ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۴
علماء رجال سازبنیں
حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد جمالپوری صاحب المظاہری، استاد حدیث و فقہ: مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا (ہماچل پردیش)
آج دنیا میں من چیث الدنیا بےشمار ترقیات اور سہولتیں بعید ازشمارہیں ہر آدمی کامطمع نظر اور منتہائے فکر دنیا ہے حصول لذات میں ہم اتنے مگن ہیں کہ کسی کےپاس کسی سے خیر وعافیت تک معلوم کرنے کاوقت نہیں اگر کسی آدمی کے پاس ایک چیز ہےتو اس کو دوسری کی فکر لاحق ہے دوسری ہے اس کو تیسری کی ھلم جرا۔
آپ ذرا دس سال قبل کے زمانے پرتوجہ کریں کاریں بسیں موٹرس اتنی مقدار میں نہیں تھیں جتنی اب ہیں یعنی دن بدن ترقی ہے لیکن اگر ہم غور کریں اپنے چین سکون واطمینان قلب اوراپنی جسمانی صحت وصلاحیت کے بارے میں من حیث الآخرہ تو اس قدر گراوٹ نظر آئے گی کہ ماقبل دس کے عرصے میں کبھی نہیں آئی اس کی ایک وجہ مادیت پرستی ہے اور دوسری وجہ روح فروشی یاروح سے تغافل ہے علماء ہی کو دیکھ لیجیۓ اپنے مقصد سےجو دین کی تبلیغ واشاعت وترویج اور تربیت خود وخویش واقارب وملل ہے سےکس قدر متغافل ہیں العیاذ باللہ بیع و شراء کے مسائل صرف کتابوں میں ہیں عمل میں نہ خود کے ہیں اور نہ ملت کوترغیب اجارہ معاملات بینک کے مسائل صرف کتابوں میں ہیں وقت کی رفتار کو دیکھیے اور اپنے مقصد کو سمجھیے بستی میں کم از کم دس آدمی کو مکمل اخلاق نبوی پر عبور بالعمل کرائیے کوئی تاجر ہے تو نبی کے تاجرانہ اخلاق اس کو بتائیے کوئی ملازم ہےتونبی کاملازمت کاطرز اس کو سکھلائیےآپ خود بھی تجارت کیجئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت فرمائی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کپڑے فروخت کییے عمر فاروق رضی اللہ عنہ غلہ کے تاجر تھے عثمان غنی رضی اللہ عنہ مختلف چیزوں کی تجارت کرتے تھے امام ابوحنیفہ نے بھی تجارت کو فروغ دیا امام شافعی نے بھی عطر کی تجارت کی سفیان ثوری دودھ کے تاجر تھے غرض تجارت کرکے دکھائیے خود بھی کھائیے اوروں کو بھی کھلائیے خدا کے لئے اپنی اورامت کی آخرت کی بھی فکر کریں مقصد تخلیق کائنات جس کو ان آیات واحادیث میں بیان کیا گیا ہے کوپہچانیے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(سورۂ ذاریات آیت نمبر 56اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف دنیا طلب کرنے اور ا س کی طلب میں مُنہَمِک ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ انہیں اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں اور انہیں میری معرفت حاصل ہو ۔( صاوی )جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا اصل مقصداس آیت سے معلوم ہوا کہ انسانوں اور جنوں کو بیکار پیدا نہیں کیا گیا بلکہ ان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘(سورۂ مومنون آیت نمبر 115) تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟ اور ارشاد فرمایا:’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ وَھُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙ() الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ‘‘( سورہملک:آیت نمبر 1و2) بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضے میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی عزت والا، بخشش والا ہے۔
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اے انسان!تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں گا اور اگر تو ایسانہیں کرے گا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مصروفیات سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔( ترمذی حدیث نمبر 2474)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھنے اور ا س مقصد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے علماء سے ہاتھ جوڑ کر میری گزارش ہے کہ آپ اپنی قدر کریں رب آپ سے کس قدر پیار کرتا ہے جس کا تذکرہ باری تعالیٰ نے کئی مقامات پرکیا ہے مثلاً اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا: اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اس آیت کی ابتداء اور اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے نشان اور صَنعت کے آثار ذکر کئے جن سے اس کی ذات و صفات پر اِستدلال کیا جاسکتا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اور اس کی صفات کو جانتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم رکھتا ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو گا اور جس کا علم کم ہو گا تو ا س کا خوف بھی کم ہو گا ملاعلی قاری علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ خوف الہٰی کا مطلب ہے اس کے احکام پر عمل کرنا،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کا خوف اس کو ہے جو اللہ تعالیٰ کے جَبَرُوت اور اس کی عزت و شان سے باخبرہو۔ ( مدارک)۔ علماء سے درخواست ہے کہ وہ امت کی تمام شعبجات میں رہمنائی کریں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی طرف بھی متوجہ کریں کمپیوٹر کورسز اور ہائی اسکول یاانٹر تک تو ہمارا ہربچہ تعلیم حاصل کرے ہمارے شہر وگاؤں کے کچھ بچے ڈاکٹرز وانجینیرز بنیں ہماری بچیاں بھی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم شرعی حدود میں رہ کر حاصل کریں یہ وقت غفلت ونوم سے بیدار ہونے کا ہے یہودی عقل سے کام لیتا ہے اسی لئے چاروں طرف ان کا سکہ رائج ہے ہم لوگ کوشش نہیں کرتے بلکہ جذبات میں آکر پریشان ہوتے اورکرتے ہیں ضرورت ہے علماء کے بیدار ہونے کی ضرورت ہے عوام کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے عوام سے تعلق رکھنے کی اور عوام سے بھی عاجز کی درخواست ہے کہ علماء سے اپنے ربط وتعلق مضبوط کریں اگر کسی عالم سے جوڑ نہیں تو آج ہی سے جڑجائیں تاکہ آپ اپنی دنیا وآخرت کی حاجات علماء کی ہدایات پر عمل کرکے پوری کرسکیں۔ وماعلینا الا البلاغ۔
