ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۴
انصاف کی آبرو
مولانا ارشد کبیر خاقان المظاہری،جنرل سکریٹری:تنظیم فلاح ملت، مرکزی دفتر:مدرسہ نور المعارف،مولانا علی میاں نگر، دیا گنج،ضلع ارریہ:مدیر مسئول ماہنامہ "الفاران"
حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام سے پیغمبرِ آخر الزماں حضرتﷺ تک جتنے بھی انبیاء کرام مبعوث ہوئے اور کتبِ سماویہ نازل ہوئیں ان سب کااہم مقصد یہی تھا کہ اس کے ذریعہ دنیا میں انصاف اور اسکی بدولت امن و امان کا قیام عمل میں آئے قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے نبی پاک علیہ السلام یہ اعلانِ عام کی ہدایت فرمائی و امرت لاعدل بینکم مجھے اللہ کی طرف سے تمہارے درمیان عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے میرا یہ کام نہیں کہ کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب برتوں،میرا سب انسانوں سے یکسا ں تعلق ہے اور وہ ہے عدل و انصاف کا تعلق۔ حق جس کے ساتھ ہو میں اس کا ساتھی ہوں، حق جس کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں میرے دین میں کسی کے لئے کوئی بھی امتیاز و تفریق نہیں ہے،اپنے اور غیر، چھوٹے اور بڑے، شریف اور کمین کے لئے الگ الگ حقوق نہیں ہیں جو کچھ حق ہے وہ سب کے لئے حق، جو حرام ہے وہ سب کے لئے حرام اور جو فرض ہے وہ سب کے لئے فرض ہے۔ میری ذات بھی قانونِ خداوندی کے اس ہمہ گیر اصول سے مستثنیٰ نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔انما ہلک من کان قبلکم انھم کانو یقیمون الحدّعلی الوضع ویترکون الشریف والذی نفس محمد بیدہ لو ان فاطمۃ بنت محمد فعلت ذالک لقطعت۔تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ اسی لئے تو تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کمتر درجہ کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے اور اونچے درجہ والوں کو چھوڑ دیتے تھے، قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر محمدﷺ کی بیٹی سے بھی چوری سرزد ہوتی تو میں ضرور اسکا ہاتھ کاٹ دیتا۔
مدینہ منورہ میں اکثر غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف مقدمے رسولِ پاک علیہ السلام کی خدمت میں لاتے تھے اس میں غیر مسلموں کے حق میں بھی فیصلے ہوا کرتے تھے، بسا اوقات یہ مقدمے نامی گرامی اور جلیل القدر صحابہ کے خلاف بھی ہوتے تھے۔
حضر ت عمر ؓ فرماتے ہیں رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقید من نفسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنی ذات سے بدلہ دیتے دیکھا ہے۔
بعینہ ایسی ہی صفات سے آپ کے اصحاب اور شیدائیانِ اسلام آراستہ تھے حق و انصاف کی راہ میں ثابت قدمی کا ثبوت دیکر رہتی دنیا تک کے لئے درسِ عبرت چھوڑ گئے انہیں میں حضرت عمر فاروق ؓ کے انصاف کا عبرت ناک اور سبق آموز واقعہ وہ ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے اپنی گراں قدر تصنیف ازالۃ الخفاء میں ذکر فرمایا ہے۔
ایک بار حضرت ابن عباس ؓ کی مجلس میں فضائلِ خلفا ء کے تذکرے کے درمیان جب خلیفہئ وقت سیدناحضرت عمر فاروقؓ کا نام آیا تو حضرت ابن عباس کی آنکھیں بے اختیار اشکبار ہو گئیں آپ بیہوش ہو گئے،ہوش آنے پر لوگوں نے دریافت کیا آپ ہمیں وہ واقعہ بتائیں جس کی یاد نے آپ کو بے تاب اوراشکبار کردیا۔حضرت ابن عباس ؓ نے درد بھری آواز میں وہ دلدوز واقعہ سنایا۔
ایک بار سیدنا حضرت عمر فاوق ؓ مسجدِ نبوی علیہ الصلوٰۃ السلام میں صحابہ کے درمیان جلوہ افروز تھے اچانک ایک نو جوان لڑکی آکھڑی ہوئی اسکی گود میں نو مولود بچہ تھا اس نے عرض کیا!آپ کی خدمت میں فریاد لے کر حاضر ہوئی ہوں فاروقِ اعظم ؓ نے مدعا بیان کرنی کی ہدایت کی۔
لڑکی نے نمنا ک آنکھوں سے بیان کیا یہ میرا بچہ اپکے فرزند ابو شحمہ سے ہے آپ نے خدا کا حوالہ دیکر اصل واقعہ کی تفصیل چاہی۔وہ بھرائی آوازمیں یوں واقعہ بیان کرنے لگی۔
میں ایک دن بنی نجارکے باغ سے گزر رہی تھی ابو شحمہ نے نشہ میں چور مجھے آدبوچا اور قہراً جبراً میری چادرِ عفت کو تار تار کر دیا جسکو میں نے آج تک چھپائے رکھا آج جب کے دردزہ لاحق ہوا تو میں جنگل گئی اور میرے بطن سے یہ فرزند پیدا ہوا میں چاہتی تھی کہ اس بچہ کو قتل کر کے دفن کردوں تا کہ دریدہئ عصمت کا بدنماداغ ہمیشہ کے لئے مٹ جائے مگر خدا کے خوف نے میرا ہاتھ تھام لیا۔اب خدا اور اس کے رسول ﷺکے حکم سے مطلع فرمائیے تا کہ آخرت کی رسوائی سے خلاصی ہو۔
حضرت عمر ؓ احوالِ شکستہ سن کر چوبدار کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کردے کہ تمام مسلمان اسی وقت مسجدِ نبوی ؐمیں جمع ہو جائیں لوگوں کو بٹھا کر آپ نے مکان پردستک دی اور فرمایا ابو شحمہ ہے؟ وہ کھانا کھا رہا ہے جواب ملا! آپ اندر تشریف لے گئے اور فرمایا بیٹا کھا لو!شاید تمہاری زندگی کا یہ آخری کھانا ہو یہ سن کر ابو شحمہ سہم گیا چہرہ کا رنگ فق اور لقمہ ہاتھ سے چھوٹ گیا جسم پر کپکپی طاری ہو گئی حضر ت عمرؓ نے قسم دیکر سوال کیا؟یہ سچ ہے کہ تو نشہ کی حالت میں جازیہ کنیز کے ساتھ بنی نجار کے باغ میں فعلِ حرام کا مرتکب ہوا تھا؟ ابوشحمہ دم بخود ہو گیا آپ نے واقعہ کی تصدیق چاہی اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
اسکے بعد حضرت عمر ؓ نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور مسجدِ نبوی ؐ کا راستہ اختیار کیا ابو شحمہ نے راہ میں باپ سے التجا کی کہ مجھے مجمعِ عام کی رسوائی سے بچا کر بند کمرے میں جو چاہے سزا دیں باپ نے جواب دیا بیٹا! خدا کا حکم دیکھوں یا تمہاری درخواست پر توجہ دوں؟ خداکا توفرمان ہے کہ سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود ہو چنانچہ مسجدِ نبوی ؐ پہنچ کر فرمایا! عورت سچی ہے!ابو شحمہ اس کی تصدیق کرتا ہے لہٰذا حدّز نا سو کوڑے مارنے کا افلح غلام کو حکم دے دیا افلح حکم سنتے ہی لرز گیا فریاد کرنے لگا آقا! زادے کو کوڑے سے ماروں یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا۔
حضرت عمر ؓ نے فرمایا افلح! تجھے خدا اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے غرض ہے یا میر ی اولاد کی دلجوئی سے واسطہ! وہ کرو! جس کا حکم ِ خدا تقاضہ کرتا ہے، افلح نے کانپتے ہاتھوں سے ابو شحمہ کے جسم سے کپڑ ااتارا حاضرین یہ منظر دیکھ کر عَش عَش کرنے لگے خودحضرت عمرؓ کی آنکھیں آنسوں میں تیر نے لگیں،اس حا ل میں آپ فرما رہے تھے بیٹے! یہ اس لئے ہے کہ اللہ تجھ پر اور مجھ پر رحم فرمائے حضرت عمر ؓ نے سزا جلد پورا کرنے کی تاکید فرمائی! ابو شحمہ کے نازک جسم پر کوڑوں کی بارش شروع ہو گئی وہ چیخ و پکار کے درمیان بار بار رحم کی اپیل کرتا حضرت امیر المؤمنین اسکو صبر کی تلقین فرماتے! اسّی کوڑے کی نوبت پر آواز بند ہو گئی صورت مرجھا گئی حاضرین مجلس بے چین ہو گئے سیدنا فاروقِ اعظم سے درخواست کی تھوڑی دیر سزا موقوف فرما دیجئے! آپ نے جواب دیا!کہ جب گناہ میں تاخیر نہیں ہوئی تھی تو سزا میں دیر کے کیا معنیٰ!
ابو شحمہ کی والدہ روتی ہوئی مسجدِ نبوی ؐ کے دروازے تک آئی اور التجا کرنے لگی! میرے بیٹے کو مزید کوڑے نہ مارے جائیں میں ہر کوڑے کے بدلے ایک ایک پیدل حج اور اسکی مقدار صدقہ بھی ادا کروں گی۔
حضرت عمر ؓنے یہ کہتے ہوئے انکار فرما دیا! حج اور صدقہ سزا کا بدل نہیں ہو سکتا آپ نے بقیہ کوڑے مارنے کا حکم دے دیا! آخری کوڑے پر ابوشحمہ کی جان جسم سے پرواز کر گئی فاروقِ اعظم ؓ نے اپنے لختِ جگر کا مردہ جسم دیکھ کر ارشاد فرمایا بیٹا! خدا تیرے گناہوں سے تجھے پاک کرے، بے اختیار رو پڑے اور دیر گئے تک سر اپنی زانوں پر رکھ کر دعائے خیر کرتے رہے۔
حضراتِ صحابہ کرام ؓ کی زندگی ایسے ہی بے مثال کارناموں سے بھر ی پڑی ہے یہی وجہ تھی جب حق و انصاف تھا شیراور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے،جب سے حق و انصا ف سے دوری ہوئی،بد امنی اور انارکی کا راج شروع ہو گیا حقیقت ہے اگر آج انصاف ہوتا تو فسادات رونما نہ ہوتے، شکایتیں نہ ہوتیں، اسٹرائک اور مظاہرے نہ ہوتے۔
حق و انصاف پسندی کے بے شمار واقعات سلطان محمود غزنوی ؒ سے وابستہ ہیں ”تاریخ فرشتہ“ میں ایک سبق آموز واقعہ ہے، ایک شخص آپ کے دربار میں انصاف حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوا اور سلطان محمود سے فریاد کرنے لگا ”میری شکایت ایسی نہیں جس کو بھری مجلس میں سنایا جا سکے“ محمود فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور اکیلے میں اسکا حالِ زار سن نے لگا اس نے اپنی داستانِ غم یوں سنائی۔
”میں ایک غریب انسان ہوں، ایک مدت سے آپ کے بھانجہ نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ ہر رات ہتھیار سے لیس میرے گھر آتا ہے،مجھے کوڑے مار کر باہر نکال دیتا ہے اور پھر وہ تمام رات میری بیوی کے ساتھ ہوس پوری کرتا ہے،کئی بار آ پ کے وزرا ء سے شکایت بھی کی، لیکن ایک نہ سنی اب میں نے آپ کی توجہ پاتے ہی انصاف کی امیدپر آپ بیتی سنا دی اگر آپ رحم فرما کر انصاف کردیں تو زہے نصیب ورنہ پھر خدا کے منصفانہ فیصلہ کا انتظار کرتا رہوں گا“
سلطان محمود پر اس واقعہ کا گہرا اثر پڑا، وہ رونے لگا اور کہا مجھے پہلے ہی مطلع کیا ہوتا اس نے کہا میں نے بارہا حاضری کی کوشش کی، لیکن درباریوں نے میری روک تھام کی، آج نظریں بچا کر آپ تک پہنچ سکا ہوں،سلطان نے کہا میری اس گفتگو کا کہیں ذکر نہ کرنا اور اسکا خیا رکھنا کہ وہ بد بخت جب تمہارے گھر آئے اور اس جرم کا ارتکاب کرے تو مجھے بلا تاخیر خبر دینا! اس وقت تمہیں انصاف دلا ؤں گا اس کی بدکرداری کی عبرتناک سزا دونگا۔
