ماہنامہ الفاران

ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۴

دعوت دین کی راہ میں دینی مدارس کا قائدانہ رول ضروری ہے

جناب حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران

محترم قارئین کرام!
دعوت دین کا مبارک کام ہردور کی ملت اسلامیہ کی اولین ضرورت اور اس کی ترقی کی شاہ کلید ہے، دنیا بھر میں اسلام و مسلمانوں کی طاقت وقوت انکی بیداری اورنشو ونماکاانحصاراس بات پر موقوف ہے کہ اسلامی دعوت کاابررحمت ہرخشک وبنجر زمیں پر ٹوٹ کرباراں ہواوراسے سیراب کردے، اسلام کے داعی وسپاہی دنیا بھر میں پھیل کر شہادت حق کا فریضہ اس بلند آہنگی کے ساتھ انجام دیں کہ خزاں رسیدہ اس دنیا میں بہار آجائے اور اس کو گوشہئ امن و عافیت نصیب ہو جائے، جس طرح یہ کام ہمارے قومی ملی اور سماجی مسائل کا حل وعلاج ہے اورعالم انسانیت خصوصاً ہمارے ملک کے موجودہ حالات میں ملت کی سربلندی کا کارگر نسخہ ہے، اسی طرح یہ کام ملت اسلامیہ کے ہرطبقہ وفرقہ اورشوری وجماعت سے مطلوب ہے، اس سلسلے میں ہماری ذمہ داری کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے لیکن کاردعوت سے راہ فرار کسی بھی شکل وصورت میں ناقابل فراموش ہے، ملک عزیز کی ملت اسلامیہ میں اسلام کی جو رمق اور باشندگان کی حیات طیبہ جو دینداری ہے وہ بلاشبہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مدارس دینیہ کافیض اور ان سے مربوط علماء کرام کی جدوجہد، محنتوں، کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ، نتیجہ، خلاصہ ونچوڑ ہے، اس حقیقت وکنہ سے بھی تجاحد وانکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ملک میں مسلمانوں کی ہر طرح کی قیادت وسیادت کے لئے دینی مدارس سے منسلک ومنضبط افراد ہی مؤثر ہوتے ہیں، ان کی راہنمائی وہدایت کے بغیر کوئی بھی تحریک وکانفرنس کامیابی کا چہرہ بمشکل دیکھ پاتی ہے، د ین وشریعت وخدمت اسلام وخلق ووطن کا کوئی کونہ ایسا نہیں جو مدارس کے علماء نے تشنہ چھوڑا ہواور اس راہ میں سنگ میل قائم نہ کئے ہوں، ان حضرات کے نزدیک دعوت کا معنیٰ و مفہوم محدود نہیں بلکہ اسلام کے تعارف واشاعت اور بقاء اور اس کی خدمت کے ہر میدان ومحاذ کو وہ دعوت کا کام ومقصد سمجھتے ہیں اور حالات کے لحاظ سے معاونت دین کا جوتقاضابھی سامنے آتاہے اس پر لبیک کہتے رہے ہیں۔
خدمت اسلام کا یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری وساری ہے اس لیے برادران وطن اوراقوام عالم میں دعوت دین کے کام کو مسلسل ومنظم کرنے اوراپنی زندگی کا نصب العین بنانے کے لئے بھی مدارس اسلامیہ کے ماحول سے ہی توقع وامید کی جانی چاہئے، اس پس منظر میں دعوت دین کی راہ میں بھی کسی بڑی کامیابی وکامرانی کے لئے مدارس دینیہ کا کردار لازمی ہے، ان کی بھرپور فعال شرکت کے بغیر بڑی فتوحات حاصل نہیں کی جا سکتی، اس لئے مدارس دینیہ میں دعوتی ماحول کی فراہمی دعوتی تجربات کی روشنی میں دعوتی کام کا طریق اس کی نزاکتیں اس سے متعلق مسائل ومشکلات کے ساتھ اس راہ کی ضروریات پر توجہ دینے کی خاص ضرورت ہے، جدید تہذیب وافکار ونظریات ومعتقدات کے موجودہ طوفان کا رخ موڑ نے کیلئے نظریات کا علم ضروری ہے، ان زبانوں پر عبور بھی درکار ہے جن کے ذریعہ یہ افکارو نظریات منتشر ہو رہے ہیں، پھر ان لغتوں کے سبب اقوام و ملل سے تخاطب کی صلاحیت درکار ہے، اس کے بعد میدان عمل میں اترنے کا مرحلہ آتا ہے اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام کی حیوۃ طیبہ کا زیادہ تر حصہ غیر مسلموں سے قیل و قال،دعوت وتبلیغ یا کشمش میں صرف ہوا ہے، ظاہر ہے کہ ان کی زندگی کی کچھ جھلک علماء کرام کے معمولات میں بھی آنی چاہیے، ختم نبوت کے صدقے میں جب اس پوری امت کو داعی مقرر ومنتخب کیا گیا ہے تو لازم ہے کہ ہم سب کو اس کا علم وشعور بھی ہوہمارے اندرون میں یہ احساس بھی کچوکے مارتاہوکہ اب تک ہماری دعوتی زندگی کے کیا نتائج برآمد ہوئے اور کتنے لوگ ابولہب لعین کے خیمے سے نکل کر شریعت محمدی ﷺسے وابستہ ہوئے ہیں، ہمیں اس کا بھی علم ہو کہ نئے مدعو کو دعوت کیا اورکس طرح وکس لہجے موقع میں دینی ہے، قرآن کریم کی کونسی آیات استدلال میں مؤثر ہونگی اور سیرت نبوی کے کونسے واقعات اس راہ میں کام آسکیں گے، اگر مدعو مثبت ذہنیت کے ساتھ کچھ سوالات کے جوابات یا اسلامی نظام کے بارے میں کچھ شکوک وشبہات کا حل چاہتا ہو تو کونسا طریقہ اپنایا جائے، وہ کونسے سوالات ہیں جو اس راہ میں اکثر معلوم کیے جاتے ہیں، یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات ہیں جن کے جوابات ملت کے ہرفرد وبشرکوایک داعی ہونے کی حیثیت سے معلوم ہونے چاہیے، لیکن مدارس کی چہاردیواری میں تو اس سلسلے کی تحقیق ومٹیریل موجود ہوناہی چاہیے، غور کرنے کا مقام ہے کہ جس طرح ہمارے احاطوں میں فرق باطلہ ضالہ شنیعہ کے متعلق بھرپور مواد موجود ہوتا ہے جس کے توسط سے ہم اپنی قوم کو باطل تحریکات اور ان کے افکار تخیلات سے تحفظ فراہم کرتے ہیں، کیا اسی طرح ہمارے پاس دعوت دین کے موضوع پر مٹیریل ومواد ہے، اس موضوع کی کتب اس راہ کے تجارب اور اس کام کے سلسلے میں پوری ٹیم نہیں ہونی چاہئے جس طرح ہم مدارس کو اشاعت اسلام کے مراکز کہتے ہیں تواسی طرح ان میں دوسرے اور تمام اشاعتی کاموں کے ساتھ خالص دعوتی اور اشاعتی اسپرٹ اور نئے بندگان خدا کو فتح کرنے کی بھرپور تیاری تو ہونی ہی چاہیے، مدارس کے دعوتی کردار کومزید مؤثر بنانے کے لئے دعوتی نہج پر طلباء کی ذہن سازی کی شدید ضرورت ہے، مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء دعوتی ذہن لیکر نکلتے ہوں وہ جہاں بھی رہتے ہوں دین کے داعی کی حیثیت رکھتے ہوں اور دعوت واصلاح کے ہمہ جہت پروگراموں میں حصہ لیتے ہوں اور ان کی دعوتی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع وعریض ہو، اس کی مدارس کے موجودہ نظام میں گنجائش نکالی جانی چاہیے، مدارس میں تخصص فی الدعوۃ کے ایک منظم شعبہ کا قیام، نصاب تعلیم میں سیرت نبوی اور سیرت صحابہ سے مزین خالص دعوتی لٹریچر کی تعلیم کا نظم،قرآن کریم کے ساتھ دوسرے ذرائع سے انبیاء علیہم السلام کی دعوتی کاوشوں کے طریق کار، طرزوانداز کی وضاحت کے ساتھ تعلیم بھی ضروری ہے۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی