ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۴
ماہ محرم اور واقعہ کربلا
حضرت مفتی خالدانورپورنوی المظاہری،ایڈیٹر "ترجمان ملت" پٹنہ استاذ حدیث و فقہ:جامعہ مدنیہ،سبل پور، پٹنہ
یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور سو فیصد صد سچ ہے کہ کربلا کا خوںچکاں واقعہ اسی ماہ محرم کی دسویں تاریخ میں پیش آیا تھا۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت اور مبنی بر صداقت ہے کہ ماہ محرم کی فضیلت ،تقدس ،احترام اور شرعی حیثیت میں اس دردناک واقعہ کربلا کا ذرہ برابر بھی عمل دخل نہیں ہے۔ اور اس مہینہ میں عاشوراء کے روزے کے علاوہ کوئی بھی عمل شرعا ثابت نہیں ہے ۔ مگر روزے جو بطورِ مستحب ثابت ہیں آج امت کی اکثریت اس سے دور یا نابلد ہے اور ڈھول ،ڈی جے ،باجے، تعزیئے ،اچھل کود ،نوحہ ،نعرے ماتم اور غم کے سارے قدیم وجدید طریقے جو کہ سب بکواس اور خرافات ہیں دین سے جن کا دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں ہے اس امت کی اکثریت اسی میں غرق ہے ۔ اور حد تو یہ ہے کہ رافضی رنگ میں سادہ لوح سنی مسلمان بھی رنگتے چلے جارہے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ واقعہ کربلا یقینا ایک دردناک واقعہ ہے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک عظیم ظلم ہے جو اہل کوفہ نے گھناونا فریب دے کر ڈھایا ہے۔ یہ اہل کوفہ اس واقعہ کربلا سے پہلے بھی شیعان علی تھے اس واقعہ کربلا کے وقت بھی وہ شیعان علی ہی کی حیثیت رکھتے تھے اور آج بھی وہ بزعم خویش شیعان علی ہی ہیں اور آج بھی ان کی حیثیت ویسی ہی ہے۔
فریب دے کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوفہ بلانا اور میدان کربلا میں بے یار و مددگار چھوڑ دینا کسی اہل سنت والجماعت اور اہل ایمان کا کام ہوہی نہیں سکتا ہے۔ اور پھر ان کوفیوں نے اپنے اس جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے غم حسین۔ منانے کا پر فریب ڈھونگ رچا ،تاکہ ان سب کا جرم چھپ جائے۔ آخر وہی ہوا کہ امت اس دام فریب میں پھنستی چلی گئی ۔ اور افسوس تو یہ ہے ان فریبوں کے فریب کو امت دین سمجھ کر آج بھی نبھا رہی ہے ۔اور غضب تو یہ ہے کہ ان بیچارے سادہ لوح مسلمانوں کے نزدیک عاشوراء کا مطلب واقعہ کربلا کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے حضرات بھی اس خلط مبحث میں اپنا دامن نہیں بچا پاتے ہیں ۔ مگر سچائی یہ ہے کہ یہاں پر ڈبل کراس ہوا ہے ۔ بایں طور کہ جس کا عاشوراء کی فضیلت سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ مسلمانوں کے کئی طبقوں میں دین کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے اور ماہ محرم فی نفسہ جن چیزوں کی وجہ سے محترم اور مقدس فضیلت والا ہے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان سے ناواقف ہے ۔
مختصر یہ کہ واقعہ کربلا کا دس محرم کو پیش آنا محض ایک اتفاق ہے۔ اس واقعہ سے اس مہینہ کی شرعی حیثیت ،فضیلت اور احترام و تقدس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بلکہ عام اور خاص تمام مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ اس مہینہ کا احترام نص سے ثابت ہے ، اس کی فضیلت منصوص ہے ۔ اور اس میں مشروع عمل صرف اور صرف عاشوراء کا روزہ ہے ۔ جس میں بہتر یہ ہے کہ نو اور دس کا روزہ رکھا جائے۔ جو روزہ رکھے گا اس کے سابقہ ایک سال کے گناہوں کی بخشش ہوگی ۔اور جو نہیں رکھنا چاہے وہ نہ رکھے ، اس پر کوئی گرفت اور گناہ نہیں۔مگر روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں بھی عاشوراء کا روزہ رکھا ،مدینہ میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا بھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رکھنے کا حکم بھی دیا ،پھر فرضیت ماہ رمضان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار دے دیا۔ مگر آپ نے اس کے بعد بھی رکھا حتی کہ آخری سال میں آپ نے یہ فرمایا کہ اگلے سال جب عاشوراء آئے گا تو میں یہود کی مخالفت کرتے ہوئے تاسوعا کا یعنی 9 تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔
ذرا یہ چار حدیثیں ملاحظہ فرمائیے
1_عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قالَتْ: كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصُومُ عَاشُورَاءَ في الجَاهِلِيَّةِ، وَكانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا هَاجَرَ إلى المَدِينَةِ، صَامَهُ وَأَمَرَ بصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ شَهْرُ رَمَضَانَ قالَ: مَن شَاءَ صَامَهُ وَمَن شَاءَ تَرَكَهُ.۔بخآری 1893 ۔ مسلم 1125.
اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ عاشوراء کا روزہ قریش بھی رکھتے تھے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے تھے ۔ 2
- عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ صِيَامًا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: "مَا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي تَصُومُونَهُ"؟ فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ أَنْجَى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَقَوْمَهُ وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهُ فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا فَنَحْنُ نَصُومُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّه -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: "فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ"؛ فَصَامَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ. (رواه مسلم ٢٦٢٨).
اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ،اس دن کو عظیم دن مانتے تھے۔اس دن سیدنا موسیٰ علیہ السلام بھی روزہ رکھتے تھے اور اسی تاریخ میں موسی کے غرق ہونے اور موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات ملنے کا بھی ذکر موجود ہے۔ 3
- عنہ قتادہ ۔صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ". صحيح مسلم رقم (1162
یہ ایک طویل حدیث کا ایک ٹکڑا ہے ۔جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ عاشوراء کا روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے صغائر گنا ہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ 4
- صَامَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يَومَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بصِيَامِهِ قالوا: يا رَسولَ اللهِ، إنَّه يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ اليَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَقالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: فَإِذَا كانَ العَامُ المُقْبِلُ -إنْ شَاءَ اللَّهُ- صُمْنَا اليومَ التَّاسِعَ، قالَ: فَلَمْ يَأْتِ العَامُ المُقْبِلُ حتَّى تُوُفِّيَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ.۔مسلم 2634
اس حدیث میں عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے یہود ونصاری کی مخالفت کرنے کا ذکر ہے اور اس کے لئے اس عاشوراء کے ساتھ ایک اور روزہ یعنی نو تاریخ کا روزہ رکھنے کا ذکر ہے کہ اس سلسلہ یہی پیارے نبی صلی اللہ علیہ کی یہی خواہش تھی مگر راوی کہتے ہیں کہ اگلے سال آنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو پیارے ہوگئے۔ (خوف طوالت کے سبب احادیث مبارکہ کا ترجمہ نہیں کیاگیا ہے بلکہ صرف مفہوم پیش کیا گیا ہے۔ اگر آپ کو ضرورت محسوس تو اپنے کسی بھی عالم سے ترجمہ کرا سکتے ہیں۔ ) اس سلسلے میں بہت زیادہ حدیثیں موجود ہیں مگر سب کا خلاصہ تقریباً وہی ہے جو اوپر پیش کیا گیا ہے ۔
ماہ محرم اور واقعہ کربلا کے تعلق سے ہمیں لازمی طور یہ جاننا چاہیے کہ ماہ محرم اور عاشوراء کی اہمیت وفضیلت اور اس میں روزہ کی مشروعیت یہ سب کچھ واقعہ کربلا سے کم ازکم پچاس سال اور بعض احکام ساٹھ سال پیشتر زبان رسالت مآب سے ادا ہوچکے تھے ۔ اور صحابہ کرام میں یہ سب واقعات و احکامات معروف و مشہور تھے ۔ کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھا۔اور دین واقعہ کربلا سے پچاس سال پہلے الیوم اکملت لکم دینکم کی مہر کے ساتھ مکمل ہوچکا تھا۔اب نہ کسی کمی کی گنجائش تھی نہ زیادتی کی۔ بلکہ دلائل سے یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ عاشوراء اور ماہ محرم کی فضیلت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور سے موجود تھا اور یہود ونصاری کا اس پر عمل بھی تھا ۔
مگر ہائے رے مسلمانوں کی سادہ لوحی کہ جس چیز کو یاد رکھنا چاہیے تھا مسلمانوں نے اس کو فراموش کردیا اور جس سے روکا گیا اس کو دین کو لازمی جز بنا ڈالا ۔
میرے پیارے بھائیو
مانا کہ واقعہ کربلا اسی دن پیش آیا تھا تو کیا اس سے کوئی شرعی عمل ثابت ہوجائے گا۔دین تو اس سے بہت پہلے مکمل ہوچکا ہے۔ اب دین اور ثواب کے نام پر جو بھی زیادتی ہوگی تو کیا وہ بدعت نہیں ہوگی اور کیا اس سے بچنا ضروری نہیں ہوگا۔؟
