ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۳
عیادت: ہم دردی ، غم گساری اور دل جوئی کا نبوی طریقہ
حضرت مفتی محمد ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
صحت انسانی زندگی کے لیے اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے ،اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے لیکن صحت ہمیشہ نہیں رہتی زندگی میں بہت بار آدمی بیمار ہو تا ہے ۔دردوالم کی کیفیت سے گذرتا ہے اور صبر کرتا ہے ۔وہ سوچتا ہے کہ اللہ رب العزت نے بیشتر ایام صحت کے ساتھ رکھا تو اس کا شکر تو ادا نہیں ہو پایا ،اب چند ایام بیماری کے ہیں تو کیوں شکوہ کناں رہوں،یہ احساس اس کے اندر برداشت کی غیر مرئی قوت پیدا کرتا ہے ، اس کی وجہ سے اس کے لیے دکھ اور تکلیف کا بر داشت کرنا آسان ہو جاتا ہے ،بیماری میں پریشانی اور غم کو کم کر نے ،ہمدردی غمگساری اور دلجوئی کا نبوی طریقہ عیادت ہے اسی لیے بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عیادت کا حکم دیا ۔ اور اس کے فضائل کثرت سے بیان کیے اور اسے اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کا ذریعہ اور جہنم سے بُعد اور دوری کا سبب قرار دیا ، بخاری ، مسلم، ترمذی، ابو داؤد وغیرہ میں بہت ساری صحیح روایات موجود ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض کی عیادت کا بڑا ثواب ہے ، بعض روایتوں میں اسے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق قرار دیا گیا ہے ، ایک روایت میں اسے قرب خدا وندی کا ذریعہ بتا یا گیا ، یہ قرب خداوندی اسی وقت حاصل ہوگی، جب عیادت صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے کی جائے، کوئی دنیاوی غرض اس میں پوشیدہ نہ ہو، عیادت کرنے والا اس خوف سے عیادت نہ کررہا ہو کہ اگر عیادت نہیں کیا تو لوگ کیا کہیں گے ، اس سلسلے میں ایک روایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے،جسے ترمذی نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا کہ جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے صبح کو جاتا ہے تو ستر (۷۰) ہزار فرشتے شام تک اس کے حق میں رحمت کی دعائیں کرتے ہیں، اور جنت میں عیادت کرنے والوں کے لیے ایک باغ اس پر مستزاد ہوگا، حضرت ثوبان ؒ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی نقل کرتے ہیں کہ جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت او رمزاج پرسی کرتا ہے تو واپسی تک جنت کے باغوں اور پھلوں کے درمیان رہتا ہے ، یہ روایت صحیح مسلم شریف میں موجود ہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مریضوں کی عیادت کرنے کا تھا، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیمار ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، اس وقت مجھ پر غشی طاری تھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کے بچے ہوئے پانی سے میرے اوپرچھینٹیں ماری تو مجھے ہوش آگیا ، ان روایتوں کی بنیاد پر علماء نے عیادت کو سنت قرار دیا ہے ، کیوں کہ عیادت کی فضیلت پر قولی وفعلی احادیث کثرت سے آئی ہیں۔
