ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۴
یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی
مولانا ارشد کبیر خاقان المظاہری،جنرل سکریٹری: ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)
تمہید:
یہ حقیقت ہے کہ مدارس اسلامیہ دین کی مضبوط قلعے ہیں اور ان کی حفاظت و استقامت میں ہی دین اسلام کا استحکام مضمرہے،کیونکہ ان مدارس نے بر صغیرمیں بالخصوص دین اسلام کی حفاظت میں بڑا قابل ِ قدر کردار اداکیا اور تعلیمات ِ اسلامی کی اشاعت میں ناقابل ِ فراموش خدمات انجام دی ہیں اور یہ بلا شبہ ایک تاریخی حقیقت بھی ہے،یہی وہ دینی قلعے ہیں جنہوں نے نہایت یکسوئی اور خاموشی کے ساتھ سرد و گرم حالات، معاشرہ کی دینی ضرورتوں کی تکمیل اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں دنیا کے ہنگاموں سے بے خبر،مگر ٹھوس انداز میں شیریں و تلخ مرحلوں سے گزرتے اور باد مخالف کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے افراد سازی اورتحفظ دین کی اشاعت میں شب و روز لگے ہوئے ہیں،اس حقیقت کا اعتراف ہراس فرد نے کیا ہے جس کو اللہ نے عقل سلیم اور فہم وبصیرت کی دولت سے نوازاہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ چند مختلف تحریکوں اور تنظیموں کے نمائندے جو دبی زبان میں مدارس اسلامیہ کی نافعیت اور افادیت کا انکار کرتے تھے، اب کھلے طور پر ٹیلی ویزن، سوشل میڈیااورپرنٹ میڈیا وغیرہ کا سہارا لے کردینی مدارس کی نافعیت کو اپنی کم فہمی میں محدود ٹھہرانے پر بضد ہیں،بعض تہذیب جدید، مادہ پرست اور دین اسلام سے بیزار مدارس اسلامیہ کے نظام، تعلیم اور طریقہ تعلیم کے سلسلہ میں بیمار اور مذموم ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ یہ مدارس معاشرے پر خیراتی بوجھ کے سوا اور کچھ نہیں،مدارس اسلامیہ کے تمام تر نظام ہائے شب و روز کی تگ ودو،نقل و حرکت،نصاب و نظام، تضیع اوقات، غیر نفع بخش،نامعقول اور فرسودہ ہیں، ایسا محسوس کرانے کی کو شش کی جارہی ہے کہ دنیا میں تمام برائیوں اور حالات کے ذمہ دار گویا یہی مدارس اسلامیہ ہیں، بعض یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مدارس میں دس بارہ سالہ تعلیمی و تربیتی نظام کی وابستگی سے بہتر ہے کہ محض تبلیغی جماعت میں چار چھ مہینہ کے لگانا افضل ہے،جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آزادی ئہند کے بعد کسی بھی اصلاحی یا رفاہی تنظیم و تحریک کا آپ گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس کا سرا کہیں نہ کہیں،کسی نہ کسی طریقہ سے مدارس اسلامیہ سے ہی مربوط نظر آئے گا،اس کی باگ ڈورمدارس کے فارغین کے ہاتھوں میں ہوگی اورقرآن و حدیث پر گہری بصیرت اور علوم اسلامیہ پر مکمل دسترس،وسیع نظر اور دور بین نگاہ آپ چاہتے ہیں تو یہی مدارس اور یہی نصاب تعلیم کے زیر اثر حاصل ہوگی۔
مدارس اسلامیہ کو اپنی حالت پررہنے دو ورنہ:
دینی مدارس میں موجوودہ نصاب تعلیم کے ڈھانچے کی یکسر تبدیلی اور موڈرن تعلیمی نصاب کو رائج کرنے کا مطالبہ جو کہ مدارس اسلامیہ کے فارغین کی معاشی کفالت کا ضامن ہونا تو عقل و دانش کے موافق ہے اور نہ ہی مدارس اسلامیہ کے قیام کے مقاصد کے ہم آہنگ ہے، جزوی ترمیم ارباب مدارس وقتاََ فوقتاََ کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں،یہ مسلمانوں کی آٹھ سوسالہ علمی وتعلیمی تاریخ کا نچوڑ ہے، مختلف اثرات واحوال کے ماتحت اس میں ترمیم وتنسیخ کا عمل جاری رہا ہے، موجودہ زمانے کے لحاظ سے عصری تعلیم کا انتظام اہل مدارس کو کرنا چاہئے مگر ایسا نہ ہو کہ مدارس اسلامیہ کے تعلیمی نصاب پر عصری علوم کو فوقیت دے دی جائے، ناقص رائے یہ کہ روزانہ عصری علوم کی تعلیم کے لئے کچھ وقت ضرور نکالا جائے تاکہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ اس شعبہ سے منسلک ہو کر موڈرن خیالات سے ہم آہنگ حضرات کی بھی برابری کر سکیں،دینی تعلیمی نصاب کے ساتھ زور آزمائی ہمیں مدارس اسلامیہ کے قیام کے اہداف و مقاصد سے بہت دور کردے گی اور پھر نتیجہ بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود ہوا آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا ء کے نشانات کے سوا اسلام اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ حکومت اوران کی تہذیب کا کوئی نشا ن نہیں ملے گا“۔(دینی مدارس:ماضی، حال، مستقبل:۹۶)
اسلام کی بقاء دینی مدارس کی وجہ سے ہے:
مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ فرماتے ہیں:”اگر کسی ملک میں دین تسلسل کے ساتھ او ر پائیدار طریقہ پر باقی رہ سکتا ہے تو وہ دینی تعلیم سے ہی باقی رہ سکتا ہے، ورنہ دیکھنے والوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے، پڑھنے والوں نے اس کا مطالعہ کیا ہے کہ جن علاقوں میں دینی تعلیم کا سلسلہ بند ہوگیا،وہاں بالکل اسلام ختم ہوگیا“ چنانچہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جب ایک دفعہ کسی نے نصاب میں تبدیلی کے متعلق دریافت کیا توانھوں نے یوں فرمایا:”جہاں تک نصاب کا تعلق ہے تو وہ بالکل قابل اطمینان ہے، یہ وہی نصاب ہے جس سے بڑے بڑے اکابر علماء تیار ہوئے ہیں؛۱لبتہ جزوی ترمیم تو پہلے بھی ہوتی رہی ہے اورآئندہ بھی ہوگی؛ البتہ اصل وہی ہیں جو نہیں بدل سکتے، جیسے صحاح ستہ اور قرآن کریم کی تعلیم، باقی جتنے علومِ آلیہ ہیں، مبادی ہیں، ان میں جزوی طور پر تغیر وتبدیل ہوتا رہا ہے، نوعی طور پر نصاب وہی باقی رہا؛ اس لیے جہاں تک نصاب کا تعلق ہے وہ تو بالکل قابل ِاطمینان ہے“۔(دینی مدارس، ابن الحسن عباسی:۰۱۱)
دونوں کے راستے الگ الگ ہیں:
آپ کا یہ مطالبہ کہ مدارس اسلامیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹر،انجینئر،بیرسٹربھی ہونے چاہئیں یا مدارس اسلامیہ سے ڈاکٹر، انجینئر، بیرسٹرکیوں پیدا نہیں ہو رہے تو یہ واضح رہے کہ یہ مدارس اسلامیہ کے قیام کے اہداف ومقاصدکے خلاف ہے، بہتر ہوگا کہ اس کے لئے ہم ایسے ادارے قائم کریں جس کا مقصود ہی عصری علوم ہی ہو،ورنہ اسکول اور کالجوں میں بھی تھوڑا وقت علیحدہ کے وہاں تعلیم حاصل کر رہے مسلم طلبہ کے اسلامی شعور کو بیدار اور زندہ رکھنے کے لئے حافظ و قاری،محدث،مفسراور مبلغ بنانے کی ناکام کوشش کے بجائے دینی تعلیم کا بھی نظم و نسق کیاجانا چاہئے تاکہ ان کی اس دنیا کے ساتھ آخرت کی سدھار کا سامان بھی ہو جائے،کیونکہ”کل نفس ذائقۃ الموت“ کے مصداق اسکول اور کالجز کے فارغ التحصیل بھی ہیں، مدارس اسلامیہ کا اپنا ایک خاص نصاب ہوتا ہے جو انتہائی پاکیزہ اور نورانی ماحول میں پڑھا یا جا تا ہے جس میں مستند عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لئے عربی وفارسی، صرف و نحو، قرآن و حدیث، تفسیر، فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب، منطق و فلسفہ جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصا ب پڑھنے کے بعد وہ عالم دین کے منصب پر فائز ہوتا ہے، مدارس اسلامیہ جہاں اسلام کے قلعے، ہدایت کے سر چشمے، دین کی پنا ہ گا ہ اور اشا عت دین کا بہت بڑ ا ذریعہ ہیں وہاں یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقی طور پرایسی ”این جی اوز“بھی ہیں،جو لاکھوں طلبہ و طالبا ت کو بلا معاوضہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش و خوراک اور مفت طبی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں،یقینااس کارہائے نمایاں کو انجام دینے کی ہمت اور صلاحیت اللہ سبحانہ وتعالی نے انھیں مدارس اسلامیہ سے فارغ التحصیل کو ہی دی ہے،یہ وہی بوریا نشین ہیں جن کی محنتوں اورکاوشوں پر خود کو جدید تہذیب و تمدن سے ہم آہنگ سمجھنے والے سرے سے انکار کرنے پر تلے ہیں،سچ تو یہ ہے کہ دونوں کے راستے الگ الگ ہیں، یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس نے ہر دور میں تمام ترمصائب و مشکلات، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے تحفظ اور اس کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے،بر خلاف اس کے کہ یونیورسٹی او رکالج سے دین کے بقاء کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔
مدارس کامسلم معاشرے پراحسان عظیم:
ہمیں خوب جان لینا چاہئے کہ مدارس اسلامیہ جہاں بھی ہیں اور جیسے بھی ہیں ان کوسنبھالنا اور چلانا امت مسلمہ کا سب سے بڑا فریضہ ہے، کیونکہ مدرسوں کی جتنی ضرورت آج ہے،مستقبل قریب میں جب ہندوستان کی دوسری شکل ہوگی اوراس سے بڑھ کر ہوگی اور یہ ہندوستان میں اسلام کی بنیاد اور مرکز ہوں گے تو لوگ آج کی طرح کل بھی عہدوں اور ملازمتوں کی لالچ میں اربابِ اقتدار کی چاپلوسی میں لگے ہوں گے تویہی مدارس اسلامیہ کے فارغ التحصیل آج کی طرح کل بھی ہوشیار رہیں گے، اگر ان مدارس کا کوئی دوسراہ فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں، اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہماراکمزورطبقہ کچھ اور اونچا ہوتا ہے اور اس کی اگلی نسل کچھ اور اونچی ہوتی ہے اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے،مدارس اسلامیہ کا امت مسلمہ پر کیا احسان کم ہے؟،دور بین نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دے گی،حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ یوں فرماتے ہیں:”یہی مدارس تھے جنہوں نے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو خواہ ان کی تعداد جتنی بھی کم ہے، اعتقادی واخلاقی گندگیوں سے پاک رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے“۔ (الفرقان، افاداتِ گیلانی:نمبر ۱۸۸ بحوالہ فتاوی رحیمیہ ۱/۴۹)
