ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۳
استاذ! فرش سے عرش تک پہونچانے والی زات؛قسط ۔8۔(اخلاص ہر عمل کی بنیاد! )
جناب حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران
حضرت امام نووی ؒ نے فرمایاکہ:تعلیم وتدریس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو اپنا نصب العین بنائے،دنیا وی اغراض پورا کرنا اس کا مقصد نہ ہو، مثلاً مال ودولت جمع کرنا،جاہ وحشمت حاصل کرنا یا نام کمانااپنے ہم عصروں پر تفوق وبرتری حاصل کرنا،اپنے شاگردوں اور استفادہ کرنے والوں کی کثرت پر فخر کرنا وغیرہ وغیرہ۔
مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ”آپ کسی بڑے سے بڑے بزرگ یا جس کا نام آپ دنیا میں روشن پڑھتے ہیں اگر آپ اس کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تواس کی زندگی کی تعمیر میں اخلاص کو ایک اہم عامل پائیں گے۔آپ دیکھیں گے کہ اس کی ہر چیز کواخلاص نے دوام بخشاہے۔
استاذکو چاہئے کہ تعلیم کے بارے میں صاحب شریعت حضوراکرم ﷺ کی اقتدا کرے یعنی علم سکھانے میں اجرت کا خواہاں نہ ہو تعلیم سے مقصود دنیا کمانا نہ ہو بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضاجو ئی اور آخرت کے لئے یہ کام کرے جو کچھ مل جائے اس پر قناعت کرے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ محض دنیا وی راحت عیش،عہدہ اورتنخواہ کی زیا دتی کی وجہ سے ایک درسگا ہ کوچھوڑ کر دوسری جگہ منتقل نہ ہو اگر ایسا کیا تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے علم کو دنیا کی کمائی کا ذریعہ بنایا ہے جس کے بارے میں حضور اقدس ﷺ نے سخت وعید بیان کی ہے ارشا د فرمایا: مَنْ تَعَلَّمَ عِلْماًمِّمّا یُبْتَغیٰ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ لَایَتَعَلَّمُہٗ اِلاَّ لِیَطْلُبَ عَرَضًا مِّنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْعَرَفَ الْجَنَّۃِ یَعْنِی رِیْحَھَا۔(سنن ابو داؤد ج ۲ص ۵۱۵ مکتبہ البدر دیوبند،ابن ماجہ ص ۲۲)
جس نے ایسا علم سیکھا جس سے اللہ کی رضامندی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اس کا مقصد دنیا ہے تو ایسے شخص کو جنت کی ہوا تک نہیں پہونچے گی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اشد الناس عذابا یوم القیامۃ عالم لا ینتفع بہ“(سنن بیہقی) (قیامت کے دن سب سے سخت عذاب اس عالم کو ہوگا جس سے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتاہے)
استاذ کو چاہئے! پہلی مرتبہ جس دن تنخواہ ملے اس دن دورکعت نفل پڑھ کردعامانگے کہ اے اللہ آپ کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں آپ میرے اور میرے گھر والوں کی تمام ضروریا ت سے واقف ہیں اپنے فضل و کرم سے آپ ان کو پورا فرمادیجئے اس میں ایسی نصرت اور برکت عطافرمادیجئے کہ پورا مہینہ خوش حالی سے گذرجائے یقین کریں کہ آپ کے اس عمل پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہونگے اورآپ کوواقعی برکت سے مالامال فرمادینگے۔
اصل میں لوگ کثرت اور برکت کا فرق نہیں جانتے یا برکت کا صر ف لفظ جانتے ہیں حقیقت نہیں معلوم آپ کے ساتھ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ کاوہ معاملہ ہوگا جو حضر ت گنگوہی ؒ نے حضرت سید الطائفہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہونے پر فرمایا تھا کہ مجھے صرف مٹھائیوں کے نام معلوم تھے حاجی صاحبؒ نے ذائقہ چکھادیا ہے۔ یعنی برکت کا کھلی آنکھوں آپ کو مشاہد ہ ہوگا اور اللہ اس خلوص کی برکت سے بلند مقام عطافرمائے گا۔شاگردوں کے ساتھ خیر خواہی کا انمول سبق!
