ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۴
کچھ محرم الحرام کی مناسبت سے
جناب حضرت مولانا حمید اللہ صاحب قاسمی(کبیر نگری) ناظم: جامعہ خادمہ بیگم خیر صاحبہ للبنات، بستی
مذہب اسلام میں ہجری سن کا آغاز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی مناسبت سے ہوا، اور اسلامی کینڈر کا پہلا مہینہ بھی محرم سے شروع ہوا، قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ان مبارک مہینے کا ذکر آیا ہے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس مہنیہ کو ایک دوسرے پر فوقیت اور فضیلت بخشی ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اللہ تعالیٰ کے ان انعامات و احسانات اور فضائل و برکات کو اپنے دامن میں سمیٹ سکیں، جس کی تاکید قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرما دی ہے:’’اُن کو اللہ کے دنوں کی یاد تازہ کرو‘‘۔
اللہ تعالی جب ان دنوں کی یاد دلانے کی تاکید فرما رہے ہیں وہ دن ہیں کہ جن دنوں میں اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر اپنے انعامات و احسانات فرمائے ہیں، اب ان انعامات و احسانات کو یاد کرنے اور اُن پر خوش ہونے کے مختلف طریقے ہیں۔
مختلف ادیان و مذاہب میں خوشیوں کا اظہار مختلف انداز سے کرتے ہیں، مسلمانانِ عالم اپنے رب کے احسانات و انعامات کے حصول پر اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں، تلاوت قرآن سے اپنے رب کو یاد کرتے ہیں، اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول اور ان کی طیب و طاہر اھل بیت کے تذکروں سے اپنی آنکھوں کو نم کرتے ہیں اسی حوالے سے یہ ماہ محرم الحرام بھی فضیلتوں بھرا مہینہ ہے،حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’ غنیتہ الطا لبین‘‘ میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ ذی الحجہ کے مہینے کی آخری دن اور ماہ محرم الحرام کے پہلے دن روزہ رکھناایسا ہی ہے کہ گویا اس نے گزشتہ سال کو روزہ رکھااور آئندہ اس آنے والے سال کوبھی روزہ پر شروع کیا، اللہ تعالیٰ اِس روزے کواس کے پچاس سال کے روزوں کا کفارہ بنادیا، پھر اِسی طرح ماہ محرم الحرام کے پہلے دس دنوں میں روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح عاشورہ کا دن بھی بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل ہے، محرم کے دسویں دن کو عاشوراء کیوں کہاجاتا ہے؟ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ یہ مہینے کادسواں دن ہے اسی لئے اس کو عاشورہ کہا جاتا ہے، بعض بزرگ یہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کو جو فضیلتیں اور کرامات عطافرمائیں ہیں ان میں یہ دن فضیلت و کرامت کا تھا اس لئے اس دن کو عاشورا کہتے ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دن اللہ تبارک و تعالیٰ نے دس مختلف انبیائے کرام کو مختلف انعامات سے نوازا تھا اس لیئے اس مناسبت سے اس کو عاشوراء کہاجاتا ہے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب اللہ کے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہوسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ کے یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ کی حالت میں پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیسا دن ہے کہ تم لوگ اس دن روزہ رکھتے ہو، تو انہوں نے بتایا کہ یہ دن بڑی شان والا ہے، فرعون سے نجات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور تشکر اس دن روزہ رکھا تھا تو ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تعلق میں تمہاری نسبت ہم زیادہ حق رکھتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اس دن دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، ماہ محرم میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت سی احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"رمضان المبارک کے مہینے کے روزوں کے بعد ماہ محرم الحرام کا روزہ بڑی فضیلت والا ہے"۔اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ:’’مجھے اللہ سے یقین ہے کہ محرم کے عاشورے کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہوں کو محو کردیتا ہے"۔رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا لیکن ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کہ اب عاشورہ کا روزہ جس کا دل چاہے رکھے اور جس کا دل چاہےنہ رکھے"۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ چادر لپیٹ کر زم زم کے کنویں سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے، میں نے ان سے عاشورہ کے روزے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ محرم کا چاند دیکھ کر پہلی محرم کو کھاو اور پیو، اور نویں محرم کو روزہ رکھو"۔ ایک اور حدیث حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہود کی مخالفت کرتے ہوئے محرم کی نویں اور دسویں کوروزہ رکھا کرو۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ ہمیں رمضان المبارک کے بعد کس ماہ میں روزے رکھنے چاھئیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا میں نے ایک شخص کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتے ہوئے سناتھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ا گر تم رمضان کے مہینہ کے بعد روزے رکھنا چاہو تو محرم کے مہینہ میں روزے رکھو کیوں کہ یہ اللہ کا مہینہ ہےاور اِس ماہ میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کی دعاقبول فرمائی ہے۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ’’ غنیتہ الطالبین‘‘میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث بیا ن فرماتے ہیں کہ جس شخص نے عاشورہ کا روزہ رکھا اس کو ثواب عطاکیا جائے گا جس نے یومِ عاشورہ پر کسی یتیم کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ اس یتیم کے سر کے ہر بال کے بدلے جنت میں اس کا درجہ بلند فرمائے گااور جس شخص نے عاشورہ کی شام کو روزہ دار کو افطار کرایا تو گویا اس نے اپنی طرف سے ساری امت محمدیہ کو افطار کرایا، اللہ تعالیٰ نے یومِ عاشوراء کو تمام ایام پر فضیلت بخشی ہے، پھر صحابہ کرام کے ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ نے یوم عاشورہ کو آسمانوں زمینوں پہاڑوں اور سمندروں کو پیدا فرمایا لوح وقلم کو یوم عاشورہ میں پیدا فرمایا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق عاشورہ کے دن ہوئی اور عاشورہ کے دن ان کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل فرمایا۔ حضرت ابراھیم عاشورہ کے دن پیدا ہوئے۔فرعون کو عاشورہ کے دن غرق کیا گیا۔حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی تکلیف اور بیماری سے عاشورہ کے دن نجات عطا فرمائی ۔حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ عاشورہ کے دن قبول ہوئی ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام عاشورہ کے دن پیدا ہوئے۔ قیامت عاشورہ کے دن آئے گی۔
غرضیکہ اس مہینے میں جوسب سے اہم واقعہ آیا وہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے دیگر حضرت اھل بیت کے ہمراہ میدان کربلا میں مرتبئہ شہادت پر فائز ہوئے۔حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اسلامی سال کے پہلے ماہ میں ہونا ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ مسلمانوں کے نئے سال کی ابتداء بھی قربانی سے ہوتی ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں:"جو شخص عاشورہ کے دن آٹھ رکعات نماز پڑھے، اللہ تعالیٰ اس نماز کے پڑھنے والے کو بیحد ثواب عطا فرماتا ہے، آپ نے مزید فرمایا کہ ہمیں اس نماز کا پچاس سالہ تجربہ ہے اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے رزق میں کشادگی فرماتا ہے، چوں کہ ماہ محر م الحرام ’’اشھر الحرم‘ کاپہلا مہینہ ہے، باقی تین مہینے رجب ، ذی القعدہ اور ذی الحجہ ہیں، ان مہینوں کا بڑا احترام و اکرام ہے، لڑائی جھگڑا، قتل وغارت گری،اور فتنہ وفساد سے بچنا چائیے، اس مہینے عبادت و ریاضت، ذکرو اذکار، صدقات وخیرات کے بڑے فضائل ہیں اسی طرح فسق وفجور اور ارتکابِ گناہ کا عذاب بھی دیگر ایام سے زیادہ ہے۔
اسلامی سال یعنی سن ہجری کی ابتداء حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سے ہوئی ۔ابتدا سے ہی خلیفہ دوم امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ چاھتے تھے ہمارا اپنا اسلامی سن اور تاریخی شناخت ہونی چاھئیے اس سلسلہ میں آپ نے صحابہ کرام کی مجلس شوریٰ سے مشورہ طلب کیا۔ صحابہ کرام میں بعض کی رائے یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت وسعادت سے اسلامی سال کا آغاز کیا جائے۔بعض صحابہ کرام کا مشورہ تھا کہ اعلان نبوت سے سن ہجری کاآغاز ہو لیکن باب مدینتہ العلم سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اسلامی سال کا آغاز و ابتداء ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تاریخی واقعہ سے ہو کیوں کہ یہ عظیم اور انقلابی واقعہ ہے۔اسی واقعہ کے بعد سے اسلام کو فروغ و قوت نصیب ہوئی۔اسلامی ریاست مدینہ منورہ وجود میں آئی چناں چہ اس رائے کو سب نے باتفاق پسند کیا اور منظور کرلیا چوں کہ سال کے بارہ مہینے پہلے سے موجود تھے اور اِن بار ہ ماہ کا پہلا مہینہ محرم الحرام اور آخری مہینہ ذی الحجہ تک پہلے سے ہی رائج تھے تو اب یہ سوال پیدا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت تو ربیع الاول کے مہینہ میں فرمائی ہے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ فارمولہ پیش فرماتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ ماہ محرم الحرام کو سال کا پہلا مہینہ مقرر کیا جائے اور سن ہجری کا آغاز و ابتداء دو ماہ آٹھ دن پیچھے سے شمار کیا جائے۔
اللہ تعالی جب ان دنوں کی یاد دلانے کی تاکید فرما رہے ہیں وہ دن ہیں کہ جن دنوں میں اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر اپنے انعامات و احسانات فرمائے ہیں، اب ان انعامات و احسانات کو یاد کرنے اور اُن پر خوش ہونے کے مختلف طریقے ہیں۔
مختلف ادیان و مذاہب میں خوشیوں کا اظہار مختلف انداز سے کرتے ہیں، مسلمانانِ عالم اپنے رب کے احسانات و انعامات کے حصول پر اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں، تلاوت قرآن سے اپنے رب کو یاد کرتے ہیں، اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول اور ان کی طیب و طاہر اھل بیت کے تذکروں سے اپنی آنکھوں کو نم کرتے ہیں اسی حوالے سے یہ ماہ محرم الحرام بھی فضیلتوں بھرا مہینہ ہے،حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’ غنیتہ الطا لبین‘‘ میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ ذی الحجہ کے مہینے کی آخری دن اور ماہ محرم الحرام کے پہلے دن روزہ رکھناایسا ہی ہے کہ گویا اس نے گزشتہ سال کو روزہ رکھااور آئندہ اس آنے والے سال کوبھی روزہ پر شروع کیا، اللہ تعالیٰ اِس روزے کواس کے پچاس سال کے روزوں کا کفارہ بنادیا، پھر اِسی طرح ماہ محرم الحرام کے پہلے دس دنوں میں روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح عاشورہ کا دن بھی بڑی فضیلت و اہمیت کا حامل ہے، محرم کے دسویں دن کو عاشوراء کیوں کہاجاتا ہے؟ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ یہ مہینے کادسواں دن ہے اسی لئے اس کو عاشورہ کہا جاتا ہے، بعض بزرگ یہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کو جو فضیلتیں اور کرامات عطافرمائیں ہیں ان میں یہ دن فضیلت و کرامت کا تھا اس لئے اس دن کو عاشورا کہتے ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دن اللہ تبارک و تعالیٰ نے دس مختلف انبیائے کرام کو مختلف انعامات سے نوازا تھا اس لیئے اس مناسبت سے اس کو عاشوراء کہاجاتا ہے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب اللہ کے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہوسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ کے یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ کی حالت میں پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیسا دن ہے کہ تم لوگ اس دن روزہ رکھتے ہو، تو انہوں نے بتایا کہ یہ دن بڑی شان والا ہے، فرعون سے نجات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور تشکر اس دن روزہ رکھا تھا تو ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تعلق میں تمہاری نسبت ہم زیادہ حق رکھتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اس دن دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، ماہ محرم میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت سی احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"رمضان المبارک کے مہینے کے روزوں کے بعد ماہ محرم الحرام کا روزہ بڑی فضیلت والا ہے"۔اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ:’’مجھے اللہ سے یقین ہے کہ محرم کے عاشورے کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہوں کو محو کردیتا ہے"۔رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا لیکن ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کہ اب عاشورہ کا روزہ جس کا دل چاہے رکھے اور جس کا دل چاہےنہ رکھے"۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ چادر لپیٹ کر زم زم کے کنویں سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے، میں نے ان سے عاشورہ کے روزے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ محرم کا چاند دیکھ کر پہلی محرم کو کھاو اور پیو، اور نویں محرم کو روزہ رکھو"۔ ایک اور حدیث حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہود کی مخالفت کرتے ہوئے محرم کی نویں اور دسویں کوروزہ رکھا کرو۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ ہمیں رمضان المبارک کے بعد کس ماہ میں روزے رکھنے چاھئیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا میں نے ایک شخص کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتے ہوئے سناتھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ا گر تم رمضان کے مہینہ کے بعد روزے رکھنا چاہو تو محرم کے مہینہ میں روزے رکھو کیوں کہ یہ اللہ کا مہینہ ہےاور اِس ماہ میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کی دعاقبول فرمائی ہے۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ’’ غنیتہ الطالبین‘‘میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث بیا ن فرماتے ہیں کہ جس شخص نے عاشورہ کا روزہ رکھا اس کو ثواب عطاکیا جائے گا جس نے یومِ عاشورہ پر کسی یتیم کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ اس یتیم کے سر کے ہر بال کے بدلے جنت میں اس کا درجہ بلند فرمائے گااور جس شخص نے عاشورہ کی شام کو روزہ دار کو افطار کرایا تو گویا اس نے اپنی طرف سے ساری امت محمدیہ کو افطار کرایا، اللہ تعالیٰ نے یومِ عاشوراء کو تمام ایام پر فضیلت بخشی ہے، پھر صحابہ کرام کے ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ نے یوم عاشورہ کو آسمانوں زمینوں پہاڑوں اور سمندروں کو پیدا فرمایا لوح وقلم کو یوم عاشورہ میں پیدا فرمایا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق عاشورہ کے دن ہوئی اور عاشورہ کے دن ان کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل فرمایا۔ حضرت ابراھیم عاشورہ کے دن پیدا ہوئے۔فرعون کو عاشورہ کے دن غرق کیا گیا۔حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی تکلیف اور بیماری سے عاشورہ کے دن نجات عطا فرمائی ۔حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ عاشورہ کے دن قبول ہوئی ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام عاشورہ کے دن پیدا ہوئے۔ قیامت عاشورہ کے دن آئے گی۔
غرضیکہ اس مہینے میں جوسب سے اہم واقعہ آیا وہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے دیگر حضرت اھل بیت کے ہمراہ میدان کربلا میں مرتبئہ شہادت پر فائز ہوئے۔حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اسلامی سال کے پہلے ماہ میں ہونا ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ مسلمانوں کے نئے سال کی ابتداء بھی قربانی سے ہوتی ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں:"جو شخص عاشورہ کے دن آٹھ رکعات نماز پڑھے، اللہ تعالیٰ اس نماز کے پڑھنے والے کو بیحد ثواب عطا فرماتا ہے، آپ نے مزید فرمایا کہ ہمیں اس نماز کا پچاس سالہ تجربہ ہے اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے رزق میں کشادگی فرماتا ہے، چوں کہ ماہ محر م الحرام ’’اشھر الحرم‘ کاپہلا مہینہ ہے، باقی تین مہینے رجب ، ذی القعدہ اور ذی الحجہ ہیں، ان مہینوں کا بڑا احترام و اکرام ہے، لڑائی جھگڑا، قتل وغارت گری،اور فتنہ وفساد سے بچنا چائیے، اس مہینے عبادت و ریاضت، ذکرو اذکار، صدقات وخیرات کے بڑے فضائل ہیں اسی طرح فسق وفجور اور ارتکابِ گناہ کا عذاب بھی دیگر ایام سے زیادہ ہے۔
اسلامی سال یعنی سن ہجری کی ابتداء حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سے ہوئی ۔ابتدا سے ہی خلیفہ دوم امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ چاھتے تھے ہمارا اپنا اسلامی سن اور تاریخی شناخت ہونی چاھئیے اس سلسلہ میں آپ نے صحابہ کرام کی مجلس شوریٰ سے مشورہ طلب کیا۔ صحابہ کرام میں بعض کی رائے یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت وسعادت سے اسلامی سال کا آغاز کیا جائے۔بعض صحابہ کرام کا مشورہ تھا کہ اعلان نبوت سے سن ہجری کاآغاز ہو لیکن باب مدینتہ العلم سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اسلامی سال کا آغاز و ابتداء ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تاریخی واقعہ سے ہو کیوں کہ یہ عظیم اور انقلابی واقعہ ہے۔اسی واقعہ کے بعد سے اسلام کو فروغ و قوت نصیب ہوئی۔اسلامی ریاست مدینہ منورہ وجود میں آئی چناں چہ اس رائے کو سب نے باتفاق پسند کیا اور منظور کرلیا چوں کہ سال کے بارہ مہینے پہلے سے موجود تھے اور اِن بار ہ ماہ کا پہلا مہینہ محرم الحرام اور آخری مہینہ ذی الحجہ تک پہلے سے ہی رائج تھے تو اب یہ سوال پیدا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت تو ربیع الاول کے مہینہ میں فرمائی ہے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ فارمولہ پیش فرماتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ ماہ محرم الحرام کو سال کا پہلا مہینہ مقرر کیا جائے اور سن ہجری کا آغاز و ابتداء دو ماہ آٹھ دن پیچھے سے شمار کیا جائے۔