ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۴
اے مسلمانو! کیا تم سنتے ہو؟
جناب حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران
یہ آواز کہتی ہے۔ اے مسلمانو! اے ہمارے غلامو! سنو!
تمہارے اقبال کے دن گذر گئے،تمہارے علم کے کنوئے سوکھ گئے اور تمہارے اقتدار کا سورج ڈوب گیا اب تمہیں حکمرانی اور سلطانی سے کیا واسطہ؟
تمہارے بازو اب شَل ہوگئے اور تمہاری تلواریں زنگ آلود، اب ہم تمہارے آقا ہیں اور تم سب ہمارے غلام ہو۔ دیکھو! ہم نے سر سے پاؤں تک کیسا تمہیں اپنی غلامی کے سانچے میں ڈھالا ہے، ہمارا لباس پہن کر اور ہماری زبان بول کر اور ہمارے طور طریقے اختیار کر کے تمہارے سر فخر سے بلند ہوجاتے ہیں، تمہارے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جب ہمارا قومی نشان اور مذہبی شعار ٹائی لگا کر اسکول جاتے ہیں تو اس لباس کو دیکھ کر کیسا تمہار ا دل خوش ہوتا ہے؟
ہم بیوقوف نہیں تھے، ہم تمہارے دل و دماغ کو اپنا غلام بنا چکے تھے، اب تم ہماری آنکھوں سے دیکھتے ہو، ہمارے کانوں سے سنتے ہو اور ہمارے دماغ سے سوچتے ہو، اب تمہارے وجود میں تمہارا اپنا کچھ نہیں۔ اب تم ہر شعبہ زندگی میں ہمارے محتاج ہو، تمہارے گھروں میں ہمارے طور طریقے ہیں، تمہارے دماغو ں میں ہمارے افکار ہیں، تمہارے اسکولوں اور کالجوں میں ہمارا مرتب کیا ہوا نصاب ہے، تمہارے بازاروں میں ہمارا سامان ہے اور تمہاری جیبوں میں ہماراسکہ ہے، تمہارے سکے کو ہم پہلے مٹی کر چکے ہیں، تم ہمارے حکم سے کیسے سرتابی کر سکتے ہو؟
تم اربوں اور کھربوں روپئے کے ہمارے قرض دار ہو، تمہاری معیشت ہمارے قبضے میں ہے، تمہاری منڈیاں ہمارے رحم و کرم پر ہیں اور تمہارے سارے تجارتی ادارے صبح اٹھتے ہی ہمارے سکے کو سلام کر تے ہیں۔
تمہیں اپنے جوانوں پر بڑا ناز تھا، تم کہتے تھے۔
”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی“
تو سنو! اس زر خیز زمین کو ہم نے ہیروئین بھرے سگریٹ، شہوت انگیز تصویروں، ہیجان خیز زنا کے مناظر سے لبریز فلمیں اورہوس ِزر کا آب شور شامل کرکے بنجر کر دیا ہے۔ تمہیں اپنی افواج پر بھی بڑا گھمنڈ تھا۔
اب جاؤ! اپنی فوج کے اسلحہ خانوں کو دیکھو،اگر ہم ہاتھ روک لیں تو تمہارا سارا نظام درہم بر ہم ہوجائے۔
اب تم بغیر ہم سے اجازت لئے کسی پر فو ج کشی نہیں کر سکتے۔
بوسینیا ور عراق کے حشر کو ہمیشہ یاد رکھنا۔
جاؤ! اب عافیت اسی میں ہے کہ جو طرز حیات اور طرز حکومت ہم نے تمہیں سکھایا ہے، اس سے سرمو انحراف نہ کرنا۔
خبر دار! ہماری غلامی سے نکلنے کی کوشش نہ کرنا اور ہمیں امید بھی یہی ہے کہ تم برسوں تک ایسا نہ کر سکوگے کیونکہ جتنے اس کوشش کے محرکات ہوسکتے تھے یعنی ایمان کی پختگی، جوش جہاد، بالغ نظر، غیرت دین وہ سب ہم نے تمہارے دانشوروں، مفکروں اور عالموں سے دنیا کی چند آسائشی چیزیں دیکر خرید لیے ہیں۔ ہم نے تمہاری عورتوں کو، ٹی۔ وی۔ کے ذریعے بے حیائی کی ترغیب دیکر، سنگھارو آرائش ِحسن کا بہترین سامان دیکر ان کی چادر اتروادی ہے ،تمہارے مردوں کو عریاں اور فحش فلمیں دکھا کر ان کی مردانگی کی جڑ کاٹ دی ہے۔
اب تمہارے یہاں کوئی خالد، کوئی طارق، کوئی صلاح الدین اور کوئی ٹیپو پیدا نہیں ہوسکتا۔
اور سنو! ہم احسان فراموش نہیں ہیں، تمہاری قوم کے کچھ احسان بھی ہم پر ہیں، خاص طور پر تمہارے علماء کے، انہوں نے اپنی مسجدوں اور مدرسوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی تکفیر کر کے آپس میں لڑ لڑ کر ہماری تہذیب و افکار کیلئے راستہ صاف کیا، تمہارے دانشوروں اور مفکروں نے ترقی یافتہ اور ماڈرن کہلانے کے شوق میں ملحد اور زندیق بن کر ہمارے فلسفے کی اشاعت کی، تمہاری تعلیم گاہوں نے ہمارا نصاب تمہارے نوجوانوں کے دل و دماغ میں ہم سے بہتر طریقے سے اتار کر اپنے مذہب سے بغاوت پر اکسایا، تمہارے صاحبان ِاقتدار!اپنے سارے وسائل تمہیں بے حیاء، بے غیرت اور بے دین، بنیاد پرست اور دہشت گرد بنانے کیلئے ہمارے ہی اشاروں پر استعمال کرتے آئے ہیں، ہم ان سب کے شکر گذار ہیں، تمہارے مذہب نے کیسی کیسی پابندیاں تم پر لگارکھی تھی۔
یہ حرام وہ حلال، یہ جائز وہ ناجائز، زندگی کی راہیں تم پر تنگ کر دی تھیں، ہم نے تمہیں زندگی کا ایک نیا راستہ دکھایا!اور تمہیں حرام حلال کی قید سے آزاد کر دیا۔ کیا تم اس پر ہمارا شکر ادا نہ کرو۔
اے مسلمانو! اے ہمارے غلامو! کیا تم سنتے ہو؟