استاذ کو چاہئے کہ طلبہ کی خیر خواہی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے اس سلسلہ میں چند باتوں کا خاص لحاظ رکھنا انشاء اللہ مفیدہوگا۔
(الف) اگر اس کے پاس اتنی وسعت نہ ہو کہ وہ تحصیل علم کے ساتھ اپنے قیام و طعام کا خود کفیل ہو سکے تو اس کا حتی الوسع انتظام کرے۔
فقیہ اعظم حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ جب ان کو اس بات کا علم ہوا کہ حضرت امام ابو یوسف بہت غریب ہیں ان کی والدہ چاہتی ہیں کہ محنت مزدوری کرکے کچھ لائیں تاکہ کھانے پینے کا انتظام ہوتو حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے لئے وظیفہ اتنا مقرر کردیا کہ ان کے علاوہ ان کی والدہ کے لئے بھی کا فی ہوتا تھا، اللہ نے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خلوص کی برکت اور حضرت امام ابو یوسفؒ کی جہد واطاعت کی وجہ سے آپ کو قاضی القضاۃ (چیف جسٹس)بنادیا۔
حضرت امام صاحبؒ کے اس عمل سے معلوم ہوا کہ اگر کسی طالب علم کے گھر کا حال خستہ ہو اور اس کو علم کا شو ق ہوتو اس کے گھر والوں کے گذر اوقات کا کوئی انتظام کردے اس لئے کہ اس ایک سے ہزاروں کی اصلا ح ہوگی۔
(ب) استاذسبق کا ناغہ نہ کرے ایسے استاذ جو بکثرت درسگاہ سے غائب رہتے ہیں وجہ خواہ کچھ بھی ہوانہیں مدرس نہ بنناچاہئے اگر کسی مجبوری سے ناغہ ہوجائے یا کسی طالب علم سے مجبورا سبق کا ناغہ ہوا تو اس کی تلافی مختلف اوقات میں کردے اگر اس قسم کی بیماری میں طالب علم مبتلاہے کہ اپنی قیام گاہ سے آپکے پاس نہیں آسکتا تو اس کے لانے کا کوئی انتظام کردے اگر یہ نہیں کرسکے تو خود ہی اس طالب علم کے پاس جاکر سبق پڑھادے اس معاملہ میں سلف صالحینؒ کی زندگی، طلبہ کے اوقات کی قدروقیمت اور ان کی محنت کو سامنے رکھے۔
(ج) استاذ کا پڑھا ہو ا سبق جب تک طالب علم نے یاد نہ کرلیا۔ہو۔ ا گلاسبق نہ پڑھائے اور آسانی کیلئے پڑھے ہوئے سبق کے متعلق سوالات تحریر کردے اور دوسرے دن زبانی ان کا جواب ان سے پوچھے،ہفتہ میں کم از کم ایک دن علمی سوالات ان سے کیا کرے تاکہ طلبہ میں بیدار مغزی اورمعلومات میں اضافہ ہو تارہے
(د) استاذ کو چاہئے کہ اگر کوئی طالب علم ذہین ہو تو کند ذہن طلبہ کے ساتھ جماعت بند ی کی قید میں نہ رکھے بلکہ اس کو اس کے ذہن و استعداد کے مطابق سبق پڑھائے اور اس کے وقت کو ضائع ہونے سے بچائے۔
(ہ)استاذ کیلئے ضروری ہے کہ اگر کوئی مضمون طالب علم کی سمجھ میں دورانِ سبق نہ آرہاہوتو پھر دوسرے وقت اس کو سمجھا دے اس سلسلہ میں اگر وہ کسی دوسرے استاذسے اس کو حل کرنا چا ہے تو اس میں ناگواری نہ ہونی چاہئے بلکہ خود کہہ دینا چاہئے کہ مجھے اتناہی معلوم تھا اگر اب بھی سمجھ میں نہ آیا ہوتو کسی اور سے سمجھ لینا یا میں ہی دریافت کرکے بتادوں گا اور اگر اس مضمون کو خود استاذ نہیں سمجھ رہاہے توصاف اقرار کرلے کہ میری سمجھ میں اس وقت نہیں آرہاہے اور پھر کسی وقت سمجھادوں گا اس میں توہین کی کیا با ت ہے۔دنیا میں کون ایساہے جس کو ہربات معلوم ہو؟
قابلِ تقلید واقعہ ہے کہ: حضرت امام شافعی ؒ درس دیتے ہوئے ایک مسئلہ کو مختلف انداز میں پیش فرمارہے تھے لکھاہے کہ کرَّرَ علیہ المسئلۃ سبعین مرۃ فلم یفہمہ۔ امام صاحب نے ستر مرتبہ بحث کو دوہرایا لیکن شاگرد کی سمجھ میں نہیں آیا فَخَرَجَ مِنَ الْغُرْفَۃِ خَجْلًا شاگرد شرمندہ ہوکر درسگاہ سے باہر آگیا۔استاذ محترم کا عمل ملاحظہ فرمائیے!فَتَبِعَہٗ الشَافِعِیْ وَاَجْلَسَہٗ فی الغرفۃ الاخری وکرَّرَ علیہ المسئلۃ حتی فَہِمَہٗ حضرت استاذ امام شافعی ؒ اپنی مسند سے اٹھے اور شاگردکے پیچھے پیچھے تشریف لے گئے اور دوسری درسگاہ میں بٹھایااور فرمایا کہ مایوس ہونے کی بات نہیں آؤ میں پھرتمہیں سمجھاتاہوں۔
