ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۴
ترقی کاراز
حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد جمالپوری صاحب المظاہری، استاد حدیث و فقہ: مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا (ہماچل پردیش)
مالک ارض وسماء خالق خلق معبود برحق نے مختلف اشیاءکو متفرق شکل وشبیہ عنایت فرماکر بحر وبر ومافوق السماء وماتحت الثری منتشر فرمادیا بعیدازشمارانسان مخلوقات میں سے بنی آدم کو شرف وقبول عطاء کیا جس کا نقشہ کچھ اس طرح قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا سورۂ اسراء آیت نمبر 70 کہ بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت برتری عطاء فرمائی۔ پھرمالک کائنات نے الگ الگ زمانوں میں یکے بعد دیگرے نوع انسانی کی رشد و ہدایت کے لئے اپنے ان برگزیدہ بندوں کو مبعوث فرمایا جوخالق ومخلوق کے مابین واسطہ بن سکیں جن کا تعلق خالق وخلق دونوں سے ہو انسان کو تمام تر فہم و فراست افہام وتفہیم عقل و شعور علم وفضل کی صلاحیت عطاء فرمانےکے باوجود جماعت انبیاء کرام علیہم السلام کومختلف ادوار میں متعدد اعمال وافعال کاپابند فرمایا کسی نبی نے انسان کو سینا پرونا سکھایا کسی نے خط وکتابت کسی نے بودوباش کی تبلیغ کی۔
غرض کہ دنیا من حیث الدنیا جب مکمل ہوگئی تو آخر میں اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب العرباء کےخطۂ حجاز میں مبعوث فرمایا ، ان کو تبلیغ دین میں کارآمد تمام تر اشیاء فراہم کیں ، کتاب مبین دی جس میں زندگی کےجملہ شعب کے اصول و ضوابط بیان فرمائے ، نبوت کے سلسلے کومن حیث النبوہ ختم فرمادیا جیسا کہ سورۂ احزاب کی آیت نمبر 40سےواضح ہے کہ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ تو اب انسانی ترقی کاراز کتاب وسنت کی پیروی میں مضمر ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے۔ تركتُ فيكم أَمْرَيْنِ لن تَضِلُّوا ما تَمَسَّكْتُمْ بهما : كتابَ اللهِ وسُنَّةَ نبيِّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ مؤطا امام مالک حدیث نمبر 2618 کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک آپ لوگ انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے، ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، الله تعالی کی کتاب اور اس کے نبی (ﷺ) کی سنت۔ جملہ شعبہائے حیات میں نبی کی مبارک زندگی اور فرمودات الاہی کومشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے شریعت محمدی میں تمام چھوٹے بڑے کام کرنے کے طرق واطوار مبین ہے ایک یہودی نے ایک مرتبہ چند اشخاص کی موجودگی میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے بطور استہزاء یہ کہا کہ تمہارے نبی نے تو تمہیں سب چیزیں سکھادی ہیں حتی کہ پاخانہ کرنا بھی، تو انہوں نے( فخریہ انداز میں) کہا: ہاں، بیشک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو پاخانہ اور پیشاب کے وقت قبلہ رخ ہونے، داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے ، استنجا میں تین سے کم پتھر استعمال کرنے اورگوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تجارت زراعت ریاضت سیاست وفقاہت سے لیکر خادم متمول دانشور حاکم ومحکوم کے اصول و ضوابط محبوب کبریا نے بالصراحت وبالاشارت وبالدلالت واضح فرمادئے دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات و حالات کے متعلق تعلیمات اسلامی جس قدر بےغبار ہے اس کی نظیر نہیں ملتی لیکن اس پرفتن مترقی دور میں جتنی غفلت احکام اسلام کی بجاآوری میں ہے شاید کسی اور چیز میں ہو وجہ اس کی ہے حقیر وفانی دنیا کی محبت اور ابدی حیات اخروی سے عدم مناسبت جبکہ پیدائش انسان کامقصد بتصریح قرآن وسنت سعادت اخروی کاحصول ہے۔ تعلیمات اسلامی پر جس قدر عمل کیا جائے گا دنیا میں ترقی ہوتی رہے گی سونے کھانے پینے پاخانہ پیشاب کے آداب کے ساتھ ساتھ مسجد میں جانے بازار وگھر میں دخول وخروج کے آداب کے ساتھ ساتھ اپنے پرائے کے حقوق کی نگہداشت میں اس قدرتساہل ہے کہ متدین درجہ کے افراد بھی دین محض سجدے کی چند ٹھونگوں کے علاوہ کسی اور چیز کو دین نہیں سمجھتے ہدایہ ثالث کے حاشیے میں امام محمد علیہ الرحمہ کاقول نقل فرمایا ہے کہ ان سے کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے زہد و تقویٰ میں کوئی کتاب تصنیف نہیں فرمائی جبکہ آپ کی ہرمعتبر فن میں کتاب محفوظ درقرطاس ہے تو آپ مجیب ہوئے کہ میں نے بیع و شراء میں کتب ترتیب دیدیں جس کے معاملات درست ہونگے وہ سب سے بڑا متقی ہے تقویٰ نام ہےگناہوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کا صرف نماز روزہ حج زکوٰۃ ہی نیک کام نہیں بلکہ کسی کی مدد کرنا چاہےوہ ظالم ہے یامظلوم بھوکےکوکھاناکھلاناپیاسےکوپانی پلاناغیرمنکوح کےنکاح کابندوبست کرانااپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دینا پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنامہمان کی ضیافت کرنا والدین بھائی بہن اولاد واقرباء کے حقوق کاخیال کرناراستہ بتلانا چاہے دنیاوی ہویااخروی سب نیک کاموں میں داخل ہےآج ہرآدمی اپنے کوبرتراوردوسرےکوبدتربنانےمیں کوشاں ہے جبکہ عزت و ذلت مالک کل کے قبضے میں ہے انسان کی سوچ راحت وسکون کے اسباب مہیا کرناہوضرررسانی مقصد نہ ہو تعلیم صرف زبان سے رٹنےکی حدتک رہ گئی اور اصلاح نفس خود کےبجایےدوسروں کی فکر ہوگئی ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنےآپ کودنیامیں اور دوسروں کوآخرت میں فلاح یاب کرانے کی لاحاصل تگ ودو میں اپنا قیمتی وقت صرف کررہے ہیں ہمارا مقصد حیات کیا ہے صرف چند روزہ فانی دنیا میں عیش و آرام کتنی چھوٹی سوچ کےمالک ہیں ہم جبکہ حق تعالیٰ انسان کو دنیا وآخرت کی خیر طلب کرنے کی سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 201 میں تلقین فرماتاہے۔ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ دعامانگوکہ اے ہمارے رب ہمیں دنیامیں خیر عطا فرما اور اخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور آگ کےعذاب سےبچا حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے،کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:’’اَللّٰہُمَّ رَبَّنَآ ٰاٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘(بخاری،حدیث نمبر 6389 کتاب الدعوات، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ۔۔۔ الخ،
لیکن ہمارامطمع نظر ومنتہاءعقل ومنبع فکر اور منشأ عمل صرف ناپائیدار دنیا ہےذراسوچیں اس گھڑی کو جب قبر میں جاناہوگاذراتصورکریں اس وقت کاجب حضور باری تعالیٰ جواب دہ ہونگے کیا یہ محلات لمبی لمبی عمارتیں عالیشان مساجد ومدارس ہمیں نجات دلاسکتے ہیں کیا ہمارے بھائی بہن والدین بیوی اولاد اعزاء و اقارب ہمیں بچاسکتے ہیں جبکہ سورۂ عبس میں قادرمطلق کافرمان ہے یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ(34)وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ(35)وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ(36)لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِؕ(37)۔ کہ اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا ۔اور اپنی ماں اور اپنے باپ۔اوراپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایک ایسی فکر ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا کردے گی۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُمَا سے روایت ہے،کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بے ختنہ شدہ اٹھائے جاؤ گے۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نے عرض کیا: یارسولَ اللّٰہ کیا لوگ ایک دوسرے کے ستر کو بھی دیکھیں گے؟ارشاد فرمایا: ’’اے عایشہ!’’لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ‘‘ ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایک ایسی فکرپڑی ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا کردے گی۔( ترمذی، حدیث نمبر 3343)۔ یاہماری جسمانی روحانی مالی طاقت قہار وجبار کےجبروقہرکےمقابلہ میں کسی زمرہ میں آسکتی ہے جبکہ مصور کائنات منقش درسورۂ رحمٰن ہے۔ يَٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِ إِنِ ٱسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُواْ مِنْ أَقْطَارِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ فَٱنفُذُواْ ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَٰنٍۢ سورۂ رحمٰن آیت نمبر 33۔ اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم سے ہوسکے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ،تم جہاں نکل کر جاؤ گے (وہاں ) اسی کی سلطنت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میری قضاء سے بھاگ سکتے ہو،میری سلطنت اور میرے آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو ان سے نکل جاؤ اور اپنی جانوں کو میرے عذاب سے بچا لو لیکن تم ا س بات پر قادر ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ تم جہاں بھی جاؤ گے وہیں میری سلطنت ہے۔ یہ حکم جنوں اور انسانوں کا عجز ظاہر کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔( جلالین، ص444 ) جب صورت حال یہ ہےکہ ہم طاقت خداوند تعالیٰ کامقابلہ بھی نہیں کرسکتے تو ہماری ترقی وحدہ لاشریک لہ کی اطاعت اوررسول خدا تاجدار بطحاء کی پیروی میں ہےہم ایمان لائیں تو مطلوب خدا اور نماز پڑھیں کامل اتباع رسول خدا میں ادا کریں جیساکہ حبیب رب ارشاد فرمائندہ ہے۔ صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ تم بعینہٖ اسی طرح نماز پڑھو، جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے (معلوم ہوا کہ نماز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہر ادا کو بجالانا ضروری ہے)
اس ارشادِ گرامی سے معلوم ہوا کہ ہماری نماز کی قولی و فعلی ہیئت و حالت ہُو بہو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے نمونے کے مطابق ہونی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہماری نمازیں جتنی زیادہ مطابقت و مماثلت رکھیں گی، انھیں دربارِ الٰہی میں اتنا ہی زیادہ شرفِ قبولیت بھی ملے گا۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ہمیں تمام احکامِ قرآن کی تفسیر و تشریح اپنے قول و فعل یا عملِ مبارک اور ارشاداتِ گرامی کی شکل میں عطا فرمائی ہے، وہیں نماز کا حکمِ الٰہی بھی ہمیں قولی و عملی شکل میں بہم پہنچایا۔ حج روزہ میں بھی اتباع سنت ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے اجارہ میں عقداجارہ مجیر مستاجر مستاجر بہ کے احکام بیع میں مبیع ثمن کی جملہ اقسام کی معرفت ودرک کے بغیر عمل کرنالاحاصل ہےبیع کی بہت سی قسمیں غیرشرعی وغیر فطری ہیں جن کو بغیر تحقیق حکم شرعی خواص و عوام انجام دے رہے ہیں دھوکہ دہی مکاری بےراہ روی تعیش احکام دینیہ سےبےاعتنائی ہماری سرشت میں پیوست ہوچکی ہے حسد کینہ بغض و عناد تکبر تفاخر جیسی بری خصلتوں کوتواضع تراحم شفقت مواخات ومحبت جیسی خصال حمیدہ کی جگہ ہم اپنائے چلے جارہے ہیں کل تک ہم دوسروں کی عزت و آبرو کے رکھوالے تھے آج بے آبرو کیسے ہوگئے کل تک ہم حاکم بااثر تھے آج محکوم ذلیل کیوں بن گئے جواب سب کا ایک ہی ہے کہ ہم نے شریعت محمدیہ کوپس پشت ڈال کر دشمنان دین ودنیا کی کامل پیروی میں اپنے قیمتی اثاثوں اور صلاحیتوں کو لگانا شروع کردیا دنیاکی محدود زندگی کوآخرت کی غیرمتناہی لامحدود حیات طیبہ پرترجیح دینا شروع کردیا جبکہ باری تعالیٰ ترقی کے رموز و اسرار اور تنزلی کے اسباب واعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سورۂ اعلی میں بیان کرتے ہیں سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى (10)جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ جلدی سمجھ جائے گا۔وَيَتَجَنَّـبُـهَا الْاَشْقَى (11)
اور بڑا بد نصیب (ہے جو) اس سے الگ رہے گا۔اَلَّذِىْ يَصْلَى النَّارَ الْكُبْـرٰى (12) جو سخت آگ میں داخل ہوگا۔ثُـمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْـهَا وَلَا يَحْيٰى (13) پھر اس میں نہ تو مرے گا اور نہ جیے گا۔قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّـٰى (14) بے شک وہ کامیاب ہوا جو پاک ہو گیا۔وَذَكَـرَ اسْـمَ رَبِّهٖ فَصَلّـٰى (15) اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَيَاةَ الـدُّنْيَا (16) بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ وَالْاٰخِرَةُ خَيْـرٌ وَّّاَبْقٰى (17) حالانکہ آخرت بہتر اور زیادہ پائیدار ہے۔اِنَّ هٰذَا لَفِى الصُّحُفِ الْاُوْلٰى (18). بے شک یہی پہلے صحیفوں میں ہے۔۔ تو مذکورہ بالا آیات کوسامنے رکھ کر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ترقی کا راز مضمر ہے رب کی فرمانبرداری پراس کےحبیب کے طریقے کے مطابق ہماری تنزلی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب علماء سےدوری اوران سے عناد ہے جبکہ رب گواہی دے رہے ہیں سورۂ فاطر آیت نمبر 28میں إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ کہ اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں بےشک اللہ عزت والا ، بخشنے والاہے۔ اس آیت کی ابتداء اور اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے نشان اور صَنعت کے آثار ذکر کئے جن سے اس کی ذات و صفات پر اِستدلال کیا جاسکتا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اور اس کی صفات کو جانتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم رکھتا ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو گا اور جس کا علم کم ہو گا تو اس کا خوف بھی کم ہو گا ۔۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کا خوف اس کو ہے جو اللہ تعالیٰ کے جَبَرُوت اور اس کی عزت و شان سے باخبر ہے۔ (مدارک التنزیل)
اس آیت سے چار باتیں معلوم ہوئیں :(1)خوف اور خَشیَت کا مدار ڈرنے والے کے علم اور ا س کی معرفت پر ہے اور چونکہ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں علم حضور صَلَّی اللہ وَسَلَّمَ کو ہے اس لئے آپ ہی مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے’’ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس کا خوف رکھنے والا ہوں ۔( بخاری، حدیث نمبر 6110، مسلم، حدیث نمبر 2356)۔
(2)لوگوں کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی صحیح طریقے سے معرفت اور علم حاصل کریں تاکہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہو۔
(3)علم والوں کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، لہٰذا علماء کو عام لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سےزیادہ ڈرنا چاہئے اور لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ حضرت علی کَرَّمَ اللہ وَجْہَہ فرماتے ہیں : ’’صحیح معنوں میں فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر انہیں جَری نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے انہیں بے خوف نہ کر ے اور قرآن کے بغیر کوئی چیز اسے اپنی طرف راغب نہ کر سکے۔( قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ 28) ایک شخص نے اما م شعبی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ سے عرض کیا’’مجھے فتویٰ دیجئے کہ عالِم کون ہے؟۔آپ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’عالم تو صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو۔ اورحضرت ربیع بن انس رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں وہ عالم نہیں۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: 28، 3 / 534)