سلطان نے دربار یوں کوبلا کر حکم دیا کہ جب بھی یہ شخص میرے پاس آنا چاہے بغیر کسی اطلاع اور روک ٹوک کے میرے پاس حاضر کر دینا دربانوں کے جانے کے بعد سلطان نے چپکے سے کہا احتیاطا ً تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ اتفاقاً چوکیدا رمیری مشغولیت یا آرام کا عذر بتا کر تمہیں ٹالنا چاہے تو تم فلاں گوشے سے میرے پاس آجانا۔ اس گفتگو کے بعد محمود اس شخص کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
تیسری رات جب سلطان کا بھانجہ عادت کے مطابق اسکے گھر آیا تو اس نے بادشاہ کو اطلاع دینے کی خاطر دربانوں سے اجازت چاہی، دربانوں نے بہانہ بنایا کہ سلطان محل سرائے میں ہیں۔بے چارہ اس راستہ سے جس کی طرف سلطان نے اشارہ کیا تھا اندر داخل ہو کر آواز لگائی!بادشاہ فوراً ہمراہ ہو گیا، پہنچ کر وہی ماجرہئ نا دیدنی دیکھا کہ سلطان کا بھانجہ غریب کی بیوی کے ساتھ ہم آغوش ہے اور شمع اسکے پلنگ کے سرہانے جل رہی ہے اور اسکے کالے اور متعفن کردار کی گواہی دے رہی ہے۔
محمود سرمست کو دیکھ کر غضبناک ہو گیا، شمع بجھا کر خنجر سے نا عاقبت اندیش کا سر تن سے جُدا کر دیا، معاً محمود نے کہا!مجھے پانی پلاؤ تا کہ اپنی بے تابی دور کروں، محمودپانی پیکر اپنی جگہ سے اُٹھا اور غریب سے اجازت چاہی اور کہا! اب تم چین سے زندگی بسر کرو۔
رخصت ہو تے وقت غریب نے عاجزی کی اور کہا جہاں پناہ! آپ پر قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو عظیم الشان رتبہ اور گوہرِ انصاف سے سرفراز فرمایا اگر مزید ذرّہ نوازی ہو تو بتاتے جائیں کہ شمع گل کرنے اور سر تن سے جدا کرنے کے بعد پانی پینے کی وجہ کیا تھی؟ سلطان نے جواب دیا! ظالم کا سر تن سے جدا کر کے ہمیشہ کے لئے تمہیں راحت نصیب ہوئی شمع اس لئے بجھائی تھی کہ کہیں روشنی میں بھانجہ کا چہرہ نظر نہ آجائے اور میں ترس کھا کر انصاف کی تکمیل سے رُک جاؤں اور آبروئے انصاف پارہ پارہ ہو جائے،پانی کی بے تابی اسلئے تھی کہ جب تم نے رودادِ الم سنائی تھی۔ اسی وقت میں نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک تمہارے ساتھ پورا انصاف نہ ہوگا اس وقت نہ کھانا کھاؤں گا نہ ہی پیاس بجھاؤں گا۔
ایسے ہی عظیم کارناموں سے زندہ ہے محمود غزنوی کی مبارک زندگی اور ان کا محترم نام!
اب بھی خدا شناسی، ملک دوستی اور اس کے ساتھ وفاداری کا حق یہ کہ ہر فرد اپنے دائرہئ اختیار میں انصاف کو اپنا شعار بنا لے جج ہو، تو صحیح انصاف کرے،حاکمِ وقت ہو، تو ایک سا معاملہ کرے،دفتری ملازم ہو، تو سب کی خدمت کرے، محلہ دار ہو، تو پڑوسیوں کی خبر گیری کرے،شہری ہو، تو سب کے دکھ درد میں شریک رہے۔
اگر یہ تعلیم ہماری مجلسوں، درسگاہوں،مندروں،مسجدوں،کلیساؤں اور گردواروں میں ہونے لگے تو ہمارا ملک جنت کا نمونہ بن جائے۔
در اصل کسی ملک اور قوم کی ترقی کا راز اس میں ہے کہ اسکے اندر اس قسم کے زندہ افراد ہوں جو مصلحت اور ذاتی مفاد کے مقابلہ میں عوامی فائدہ اور اصول کو اہمیت دیتے ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔انما ہلک من کان قبلکم انھم کانو یقیمون الحدّعلی الوضع ویترکون الشریف والذی نفس محمد بیدہ لو ان فاطمۃ بنت محمد فعلت ذالک لقطعت۔تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ اسی لئے تو تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کمتر درجہ کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے اور اونچے درجہ والوں کو چھوڑ دیتے تھے، قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر محمدﷺ کی بیٹی سے بھی چوری سرزد ہوتی تو میں ضرور اسکا ہاتھ کاٹ دیتا۔
مدینہ منورہ میں اکثر غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف مقدمے رسولِ پاک علیہ السلام کی خدمت میں لاتے تھے اس میں غیر مسلموں کے حق میں بھی فیصلے ہوا کرتے تھے، بسا اوقات یہ مقدمے نامی گرامی اور جلیل القدر صحابہ کے خلاف بھی ہوتے تھے۔
حضر ت عمر ؓ فرماتے ہیں رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقید من نفسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنی ذات سے بدلہ دیتے دیکھا ہے۔
بعینہ ایسی ہی صفات سے آپ کے اصحاب اور شیدائیانِ اسلام آراستہ تھے حق و انصاف کی راہ میں ثابت قدمی کا ثبوت دیکر رہتی دنیا تک کے لئے درسِ عبرت چھوڑ گئے انہیں میں حضرت عمر فاروق ؓ کے انصاف کا عبرت ناک اور سبق آموز واقعہ وہ ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے اپنی گراں قدر تصنیف ازالۃ الخفاء میں ذکر فرمایا ہے۔
ایک بار حضرت ابن عباس ؓ کی مجلس میں فضائلِ خلفا ء کے تذکرے کے درمیان جب خلیفہئ وقت سیدناحضرت عمر فاروقؓ کا نام آیا تو حضرت ابن عباس کی آنکھیں بے اختیار اشکبار ہو گئیں آپ بیہوش ہو گئے،ہوش آنے پر لوگوں نے دریافت کیا آپ ہمیں وہ واقعہ بتائیں جس کی یاد نے آپ کو بے تاب اوراشکبار کردیا۔حضرت ابن عباس ؓ نے درد بھری آواز میں وہ دلدوز واقعہ سنایا۔
ایک بار سیدنا حضرت عمر فاوق ؓ مسجدِ نبوی علیہ الصلوٰۃ السلام میں صحابہ کے درمیان جلوہ افروز تھے اچانک ایک نو جوان لڑکی آکھڑی ہوئی اسکی گود میں نو مولود بچہ تھا اس نے عرض کیا!آپ کی خدمت میں فریاد لے کر حاضر ہوئی ہوں فاروقِ اعظم ؓ نے مدعا بیان کرنی کی ہدایت کی۔
لڑکی نے نمنا ک آنکھوں سے بیان کیا یہ میرا بچہ اپکے فرزند ابو شحمہ سے ہے آپ نے خدا کا حوالہ دیکر اصل واقعہ کی تفصیل چاہی۔وہ بھرائی آوازمیں یوں واقعہ بیان کرنے لگی۔