مانا کہ شہادت حسین ایک اندوہناک سانحہ ہے تو کیا اس غم اور سوگ کو لوگ قیامت تک مناتے رہیں گے ۔جبکہ دین میں شوہر کی وفات پر بیوی کے لیے عدت کے ایام تک اور باقی تمام غم میں تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں۔
بفرض محال مانا کہ آپ سوگ ہی منا رہے ہیں تو پھر سوگ میں اچھل کود ڈھول باجا اور تلوار و نیزہ بازی کیا کسی پاگل پن کی علامت نہیں ہے ۔کاش آج بھی کوئی اپنے باپ یا بھائی یا کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر یا بزعم خویش برسی پر غم منانے کے نام پر یہ کربلائی حرکتیں کر بیٹھے اور لوگوں کے رد عمل کا انتظار کرے ۔ یقنا لوگ اس پرکس چیز کا لیبل لگائیں گے اور کیا کہیں گے وہ ہم سبھی جانتے ہیں۔ یقینا ہم میں سے کوئی بھی ایسی حرکت ہرگز نہیں کرے گا ورنہ لوگ اس کو پاگل کیں گے۔
مانا کہ شہادت حسین ایک افسوسناک سانحہ ہے مگر کیا شہادت سیدنا علی کم افسوسناک ہے؟ کیا شہادت سیدنا عمر کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ ،کیا شہات سیدنا عثمان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ ،کیا شہادت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنھم اجمعین کی کوئی وقعت نہیں ہے؟ ، کیا شہدائے بدر ،شہدائے احد ،شہدائے حنین اور دیگر تمام اجلہ شہدائے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شہادتوں کی کوئی قیمت نہیں ہے اگر ہے اور سچ مچ ہے اور آپ کے اند ر کوئی منافقت نہیں یے تو پھر سچ بتائیے ان میں سے آپ کس کس کا ماتم سوگ مناتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے بہت سے لوگوں کو ان اجلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تاریخ شہادت کا بھی پتہ نہیں ہوگا۔یہں سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں فریب ہے اور وہ اج بھی ہے۔
کاش ہم یہ جان لیں کہ خرافات اور بیوقوفی کیا ہے اور اصل دین کیا ہے ۔ ورنہ ہم۔کچھ بھی کرتے رہیں فرق کیا پڑتا ہے۔
اور یاد رکھئے جس کو فرق پڑنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے وہ محرم کے تمام خرافات سے دامن کو بچاتا ہے اور عاشوراء کے روزہ سے ایک سال کے تمام صغیرہ گناہوں کو بخشوانے کی فکر میں عاشوراء کا روزہ رکھنے کا اہتمام کرتا ہے ۔یقینا ایسے لوگ اللہ کے نیک بندے ہوتے ہیں ۔ان کی تعداد گرچہ کم ہوتی ہے مگر یہی حق پر ہوتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے آمین ۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ واقعہ کربلا یقینا ایک دردناک واقعہ ہے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک عظیم ظلم ہے جو اہل کوفہ نے گھناونا فریب دے کر ڈھایا ہے۔ یہ اہل کوفہ اس واقعہ کربلا سے پہلے بھی شیعان علی تھے اس واقعہ کربلا کے وقت بھی وہ شیعان علی ہی کی حیثیت رکھتے تھے اور آج بھی وہ بزعم خویش شیعان علی ہی ہیں اور آج بھی ان کی حیثیت ویسی ہی ہے۔
فریب دے کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کوفہ بلانا اور میدان کربلا میں بے یار و مددگار چھوڑ دینا کسی اہل سنت والجماعت اور اہل ایمان کا کام ہوہی نہیں سکتا ہے۔ اور پھر ان کوفیوں نے اپنے اس جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے غم حسین۔ منانے کا پر فریب ڈھونگ رچا ،تاکہ ان سب کا جرم چھپ جائے۔ آخر وہی ہوا کہ امت اس دام فریب میں پھنستی چلی گئی ۔ اور افسوس تو یہ ہے ان فریبوں کے فریب کو امت دین سمجھ کر آج بھی نبھا رہی ہے ۔اور غضب تو یہ ہے کہ ان بیچارے سادہ لوح مسلمانوں کے نزدیک عاشوراء کا مطلب واقعہ کربلا کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے حضرات بھی اس خلط مبحث میں اپنا دامن نہیں بچا پاتے ہیں ۔ مگر سچائی یہ ہے کہ یہاں پر ڈبل کراس ہوا ہے ۔ بایں طور کہ جس کا عاشوراء کی فضیلت سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ مسلمانوں کے کئی طبقوں میں دین کا اٹوٹ حصہ بن چکا ہے اور ماہ محرم فی نفسہ جن چیزوں کی وجہ سے محترم اور مقدس فضیلت والا ہے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان سے ناواقف ہے ۔