(4) علم والے بہت مرتبے والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں مُنْحَصر فرمایا ،لیکن یاد رہے کہ یہاں علم والوں سے مراد وہ ہیں جو دین کا علم رکھتے ہوں اوران کے عقائد و اَعمال درست ہوں لہذا علماء سےدوری وتنفردراصل اپنےآپ کودین سےدورکرناہے رب سےدعاہےکہ وہ ہم سب کو دنیا وآخرت کی تمام تر ترقیات سے سرفراز فرمائے اور اپنے علماء کی قدر اور ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین۔
غرض کہ دنیا من حیث الدنیا جب مکمل ہوگئی تو آخر میں اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب العرباء کےخطۂ حجاز میں مبعوث فرمایا ، ان کو تبلیغ دین میں کارآمد تمام تر اشیاء فراہم کیں ، کتاب مبین دی جس میں زندگی کےجملہ شعب کے اصول و ضوابط بیان فرمائے ، نبوت کے سلسلے کومن حیث النبوہ ختم فرمادیا جیسا کہ سورۂ احزاب کی آیت نمبر 40سےواضح ہے کہ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ تو اب انسانی ترقی کاراز کتاب وسنت کی پیروی میں مضمر ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے۔ تركتُ فيكم أَمْرَيْنِ لن تَضِلُّوا ما تَمَسَّكْتُمْ بهما : كتابَ اللهِ وسُنَّةَ نبيِّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ مؤطا امام مالک حدیث نمبر 2618 کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک آپ لوگ انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے، ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، الله تعالی کی کتاب اور اس کے نبی (ﷺ) کی سنت۔ جملہ شعبہائے حیات میں نبی کی مبارک زندگی اور فرمودات الاہی کومشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے شریعت محمدی میں تمام چھوٹے بڑے کام کرنے کے طرق واطوار مبین ہے ایک یہودی نے ایک مرتبہ چند اشخاص کی موجودگی میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے بطور استہزاء یہ کہا کہ تمہارے نبی نے تو تمہیں سب چیزیں سکھادی ہیں حتی کہ پاخانہ کرنا بھی، تو انہوں نے( فخریہ انداز میں) کہا: ہاں، بیشک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو پاخانہ اور پیشاب کے وقت قبلہ رخ ہونے، داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے ، استنجا میں تین سے کم پتھر استعمال کرنے اورگوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تجارت زراعت ریاضت سیاست وفقاہت سے لیکر خادم متمول دانشور حاکم ومحکوم کے اصول و ضوابط محبوب کبریا نے بالصراحت وبالاشارت وبالدلالت واضح فرمادئے دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات و حالات کے متعلق تعلیمات اسلامی جس قدر بےغبار ہے اس کی نظیر نہیں ملتی لیکن اس پرفتن مترقی دور میں جتنی غفلت احکام اسلام کی بجاآوری میں ہے شاید کسی اور چیز میں ہو وجہ اس کی ہے حقیر وفانی دنیا کی محبت اور ابدی حیات اخروی سے عدم مناسبت جبکہ پیدائش انسان کامقصد بتصریح قرآن وسنت سعادت اخروی کاحصول ہے۔ تعلیمات اسلامی پر جس قدر عمل کیا جائے گا دنیا میں ترقی ہوتی رہے گی سونے کھانے پینے پاخانہ پیشاب کے آداب کے ساتھ ساتھ مسجد میں جانے بازار وگھر میں دخول وخروج کے آداب کے ساتھ ساتھ اپنے پرائے کے حقوق کی نگہداشت میں اس قدرتساہل ہے کہ متدین درجہ کے افراد بھی دین محض سجدے کی چند ٹھونگوں کے علاوہ کسی اور چیز کو دین نہیں سمجھتے ہدایہ ثالث کے حاشیے میں امام محمد علیہ الرحمہ کاقول نقل فرمایا ہے کہ ان سے کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے زہد و تقویٰ میں کوئی کتاب تصنیف نہیں فرمائی جبکہ آپ کی ہرمعتبر فن میں کتاب محفوظ درقرطاس ہے تو آپ مجیب ہوئے کہ میں نے بیع و شراء میں کتب ترتیب دیدیں جس کے معاملات درست ہونگے وہ سب سے بڑا متقی ہے تقویٰ نام ہےگناہوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کا صرف نماز روزہ حج زکوٰۃ ہی نیک کام نہیں بلکہ کسی کی مدد کرنا چاہےوہ ظالم ہے یامظلوم بھوکےکوکھاناکھلاناپیاسےکوپانی پلاناغیرمنکوح کےنکاح کابندوبست کرانااپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دینا پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنامہمان کی ضیافت کرنا والدین بھائی بہن اولاد واقرباء کے حقوق کاخیال کرناراستہ بتلانا چاہے دنیاوی ہویااخروی سب نیک کاموں میں داخل ہےآج ہرآدمی اپنے کوبرتراوردوسرےکوبدتربنانےمیں کوشاں ہے جبکہ عزت و ذلت مالک کل کے قبضے میں ہے انسان کی سوچ راحت وسکون کے اسباب مہیا کرناہوضرررسانی مقصد نہ ہو تعلیم صرف زبان سے رٹنےکی حدتک رہ گئی اور اصلاح نفس خود کےبجایےدوسروں کی فکر ہوگئی ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنےآپ کودنیامیں اور دوسروں کوآخرت میں فلاح یاب کرانے کی لاحاصل تگ ودو میں اپنا قیمتی وقت صرف کررہے ہیں ہمارا مقصد حیات کیا ہے صرف چند روزہ فانی دنیا میں عیش و آرام کتنی چھوٹی سوچ کےمالک ہیں ہم جبکہ حق تعالیٰ انسان کو دنیا وآخرت کی خیر طلب کرنے کی سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 201 میں تلقین فرماتاہے۔ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ دعامانگوکہ اے ہمارے رب ہمیں دنیامیں خیر عطا فرما اور اخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور آگ کےعذاب سےبچا حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے،کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:’’اَللّٰہُمَّ رَبَّنَآ ٰاٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘(بخاری،حدیث نمبر 6389 کتاب الدعوات، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ۔۔۔ الخ،
لیکن ہمارامطمع نظر ومنتہاءعقل ومنبع فکر اور منشأ عمل صرف ناپائیدار دنیا ہےذراسوچیں اس گھڑی کو جب قبر میں جاناہوگاذراتصورکریں اس وقت کاجب حضور باری تعالیٰ جواب دہ ہونگے کیا یہ محلات لمبی لمبی عمارتیں عالیشان مساجد ومدارس ہمیں نجات دلاسکتے ہیں کیا ہمارے بھائی بہن والدین بیوی اولاد اعزاء و اقارب ہمیں بچاسکتے ہیں جبکہ سورۂ عبس میں قادرمطلق کافرمان ہے یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ(34)وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ(35)وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ(36)لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِؕ(37)۔ کہ اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا ۔اور اپنی ماں اور اپنے باپ۔اوراپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایک ایسی فکر ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا کردے گی۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُمَا سے روایت ہے،کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بے ختنہ شدہ اٹھائے جاؤ گے۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا نے عرض کیا: یارسولَ اللّٰہ کیا لوگ ایک دوسرے کے ستر کو بھی دیکھیں گے؟ارشاد فرمایا: ’’اے عایشہ!’’لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ‘‘ ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایک ایسی فکرپڑی ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا کردے گی۔( ترمذی، حدیث نمبر 3343)۔ یاہماری جسمانی روحانی مالی طاقت قہار وجبار کےجبروقہرکےمقابلہ میں کسی زمرہ میں آسکتی ہے جبکہ مصور کائنات منقش درسورۂ رحمٰن ہے۔ يَٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِ إِنِ ٱسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُواْ مِنْ أَقْطَارِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ فَٱنفُذُواْ ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَٰنٍۢ سورۂ رحمٰن آیت نمبر 33۔ اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم سے ہوسکے کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ،تم جہاں نکل کر جاؤ گے (وہاں ) اسی کی سلطنت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میری قضاء سے بھاگ سکتے ہو،میری سلطنت اور میرے آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو ان سے نکل جاؤ اور اپنی جانوں کو میرے عذاب سے بچا لو لیکن تم ا س بات پر قادر ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ تم جہاں بھی جاؤ گے وہیں میری سلطنت ہے۔ یہ حکم جنوں اور انسانوں کا عجز ظاہر کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔( جلالین، ص444 ) جب صورت حال یہ ہےکہ ہم طاقت خداوند تعالیٰ کامقابلہ بھی نہیں کرسکتے تو ہماری ترقی وحدہ لاشریک لہ کی اطاعت اوررسول خدا تاجدار بطحاء کی پیروی میں ہےہم ایمان لائیں تو مطلوب خدا اور نماز پڑھیں کامل اتباع رسول خدا میں ادا کریں جیساکہ حبیب رب ارشاد فرمائندہ ہے۔ صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ تم بعینہٖ اسی طرح نماز پڑھو، جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے (معلوم ہوا کہ نماز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہر ادا کو بجالانا ضروری ہے)
اس ارشادِ گرامی سے معلوم ہوا کہ ہماری نماز کی قولی و فعلی ہیئت و حالت ہُو بہو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے نمونے کے مطابق ہونی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہماری نمازیں جتنی زیادہ مطابقت و مماثلت رکھیں گی، انھیں دربارِ الٰہی میں اتنا ہی زیادہ شرفِ قبولیت بھی ملے گا۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ہمیں تمام احکامِ قرآن کی تفسیر و تشریح اپنے قول و فعل یا عملِ مبارک اور ارشاداتِ گرامی کی شکل میں عطا فرمائی ہے، وہیں نماز کا حکمِ الٰہی بھی ہمیں قولی و عملی شکل میں بہم پہنچایا۔ حج روزہ میں بھی اتباع سنت ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے اجارہ میں عقداجارہ مجیر مستاجر مستاجر بہ کے احکام بیع میں مبیع ثمن کی جملہ اقسام کی معرفت ودرک کے بغیر عمل کرنالاحاصل ہےبیع کی بہت سی قسمیں غیرشرعی وغیر فطری ہیں جن کو بغیر تحقیق حکم شرعی خواص و عوام انجام دے رہے ہیں دھوکہ دہی مکاری بےراہ روی تعیش احکام دینیہ سےبےاعتنائی ہماری سرشت میں پیوست ہوچکی ہے حسد کینہ بغض و عناد تکبر تفاخر جیسی بری خصلتوں کوتواضع تراحم شفقت مواخات ومحبت جیسی خصال حمیدہ کی جگہ ہم اپنائے چلے جارہے ہیں کل تک ہم دوسروں کی عزت و آبرو کے رکھوالے تھے آج بے آبرو کیسے ہوگئے کل تک ہم حاکم بااثر تھے آج محکوم ذلیل کیوں بن گئے جواب سب کا ایک ہی ہے کہ ہم نے شریعت محمدیہ کوپس پشت ڈال کر دشمنان دین ودنیا کی کامل پیروی میں اپنے قیمتی اثاثوں اور صلاحیتوں کو لگانا شروع کردیا دنیاکی محدود زندگی کوآخرت کی غیرمتناہی لامحدود حیات طیبہ پرترجیح دینا شروع کردیا جبکہ باری تعالیٰ ترقی کے رموز و اسرار اور تنزلی کے اسباب واعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سورۂ اعلی میں بیان کرتے ہیں سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى (10)جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ جلدی سمجھ جائے گا۔وَيَتَجَنَّـبُـهَا الْاَشْقَى (11)
اور بڑا بد نصیب (ہے جو) اس سے الگ رہے گا۔اَلَّذِىْ يَصْلَى النَّارَ الْكُبْـرٰى (12) جو سخت آگ میں داخل ہوگا۔ثُـمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْـهَا وَلَا يَحْيٰى (13) پھر اس میں نہ تو مرے گا اور نہ جیے گا۔قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّـٰى (14) بے شک وہ کامیاب ہوا جو پاک ہو گیا۔وَذَكَـرَ اسْـمَ رَبِّهٖ فَصَلّـٰى (15) اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی۔بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَيَاةَ الـدُّنْيَا (16) بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ وَالْاٰخِرَةُ خَيْـرٌ وَّّاَبْقٰى (17) حالانکہ آخرت بہتر اور زیادہ پائیدار ہے۔اِنَّ هٰذَا لَفِى الصُّحُفِ الْاُوْلٰى (18). بے شک یہی پہلے صحیفوں میں ہے۔۔ تو مذکورہ بالا آیات کوسامنے رکھ کر یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ترقی کا راز مضمر ہے رب کی فرمانبرداری پراس کےحبیب کے طریقے کے مطابق ہماری تنزلی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب علماء سےدوری اوران سے عناد ہے جبکہ رب گواہی دے رہے ہیں سورۂ فاطر آیت نمبر 28میں إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ کہ اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں بےشک اللہ عزت والا ، بخشنے والاہے۔ اس آیت کی ابتداء اور اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے نشان اور صَنعت کے آثار ذکر کئے جن سے اس کی ذات و صفات پر اِستدلال کیا جاسکتا ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اور اس کی صفات کو جانتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم رکھتا ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو گا اور جس کا علم کم ہو گا تو اس کا خوف بھی کم ہو گا ۔۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کا خوف اس کو ہے جو اللہ تعالیٰ کے جَبَرُوت اور اس کی عزت و شان سے باخبر ہے۔ (مدارک التنزیل)
اس آیت سے چار باتیں معلوم ہوئیں :(1)خوف اور خَشیَت کا مدار ڈرنے والے کے علم اور ا س کی معرفت پر ہے اور چونکہ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں علم حضور صَلَّی اللہ وَسَلَّمَ کو ہے اس لئے آپ ہی مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے’’ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس کا خوف رکھنے والا ہوں ۔( بخاری، حدیث نمبر 6110، مسلم، حدیث نمبر 2356)۔
(2)لوگوں کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی صحیح طریقے سے معرفت اور علم حاصل کریں تاکہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہو۔
(3)علم والوں کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں ، لہٰذا علماء کو عام لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سےزیادہ ڈرنا چاہئے اور لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ حضرت علی کَرَّمَ اللہ وَجْہَہ فرماتے ہیں : ’’صحیح معنوں میں فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر انہیں جَری نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے انہیں بے خوف نہ کر ے اور قرآن کے بغیر کوئی چیز اسے اپنی طرف راغب نہ کر سکے۔( قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ 28) ایک شخص نے اما م شعبی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ سے عرض کیا’’مجھے فتویٰ دیجئے کہ عالِم کون ہے؟۔آپ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’عالم تو صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو۔ اورحضرت ربیع بن انس رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں وہ عالم نہیں۔( خازن، فاطر، تحت الآیۃ: 28، 3 / 534)
(4) علم والے بہت مرتبے والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں مُنْحَصر فرمایا ،لیکن یاد رہے کہ یہاں علم والوں سے مراد وہ ہیں جو دین کا علم رکھتے ہوں اوران کے عقائد و اَعمال درست ہوں لہذا علماء سےدوری وتنفردراصل اپنےآپ کودین سےدورکرناہے رب سےدعاہےکہ وہ ہم سب کو دنیا وآخرت کی تمام تر ترقیات سے سرفراز فرمائے اور اپنے علماء کی قدر اور ان سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین۔