میں ایک دن بنی نجارکے باغ سے گزر رہی تھی ابو شحمہ نے نشہ میں چور مجھے آدبوچا اور قہراً جبراً میری چادرِ عفت کو تار تار کر دیا جسکو میں نے آج تک چھپائے رکھا آج جب کے دردزہ لاحق ہوا تو میں جنگل گئی اور میرے بطن سے یہ فرزند پیدا ہوا میں چاہتی تھی کہ اس بچہ کو قتل کر کے دفن کردوں تا کہ دریدہئ عصمت کا بدنماداغ ہمیشہ کے لئے مٹ جائے مگر خدا کے خوف نے میرا ہاتھ تھام لیا۔اب خدا اور اس کے رسول ﷺکے حکم سے مطلع فرمائیے تا کہ آخرت کی رسوائی سے خلاصی ہو۔
حضرت عمر ؓ احوالِ شکستہ سن کر چوبدار کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کردے کہ تمام مسلمان اسی وقت مسجدِ نبوی ؐمیں جمع ہو جائیں لوگوں کو بٹھا کر آپ نے مکان پردستک دی اور فرمایا ابو شحمہ ہے؟ وہ کھانا کھا رہا ہے جواب ملا! آپ اندر تشریف لے گئے اور فرمایا بیٹا کھا لو!شاید تمہاری زندگی کا یہ آخری کھانا ہو یہ سن کر ابو شحمہ سہم گیا چہرہ کا رنگ فق اور لقمہ ہاتھ سے چھوٹ گیا جسم پر کپکپی طاری ہو گئی حضر ت عمرؓ نے قسم دیکر سوال کیا؟یہ سچ ہے کہ تو نشہ کی حالت میں جازیہ کنیز کے ساتھ بنی نجار کے باغ میں فعلِ حرام کا مرتکب ہوا تھا؟ ابوشحمہ دم بخود ہو گیا آپ نے واقعہ کی تصدیق چاہی اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
اسکے بعد حضرت عمر ؓ نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور مسجدِ نبوی ؐ کا راستہ اختیار کیا ابو شحمہ نے راہ میں باپ سے التجا کی کہ مجھے مجمعِ عام کی رسوائی سے بچا کر بند کمرے میں جو چاہے سزا دیں باپ نے جواب دیا بیٹا! خدا کا حکم دیکھوں یا تمہاری درخواست پر توجہ دوں؟ خداکا توفرمان ہے کہ سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود ہو چنانچہ مسجدِ نبوی ؐ پہنچ کر فرمایا! عورت سچی ہے!ابو شحمہ اس کی تصدیق کرتا ہے لہٰذا حدّز نا سو کوڑے مارنے کا افلح غلام کو حکم دے دیا افلح حکم سنتے ہی لرز گیا فریاد کرنے لگا آقا! زادے کو کوڑے سے ماروں یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا۔
حضرت عمر ؓ نے فرمایا افلح! تجھے خدا اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے غرض ہے یا میر ی اولاد کی دلجوئی سے واسطہ! وہ کرو! جس کا حکم ِ خدا تقاضہ کرتا ہے، افلح نے کانپتے ہاتھوں سے ابو شحمہ کے جسم سے کپڑ ااتارا حاضرین یہ منظر دیکھ کر عَش عَش کرنے لگے خودحضرت عمرؓ کی آنکھیں آنسوں میں تیر نے لگیں،اس حا ل میں آپ فرما رہے تھے بیٹے! یہ اس لئے ہے کہ اللہ تجھ پر اور مجھ پر رحم فرمائے حضرت عمر ؓ نے سزا جلد پورا کرنے کی تاکید فرمائی! ابو شحمہ کے نازک جسم پر کوڑوں کی بارش شروع ہو گئی وہ چیخ و پکار کے درمیان بار بار رحم کی اپیل کرتا حضرت امیر المؤمنین اسکو صبر کی تلقین فرماتے! اسّی کوڑے کی نوبت پر آواز بند ہو گئی صورت مرجھا گئی حاضرین مجلس بے چین ہو گئے سیدنا فاروقِ اعظم سے درخواست کی تھوڑی دیر سزا موقوف فرما دیجئے! آپ نے جواب دیا!کہ جب گناہ میں تاخیر نہیں ہوئی تھی تو سزا میں دیر کے کیا معنیٰ!