مختصر یہ کہ واقعہ کربلا کا دس محرم کو پیش آنا محض ایک اتفاق ہے۔ اس واقعہ سے اس مہینہ کی شرعی حیثیت ،فضیلت اور احترام و تقدس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بلکہ عام اور خاص تمام مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ اس مہینہ کا احترام نص سے ثابت ہے ، اس کی فضیلت منصوص ہے ۔ اور اس میں مشروع عمل صرف اور صرف عاشوراء کا روزہ ہے ۔ جس میں بہتر یہ ہے کہ نو اور دس کا روزہ رکھا جائے۔ جو روزہ رکھے گا اس کے سابقہ ایک سال کے گناہوں کی بخشش ہوگی ۔اور جو نہیں رکھنا چاہے وہ نہ رکھے ، اس پر کوئی گرفت اور گناہ نہیں۔مگر روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں بھی عاشوراء کا روزہ رکھا ،مدینہ میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا بھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رکھنے کا حکم بھی دیا ،پھر فرضیت ماہ رمضان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار دے دیا۔ مگر آپ نے اس کے بعد بھی رکھا حتی کہ آخری سال میں آپ نے یہ فرمایا کہ اگلے سال جب عاشوراء آئے گا تو میں یہود کی مخالفت کرتے ہوئے تاسوعا کا یعنی 9 تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔
ذرا یہ چار حدیثیں ملاحظہ فرمائیے
1_عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قالَتْ: كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصُومُ عَاشُورَاءَ في الجَاهِلِيَّةِ، وَكانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا هَاجَرَ إلى المَدِينَةِ، صَامَهُ وَأَمَرَ بصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ شَهْرُ رَمَضَانَ قالَ: مَن شَاءَ صَامَهُ وَمَن شَاءَ تَرَكَهُ.۔بخآری 1893 ۔ مسلم 1125.
اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ عاشوراء کا روزہ قریش بھی رکھتے تھے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے تھے ۔ 2
- عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ صِيَامًا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: "مَا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي تَصُومُونَهُ"؟ فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ أَنْجَى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَقَوْمَهُ وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهُ فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا فَنَحْنُ نَصُومُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّه -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: "فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ"؛ فَصَامَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ. (رواه مسلم ٢٦٢٨).
اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ،اس دن کو عظیم دن مانتے تھے۔اس دن سیدنا موسیٰ علیہ السلام بھی روزہ رکھتے تھے اور اسی تاریخ میں موسی کے غرق ہونے اور موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات ملنے کا بھی ذکر موجود ہے۔ 3
- عنہ قتادہ ۔صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ". صحيح مسلم رقم (1162
یہ ایک طویل حدیث کا ایک ٹکڑا ہے ۔جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ عاشوراء کا روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے صغائر گنا ہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ 4
- صَامَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يَومَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بصِيَامِهِ قالوا: يا رَسولَ اللهِ، إنَّه يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ اليَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَقالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: فَإِذَا كانَ العَامُ المُقْبِلُ -إنْ شَاءَ اللَّهُ- صُمْنَا اليومَ التَّاسِعَ، قالَ: فَلَمْ يَأْتِ العَامُ المُقْبِلُ حتَّى تُوُفِّيَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ.۔مسلم 2634