حدیث قدسی ہے کہ اللہ پوچھیں گے کہ تم نے میری عیادت نہیں کی ، بندہ کہے گا کہ یا اللہ تجھے عیادت کی کیا ضرورت ہے تو ان چیزون سے بے نیاز ہے ، اللہ کہیں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی عیادت اور مزاج پرسی نہیں کی ، اگر تو اس بندہ کی عیادت کرتا تو تُو مجھے اس کے قریب پاتا، اس روایت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بیماری کی حالت میں بندہ اللہ سے قریب ہوتا ہے اور وہ اپنے مرض کی شدت پر جو صبر کرتا ہے اور صحت کی حالت پر جو شکر ادا کرتا ہے اس کی وجہ سے اسے اللہ کی قربت حاصل ہوتی ہے ، اسی لیے بعض روایتوں میں مریض کی دعاکے مقبول ہونے کی بات بھی کہی گئی ہے ، ظاہر ہے اس کی وجہ قربت خدا وندی ہی ہے ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ اسلام میں عیادت کی بنیاد مذہبی نہیں، انسانی ہے ، اس لیے مریض کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اس کی عیادت کرنی چاہیے تاکہ اس کے دل میں اسلام کی عظمت جاگزیں ہو اور مسلمانوں سے نفرت کا احساس کم ہو سکے ، جو بعض داخلی اور خارجی وجوہات کی وجہ سے اس کے دل ودماغ اور سوچ وفکر کا خاص طور پر حصہ بن گیے ہیں، مشہور روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بڑھیا کی عیادت کی جو آپ کے جسم اطہر پر گرد وغبار ڈالا کرتی تھی اور راستے میں کانٹے بچھاتی تھی۔ آج کے نفرت کے اس ماحول میں غیر مذاہب والوں کی عیادت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم دوسرے اعمال کی طرح اس کام میں بھی انتہائی کاہل اور سست واقع ہوئے ہیں، ہمارے پڑوس میں ہمارا بھائی رہتا ہے ، لیکن ہم اس بیمار بھائی اور پڑوسی کی عیادت کے لیے حاضر نہیں ہو پاتے ، حا کموں کا حال ما تحتوں کے سلسے میں آقا کا حال نوکر اور مزدورں کے سلسلے میں تو اور بھی نا گفتہ بہہ ہے ، انہیں فون پر دریافت حال کی بھی فرصت نہیں ہوتی ، اس سے مستثنی صرف اپنے بیوی بچے ہو تے ہیں ذرا سی چھینک آن پڑی اور سر درد کی خبر آئی نہیں کہ ہم بے چین ہو اٹھتے ہیں،لیکن دوسرے کہ جاں بلب ہو نے کی خبر پر بھی ہمارے جسم پر جوں تک نہیں رینگتی، یہ حال ہم مسلمانوں کا مسلمانوں کے ساتھ ہے ، جو ایک مسلمان کا دوسرے پر حق ہے ، دیگر مذاہب والوں کی عیادت کا تو ہمیں خیال بھی نہیں آتا ۔حا لانکہ آج کل ذرائع ابلاغ نے اتنی وسعت حاصل کر لی ہے کہ مریض کی عیادت کے لیے سفر کر نا بھی ضروری نہیں ہے ، اب تو ویڈیو کانفرنسنگ اور کالنگ کے ذریعہ دور دراز سے آمنے سامنے بات ہو سکتی ہے ، لیکن سہولتیں جس قدر ہیں ہماری بے اعتنائی بھی اسی قدر ہے ، عیادت کر نے والے بعض افراط کے بھی شکار ہو تے ہیں ، بعض لوگ شب وروز فون کرکے اتنی بار خیریت دریافت کرنا شروع کر تے ہیں کہ طبیعت گراں بار ہوجاتی ہے اور بعض لوگ مریض کی اس قدر ان دیکھی کرتے ہیں کہ شریعت کے حکم کے پاس ولحاظ نہ رکھنے کا احساس ہونے لگتا ہے ۔
جیسا کہ پہلے مذکور ہوا، اسلام میں عیادت صرف مزاج پرسی کا نام نہیں ہے ، بلکہ ہمدردی ، غم گساری، دل جوئی اور دلداری کا نام ہے ، اس کے بھی اصول وآداب ہیں، ہدایت دی گئی ہے کہ مریض کے سامنے اس کی درازی عمر کی بات کی جائے ، ایسی باتوں سے وقت مقررہ تو بدلے گا نہیں، لیکن مریض کو مرض سے لڑنے کا حوصلہ ملے گا۔ حدیث میں ’’لا باس طھور انشاء اللہ‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے ، اسی طرح بعض لوگ آتے تو عیادت کے لیے ہیں، لیکن آداب عیادت نہ معلوم ہونے کی وجہ سے کہنے لگتے ہیں کہ یہ مرض تو بڑا سخت ہے ، فلاں شخص کی موت اسی مرض میں ہو گئی تھی، ایسے جملوں سے ہر حال میں احتراز کرنا چاہیے ، تاکہ مریض اپنی زندگی سے مایوس نہ ہو جائے ، اس کے سامنے امید افزا جملے کہے جائیں تاکہ وہ اپنے دل میں خوشی محسوس کرے اور مرض کو ہلکا سمجھے اس سے اس کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوگا، ہم سب جانتے ہیں کہ بعض مرض صرف قوت مدافعت ختم ہونے کی وجہ سے موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔
عیادت کے لیے آنے والوں کے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ مریض کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں، اسے دوا کھانا ہے ، قضائے حاجت کا تقاضہ ہے ، دوسری خدمات درکار ہیں، ظاہر ہے اگر عیادت کرنے والا دیر تک بیٹھا رہے گا تو مریض کی بہت ساری ضرورتوں کی تکمیل میں رکاوٹ ہو سکتی ہے ، اس لیے مریض کے پاس مختصر قیام کرنا چاہیے ، سوائے اس کہ جب اس کی طویل نشست مریض کے لیے انسیت کا سبب ہو اور وہ عیادت کرنے والوں کے بیٹھنے سے تقویت محسوس کرے ، ایسے میں مریض کی دل جوئی کے لیے بیٹھنے میں حرج نہیں ہے ، اسی لیے جو مستقل تیمار دار ہے وہ اس اصول سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ وہ مریض کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہی اس کے پاس فروکش رہتا ہے ، یہاں پر ایک لطیفہ ذہن میں آگیا ۔ ایک مریض کی عیادت کے لیے ایک صاحب گیے ، گھنٹوں بیٹھے رہے ، مریض سے رہا نہ گیا اس نے کہا لوگوں کے دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے مجھے پریشانی کا سامنا ہے ، ان صاحب نے کہا کہ اگر اجازت دیں تو دروازہ بند کر دیں، مریض نے کہا ضرور، لیکن باہر سے ، یہ لطیفہ بتاتا ہے کہ کبھی کبھی یہ معاملہ کس قدر پریشان کن ہوجاتا ہے ۔
بخاری اور مسلم کی روایت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو مریض کے لیے دعا فرماتے کہ پروردگار! اس بندے کی تکلیف دور کرکے شفا فرمادے تو ہی شفا دینے والا ہے ، ایسی شفا عطا فرما دے جو بیماری کا اثر بالکل زائل کر دے ۔ حدیث میں اور بھی دعائیں عیا دت کے وقت منقول ہیں یاد ہو تو اس کا پڑھنا بھی مریض کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
حدیث قدسی ہے کہ اللہ پوچھیں گے کہ تم نے میری عیادت نہیں کی ، بندہ کہے گا کہ یا اللہ تجھے عیادت کی کیا ضرورت ہے تو ان چیزون سے بے نیاز ہے ، اللہ کہیں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی عیادت اور مزاج پرسی نہیں کی ، اگر تو اس بندہ کی عیادت کرتا تو تُو مجھے اس کے قریب پاتا، اس روایت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بیماری کی حالت میں بندہ اللہ سے قریب ہوتا ہے اور وہ اپنے مرض کی شدت پر جو صبر کرتا ہے اور صحت کی حالت پر جو شکر ادا کرتا ہے اس کی وجہ سے اسے اللہ کی قربت حاصل ہوتی ہے ، اسی لیے بعض روایتوں میں مریض کی دعاکے مقبول ہونے کی بات بھی کہی گئی ہے ، ظاہر ہے اس کی وجہ قربت خدا وندی ہی ہے ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ اسلام میں عیادت کی بنیاد مذہبی نہیں، انسانی ہے ، اس لیے مریض کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اس کی عیادت کرنی چاہیے تاکہ اس کے دل میں اسلام کی عظمت جاگزیں ہو اور مسلمانوں سے نفرت کا احساس کم ہو سکے ، جو بعض داخلی اور خارجی وجوہات کی وجہ سے اس کے دل ودماغ اور سوچ وفکر کا خاص طور پر حصہ بن گیے ہیں، مشہور روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بڑھیا کی عیادت کی جو آپ کے جسم اطہر پر گرد وغبار ڈالا کرتی تھی اور راستے میں کانٹے بچھاتی تھی۔ آج کے نفرت کے اس ماحول میں غیر مذاہب والوں کی عیادت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم دوسرے اعمال کی طرح اس کام میں بھی انتہائی کاہل اور سست واقع ہوئے ہیں، ہمارے پڑوس میں ہمارا بھائی رہتا ہے ، لیکن ہم اس بیمار بھائی اور پڑوسی کی عیادت کے لیے حاضر نہیں ہو پاتے ، حا کموں کا حال ما تحتوں کے سلسے میں آقا کا حال نوکر اور مزدورں کے سلسلے میں تو اور بھی نا گفتہ بہہ ہے ، انہیں فون پر دریافت حال کی بھی فرصت نہیں ہوتی ، اس سے مستثنی صرف اپنے بیوی بچے ہو تے ہیں ذرا سی چھینک آن پڑی اور سر درد کی خبر آئی نہیں کہ ہم بے چین ہو اٹھتے ہیں،لیکن دوسرے کہ جاں بلب ہو نے کی خبر پر بھی ہمارے جسم پر جوں تک نہیں رینگتی، یہ حال ہم مسلمانوں کا مسلمانوں کے ساتھ ہے ، جو ایک مسلمان کا دوسرے پر حق ہے ، دیگر مذاہب والوں کی عیادت کا تو ہمیں خیال بھی نہیں آتا ۔