آپ ذرا دس سال قبل کے زمانے پرتوجہ کریں کاریں بسیں موٹرس اتنی مقدار میں نہیں تھیں جتنی اب ہیں یعنی دن بدن ترقی ہے لیکن اگر ہم غور کریں اپنے چین سکون واطمینان قلب اوراپنی جسمانی صحت وصلاحیت کے بارے میں من حیث الآخرہ تو اس قدر گراوٹ نظر آئے گی کہ ماقبل دس کے عرصے میں کبھی نہیں آئی اس کی ایک وجہ مادیت پرستی ہے اور دوسری وجہ روح فروشی یاروح سے تغافل ہے علماء ہی کو دیکھ لیجیۓ اپنے مقصد سےجو دین کی تبلیغ واشاعت وترویج اور تربیت خود وخویش واقارب وملل ہے سےکس قدر متغافل ہیں العیاذ باللہ بیع و شراء کے مسائل صرف کتابوں میں ہیں عمل میں نہ خود کے ہیں اور نہ ملت کوترغیب اجارہ معاملات بینک کے مسائل صرف کتابوں میں ہیں وقت کی رفتار کو دیکھیے اور اپنے مقصد کو سمجھیے بستی میں کم از کم دس آدمی کو مکمل اخلاق نبوی پر عبور بالعمل کرائیے کوئی تاجر ہے تو نبی کے تاجرانہ اخلاق اس کو بتائیے کوئی ملازم ہےتونبی کاملازمت کاطرز اس کو سکھلائیےآپ خود بھی تجارت کیجئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت فرمائی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کپڑے فروخت کییے عمر فاروق رضی اللہ عنہ غلہ کے تاجر تھے عثمان غنی رضی اللہ عنہ مختلف چیزوں کی تجارت کرتے تھے امام ابوحنیفہ نے بھی تجارت کو فروغ دیا امام شافعی نے بھی عطر کی تجارت کی سفیان ثوری دودھ کے تاجر تھے غرض تجارت کرکے دکھائیے خود بھی کھائیے اوروں کو بھی کھلائیے خدا کے لئے اپنی اورامت کی آخرت کی بھی فکر کریں مقصد تخلیق کائنات جس کو ان آیات واحادیث میں بیان کیا گیا ہے کوپہچانیے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(سورۂ ذاریات آیت نمبر 56اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف دنیا طلب کرنے اور ا س کی طلب میں مُنہَمِک ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ انہیں اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں اور انہیں میری معرفت حاصل ہو ۔( صاوی )جنوں اور انسانوں کی پیدائش کا اصل مقصداس آیت سے معلوم ہوا کہ انسانوں اور جنوں کو بیکار پیدا نہیں کیا گیا بلکہ ان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘(سورۂ مومنون آیت نمبر 115) تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟ اور ارشاد فرمایا:’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ وَھُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙ() الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ‘‘( سورہملک:آیت نمبر 1و2) بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضے میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی عزت والا، بخشش والا ہے۔
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اے انسان!تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں گا اور اگر تو ایسانہیں کرے گا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مصروفیات سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔( ترمذی حدیث نمبر 2474)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھنے اور ا س مقصد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے علماء سے ہاتھ جوڑ کر میری گزارش ہے کہ آپ اپنی قدر کریں رب آپ سے کس قدر پیار کرتا ہے جس کا تذکرہ باری تعالیٰ نے کئی مقامات پرکیا ہے مثلاً اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا: اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اس آیت کی ابتداء اور اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے نشان اور صَنعت کے آثار ذکر کئے جن سے اس کی ذات و صفات پر اِستدلال کیا جاسکتا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اور اس کی صفات کو جانتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم رکھتا ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو گا اور جس کا علم کم ہو گا تو ا س کا خوف بھی کم ہو گا ملاعلی قاری علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ خوف الہٰی کا مطلب ہے اس کے احکام پر عمل کرنا،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کا خوف اس کو ہے جو اللہ تعالیٰ کے جَبَرُوت اور اس کی عزت و شان سے باخبرہو۔ ( مدارک)۔ علماء سے درخواست ہے کہ وہ امت کی تمام شعبجات میں رہمنائی کریں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی طرف بھی متوجہ کریں کمپیوٹر کورسز اور ہائی اسکول یاانٹر تک تو ہمارا ہربچہ تعلیم حاصل کرے ہمارے شہر وگاؤں کے کچھ بچے ڈاکٹرز وانجینیرز بنیں ہماری بچیاں بھی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم شرعی حدود میں رہ کر حاصل کریں یہ وقت غفلت ونوم سے بیدار ہونے کا ہے یہودی عقل سے کام لیتا ہے اسی لئے چاروں طرف ان کا سکہ رائج ہے ہم لوگ کوشش نہیں کرتے بلکہ جذبات میں آکر پریشان ہوتے اورکرتے ہیں ضرورت ہے علماء کے بیدار ہونے کی ضرورت ہے عوام کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے عوام سے تعلق رکھنے کی اور عوام سے بھی عاجز کی درخواست ہے کہ علماء سے اپنے ربط وتعلق مضبوط کریں اگر کسی عالم سے جوڑ نہیں تو آج ہی سے جڑجائیں تاکہ آپ اپنی دنیا وآخرت کی حاجات علماء کی ہدایات پر عمل کرکے پوری کرسکیں۔ وماعلینا الا البلاغ۔