اس حدیث میں عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے یہود ونصاری کی مخالفت کرنے کا ذکر ہے اور اس کے لئے اس عاشوراء کے ساتھ ایک اور روزہ یعنی نو تاریخ کا روزہ رکھنے کا ذکر ہے کہ اس سلسلہ یہی پیارے نبی صلی اللہ علیہ کی یہی خواہش تھی مگر راوی کہتے ہیں کہ اگلے سال آنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو پیارے ہوگئے۔ (خوف طوالت کے سبب احادیث مبارکہ کا ترجمہ نہیں کیاگیا ہے بلکہ صرف مفہوم پیش کیا گیا ہے۔ اگر آپ کو ضرورت محسوس تو اپنے کسی بھی عالم سے ترجمہ کرا سکتے ہیں۔ ) اس سلسلے میں بہت زیادہ حدیثیں موجود ہیں مگر سب کا خلاصہ تقریباً وہی ہے جو اوپر پیش کیا گیا ہے ۔
ماہ محرم اور واقعہ کربلا کے تعلق سے ہمیں لازمی طور یہ جاننا چاہیے کہ ماہ محرم اور عاشوراء کی اہمیت وفضیلت اور اس میں روزہ کی مشروعیت یہ سب کچھ واقعہ کربلا سے کم ازکم پچاس سال اور بعض احکام ساٹھ سال پیشتر زبان رسالت مآب سے ادا ہوچکے تھے ۔ اور صحابہ کرام میں یہ سب واقعات و احکامات معروف و مشہور تھے ۔ کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھا۔اور دین واقعہ کربلا سے پچاس سال پہلے الیوم اکملت لکم دینکم کی مہر کے ساتھ مکمل ہوچکا تھا۔اب نہ کسی کمی کی گنجائش تھی نہ زیادتی کی۔ بلکہ دلائل سے یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ عاشوراء اور ماہ محرم کی فضیلت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور سے موجود تھا اور یہود ونصاری کا اس پر عمل بھی تھا ۔
مگر ہائے رے مسلمانوں کی سادہ لوحی کہ جس چیز کو یاد رکھنا چاہیے تھا مسلمانوں نے اس کو فراموش کردیا اور جس سے روکا گیا اس کو دین کو لازمی جز بنا ڈالا ۔
میرے پیارے بھائیو
مانا کہ واقعہ کربلا اسی دن پیش آیا تھا تو کیا اس سے کوئی شرعی عمل ثابت ہوجائے گا۔دین تو اس سے بہت پہلے مکمل ہوچکا ہے۔ اب دین اور ثواب کے نام پر جو بھی زیادتی ہوگی تو کیا وہ بدعت نہیں ہوگی اور کیا اس سے بچنا ضروری نہیں ہوگا۔؟
مانا کہ شہادت حسین ایک اندوہناک سانحہ ہے تو کیا اس غم اور سوگ کو لوگ قیامت تک مناتے رہیں گے ۔جبکہ دین میں شوہر کی وفات پر بیوی کے لیے عدت کے ایام تک اور باقی تمام غم میں تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں۔
بفرض محال مانا کہ آپ سوگ ہی منا رہے ہیں تو پھر سوگ میں اچھل کود ڈھول باجا اور تلوار و نیزہ بازی کیا کسی پاگل پن کی علامت نہیں ہے ۔کاش آج بھی کوئی اپنے باپ یا بھائی یا کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر یا بزعم خویش برسی پر غم منانے کے نام پر یہ کربلائی حرکتیں کر بیٹھے اور لوگوں کے رد عمل کا انتظار کرے ۔ یقنا لوگ اس پرکس چیز کا لیبل لگائیں گے اور کیا کہیں گے وہ ہم سبھی جانتے ہیں۔ یقینا ہم میں سے کوئی بھی ایسی حرکت ہرگز نہیں کرے گا ورنہ لوگ اس کو پاگل کیں گے۔
مانا کہ شہادت حسین ایک افسوسناک سانحہ ہے مگر کیا شہادت سیدنا علی کم افسوسناک ہے؟ کیا شہادت سیدنا عمر کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ ،کیا شہات سیدنا عثمان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ ،کیا شہادت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنھم اجمعین کی کوئی وقعت نہیں ہے؟ ، کیا شہدائے بدر ،شہدائے احد ،شہدائے حنین اور دیگر تمام اجلہ شہدائے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شہادتوں کی کوئی قیمت نہیں ہے اگر ہے اور سچ مچ ہے اور آپ کے اند ر کوئی منافقت نہیں یے تو پھر سچ بتائیے ان میں سے آپ کس کس کا ماتم سوگ مناتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے بہت سے لوگوں کو ان اجلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تاریخ شہادت کا بھی پتہ نہیں ہوگا۔یہں سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں فریب ہے اور وہ اج بھی ہے۔
کاش ہم یہ جان لیں کہ خرافات اور بیوقوفی کیا ہے اور اصل دین کیا ہے ۔ ورنہ ہم۔کچھ بھی کرتے رہیں فرق کیا پڑتا ہے۔
اور یاد رکھئے جس کو فرق پڑنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے وہ محرم کے تمام خرافات سے دامن کو بچاتا ہے اور عاشوراء کے روزہ سے ایک سال کے تمام صغیرہ گناہوں کو بخشوانے کی فکر میں عاشوراء کا روزہ رکھنے کا اہتمام کرتا ہے ۔یقینا ایسے لوگ اللہ کے نیک بندے ہوتے ہیں ۔ان کی تعداد گرچہ کم ہوتی ہے مگر یہی حق پر ہوتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے آمین ۔