دیکھئے! استاذ محترم کو کسر نفسی،جذبہئ ہمدردی اور طریقہء افہام وتفہیم کا عکس جمیل ہونا چاہئے۔
مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ”آپ کسی بڑے سے بڑے بزرگ یا جس کا نام آپ دنیا میں روشن پڑھتے ہیں اگر آپ اس کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تواس کی زندگی کی تعمیر میں اخلاص کو ایک اہم عامل پائیں گے۔آپ دیکھیں گے کہ اس کی ہر چیز کواخلاص نے دوام بخشاہے۔
استاذکو چاہئے کہ تعلیم کے بارے میں صاحب شریعت حضوراکرم ﷺ کی اقتدا کرے یعنی علم سکھانے میں اجرت کا خواہاں نہ ہو تعلیم سے مقصود دنیا کمانا نہ ہو بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضاجو ئی اور آخرت کے لئے یہ کام کرے جو کچھ مل جائے اس پر قناعت کرے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ محض دنیا وی راحت عیش،عہدہ اورتنخواہ کی زیا دتی کی وجہ سے ایک درسگا ہ کوچھوڑ کر دوسری جگہ منتقل نہ ہو اگر ایسا کیا تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے علم کو دنیا کی کمائی کا ذریعہ بنایا ہے جس کے بارے میں حضور اقدس ﷺ نے سخت وعید بیان کی ہے ارشا د فرمایا: مَنْ تَعَلَّمَ عِلْماًمِّمّا یُبْتَغیٰ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ لَایَتَعَلَّمُہٗ اِلاَّ لِیَطْلُبَ عَرَضًا مِّنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْعَرَفَ الْجَنَّۃِ یَعْنِی رِیْحَھَا۔(سنن ابو داؤد ج ۲ص ۵۱۵ مکتبہ البدر دیوبند،ابن ماجہ ص ۲۲)
جس نے ایسا علم سیکھا جس سے اللہ کی رضامندی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اس کا مقصد دنیا ہے تو ایسے شخص کو جنت کی ہوا تک نہیں پہونچے گی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اشد الناس عذابا یوم القیامۃ عالم لا ینتفع بہ“(سنن بیہقی) (قیامت کے دن سب سے سخت عذاب اس عالم کو ہوگا جس سے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتاہے)
استاذ کو چاہئے! پہلی مرتبہ جس دن تنخواہ ملے اس دن دورکعت نفل پڑھ کردعامانگے کہ اے اللہ آپ کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں آپ میرے اور میرے گھر والوں کی تمام ضروریا ت سے واقف ہیں اپنے فضل و کرم سے آپ ان کو پورا فرمادیجئے اس میں ایسی نصرت اور برکت عطافرمادیجئے کہ پورا مہینہ خوش حالی سے گذرجائے یقین کریں کہ آپ کے اس عمل پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہونگے اورآپ کوواقعی برکت سے مالامال فرمادینگے۔
اصل میں لوگ کثرت اور برکت کا فرق نہیں جانتے یا برکت کا صر ف لفظ جانتے ہیں حقیقت نہیں معلوم آپ کے ساتھ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ کاوہ معاملہ ہوگا جو حضر ت گنگوہی ؒ نے حضرت سید الطائفہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہونے پر فرمایا تھا کہ مجھے صرف مٹھائیوں کے نام معلوم تھے حاجی صاحبؒ نے ذائقہ چکھادیا ہے۔ یعنی برکت کا کھلی آنکھوں آپ کو مشاہد ہ ہوگا اور اللہ اس خلوص کی برکت سے بلند مقام عطافرمائے گا۔
(الف) اگر اس کے پاس اتنی وسعت نہ ہو کہ وہ تحصیل علم کے ساتھ اپنے قیام و طعام کا خود کفیل ہو سکے تو اس کا حتی الوسع انتظام کرے۔
