ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۴
استاذ! فرش سے عرش تک پہونچانے والی ذات؛قسط ۔9۔(شاگردوں کی تربیت کی بنیاد مستحکم کیجئے! )
جناب حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران
استاذ کو چاہئے کہ شاگردوں کو عاداتِ بد سے جہاں تک ہوسکے اشارہ و کنایہ اور پیا ر کی راہ سے منع کرے تصریح اور توبیخ کے ساتھ نہ جھڑکے اس لئے کہ تصریح ہیبت کا حجاب دور کردیتی ہے اورخلاف کرنے پرجرأت کا باعث اور اصرار حریص ہونے کا موجب ہوتاہے۔
چنانچہ آنحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جو استاذوں کے استاذہیں ارشاد فرماتے ہیں اگر آدمیوں کو مینگنیاں جمع کرنے سے منع کردیا جائے تو ضرورجمع کریں گے اور خیال کریں گے کہ ہم کوجو اس سے منع کیا گیا ہے ضرور اس میں کوئی بات ہے الانسان حریص مما منع یہ انسانی فطرت ہے جیسا کہ حضرت آدم و حوا ؑ کا قصہ اس پر شاہد ہے۔تعلیم سے زیادہ تادیب کا خیال رکھے کہ خام بنیاد پر عمارت کبھی کھڑی نہیں ہوسکتی۔
حضرت عبد الرحمن بن قاسمؒ فرماتے ہیں کہ میں نے بیس سال تک حضرت امام مالک ؒ کی خدمت کی ان میں اٹھارہ سال آداب واخلاق کی تعلیم میں خرچ ہوئے اور صرف دوسال علم کی تحصیل میں۔
حکیم الا مت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مدارس میں تربیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم تو علوم درسیہ مروجّہ مدارس عربیہ کوبھی جب کہ وہ صرف الفاظ کے درجہ میں ہو اور عمل ساتھ نہ ہوعلم نہیں کہتے۔
حضرت یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ حقیقی مدرسہ وہ ہے،جس میں علم کے ساتھ عمل کی بھی تعلیم اور نگہداشت ہو ”کُلُّکُمْ رَاعِ وَکُلُّکُمْ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ“کے قاعدے پر آپ سے اس کے متعلق سوال ہوگا،کیونکہ آپ طلبہ کے نگہبان ہیں وہ آپ کی رعایا ہیں یہ جائز نہیں کہ آپ سبق پڑھا کر الگ ہوجائیں،بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ ان میں سے کونسا عمل کرتاہے اور کو ن عمل نہیں کرتا۔(العلم والعلماء صفحہ ۷۰۱)
بہت سی کتابیں پڑھ لینے،پڑھالینے کا نام دین نہیں ہے۔ دین میں اصلاحِ عادات بھی داخل ہے اسی کو تہذیب بھی کہتے ہیں۔افعال،حرکات وسکنات،معاملات،بول چال سب کا نگراں رہناچاہئے اعمال کی اصلاح اوراخلاق کی درستگی فرض ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ لکھ پڑھ کر سب درست ہوجائیں گے(اس لئے زمانہ طالب علمی میں اصلاح ودرستی کی فکرکی ضرورت نہیں)اے نادانوں!اس وقت تو اور بگڑجائیں گے(چونکہ مخلّٰی بالطبع اور آزاد ہوں گے)اس وقت (طالب علمی میں)تو دوسروں کے ماتحت ہیں،جب ابھی ٹھیک نہ ہوئے تو آئندہ مختار ہوکر کیا امید ہوسکتی ہے۔اس وقت تو کوئی یہ بھی نہ کہہ سکے گا کہ مولانا آپ سے یہ کوتاہی ہوئی یا آپ نے اس مسئلہ کے خلاف کیا!
تربیت سے قطع نظر کرنے کی اور ضروری نہ سمجھنے کی تو کسی حال میں گنجائش نہیں یہ کوتاہی ہے کہ بعض لوگ تعلیم کو تو ضروری سمجھتے ہیں مگر تربیت کو ضروری نہیں سمجھتے حالانکہ تربیت کی ضرورت تعلیم سے بھی ”زیادہ اور اہم“ہے۔مطلق تعلیم سے تو اس لیے کہ مقصود تعلیم سے تربیت ہی ہوتی ہے کیونکہ تعلیم علم دینا ہے او ر تربیت عمل کرانا ہے اور علم سے مقصود عمل کراناہی ہے اور مقصود کا اہم ہونا ظاہر ہے۔اور تعلیم درسی سے تو”مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ“ اس لیے کہ یہ تعلیم فرض عین نہیں اور تربیت یعنی تہذیبِ نفس ہر شخص پر فرضِ عین ہے۔سچ ہے کہ تربیت کے بغیر تعلیم،جہالت کو فروغ دیتی ہے۔شاگردوں کے وقت کا لحاظ رکھنے کا حکیمانہ طریقہ!
وقت ایک ایسی زمین ہے جس میں محنت کے بغیر کچھ پیداہی نہیں ہوتا سعی کامل کی جائے تو یہ ضرور پھل دیتی ہے بیکار چھوڑ دی جائے تو خار دار جھاڑیاں اگاتی ہے۔
فیثا غورث سے پوچھا گیاکہ وقت کیاہے؟جواب دیایہ اس دنیاکی روح ہے۔
وقت خداکی امانت ہے جس کا ایک لمحہ بھی ضائع کرنا مجرمانہ خیانت ہے دراصل وقت ایک سوناہے اور وقت ہی زندگی ہے طلبہ کے اوقات اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔
اسلئے استاذ کو چاہئے کہ طالب علم سے پہلے معلوم کرلے کہ اس کے پاس کتنا وقت ہے اس کا لحاظ کرتے ہوئے اس کے اسباق کا انتظام کرے کم وقت ہوتو نصاب کا اس کو پابند نہ بنائے بلکہ دین کی اس قسم کی کتابیں پڑھاوے جس سے اس کو حلال وحرام، جائز ناجائز کی تمیزہوجائے اور اسلامی اخلا ق کے ساتھ متصف ہوجائے اس سلسلہ میں جو کتابیں وہ سمجھ سکے وہ پڑھائے خواہ کسی زبا ن میں ہو کوئی ضروری نہیں کہ اس کو عر بی زبان ہی میں پڑھایا جائے۔
بزرگان دین کی سوانح پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ ان حضرات نے اس کابہت زیا دہ لحاظ کیا ہے ہر ایک کی استعداد اور وقت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو پڑھایا ان کے منصب کے مطابق دین کی خدمت ان کے سپرد کی جس جگہ گئے روزی کا بارکسی پر نہیں ڈالااور توکل کی بنیاد پر کام شروع کیااس کا نتیجہ یہ ہوتاتھا کہ علاقہ کا علاقہ سیراب ہوجاتاتھا۔شاگردوں کے سامنے کسی کی برائی سے اجتناب کریں!
استاذ کوچاہئے کہ جس طالب علم کو پڑھارہاہے اس کا نفع تو اس کے سامنے بیا ن کرے لیکن دوسرے علوم کی اور اس فن کے اساتذہ کی بشرطیکہ وہ علم ناجائزنہ ہو برائی نہ بیان کرے آج کل یہ مر ض عام ہورہا ہے کہ جس فن میں کسی کو مہارت ہے وہ دوسرے فن اوراس میں مصروف رہنے والے حضرات کی مذمت و حقارت اپنے حلقہ ئ درس میں کرتاہے جس سے طالب علم کے ذہن میں نہ تو کسی علم کی وقعت باقی رہتی ہے اور نہ ہی کسی استاذ کی۔ اس طرح سے وہ علم دین سے نہ صرف بیگانہ ہو جاتاہے بلکہ جو زمانہ مدارس میں گذرا ہے اس کو تضیعِ اوقات سے تعبیر کرتاہے اور اس میں لگنے والوں کا مذاق اڑاتاہے جس سے دین ودنیا کی تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
اسی طرح مہتمم و اراکین کی خرابیاں طلبہ کے سامنے بیان نہ کرے اگر وہ چیزیں واقعی قابلِ اصلا ح ہیں تو ذمہ دار حضرات کو دیا نت داری اور خیر خواہی کے ساتھ مشورہ دیدے تاکہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق اس کی اصلاح کردیں طلبہ کے سامنے اس قسم کی چیز یں لانے ہی کا نتیجہ ہے جو اسٹرائک کی شکل میں ظاہر ہو تاہے واقعہ ہے کہ طلبہ کے ذریعہ جو فساد مدارس میں رونماہوتاہے اس کی پشت پناہی کرنے والا مدرسہ کا کوئی نہ کوئی مدرس ضرور ہوتاہے۔العیاذ با اللہ!شاگردوں کی سمجھ کے مطابق انداز درس اختیار کیجئے!
استاذکو چاہئے کہ سبق پڑھاتے وقت ایسی تقریر نہ کرے جو طالب علم کی فہم اور استعداد سے بالاتر ہو اس میں حضور ﷺ کی پیر وی کرے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم کو یہ حکم ملاہے کہ ہم لوگوں کے مراتب کا لحاظ رکھیں ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق ان سے گفتگو کریں۔ أُمرنا ان نُلحِظَ مراتب الناس وان نَتکَلَّمَ بقد رعُقو لِھم (الترغیب والترہیب)کلم الناس علی القدر عقولھم (مرقاۃ المفاتیح ج۰۱ ص ۰۱۱) اکثر ایسے اساتذہ کرام جن میں علمی استعداد،مطالعہ کی گہرائی اورگیرائی کا فقدان ہوتاہے وہ ایسا ہوائی درس اور دَور کراتے ہیں جس کا فن،طلبہ کے ذہن، معیاراور استعداد سے دور کا واسطہ نہیں ہوتا
جس عنوان کو پڑھاناہوسابقہ درجہ کی کتابوں کا خلاصہ بتاناچاہئے تاکہ بھولے سبق کو یادکرلیں اور آئندہ کیلئے ربط اور جوڑ کا سبب بنے۔
چنانچہ آنحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جو استاذوں کے استاذہیں ارشاد فرماتے ہیں اگر آدمیوں کو مینگنیاں جمع کرنے سے منع کردیا جائے تو ضرورجمع کریں گے اور خیال کریں گے کہ ہم کوجو اس سے منع کیا گیا ہے ضرور اس میں کوئی بات ہے الانسان حریص مما منع یہ انسانی فطرت ہے جیسا کہ حضرت آدم و حوا ؑ کا قصہ اس پر شاہد ہے۔تعلیم سے زیادہ تادیب کا خیال رکھے کہ خام بنیاد پر عمارت کبھی کھڑی نہیں ہوسکتی۔
حضرت عبد الرحمن بن قاسمؒ فرماتے ہیں کہ میں نے بیس سال تک حضرت امام مالک ؒ کی خدمت کی ان میں اٹھارہ سال آداب واخلاق کی تعلیم میں خرچ ہوئے اور صرف دوسال علم کی تحصیل میں۔
حکیم الا مت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مدارس میں تربیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم تو علوم درسیہ مروجّہ مدارس عربیہ کوبھی جب کہ وہ صرف الفاظ کے درجہ میں ہو اور عمل ساتھ نہ ہوعلم نہیں کہتے۔
حضرت یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ حقیقی مدرسہ وہ ہے،جس میں علم کے ساتھ عمل کی بھی تعلیم اور نگہداشت ہو ”کُلُّکُمْ رَاعِ وَکُلُّکُمْ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ“کے قاعدے پر آپ سے اس کے متعلق سوال ہوگا،کیونکہ آپ طلبہ کے نگہبان ہیں وہ آپ کی رعایا ہیں یہ جائز نہیں کہ آپ سبق پڑھا کر الگ ہوجائیں،بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ ان میں سے کونسا عمل کرتاہے اور کو ن عمل نہیں کرتا۔(العلم والعلماء صفحہ ۷۰۱)
بہت سی کتابیں پڑھ لینے،پڑھالینے کا نام دین نہیں ہے۔ دین میں اصلاحِ عادات بھی داخل ہے اسی کو تہذیب بھی کہتے ہیں۔افعال،حرکات وسکنات،معاملات،بول چال سب کا نگراں رہناچاہئے اعمال کی اصلاح اوراخلاق کی درستگی فرض ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ لکھ پڑھ کر سب درست ہوجائیں گے(اس لئے زمانہ طالب علمی میں اصلاح ودرستی کی فکرکی ضرورت نہیں)اے نادانوں!اس وقت تو اور بگڑجائیں گے(چونکہ مخلّٰی بالطبع اور آزاد ہوں گے)اس وقت (طالب علمی میں)تو دوسروں کے ماتحت ہیں،جب ابھی ٹھیک نہ ہوئے تو آئندہ مختار ہوکر کیا امید ہوسکتی ہے۔اس وقت تو کوئی یہ بھی نہ کہہ سکے گا کہ مولانا آپ سے یہ کوتاہی ہوئی یا آپ نے اس مسئلہ کے خلاف کیا!
تربیت سے قطع نظر کرنے کی اور ضروری نہ سمجھنے کی تو کسی حال میں گنجائش نہیں یہ کوتاہی ہے کہ بعض لوگ تعلیم کو تو ضروری سمجھتے ہیں مگر تربیت کو ضروری نہیں سمجھتے حالانکہ تربیت کی ضرورت تعلیم سے بھی ”زیادہ اور اہم“ہے۔مطلق تعلیم سے تو اس لیے کہ مقصود تعلیم سے تربیت ہی ہوتی ہے کیونکہ تعلیم علم دینا ہے او ر تربیت عمل کرانا ہے اور علم سے مقصود عمل کراناہی ہے اور مقصود کا اہم ہونا ظاہر ہے۔اور تعلیم درسی سے تو”مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ“ اس لیے کہ یہ تعلیم فرض عین نہیں اور تربیت یعنی تہذیبِ نفس ہر شخص پر فرضِ عین ہے۔سچ ہے کہ تربیت کے بغیر تعلیم،جہالت کو فروغ دیتی ہے۔
فیثا غورث سے پوچھا گیاکہ وقت کیاہے؟جواب دیایہ اس دنیاکی روح ہے۔
وقت خداکی امانت ہے جس کا ایک لمحہ بھی ضائع کرنا مجرمانہ خیانت ہے دراصل وقت ایک سوناہے اور وقت ہی زندگی ہے طلبہ کے اوقات اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔
اسلئے استاذ کو چاہئے کہ طالب علم سے پہلے معلوم کرلے کہ اس کے پاس کتنا وقت ہے اس کا لحاظ کرتے ہوئے اس کے اسباق کا انتظام کرے کم وقت ہوتو نصاب کا اس کو پابند نہ بنائے بلکہ دین کی اس قسم کی کتابیں پڑھاوے جس سے اس کو حلال وحرام، جائز ناجائز کی تمیزہوجائے اور اسلامی اخلا ق کے ساتھ متصف ہوجائے اس سلسلہ میں جو کتابیں وہ سمجھ سکے وہ پڑھائے خواہ کسی زبا ن میں ہو کوئی ضروری نہیں کہ اس کو عر بی زبان ہی میں پڑھایا جائے۔
بزرگان دین کی سوانح پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ ان حضرات نے اس کابہت زیا دہ لحاظ کیا ہے ہر ایک کی استعداد اور وقت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو پڑھایا ان کے منصب کے مطابق دین کی خدمت ان کے سپرد کی جس جگہ گئے روزی کا بارکسی پر نہیں ڈالااور توکل کی بنیاد پر کام شروع کیااس کا نتیجہ یہ ہوتاتھا کہ علاقہ کا علاقہ سیراب ہوجاتاتھا۔
اسی طرح مہتمم و اراکین کی خرابیاں طلبہ کے سامنے بیان نہ کرے اگر وہ چیزیں واقعی قابلِ اصلا ح ہیں تو ذمہ دار حضرات کو دیا نت داری اور خیر خواہی کے ساتھ مشورہ دیدے تاکہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق اس کی اصلاح کردیں طلبہ کے سامنے اس قسم کی چیز یں لانے ہی کا نتیجہ ہے جو اسٹرائک کی شکل میں ظاہر ہو تاہے واقعہ ہے کہ طلبہ کے ذریعہ جو فساد مدارس میں رونماہوتاہے اس کی پشت پناہی کرنے والا مدرسہ کا کوئی نہ کوئی مدرس ضرور ہوتاہے۔العیاذ با اللہ!
جس عنوان کو پڑھاناہوسابقہ درجہ کی کتابوں کا خلاصہ بتاناچاہئے تاکہ بھولے سبق کو یادکرلیں اور آئندہ کیلئے ربط اور جوڑ کا سبب بنے۔