ابو شحمہ کی والدہ روتی ہوئی مسجدِ نبوی ؐ کے دروازے تک آئی اور التجا کرنے لگی! میرے بیٹے کو مزید کوڑے نہ مارے جائیں میں ہر کوڑے کے بدلے ایک ایک پیدل حج اور اسکی مقدار صدقہ بھی ادا کروں گی۔
حضرت عمر ؓنے یہ کہتے ہوئے انکار فرما دیا! حج اور صدقہ سزا کا بدل نہیں ہو سکتا آپ نے بقیہ کوڑے مارنے کا حکم دے دیا! آخری کوڑے پر ابوشحمہ کی جان جسم سے پرواز کر گئی فاروقِ اعظم ؓ نے اپنے لختِ جگر کا مردہ جسم دیکھ کر ارشاد فرمایا بیٹا! خدا تیرے گناہوں سے تجھے پاک کرے، بے اختیار رو پڑے اور دیر گئے تک سر اپنی زانوں پر رکھ کر دعائے خیر کرتے رہے۔
حضراتِ صحابہ کرام ؓ کی زندگی ایسے ہی بے مثال کارناموں سے بھر ی پڑی ہے یہی وجہ تھی جب حق و انصاف تھا شیراور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے،جب سے حق و انصا ف سے دوری ہوئی،بد امنی اور انارکی کا راج شروع ہو گیا حقیقت ہے اگر آج انصاف ہوتا تو فسادات رونما نہ ہوتے، شکایتیں نہ ہوتیں، اسٹرائک اور مظاہرے نہ ہوتے۔
حق و انصاف پسندی کے بے شمار واقعات سلطان محمود غزنوی ؒ سے وابستہ ہیں ”تاریخ فرشتہ“ میں ایک سبق آموز واقعہ ہے، ایک شخص آپ کے دربار میں انصاف حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوا اور سلطان محمود سے فریاد کرنے لگا ”میری شکایت ایسی نہیں جس کو بھری مجلس میں سنایا جا سکے“ محمود فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور اکیلے میں اسکا حالِ زار سن نے لگا اس نے اپنی داستانِ غم یوں سنائی۔
”میں ایک غریب انسان ہوں، ایک مدت سے آپ کے بھانجہ نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ ہر رات ہتھیار سے لیس میرے گھر آتا ہے،مجھے کوڑے مار کر باہر نکال دیتا ہے اور پھر وہ تمام رات میری بیوی کے ساتھ ہوس پوری کرتا ہے،کئی بار آ پ کے وزرا ء سے شکایت بھی کی، لیکن ایک نہ سنی اب میں نے آپ کی توجہ پاتے ہی انصاف کی امیدپر آپ بیتی سنا دی اگر آپ رحم فرما کر انصاف کردیں تو زہے نصیب ورنہ پھر خدا کے منصفانہ فیصلہ کا انتظار کرتا رہوں گا“
سلطان محمود پر اس واقعہ کا گہرا اثر پڑا، وہ رونے لگا اور کہا مجھے پہلے ہی مطلع کیا ہوتا اس نے کہا میں نے بارہا حاضری کی کوشش کی، لیکن درباریوں نے میری روک تھام کی، آج نظریں بچا کر آپ تک پہنچ سکا ہوں،سلطان نے کہا میری اس گفتگو کا کہیں ذکر نہ کرنا اور اسکا خیا رکھنا کہ وہ بد بخت جب تمہارے گھر آئے اور اس جرم کا ارتکاب کرے تو مجھے بلا تاخیر خبر دینا! اس وقت تمہیں انصاف دلا ؤں گا اس کی بدکرداری کی عبرتناک سزا دونگا۔