فقیہ اعظم حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ جب ان کو اس بات کا علم ہوا کہ حضرت امام ابو یوسف بہت غریب ہیں ان کی والدہ چاہتی ہیں کہ محنت مزدوری کرکے کچھ لائیں تاکہ کھانے پینے کا انتظام ہوتو حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے لئے وظیفہ اتنا مقرر کردیا کہ ان کے علاوہ ان کی والدہ کے لئے بھی کا فی ہوتا تھا، اللہ نے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خلوص کی برکت اور حضرت امام ابو یوسفؒ کی جہد واطاعت کی وجہ سے آپ کو قاضی القضاۃ (چیف جسٹس)بنادیا۔
حضرت امام صاحبؒ کے اس عمل سے معلوم ہوا کہ اگر کسی طالب علم کے گھر کا حال خستہ ہو اور اس کو علم کا شو ق ہوتو اس کے گھر والوں کے گذر اوقات کا کوئی انتظام کردے اس لئے کہ اس ایک سے ہزاروں کی اصلا ح ہوگی۔
(ب) استاذسبق کا ناغہ نہ کرے ایسے استاذ جو بکثرت درسگاہ سے غائب رہتے ہیں وجہ خواہ کچھ بھی ہوانہیں مدرس نہ بنناچاہئے اگر کسی مجبوری سے ناغہ ہوجائے یا کسی طالب علم سے مجبورا سبق کا ناغہ ہوا تو اس کی تلافی مختلف اوقات میں کردے اگر اس قسم کی بیماری میں طالب علم مبتلاہے کہ اپنی قیام گاہ سے آپکے پاس نہیں آسکتا تو اس کے لانے کا کوئی انتظام کردے اگر یہ نہیں کرسکے تو خود ہی اس طالب علم کے پاس جاکر سبق پڑھادے اس معاملہ میں سلف صالحینؒ کی زندگی، طلبہ کے اوقات کی قدروقیمت اور ان کی محنت کو سامنے رکھے۔
(ج) استاذ کا پڑھا ہو ا سبق جب تک طالب علم نے یاد نہ کرلیا۔ہو۔ ا گلاسبق نہ پڑھائے اور آسانی کیلئے پڑھے ہوئے سبق کے متعلق سوالات تحریر کردے اور دوسرے دن زبانی ان کا جواب ان سے پوچھے،ہفتہ میں کم از کم ایک دن علمی سوالات ان سے کیا کرے تاکہ طلبہ میں بیدار مغزی اورمعلومات میں اضافہ ہو تارہے
(د) استاذ کو چاہئے کہ اگر کوئی طالب علم ذہین ہو تو کند ذہن طلبہ کے ساتھ جماعت بند ی کی قید میں نہ رکھے بلکہ اس کو اس کے ذہن و استعداد کے مطابق سبق پڑھائے اور اس کے وقت کو ضائع ہونے سے بچائے۔
(ہ)استاذ کیلئے ضروری ہے کہ اگر کوئی مضمون طالب علم کی سمجھ میں دورانِ سبق نہ آرہاہوتو پھر دوسرے وقت اس کو سمجھا دے اس سلسلہ میں اگر وہ کسی دوسرے استاذسے اس کو حل کرنا چا ہے تو اس میں ناگواری نہ ہونی چاہئے بلکہ خود کہہ دینا چاہئے کہ مجھے اتناہی معلوم تھا اگر اب بھی سمجھ میں نہ آیا ہوتو کسی اور سے سمجھ لینا یا میں ہی دریافت کرکے بتادوں گا اور اگر اس مضمون کو خود استاذ نہیں سمجھ رہاہے توصاف اقرار کرلے کہ میری سمجھ میں اس وقت نہیں آرہاہے اور پھر کسی وقت سمجھادوں گا اس میں توہین کی کیا با ت ہے۔دنیا میں کون ایساہے جس کو ہربات معلوم ہو؟
قابلِ تقلید واقعہ ہے کہ: حضرت امام شافعی ؒ درس دیتے ہوئے ایک مسئلہ کو مختلف انداز میں پیش فرمارہے تھے لکھاہے کہ کرَّرَ علیہ المسئلۃ سبعین مرۃ فلم یفہمہ۔ امام صاحب نے ستر مرتبہ بحث کو دوہرایا لیکن شاگرد کی سمجھ میں نہیں آیا فَخَرَجَ مِنَ الْغُرْفَۃِ خَجْلًا شاگرد شرمندہ ہوکر درسگاہ سے باہر آگیا۔استاذ محترم کا عمل ملاحظہ فرمائیے!فَتَبِعَہٗ الشَافِعِیْ وَاَجْلَسَہٗ فی الغرفۃ الاخری وکرَّرَ علیہ المسئلۃ حتی فَہِمَہٗ حضرت استاذ امام شافعی ؒ اپنی مسند سے اٹھے اور شاگردکے پیچھے پیچھے تشریف لے گئے اور دوسری درسگاہ میں بٹھایااور فرمایا کہ مایوس ہونے کی بات نہیں آؤ میں پھرتمہیں سمجھاتاہوں۔
دیکھئے! استاذ محترم کو کسر نفسی،جذبہئ ہمدردی اور طریقہء افہام وتفہیم کا عکس جمیل ہونا چاہئے۔