ ہے؟ اس لئے ہمیں اللہ تعالی کے حکم کی تابعداری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی ہوگی تبھی ہم منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں، اس کے علاوہ اگر ہم کسی اور راستہ پر چلے تو یقینا ہم بھٹک جائیں گے،اور اگرہم خدا اور رسول کے راستے سے بھٹک گئے تو جہنم کے گڑھے میں جاگریں گے۔
جب انسان اپنے خالق کے بنائے ہوئے نظام زندگی کو چھوڑ کر،اپنے نبی کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ کر، محض اپنی عقل کی بنیاد پر، اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارتاہے، تو اس انسان کو گمراہ تصور کیا جاتاہے اور یہ سمجھا جاتاہے کہ یہ دین سے ہٹا ہواہے، دین اسلام سے جڑا ہوا نہیں ہے اور جب یہ دین سے جڑا نہیں ہے تو کامیاب کیسے ہوسکتاہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے انسانوں کوایک ایسا جامع دستور دیاجس کے احکام تمام شعبہ حیات کو گھیرے ہوئے ہیں جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے، اس کا نفاذ نہ صرف انسانیت بلکہ پوری کائنات کے لئے باعث رحمت ہے، اللہ تعالی نے اس دستور کو کتاب کی شکل میں اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا، اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف خدا کے اس پیغام کو خدا کے بندوں تک پہنچایا بلکہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کے ایک ایک حکم پر خود عمل کرکے تمام احکام کو عملی طورپر واضح اندازمیں اس طرح پیش کردیا کہ عالم انسانیت کے لئے پرسکون زندگی گزارنے کاایک عظیم الشان نمونہ بن گیا۔
اب ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہوگا کہ جس پر چل کر صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، بزرگان دین، اولیاء اللہ اور علماء دین نے چل کر کامیابی حاصل کی ہے،اسی راستہ پر چل کر اور اس دین مبین سے جڑ کر ہمیں کامیابی حاصل کرنی ہے اور جنت اپنا ٹھکانہ بناناہے،چونکہ پوری زندگی کا محور اور نچور صرف یہی ہے کہ ہم اس دنیاوی زندگی میں سوفیصد کامیاب ہوجائیں تاکہ ہمارا ٹھکانہ جنت ہوجائے، جس کا ہرانسان طلب گار ہے، اللہ تعالی سارے انسانوں کو سیدھے راستہ پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے، غلط اور برے راستوں سے سارے انسانوں کی حفاظت فرمائے۔آمین
دنیامیں اگر کوئی سیدھا راستہ اور طریقہ ہے تو وہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور راستہ ہے، اسی راستہ پر چل کر ہم کامیاب ہوسکتے ہیں، چونکہ نبی کاطریقہ ہمارے لئے”اسوہ“ہے، اللہ تبارک وتعالی نے رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک کو نمونہ حیات بنا دیا ہے اور واضح طورپر یہ بتلادیا ہے کہ تمام مسائل کا حل آپ کی اتباع میں مضمرہے، جس کی زندگی اس کے مطابق ہوگی وہ کامیاب وکامران ہوگا اورجس کی زندگی اس اسوہ کے خلاف ہوگی وہ ناکام ونامراد ہوگا، ارشاد باری تعالی ہے ”لقدکان لکم فی رسول اللّٰہ اس وۃ حسنۃ“یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لئے (بلکہ پوری انسانیت کے لئے) اسوہ حسنہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالی نے انسانوں کو دو عدد میں بانٹ دیا ہے: ایک عدد تو ماننے والوں کی ہے او ردوسری عدد نا ماننے والوں کی ہے”ہوالذی خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن“ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم میں سے کچھ نہ ماننے والے ہیں اور کچھ ماننے والے ہیں، مگر ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایمان والوں سے اللہ تعالی کو ذاتی محبت ہے اور کافروں سے دشمنی ہے، اس لئے کہ کفر اور کافر کی بنیاد شیطانیت پرہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرماتاہے کہ ”وہ میرا بھی دشمن ہے اور تمہارا بھی دشمن“ اس کے برخلاف مؤمن کے لئے اللہ تعالی فرماتاہے”اللّٰہ ولی الذین آمنوا“ اللہ تعالی دوست ہے ایمان والوں کا۔
حضرت بایزید بسطامیؒ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالی کو ایمان والوں سے ذاتی محبت ہے، انہوں نے کہا بالکل، اس نے کہا دلیل کیاہے؟ بایزید بسطامی ؒنے کہا کہ دیکھئے محبت کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ محب اپنے محبوب کو جتنا کچھ دیدے، وہ سمجھتا ہے کہ میں نے کچھ بھی نہیں دیا،اس کے برخلاف اگر محبوب اس کو تھوڑا سا بھی دیدے تو محب سمجھتا ہے کہ مجھے بہت کچھ مل گیا، تو اگر اصول کو سامنے رکھ کر قرآن مجیدپر نظر دوڑائیں تو آپ کو بات سمجھ میں آجائے گی،جس طرح اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو اتنی نعمتوں سے نوازا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرناچاہو توشمار نہیں کرسکتے، حتی کہ دنیا کے سارے درخت قلم بن جائے اور سمندروں کے پانی کوروشنائی بنالی جائے پھر اللہ کی نعمتوں کو ہم شمارنہیں کرسکتے،اللہ تعالی ان گنت نعمتیں دینے کے بعد پھر فرمایا”قل متاع الدنیا قلیل“دنیا کی متاع تھوڑی سی ہے، یعنی اتناسارا دینے کے بعدبھی اللہ تعالی فرمارہاہے کہ میں تمہیں تھوڑا سا دیاہوں۔
اللہ تعالی اتنا سارا دینے کے باوجود بھی یہ کہہ رہاہے کہ میں تم کو تھوڑا سا دیا ہوں، یعنی جو مومن بندے ہوتے ہیں جن کاتعلق دین سے ہوتا ہے، وہ اللہ تعالی کا شکر اداکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں بہت کچھ دیا، آنکھ دی ہے، کان دی ہے، ہاتھ اور پیر عطاکئے ہیں، صحت وتندرستی دی ہے، حسن اور خوبصورتی دی ہے، غرضیکہ اللہ تعالی نے سب کچھ دیاہے، اور جواللہ کے نافرمان ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں کچھ نہیں دیا، ان کی زبان سے ہمیشہ شکوہ اور ناشکری کے الفاظ نکلتے ہیں، مگر جو اللہ کی بات کو مانتے ہیں اور دین سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اورجن کو آخرت کی فکر ہوتی ہے وہ ہر حال میں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے، یہ زندگی اللہ کی امانت ہے، اس کو ہم اپنی مرضی کے مطابق نہیں گزارسکتے۔
اب ہر کام میں دیکھنا ہوگا کہ اللہ تعالی کا کیا حکم ہے؟ او رحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریقہ ہے؟ اس لئے ہمیں اللہ تعالی کے حکم کی تابعداری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی ہوگی تبھی ہم منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں، اس کے علاوہ اگر ہم کسی اور راستہ پر چلے تو یقینا ہم بھٹک جائیں گے،اور اگرہم خدا اور رسول کے راستے سے بھٹک گئے تو جہنم کے گڑھے میں جاگریں گے۔
جب انسان اپنے خالق کے بنائے ہوئے نظام زندگی کو چھوڑ کر،اپنے نبی کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ کر، محض اپنی عقل کی بنیاد پر، اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارتاہے، تو اس انسان کو گمراہ تصور کیا جاتاہے اور یہ سمجھا جاتاہے کہ یہ دین سے ہٹا ہواہے، دین اسلام سے جڑا ہوا نہیں ہے اور جب یہ دین سے جڑا نہیں ہے تو کامیاب کیسے ہوسکتاہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے انسانوں کوایک ایسا جامع دستور دیاجس کے احکام تمام شعبہ حیات کو گھیرے ہوئے ہیں جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے، اس کا نفاذ نہ صرف انسانیت بلکہ پوری کائنات کے لئے باعث رحمت ہے، اللہ تعالی نے اس دستور کو کتاب کی شکل میں اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا، اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف خدا کے اس پیغام کو خدا کے بندوں تک پہنچایا بلکہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کے ایک ایک حکم پر خود عمل کرکے تمام احکام کو عملی طورپر واضح اندازمیں اس طرح پیش کردیا کہ عالم انسانیت کے لئے پرسکون زندگی گزارنے کاایک عظیم الشان نمونہ بن گیا۔
اب ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہوگا کہ جس پر چل کر صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، بزرگان دین، اولیاء اللہ اور علماء دین نے چل کر کامیابی حاصل کی ہے،اسی راستہ پر چل کر اور اس دین مبین سے جڑ کر ہمیں کامیابی حاصل کرنی ہے اور جنت اپنا ٹھکانہ بناناہے،چونکہ پوری زندگی کا محور اور نچور صرف یہی ہے کہ ہم اس دنیاوی زندگی میں سوفیصد کامیاب ہوجائیں تاکہ ہمارا ٹھکانہ جنت ہوجائے، جس کا ہرانسان طلب گار ہے، اللہ تعالی سارے انسانوں کو سیدھے راستہ پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے، غلط اور برے راستوں سے سارے انسانوں کی حفاظت فرمائے۔آمین