حکیم الامت حضرت مولانا تھانویؒ ان مدارس کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: ”اس وقت مدارسِ علوم دینیہ کا وجود مسلمانوں کے لیے ایسی بڑی نعمت ہے کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں، دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں“۔(حقوق العلم: ۵۱)
دینی مدارس پر اعتراض اور غلط فہمی کا ازالہ:
مدارس اسلامیہ کی اہمیت و افادیت سے کسی صحیح فہم اور ذی شعور کو انکار نہیں کہ ان مدارس نے علم کے فروغ خاص طور پر نچلے طبقے میں علم کی روشنی کوپھیلانے میں جو کردارادا کیا ہے اسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا،یہ نظام جہاں اپنی بے شمار افادیت حامل ہے، وہاں اس میں چند خامیاں بھی ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ایک حقیقت ہے اور ہمیں تسلیم بھی کرنا چاہئے، وطن عزیز میں لاکھوں کی تعداد میں اسکول، ہزاروں کی تعداد میں کالج اورسینکڑوں کی تعداد میں یونیورسٹیاں ہیں،سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس میں پڑھنے والے بچوں کی 98% تعداد ان ہی اداروں کا رخ کرتی ہے اور وہ جو بننا چاہتے ہیں بن جاتے ہیں، پھر چند ہزار دینی مدارس پر نظر کیوں لگی ہوئی ہے،ان کے لیے اتنی پریشانی اور غم کیوں ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا سقراط، بقراط اور افلاطون ہونا ضروری نہیں، کسی بھی تعلیمی نظام میں نصاب کی حیثیت روح کی ہوتی ہے، جب دینی مدارس میں نصاب کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ نصاب میں تبدیلی کی آڑ لے کر مدارس کے تعلیمی نظام سے اس کی روح کو نکال دیا جائے یعنی اسلام کی اس شمع کو بجھا دیا جائے۔
دینی مدارس کے تعلیمی نظام پر یہ اعتراض کہ اس میں آزادی فکر پر پابندی ہوتی ہے اس میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر قوم آزادی رائے میں کسی چیز پر رائے اس وقت تک لیتی ہے جب تک کہ وہ اپنی لا علمی کی وجہ سے غلط اور صحیح رائے میں تمیز کرنے سے قاصر ہوتی ہے، اسلام میں کیوں کہ اس بات کافیصلہ ہوچکا ہے کہ کیا چیز صحیح اور کیا چیز غلط ہے، لہٰذا اسلامی احکامات، تعلیمات اور عقائد پر آزادی رائے کا حق حاصل نہیں ہے،دینی مدارس کے فارغ التحصیل پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ ذہنی لحاظ سے جمود کا شکار ہوتے ہیں اور معاشرے کے لیے سود مند شہری نہیں ہوتے یہ الزام قطعی غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبا میں اجتماعی زندگی کا شعور اورصبردنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے،پھریہ کہنا کہ یہ فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں، جس سے معاشرے میں تصادم کی فضا پیدا ہوجاتی ہے اور ملک کی معاشی ترقی رک جاتی ہے معاشرہ تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے، دینی مدارس ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان کیوں پیدا نہیں کر رہے ہیں یہ قطعی غیر منطقی سوال ہے، یہ سوال صرف ان طبقات سے کیا جانا چاہیے جنھوں نے ان شعبوں میں ماہرین فراہم کرنے کی ذمے داری قبول کررکھی ہے جو ان کاموں پر قومی دولت کا بڑا حصہ صرف کر رہے ہیں، جہاں تک فرقہ پرستی کے فروغ کا تعلق ہے بعض اندرونی اور بیرونی عناصر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے چند مفاد پرست عناصر کی سرپرستی کرکے اس کو فروغ دیتے ہیں فرقہ پرستی کو فروغ دینے کے عمل کا دینی مدارس سے کوئی تعلق نہیں ہے، دینی مدارس کا ہدف اور مقصد ہمیشہ مسلم معاشرہ میں دینی تعلیم، عبادات، اسلامی اقدار و روایات، دعوت تبلیغ، مساجد اور مدارس کے قیام کا سلسلہ قائم رکھنا رہا ہے،یہ سچ ہے کہ عام تعلیمی اداروں نے بہت سے نامور اسکالر معاشرے کو فراہم کیے ہیں مگر یہ ادارے معاشرے کو ایسے عالم دین فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جن پر معاشرے کے افراد اعتبار کرسکیں۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے:
جب سے مدارس کی سروے کا شاہی فرمان جاری ہوا ہے غیر تو غیر بلکہ انہیں مدارس اسلامیہ کے فارغ التحصیل مدارس پر کیچڑ اچھال کر اپنی روٹیاں سینکنے میں لگے ہوئے ہیں اور بیہودہ الفاظ زبان سے نکالتے ہوئے نہیں تھکتے، ان کے الفاظ کچھ اس طرح کے ہیں،مثلاً مہتمم چور ہوتے ہیں،مولوی چندہ خور ہوتے ہیں،طلباء مدارس کو کچھ پتہ نہیں ہوتا،مدارس نے قوم کو جاہل بنا رکھا ہے، اسے بند کردیا جانا چاہیے،ایسی سخت زبان استعمال کرنے والوں سے گزارش ہے کہ آپ عذاب الٰہی سے ڈرئیے،ان مدارس اسلامیہ کے ساتھ یونیورسٹی اورکالجوں کے نظام کا بھی معائنہ کیجئے،کونسی ایسی یونیورسٹی یا کالج ہے جس میں مدارس سے زیادہ خرابیاں نہیں پائی جاتی؟ اور کتنے فی صد مسلم والدین ہیں جو مہنگی فیس دے کر اپنے بچوں کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھا سکتے ہیں؟آج جن مدرسوں کو آپ بند کرنے کی بات کررہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ قوم کو جاہل بنا رہے ہیں بخدا یہ مدارس بند ہوجائیں تو واقعی اس قوم کی اکثریت جاہل رہے گی،اپنے آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر الٹا سیدھا لکھنا اور بولنا بہت آسان ہے، گاؤں اور دیہاتوں میں نکل کردیکھیں کہ آج بھی مسلمانوں کی اکثریت کس تنگدستی کے عالم میں اپنی زندگی بسر کررہی ہے، کون نہیں چاہتا کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر، افسر اور انجینئر بنے؟ لیکن ہر کسی کی مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی،یہ مدارس ہی ہیں جو بچوں کو تعلیم کے ساتھ ان کی پرورش بھی کر رہے ہیں، یہ مدارس نورانی قاعدہ ہی سہی مگر پڑھاتا تور ہے ہیں،کیا ہے کوئی ایسا اسکول یا کالج جو ایک کلاس سے بی اے، ایم اے تک مفت میں کھلائے بھی اور پڑھائے بھی؟ قوم کی تعلیم، اصلاح اور ترقی میں مدارس کا اہم کردار ہے جسے کسی بھی قیمت پر فراموش نہیں کیا جاسکتا، دیگر عصری اداروں کی طرح یقینامدارس اور ان کے ذمہ داران میں بھی خامیاں اور کمیاں پائی جاتی ہیں اور اسے دور کرنے کی جانب ضرور توجہ دینی چاہئے اور بھرپور دینی چاہیے؛لیکن فی الوقت مدارس کے تحفظ کا مسئلہ در پیش ہے، اس لئے دانشمندی، حکمت اور وفاداری کا تقاضا یہ ہے اندرونی خرابیوں کو اجاگر نہ کرکے متحد ہوکر مدارس کے حق میں بولیں اور لکھیں، کیونکہ مدارس ہوں گے تو اس میں اصلاح ہوگی،جب مدارس ہی نہیں ہوں گے تو ہم کس کی اصلاح کریں گے،یاد رکھئے! مصیبت کے وقت جب اپنے اپنوں کو ہی لعن طعن کریں تو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا لیکن دشمن ضرور خوش ہوتے ہیں،ابھی اپنے گھر میں آگ لگی ہے پہلے اسے مل کر بجھائیے،آگ کیوں لگی اس پر غور کرنے کا موقع آگ کے بجھنے کے بعد دیکھیں گے۔
اہم اور آخری بات:
صورت ِ حال یقینا اس وقت بہت عجیب ہے،مدارس اسلامیہ کو تصور کرنا،اس کے مقام و مرتبہ کو کم تر جاننااور ناقدری کا سلوک،علماء کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھنا ایک عام مزاج ہوتا جا رہا ہے اور دوسری طرف جو مدارس کی عظیم ذمہ داریاں ہیں ان کو ادا کرنے میں لاپرواہی برتی جا رہی ہے،حالات و زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اس اعتبار سے کوشش نہیں کی جاری ہے جیسا کہ آج کے حالات اور ماحول کے حوالے سے ضرورت ہے اور جو لوگ مدارس کی افادیت واہمیت کا انکار کرتے ہیں ان کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ مدارس کا وجود مسلمانوں کے لئے نعمت ہے، اس سے ہماری تہذیب و ثقافت اور ایمان تحفظ وابستہ ہے،حالات کے پیش نظراگر ارباب مدارس ۸۱/ستمبر۲۲۰۲ء بروز اتواررابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے اجلاس میں جانشین شیخ الاسلام امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند نے جن چند ہدایات سے امت کی رہنمائی فرمائی ہے، حالات کے پیش نظر ان امور اور ہدایت پرعمل کرنا ہم سبھوں کے لئے بہت ضروری ہے:
(۱) حقوقِ اطفال کا خیال رکھتے ہوئے طلبہ کو مارنے پیٹنے کے طریقوں کو آج سے ہی طلاق دیدیجئے ورنہ آپ مدارس کو محفوظ نہیں رکھ پائیں گے۔
(۲) مدارس میں صحت بخش ماحول کا خیال رکھا جائے، غسل خانوں اور استنجاء خانوں کو صفائی ستھرائی کا خصوصی خیال رکھا جائے اگر ضرورت ہو تو اس کے لیے ایک مستقل آدمی رکھ لیا جائے۔
(۳) تمام مدارس میں ہائی اسکول تک عصری تعلیم کا لازمی انتظام کیا جائے، دارالعلوم میں بھی آئندہ سال سے اس کا آغاز ہوجائے گا،انشا اللہ۔
(۴) مدارس اسلامیہ میں مالی حساب و کتاب میں بطور خاص شفافیت خیال رکھا جائے اپنے طور سے سالانہ آڈٹ کرائیں، آئندہ سالوں میں رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے نمائندے بھی مختلف مواقع پر مربوط مدارس میں حساب و کتاب کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
(۵) زمین جائیداد کے کاغذات مستحکم رکھیں اس سلسلے میں بالکل بھی کوتاہی سے کام نہ لیں۔
(۶) حالیہ سروے سے ہرگز ہرگز تشویش میں مبتلاء نہ ہوں، بلکہ سروے ٹیم کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں اور مطلوبہ معلومات فراہم کرائیں۔
(۷) ملک کو جیسے عصری تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح ملت کو اچھے عالم و مفتی، اچھے حافظ و قاری، اچھے امام و مؤذن اور اچھے دینی خدام کی بھی ضرورت ہے جو مدارس سے ہے پوری ہوگی، اس لیے مدرسے اپنے نظام کے ساتھ چلتے رہیں گے، انشااللہ۔
(۸) حدودِ شرع میں رہتے ہوئے جائز معاملات میں حکومت کا ہر ممکن تعاون کریں، مقابلہ آرائی کی فضاء قائم نہ ہونے دیں۔
(۹) مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران اور متعلقین ہمت و حوصلہ اور باہمی تعاون کو فروغ دیں۔