سلطان نے دربار یوں کوبلا کر حکم دیا کہ جب بھی یہ شخص میرے پاس آنا چاہے بغیر کسی اطلاع اور روک ٹوک کے میرے پاس حاضر کر دینا دربانوں کے جانے کے بعد سلطان نے چپکے سے کہا احتیاطا ً تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ اتفاقاً چوکیدا رمیری مشغولیت یا آرام کا عذر بتا کر تمہیں ٹالنا چاہے تو تم فلاں گوشے سے میرے پاس آجانا۔ اس گفتگو کے بعد محمود اس شخص کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
تیسری رات جب سلطان کا بھانجہ عادت کے مطابق اسکے گھر آیا تو اس نے بادشاہ کو اطلاع دینے کی خاطر دربانوں سے اجازت چاہی، دربانوں نے بہانہ بنایا کہ سلطان محل سرائے میں ہیں۔بے چارہ اس راستہ سے جس کی طرف سلطان نے اشارہ کیا تھا اندر داخل ہو کر آواز لگائی!بادشاہ فوراً ہمراہ ہو گیا، پہنچ کر وہی ماجرہئ نا دیدنی دیکھا کہ سلطان کا بھانجہ غریب کی بیوی کے ساتھ ہم آغوش ہے اور شمع اسکے پلنگ کے سرہانے جل رہی ہے اور اسکے کالے اور متعفن کردار کی گواہی دے رہی ہے۔
محمود سرمست کو دیکھ کر غضبناک ہو گیا، شمع بجھا کر خنجر سے نا عاقبت اندیش کا سر تن سے جُدا کر دیا، معاً محمود نے کہا!مجھے پانی پلاؤ تا کہ اپنی بے تابی دور کروں، محمودپانی پیکر اپنی جگہ سے اُٹھا اور غریب سے اجازت چاہی اور کہا! اب تم چین سے زندگی بسر کرو۔
رخصت ہو تے وقت غریب نے عاجزی کی اور کہا جہاں پناہ! آپ پر قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو عظیم الشان رتبہ اور گوہرِ انصاف سے سرفراز فرمایا اگر مزید ذرّہ نوازی ہو تو بتاتے جائیں کہ شمع گل کرنے اور سر تن سے جدا کرنے کے بعد پانی پینے کی وجہ کیا تھی؟ سلطان نے جواب دیا! ظالم کا سر تن سے جدا کر کے ہمیشہ کے لئے تمہیں راحت نصیب ہوئی شمع اس لئے بجھائی تھی کہ کہیں روشنی میں بھانجہ کا چہرہ نظر نہ آجائے اور میں ترس کھا کر انصاف کی تکمیل سے رُک جاؤں اور آبروئے انصاف پارہ پارہ ہو جائے،پانی کی بے تابی اسلئے تھی کہ جب تم نے رودادِ الم سنائی تھی۔ اسی وقت میں نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک تمہارے ساتھ پورا انصاف نہ ہوگا اس وقت نہ کھانا کھاؤں گا نہ ہی پیاس بجھاؤں گا۔
ایسے ہی عظیم کارناموں سے زندہ ہے محمود غزنوی کی مبارک زندگی اور ان کا محترم نام!
اب بھی خدا شناسی، ملک دوستی اور اس کے ساتھ وفاداری کا حق یہ کہ ہر فرد اپنے دائرہئ اختیار میں انصاف کو اپنا شعار بنا لے جج ہو، تو صحیح انصاف کرے،حاکمِ وقت ہو، تو ایک سا معاملہ کرے،دفتری ملازم ہو، تو سب کی خدمت کرے، محلہ دار ہو، تو پڑوسیوں کی خبر گیری کرے،شہری ہو، تو سب کے دکھ درد میں شریک رہے۔
اگر یہ تعلیم ہماری مجلسوں، درسگاہوں،مندروں،مسجدوں،کلیساؤں اور گردواروں میں ہونے لگے تو ہمارا ملک جنت کا نمونہ بن جائے۔
در اصل کسی ملک اور قوم کی ترقی کا راز اس میں ہے کہ اسکے اندر اس قسم کے زندہ افراد ہوں جو مصلحت اور ذاتی مفاد کے مقابلہ میں عوامی فائدہ اور اصول کو اہمیت دیتے ہوں۔