حا لانکہ آج کل ذرائع ابلاغ نے اتنی وسعت حاصل کر لی ہے کہ مریض کی عیادت کے لیے سفر کر نا بھی ضروری نہیں ہے ، اب تو ویڈیو کانفرنسنگ اور کالنگ کے ذریعہ دور دراز سے آمنے سامنے بات ہو سکتی ہے ، لیکن سہولتیں جس قدر ہیں ہماری بے اعتنائی بھی اسی قدر ہے ، عیادت کر نے والے بعض افراط کے بھی شکار ہو تے ہیں ، بعض لوگ شب وروز فون کرکے اتنی بار خیریت دریافت کرنا شروع کر تے ہیں کہ طبیعت گراں بار ہوجاتی ہے اور بعض لوگ مریض کی اس قدر ان دیکھی کرتے ہیں کہ شریعت کے حکم کے پاس ولحاظ نہ رکھنے کا احساس ہونے لگتا ہے ۔
جیسا کہ پہلے مذکور ہوا، اسلام میں عیادت صرف مزاج پرسی کا نام نہیں ہے ، بلکہ ہمدردی ، غم گساری، دل جوئی اور دلداری کا نام ہے ، اس کے بھی اصول وآداب ہیں، ہدایت دی گئی ہے کہ مریض کے سامنے اس کی درازی عمر کی بات کی جائے ، ایسی باتوں سے وقت مقررہ تو بدلے گا نہیں، لیکن مریض کو مرض سے لڑنے کا حوصلہ ملے گا۔ حدیث میں ’’لا باس طھور انشاء اللہ‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے ، اسی طرح بعض لوگ آتے تو عیادت کے لیے ہیں، لیکن آداب عیادت نہ معلوم ہونے کی وجہ سے کہنے لگتے ہیں کہ یہ مرض تو بڑا سخت ہے ، فلاں شخص کی موت اسی مرض میں ہو گئی تھی، ایسے جملوں سے ہر حال میں احتراز کرنا چاہیے ، تاکہ مریض اپنی زندگی سے مایوس نہ ہو جائے ، اس کے سامنے امید افزا جملے کہے جائیں تاکہ وہ اپنے دل میں خوشی محسوس کرے اور مرض کو ہلکا سمجھے اس سے اس کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوگا، ہم سب جانتے ہیں کہ بعض مرض صرف قوت مدافعت ختم ہونے کی وجہ سے موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔
عیادت کے لیے آنے والوں کے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ مریض کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں، اسے دوا کھانا ہے ، قضائے حاجت کا تقاضہ ہے ، دوسری خدمات درکار ہیں، ظاہر ہے اگر عیادت کرنے والا دیر تک بیٹھا رہے گا تو مریض کی بہت ساری ضرورتوں کی تکمیل میں رکاوٹ ہو سکتی ہے ، اس لیے مریض کے پاس مختصر قیام کرنا چاہیے ، سوائے اس کہ جب اس کی طویل نشست مریض کے لیے انسیت کا سبب ہو اور وہ عیادت کرنے والوں کے بیٹھنے سے تقویت محسوس کرے ، ایسے میں مریض کی دل جوئی کے لیے بیٹھنے میں حرج نہیں ہے ، اسی لیے جو مستقل تیمار دار ہے وہ اس اصول سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ وہ مریض کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہی اس کے پاس فروکش رہتا ہے ، یہاں پر ایک لطیفہ ذہن میں آگیا ۔ ایک مریض کی عیادت کے لیے ایک صاحب گیے ، گھنٹوں بیٹھے رہے ، مریض سے رہا نہ گیا اس نے کہا لوگوں کے دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے مجھے پریشانی کا سامنا ہے ، ان صاحب نے کہا کہ اگر اجازت دیں تو دروازہ بند کر دیں، مریض نے کہا ضرور، لیکن باہر سے ، یہ لطیفہ بتاتا ہے کہ کبھی کبھی یہ معاملہ کس قدر پریشان کن ہوجاتا ہے ۔
بخاری اور مسلم کی روایت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو مریض کے لیے دعا فرماتے کہ پروردگار! اس بندے کی تکلیف دور کرکے شفا فرمادے تو ہی شفا دینے والا ہے ، ایسی شفا عطا فرما دے جو بیماری کا اثر بالکل زائل کر دے ۔ حدیث میں اور بھی دعائیں عیا دت کے وقت منقول ہیں یاد ہو تو اس کا پڑھنا بھی مریض کے لیے فائدہ مند ہو گا۔