(۰۱)مدارس اسلامیہ سے وابستہ تمام لوگ رجوع الی اللہ کا خاص اہتمام کریں،
اللہ پاک ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین
یہ حقیقت ہے کہ مدارس اسلامیہ دین کی مضبوط قلعے ہیں اور ان کی حفاظت و استقامت میں ہی دین اسلام کا استحکام مضمرہے،کیونکہ ان مدارس نے بر صغیرمیں بالخصوص دین اسلام کی حفاظت میں بڑا قابل ِ قدر کردار اداکیا اور تعلیمات ِ اسلامی کی اشاعت میں ناقابل ِ فراموش خدمات انجام دی ہیں اور یہ بلا شبہ ایک تاریخی حقیقت بھی ہے،یہی وہ دینی قلعے ہیں جنہوں نے نہایت یکسوئی اور خاموشی کے ساتھ سرد و گرم حالات، معاشرہ کی دینی ضرورتوں کی تکمیل اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں دنیا کے ہنگاموں سے بے خبر،مگر ٹھوس انداز میں شیریں و تلخ مرحلوں سے گزرتے اور باد مخالف کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے افراد سازی اورتحفظ دین کی اشاعت میں شب و روز لگے ہوئے ہیں،اس حقیقت کا اعتراف ہراس فرد نے کیا ہے جس کو اللہ نے عقل سلیم اور فہم وبصیرت کی دولت سے نوازاہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ چند مختلف تحریکوں اور تنظیموں کے نمائندے جو دبی زبان میں مدارس اسلامیہ کی نافعیت اور افادیت کا انکار کرتے تھے، اب کھلے طور پر ٹیلی ویزن، سوشل میڈیااورپرنٹ میڈیا وغیرہ کا سہارا لے کردینی مدارس کی نافعیت کو اپنی کم فہمی میں محدود ٹھہرانے پر بضد ہیں،بعض تہذیب جدید، مادہ پرست اور دین اسلام سے بیزار مدارس اسلامیہ کے نظام، تعلیم اور طریقہ تعلیم کے سلسلہ میں بیمار اور مذموم ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ یہ مدارس معاشرے پر خیراتی بوجھ کے سوا اور کچھ نہیں،مدارس اسلامیہ کے تمام تر نظام ہائے شب و روز کی تگ ودو،نقل و حرکت،نصاب و نظام، تضیع اوقات، غیر نفع بخش،نامعقول اور فرسودہ ہیں، ایسا محسوس کرانے کی کو شش کی جارہی ہے کہ دنیا میں تمام برائیوں اور حالات کے ذمہ دار گویا یہی مدارس اسلامیہ ہیں، بعض یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مدارس میں دس بارہ سالہ تعلیمی و تربیتی نظام کی وابستگی سے بہتر ہے کہ محض تبلیغی جماعت میں چار چھ مہینہ کے لگانا افضل ہے،جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آزادی ئہند کے بعد کسی بھی اصلاحی یا رفاہی تنظیم و تحریک کا آپ گہرائی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس کا سرا کہیں نہ کہیں،کسی نہ کسی طریقہ سے مدارس اسلامیہ سے ہی مربوط نظر آئے گا،اس کی باگ ڈورمدارس کے فارغین کے ہاتھوں میں ہوگی اورقرآن و حدیث پر گہری بصیرت اور علوم اسلامیہ پر مکمل دسترس،وسیع نظر اور دور بین نگاہ آپ چاہتے ہیں تو یہی مدارس اور یہی نصاب تعلیم کے زیر اثر حاصل ہوگی۔
مدارس اسلامیہ کو اپنی حالت پررہنے دو ورنہ:
دینی مدارس میں موجوودہ نصاب تعلیم کے ڈھانچے کی یکسر تبدیلی اور موڈرن تعلیمی نصاب کو رائج کرنے کا مطالبہ جو کہ مدارس اسلامیہ کے فارغین کی معاشی کفالت کا ضامن ہونا تو عقل و دانش کے موافق ہے اور نہ ہی مدارس اسلامیہ کے قیام کے مقاصد کے ہم آہنگ ہے، جزوی ترمیم ارباب مدارس وقتاََ فوقتاََ کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں،یہ مسلمانوں کی آٹھ سوسالہ علمی وتعلیمی تاریخ کا نچوڑ ہے، مختلف اثرات واحوال کے ماتحت اس میں ترمیم وتنسیخ کا عمل جاری رہا ہے، موجودہ زمانے کے لحاظ سے عصری تعلیم کا انتظام اہل مدارس کو کرنا چاہئے مگر ایسا نہ ہو کہ مدارس اسلامیہ کے تعلیمی نصاب پر عصری علوم کو فوقیت دے دی جائے، ناقص رائے یہ کہ روزانہ عصری علوم کی تعلیم کے لئے کچھ وقت ضرور نکالا جائے تاکہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ اس شعبہ سے منسلک ہو کر موڈرن خیالات سے ہم آہنگ حضرات کی بھی برابری کر سکیں،دینی تعلیمی نصاب کے ساتھ زور آزمائی ہمیں مدارس اسلامیہ کے قیام کے اہداف و مقاصد سے بہت دور کردے گی اور پھر نتیجہ بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود ہوا آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا ء کے نشانات کے سوا اسلام اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ حکومت اوران کی تہذیب کا کوئی نشا ن نہیں ملے گا“۔(دینی مدارس:ماضی، حال، مستقبل:۹۶)
اسلام کی بقاء دینی مدارس کی وجہ سے ہے:
مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ فرماتے ہیں:”اگر کسی ملک میں دین تسلسل کے ساتھ او ر پائیدار طریقہ پر باقی رہ سکتا ہے تو وہ دینی تعلیم سے ہی باقی رہ سکتا ہے، ورنہ دیکھنے والوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے، پڑھنے والوں نے اس کا مطالعہ کیا ہے کہ جن علاقوں میں دینی تعلیم کا سلسلہ بند ہوگیا،وہاں بالکل اسلام ختم ہوگیا“ چنانچہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جب ایک دفعہ کسی نے نصاب میں تبدیلی کے متعلق دریافت کیا توانھوں نے یوں فرمایا:”جہاں تک نصاب کا تعلق ہے تو وہ بالکل قابل اطمینان ہے، یہ وہی نصاب ہے جس سے بڑے بڑے اکابر علماء تیار ہوئے ہیں؛۱لبتہ جزوی ترمیم تو پہلے بھی ہوتی رہی ہے اورآئندہ بھی ہوگی؛ البتہ اصل وہی ہیں جو نہیں بدل سکتے، جیسے صحاح ستہ اور قرآن کریم کی تعلیم، باقی جتنے علومِ آلیہ ہیں، مبادی ہیں، ان میں جزوی طور پر تغیر وتبدیل ہوتا رہا ہے، نوعی طور پر نصاب وہی باقی رہا؛ اس لیے جہاں تک نصاب کا تعلق ہے وہ تو بالکل قابل ِاطمینان ہے“۔(دینی مدارس، ابن الحسن عباسی:۰۱۱)
دونوں کے راستے الگ الگ ہیں:
آپ کا یہ مطالبہ کہ مدارس اسلامیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹر،انجینئر،بیرسٹربھی ہونے چاہئیں یا مدارس اسلامیہ سے ڈاکٹر، انجینئر، بیرسٹرکیوں پیدا نہیں ہو رہے تو یہ واضح رہے کہ یہ مدارس اسلامیہ کے قیام کے اہداف ومقاصدکے خلاف ہے، بہتر ہوگا کہ اس کے لئے ہم ایسے ادارے قائم کریں جس کا مقصود ہی عصری علوم ہی ہو،ورنہ اسکول اور کالجوں میں بھی تھوڑا وقت علیحدہ کے وہاں تعلیم حاصل کر رہے مسلم طلبہ کے اسلامی شعور کو بیدار اور زندہ رکھنے کے لئے حافظ و قاری،محدث،مفسراور مبلغ بنانے کی ناکام کوشش کے بجائے دینی تعلیم کا بھی نظم و نسق کیاجانا چاہئے تاکہ ان کی اس دنیا کے ساتھ آخرت کی سدھار کا سامان بھی ہو جائے،کیونکہ”کل نفس ذائقۃ الموت“ کے مصداق اسکول اور کالجز کے فارغ التحصیل بھی ہیں، مدارس اسلامیہ کا اپنا ایک خاص نصاب ہوتا ہے جو انتہائی پاکیزہ اور نورانی ماحول میں پڑھا یا جا تا ہے جس میں مستند عالم دین کا مقام حاصل کرنے کے لئے عربی وفارسی، صرف و نحو، قرآن و حدیث، تفسیر، فقہ و اصول فقہ، معانی و ادب، منطق و فلسفہ جیسے ضروری علوم کا ایک مکمل نصا ب پڑھنے کے بعد وہ عالم دین کے منصب پر فائز ہوتا ہے، مدارس اسلامیہ جہاں اسلام کے قلعے، ہدایت کے سر چشمے، دین کی پنا ہ گا ہ اور اشا عت دین کا بہت بڑ ا ذریعہ ہیں وہاں یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقی طور پرایسی ”این جی اوز“بھی ہیں،جو لاکھوں طلبہ و طالبا ت کو بلا معاوضہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو رہائش و خوراک اور مفت طبی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں،یقینااس کارہائے نمایاں کو انجام دینے کی ہمت اور صلاحیت اللہ سبحانہ وتعالی نے انھیں مدارس اسلامیہ سے فارغ التحصیل کو ہی دی ہے،یہ وہی بوریا نشین ہیں جن کی محنتوں اورکاوشوں پر خود کو جدید تہذیب و تمدن سے ہم آہنگ سمجھنے والے سرے سے انکار کرنے پر تلے ہیں،سچ تو یہ ہے کہ دونوں کے راستے الگ الگ ہیں، یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس نے ہر دور میں تمام ترمصائب و مشکلات، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے تحفظ اور اس کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے،بر خلاف اس کے کہ یونیورسٹی او رکالج سے دین کے بقاء کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔
مدارس کامسلم معاشرے پراحسان عظیم:
ہمیں خوب جان لینا چاہئے کہ مدارس اسلامیہ جہاں بھی ہیں اور جیسے بھی ہیں ان کوسنبھالنا اور چلانا امت مسلمہ کا سب سے بڑا فریضہ ہے، کیونکہ مدرسوں کی جتنی ضرورت آج ہے،مستقبل قریب میں جب ہندوستان کی دوسری شکل ہوگی اوراس سے بڑھ کر ہوگی اور یہ ہندوستان میں اسلام کی بنیاد اور مرکز ہوں گے تو لوگ آج کی طرح کل بھی عہدوں اور ملازمتوں کی لالچ میں اربابِ اقتدار کی چاپلوسی میں لگے ہوں گے تویہی مدارس اسلامیہ کے فارغ التحصیل آج کی طرح کل بھی ہوشیار رہیں گے، اگر ان مدارس کا کوئی دوسراہ فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں، اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہماراکمزورطبقہ کچھ اور اونچا ہوتا ہے اور اس کی اگلی نسل کچھ اور اونچی ہوتی ہے اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے،مدارس اسلامیہ کا امت مسلمہ پر کیا احسان کم ہے؟،دور بین نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دے گی،حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ یوں فرماتے ہیں:”یہی مدارس تھے جنہوں نے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو خواہ ان کی تعداد جتنی بھی کم ہے، اعتقادی واخلاقی گندگیوں سے پاک رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے“۔ (الفرقان، افاداتِ گیلانی:نمبر ۱۸۸ بحوالہ فتاوی رحیمیہ ۱/۴۹)
حکیم الامت حضرت مولانا تھانویؒ ان مدارس کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: ”اس وقت مدارسِ علوم دینیہ کا وجود مسلمانوں کے لیے ایسی بڑی نعمت ہے کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں، دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں“۔(حقوق العلم: ۵۱)
دینی مدارس پر اعتراض اور غلط فہمی کا ازالہ:
مدارس اسلامیہ کی اہمیت و افادیت سے کسی صحیح فہم اور ذی شعور کو انکار نہیں کہ ان مدارس نے علم کے فروغ خاص طور پر نچلے طبقے میں علم کی روشنی کوپھیلانے میں جو کردارادا کیا ہے اسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا،یہ نظام جہاں اپنی بے شمار افادیت حامل ہے، وہاں اس میں چند خامیاں بھی ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ایک حقیقت ہے اور ہمیں تسلیم بھی کرنا چاہئے، وطن عزیز میں لاکھوں کی تعداد میں اسکول، ہزاروں کی تعداد میں کالج اورسینکڑوں کی تعداد میں یونیورسٹیاں ہیں،سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس میں پڑھنے والے بچوں کی 98% تعداد ان ہی اداروں کا رخ کرتی ہے اور وہ جو بننا چاہتے ہیں بن جاتے ہیں، پھر چند ہزار دینی مدارس پر نظر کیوں لگی ہوئی ہے،ان کے لیے اتنی پریشانی اور غم کیوں ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا سقراط، بقراط اور افلاطون ہونا ضروری نہیں، کسی بھی تعلیمی نظام میں نصاب کی حیثیت روح کی ہوتی ہے، جب دینی مدارس میں نصاب کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ نصاب میں تبدیلی کی آڑ لے کر مدارس کے تعلیمی نظام سے اس کی روح کو نکال دیا جائے یعنی اسلام کی اس شمع کو بجھا دیا جائے۔
دینی مدارس کے تعلیمی نظام پر یہ اعتراض کہ اس میں آزادی فکر پر پابندی ہوتی ہے اس میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر قوم آزادی رائے میں کسی چیز پر رائے اس وقت تک لیتی ہے جب تک کہ وہ اپنی لا علمی کی وجہ سے غلط اور صحیح رائے میں تمیز کرنے سے قاصر ہوتی ہے، اسلام میں کیوں کہ اس بات کافیصلہ ہوچکا ہے کہ کیا چیز صحیح اور کیا چیز غلط ہے، لہٰذا اسلامی احکامات، تعلیمات اور عقائد پر آزادی رائے کا حق حاصل نہیں ہے،دینی مدارس کے فارغ التحصیل پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ ذہنی لحاظ سے جمود کا شکار ہوتے ہیں اور معاشرے کے لیے سود مند شہری نہیں ہوتے یہ الزام قطعی غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبا میں اجتماعی زندگی کا شعور اورصبردنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے،پھریہ کہنا کہ یہ فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں، جس سے معاشرے میں تصادم کی فضا پیدا ہوجاتی ہے اور ملک کی معاشی ترقی رک جاتی ہے معاشرہ تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے، دینی مدارس ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان کیوں پیدا نہیں کر رہے ہیں یہ قطعی غیر منطقی سوال ہے، یہ سوال صرف ان طبقات سے کیا جانا چاہیے جنھوں نے ان شعبوں میں ماہرین فراہم کرنے کی ذمے داری قبول کررکھی ہے جو ان کاموں پر قومی دولت کا بڑا حصہ صرف کر رہے ہیں، جہاں تک فرقہ پرستی کے فروغ کا تعلق ہے بعض اندرونی اور بیرونی عناصر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے چند مفاد پرست عناصر کی سرپرستی کرکے اس کو فروغ دیتے ہیں فرقہ پرستی کو فروغ دینے کے عمل کا دینی مدارس سے کوئی تعلق نہیں ہے، دینی مدارس کا ہدف اور مقصد ہمیشہ مسلم معاشرہ میں دینی تعلیم، عبادات، اسلامی اقدار و روایات، دعوت تبلیغ، مساجد اور مدارس کے قیام کا سلسلہ قائم رکھنا رہا ہے،یہ سچ ہے کہ عام تعلیمی اداروں نے بہت سے نامور اسکالر معاشرے کو فراہم کیے ہیں مگر یہ ادارے معاشرے کو ایسے عالم دین فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جن پر معاشرے کے افراد اعتبار کرسکیں۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے:
جب سے مدارس کی سروے کا شاہی فرمان جاری ہوا ہے غیر تو غیر بلکہ انہیں مدارس اسلامیہ کے فارغ التحصیل مدارس پر کیچڑ اچھال کر اپنی روٹیاں سینکنے میں لگے ہوئے ہیں اور بیہودہ الفاظ زبان سے نکالتے ہوئے نہیں تھکتے، ان کے الفاظ کچھ اس طرح کے ہیں،مثلاً مہتمم چور ہوتے ہیں،مولوی چندہ خور ہوتے ہیں،طلباء مدارس کو کچھ پتہ نہیں ہوتا،مدارس نے قوم کو جاہل بنا رکھا ہے، اسے بند کردیا جانا چاہیے،ایسی سخت زبان استعمال کرنے والوں سے گزارش ہے کہ آپ عذاب الٰہی سے ڈرئیے،ان مدارس اسلامیہ کے ساتھ یونیورسٹی اورکالجوں کے نظام کا بھی معائنہ کیجئے،کونسی ایسی یونیورسٹی یا کالج ہے جس میں مدارس سے زیادہ خرابیاں نہیں پائی جاتی؟ اور کتنے فی صد مسلم والدین ہیں جو مہنگی فیس دے کر اپنے بچوں کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھا سکتے ہیں؟آج جن مدرسوں کو آپ بند کرنے کی بات کررہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ قوم کو جاہل بنا رہے ہیں بخدا یہ مدارس بند ہوجائیں تو واقعی اس قوم کی اکثریت جاہل رہے گی،اپنے آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر الٹا سیدھا لکھنا اور بولنا بہت آسان ہے، گاؤں اور دیہاتوں میں نکل کردیکھیں کہ آج بھی مسلمانوں کی اکثریت کس تنگدستی کے عالم میں اپنی زندگی بسر کررہی ہے، کون نہیں چاہتا کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر، افسر اور انجینئر بنے؟ لیکن ہر کسی کی مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی،یہ مدارس ہی ہیں جو بچوں کو تعلیم کے ساتھ ان کی پرورش بھی کر رہے ہیں، یہ مدارس نورانی قاعدہ ہی سہی مگر پڑھاتا تور ہے ہیں،کیا ہے کوئی ایسا اسکول یا کالج جو ایک کلاس سے بی اے، ایم اے تک مفت میں کھلائے بھی اور پڑھائے بھی؟ قوم کی تعلیم، اصلاح اور ترقی میں مدارس کا اہم کردار ہے جسے کسی بھی قیمت پر فراموش نہیں کیا جاسکتا، دیگر عصری اداروں کی طرح یقینامدارس اور ان کے ذمہ داران میں بھی خامیاں اور کمیاں پائی جاتی ہیں اور اسے دور کرنے کی جانب ضرور توجہ دینی چاہئے اور بھرپور دینی چاہیے؛لیکن فی الوقت مدارس کے تحفظ کا مسئلہ در پیش ہے، اس لئے دانشمندی، حکمت اور وفاداری کا تقاضا یہ ہے اندرونی خرابیوں کو اجاگر نہ کرکے متحد ہوکر مدارس کے حق میں بولیں اور لکھیں، کیونکہ مدارس ہوں گے تو اس میں اصلاح ہوگی،جب مدارس ہی نہیں ہوں گے تو ہم کس کی اصلاح کریں گے،یاد رکھئے! مصیبت کے وقت جب اپنے اپنوں کو ہی لعن طعن کریں تو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا لیکن دشمن ضرور خوش ہوتے ہیں،ابھی اپنے گھر میں آگ لگی ہے پہلے اسے مل کر بجھائیے،آگ کیوں لگی اس پر غور کرنے کا موقع آگ کے بجھنے کے بعد دیکھیں گے۔
اہم اور آخری بات:
صورت ِ حال یقینا اس وقت بہت عجیب ہے،مدارس اسلامیہ کو تصور کرنا،اس کے مقام و مرتبہ کو کم تر جاننااور ناقدری کا سلوک،علماء کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھنا ایک عام مزاج ہوتا جا رہا ہے اور دوسری طرف جو مدارس کی عظیم ذمہ داریاں ہیں ان کو ادا کرنے میں لاپرواہی برتی جا رہی ہے،حالات و زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اس اعتبار سے کوشش نہیں کی جاری ہے جیسا کہ آج کے حالات اور ماحول کے حوالے سے ضرورت ہے اور جو لوگ مدارس کی افادیت واہمیت کا انکار کرتے ہیں ان کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ مدارس کا وجود مسلمانوں کے لئے نعمت ہے، اس سے ہماری تہذیب و ثقافت اور ایمان تحفظ وابستہ ہے،حالات کے پیش نظراگر ارباب مدارس ۸۱/ستمبر۲۲۰۲ء بروز اتواررابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے اجلاس میں جانشین شیخ الاسلام امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند نے جن چند ہدایات سے امت کی رہنمائی فرمائی ہے، حالات کے پیش نظر ان امور اور ہدایت پرعمل کرنا ہم سبھوں کے لئے بہت ضروری ہے:
(۱) حقوقِ اطفال کا خیال رکھتے ہوئے طلبہ کو مارنے پیٹنے کے طریقوں کو آج سے ہی طلاق دیدیجئے ورنہ آپ مدارس کو محفوظ نہیں رکھ پائیں گے۔
(۲) مدارس میں صحت بخش ماحول کا خیال رکھا جائے، غسل خانوں اور استنجاء خانوں کو صفائی ستھرائی کا خصوصی خیال رکھا جائے اگر ضرورت ہو تو اس کے لیے ایک مستقل آدمی رکھ لیا جائے۔
(۳) تمام مدارس میں ہائی اسکول تک عصری تعلیم کا لازمی انتظام کیا جائے، دارالعلوم میں بھی آئندہ سال سے اس کا آغاز ہوجائے گا،انشا اللہ۔
(۴) مدارس اسلامیہ میں مالی حساب و کتاب میں بطور خاص شفافیت خیال رکھا جائے اپنے طور سے سالانہ آڈٹ کرائیں، آئندہ سالوں میں رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے نمائندے بھی مختلف مواقع پر مربوط مدارس میں حساب و کتاب کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
(۵) زمین جائیداد کے کاغذات مستحکم رکھیں اس سلسلے میں بالکل بھی کوتاہی سے کام نہ لیں۔
(۶) حالیہ سروے سے ہرگز ہرگز تشویش میں مبتلاء نہ ہوں، بلکہ سروے ٹیم کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں اور مطلوبہ معلومات فراہم کرائیں۔
(۷) ملک کو جیسے عصری تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح ملت کو اچھے عالم و مفتی، اچھے حافظ و قاری، اچھے امام و مؤذن اور اچھے دینی خدام کی بھی ضرورت ہے جو مدارس سے ہے پوری ہوگی، اس لیے مدرسے اپنے نظام کے ساتھ چلتے رہیں گے، انشااللہ۔
(۸) حدودِ شرع میں رہتے ہوئے جائز معاملات میں حکومت کا ہر ممکن تعاون کریں، مقابلہ آرائی کی فضاء قائم نہ ہونے دیں۔
(۹) مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران اور متعلقین ہمت و حوصلہ اور باہمی تعاون کو فروغ دیں۔
(۰۱)مدارس اسلامیہ سے وابستہ تمام لوگ رجوع الی اللہ کا خاص اہتمام کریں،
اللہ پاک ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین