ماہنامہ الفاران

ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۳

قربانی کی تارِیخ پہلے اِنسان ہی سے شروع ہوجاتی ہے

حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد جمالپوری صاحب المظاہری، استاد حدیث و فقہ: مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا (ہماچل پردیش)

وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔ ترجمہ:۔”اور آپ اہل کتاب کو آدَم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجئے، جب اُن میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو اُن میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔آپ کو دیجئے کہ میری نماز اور قربانی اور میرا مرناجینااللہ کے لئے ہےجوتمام جہان کاپالنےوالاہےآیت بالا کے تحت امام جصاص رَازی لکھتے ہیں:”ونسکی: الاضحیة، لانھا تسمی نسکاً، وکذلک کل ذبیحة علی وجہ القرابة إلی اللہ تعالیٰ فھی نسک، قال اللہ تعالی: ففدیة من صیام و صدقة و نسک“۔کہ نسک“ سے مراد قربانی ہے؛اس لیے کہ اُس کا نام ”نسک“ بھی ہے، اِسی طرح ہر وہ جانور جو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا جائے وہ ”نسک“ کہلاتا ہے، ا رشادِ بارِی تعالیٰ ہے: ”فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُکٍ“۔
قربانی کے اس حکم کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے نماز کے تتمے کے طور پر یوں ذِکر فرمایا”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ“ اِبن کثیر اِس آیت کے تحت رَقمطراز ہیں: قال ابن عباس وعطاء ومجاھد وعکرمة والحسن: یعنی بذلک نحر البدن ونحوھا، وکذا قال قتادة ومحمد بن کعب القرظی، والضحاک والربیع وعطاء الخراسانی والحکم وإسماعیل بن أبی خالد وغیر واحد من السلف۔”حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہما، حضرت عطاء، مجاہد، عکرمہ رحمہم اللہ سمیت متعدد مفسرین فرماتے ہیں کہ ”وانحر“ سے اُونٹ کا ”نحر“ ہی مطلوب ہے جو قربانی کے لیے جانے والے جانور میں سے بڑا جانور ہے“۔
اِس سے فقہاء نے مسئلہ بھی اخذ فرمایا ہے کہ عید الاضحی پڑھنے وَالے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ نماز عید پہلے ادا کرلیں، اس کے بعد قربانی کریں، جن لوگوں پر عید کی نماز فرض ہے، اگر اُنہوں نے عید سے پہلے قربانی کردِی تو اُن کی قربانی نہیں ہوگی۔لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ․ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَترجمہ:۔”تاکہ یہ سب آنے وَالے اپنے اپنے فائدوں کی غرض سے پہنچ جائیں اور تاکہ قربانی کے مقررَہ دِنوں میں خدا کا نام لیں جو خدانے ان کو عطاء کیے ہیں، سوائے اُمت محمدیہ! تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھانا چاہو تو کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ۔
اِس آیت میں بھی قربانی ہی کا ذِکر ہے۔ ہرقوم میں نسک اور قربانی رَکھی گئی، جس کا بنیادِی مقصد خالق کائنات کی یاد، اس کے احکام کی بجاآورِی اس جذبے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ اللہ کی عطا اور دین ہے، یہاں بھی اِنسان کی قلبی کیفیت کا ایسا اِنقلاب مقصود ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے؛ بلکہ دِل وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، گویا قربانی کا عمل فتنۂ مال سے حفاظت کا دَرس دیتا ہے۔ وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔ ترجمہ:۔”اور ہم نے ہر اُمت کے لیے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا تھا کہ وہ ان چوپایوں کی قسم کے مخصوص جانوروں کو قربان کرتے وَقت اللہ کا نام لیا کریں، جو اللہ نے ان کو عطا کیے تھے۔ قربانی کی فضیلت۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عید الاضحیٰ کے دن فرزند آدم کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ زندہ ہو کر آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور مقبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے پس اے خدا کے بندو دل کی پوری خوشی سے قربانیاں کیا کرو (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں دس سال قیام فرمایا اور آپ برابر ( ہر سال) قربانی کرتے تھے ۔ (جامع ترمذی)۔
قربانی کی حقیقت
قرآنِ کریم میں تقریباً نصف دَرجن آیاتِ مبارکہ میں قربانی کی حقیقت ، حکمت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سورة حج میں ہے: وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعْلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ آیت نمبر 36 لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ط وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ۔ آیت نمبر 37 ترجمہ:۔”اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اُونٹوں کو عبادتِ اِلٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے، ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں، سو تم اُن کو نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے اُن پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں تو اُن کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھاؤ اور فقیر کو بھی کھلاؤ، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو، جس طرح ہم نے اِن جانوروں کی قربانی کو حال بیان کیا، اِسی طرح اُن کو تمہارا تابع دار بنایا؛ تاکہ تم شکر بجالاؤ! اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا؛ بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کردِیا ہے؛ تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی، اور اے پیغمبر! مخلصین کو خوش خبری سنا دیجیے“۔
سورة حج ہی میں دوسرے مقام پر اسے شعائر اللہ میں سے قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اورقربانی کی تعظیم کو دل میں پائے جانے والے تقویٰ خداوندی کا مظہر قرار دِیا ہے۔ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ آیت نمبر 32 ۔ترجمہ:اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رَکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دِلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے“۔
سابق انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں قربانی کا تسلسل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی علیہ السلام دُعا مانگتے اور آسمان سے خاص کیفیت کی آگ اُترتی اور اُسے کھاجاتی جسے قبولیت کی علامت سمجھا جاتا تھا، قرآنِ کریم میں ہے: ”اَلَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ عَھِدَ اِلَیْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّیٰ یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُ“۔ترجمہ:۔”یہ لوگ ایسے ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دے رکھاہے کہ ہم کسی رسول کی اُس وقت تک تصدیق نہ کریں؛ جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے کہ اُس کو آگ کھاجائے۔
وجوبِ قربانی کا نصاب
قربانی ہر اُس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب تک پہنچتی ہو، نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ساڑھے 87گرام480ملی گرام سوناپہلےزمانےمیں توپونےبارہ گرام کاہوتاتھالہذااس زمانے کے تولےکےحساب سےساڑھےسات تولہ اورہمارے زمانے میں تولہ دس گرام کاہوتاہےلہذاہمارےزمانےکےاعتبارسےپونےنوتولہ صرف سونا یا612گرام 360ملی گرام چاندی جوپہلےزمانےکےتولےکےحسابسے ساڑھے باوَن تولہ بنتی ہے اورہمارے زمانے کے تولےکےحساب سےسوااکسٹھ تولہ ہے یامذکورہ مقدار کی چاندی کی قیمت کے برابر نقد رَقم ہو یا ضرورَتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی قیمت 612گرام 360ملی گرام چاندی کے برابر ہو۔
نوٹ ایک ہزار ملی گرام کاایک گرام بنتاہے۔
ضرورت اصلیہ سےکیامرادہے وَاضح رہے کہ ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ چیزیں ہیں جو اِنسان کی جان یا عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے ضروری ہوں، اُن کے نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یا ہتک آبرو کا اندیشہ ہو، مثلاً کھا نا، پینا، رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے، اہل صنعت و حرفت کے اوزار، سفر کی گاڑِی، سوارِی وَغیرہ، نیز اس کے لیے اُصول یہ ہے کہ جس پر صدقہ فطر واجب ہے اُس پر قربانی بھی واجب ہے یعنی نصاب کے مال کا تجارَت کے لیے ہونا یا اُس پر سال گزرنا ضروری نہیں؛ چونکہ نصاب کے لیے ضرورَتِ اصلیہ سے زائد مال کا اعتبار ہوتا ہے؛ اِس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ جو سامان سال بھرمیں ایک بھی مرتبہ استعمال نہیں ہوتاوہ ضرورت اصلیہ سے زائد ہے جیسے بڑی بڑی دیگیں، بڑے فرش، شامیانے، یاوہ عزت و آبرو یاکھانےرہنےکےلیےنہ ہوں جیسے ریڈیو، ٹیپ رِیکارڈر، عام رِیکارڈر، ٹیلی وِیژن، وِی سی آرموبائل ضرورت میں دَاخل نہیں، اگر ان کی قیمتیں نصاب تک پہنچ جائیں تو بھی ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی۔
اگر کسی کے پاس مالِ تجارت، مثلاً: شیئرز، جیولری کا کام، فریج، گاڑیاں، پنھے وَغیرہ کسی طرح کا مال ہو اور بقدرِ نصاب یا اس سے زیادَہ ہو تو اُس پر بھی قربانی وَاجب ہے۔ اگر کوئی فقیر آدمی قربانی کے ایام میں سے کسی دِن بھی صاحب نصاب ہوگیا تو اُس پر قربانی وَاجب ہوجائے گی۔۔ اگر کوئی صاحب نصاب کافر قربانی کے ایام میں مسلمان ہوجائے تو اُس پر قربانی لازم ہوگی۔ اگر عورَت صاحب نصاب ہو تو اُس پر بھی قربانی وَاجب ہے، بیوی کی قربانی شوہر پر لازم نہیں، اگر بیوی کی اِجازت سےشوہربیوی کی طرف سے قربانی کردے تو ہوجائے گی۔بعض لوگ نام بدل کر قربانی کرتے رہتے ہیں، باوجود یہ کہ دونوں میاں بیوی صاحب نصاب ہوتے ہیں، مثلاً: ایک سال شوہر کے نام سے، دوسرے سال بیوی کے نام سے، تو اس سے قربانی ادا نہیں ہوتی؛ بلکہ ہر صاحب نصاب میاں، بیوی پر علیحدہ علیحدہ قربانی ہوتی ہے۔
اگر بیوی کا مہر مؤجل (یعنی اُدھار) ہے جو شوہر نے ابھی تک نہیں دِیا اور وہ نصاب کے برابر ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے۔ اور اگر مہر معجل (یعنی فورِی طور پر نقد) ہے اور نصاب کے برابر یا اُس سے زیادَہ ہے تو اس پر بھی قربانی وَاجب ہے۔۔ اگر مشترک کارُوبار کی مالیت تقسیم کے بعد ہرایک کو بقدرِ نصاب یا اُس سے زائد پہنچتی ہو تو سب پر زکوٰة وقربانی واجب ہوگی۔ اگر کاشت کار، کسان کے پاس ہل چلانے اور دُوسری ضرورَت سے زائد اِتنے جانور ہوں جو بقدرِ نصاب ہوں تو اُس پر قربانی ہوگی اور اگروہ جانور نصاب کی مقدار کے برابر نہ ہوں تو واجب نہ ہوگی۔ اگر کسی کے پاس کتب خانہ ہے اور مطالعہ کے لیے کتب رکھی ہیں تو اگر وہ خود تعلیم یافتہ نہیں اور کتابوں کی قیمت نصاب تک پہنچی ہوئی ہے تو اُس پر قربانی واجب ہے اور اگر صورَتِ مذکورَہ میں وہ تعلیم یافتہ ہے تو قربانی وَاجب نہیں ہوگی۔۔ ہر سرکارِی وغیر سرکارِی ملازم جس کی تنخواہ اِخراجات نکالنے کے بعد نصاب کے بقدر یا اس سے زائد بچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے۔۔
جانوروں کی عمریں:
اونٹ پانچ سال کابھینس وغیرہ دو سال کی۔۔۔ بکری، بھیڑ ایک سال کی۔۔۔ یہ عمر کم از کم حد ہے۔ اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ زیادہ عمر ہو تو بہتر ہے۔ ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا موٹا تازہ ہوکہ دیکھنے میں سال بھر کا نظر آئے تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
درمختار، هداية، عالمگيری، :۔ قربانی کے دن قربانی کے تین دن ہیں دس گیارہ بارہ ذوالحجہ واضح رہے پہلے دن قربانی کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پر عمل پیرا رہے ہیں لہٰذا بلاوجہ قربانی دیر سے نہ کی جائے اگرچہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ غرباء مساکین کو فائدہ پہنچانے کیلئے تاخیر کرنا افضل ہے لیکن یہ محض ایک خیال ہے جس کی کوئی منقول دلیل نہیں ہے۔ نیز اگر کسی نے بارہ ذوالحجہ کو قربانی کرنی ہو تو غروب آفتاب سے پہلے پہلے قربانی کر دے کیونکہ غروب آفتاب کے بعد اگلا دن شروع ہو جاتا ہے۔ جانورذبح کرنے کا طریقہ۔ ذبح کنےکاصحیح طریقہ یہ ہے کہ جانور کو قبلہ رو لٹانے کے بعد ’’بسم اللہ، و اللہ اکبر‘‘ کہتے ہوئے تیز دھار چھرے سے جانور کے حلق اور لبہ کے درمیان ذبح کیا جائے، اور گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے، نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے، بلکہ ’’حلقوم‘‘ اور ’’مری‘‘ یعنی سانس کی نالی اور اس کے اطراف کی خون کی رگیں جنہیں ’’اَوداج‘‘ کہا جاتا ہے کاٹ دی جائیں، اس طرح جانور کو شدید تکلیف بھی نہیں ہوتی اور سارا نجس خون بھی نکل جاتا ہے، اس طریقہ کے علاوہ باقی تمام طریقوں میں نہ ہی پورا خون نکلتا ہے اور جانور کو بلا ضرورت شدید تکلیف بھی ہوتی ہے۔
جانور کو قبلہ رخ لٹاتے ہوئے جانور کی بائیں کروٹ پر لٹانا پسندیدہ ہے، (یعنی ہمارے ملک میں جانور کی سر والی طرف جنوب میں اور دم والی جانب شمال میں ہو)، تاکہ دائیں ہاتھ سے چھری چلانے میں سہولت رہے۔ "عن أنس، قال: «ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين أقرنين، ذبحهما بيده، وسمى وكبر، ووضع رجله على صفاحهما»".( صحيح مسلم: حدیث نمبر 1556)ترجمہ: حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ،اور ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ ، اللہ اکبر‘‘ پڑھا ،اور ان کے پہلو پر اپنا قدم مبارک رکھا ۔
’’عن عائشة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد، ويبرك في سواد، وينظر في سواد، فأتي به ليضحي به، فقال لها: «يا عائشة، هلمي المدية»، ثم قال: «اشحذيها بحجر»، ففعلت: ثم أخذها، وأخذ الكبش فأضجعه، ثم ذبحه، ثم قال: «باسم الله، اللهم تقبل من محمد، وآل محمد، ومن أمة محمد، ثم ضحى به»‘‘. ( صحيح مسلم حدیث نمبر 1557)ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہو (یعنی پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں)۔ پھر ایک ایسا مینڈھا قربانی کے لیے لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! چھری لاؤ۔ پھر فرمایا کہ اس کو پتھر سے تیز کر و ، تو میں نے تیز کرکے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا، پھر ذبح کرتے وقت فرمایا کہ ’’بسم اللہ‘‘، اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آل کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت کی طرف سے اس کو قبول کر، پھر اس کی قربانی کی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے: "أَمَّا الِاخْتِيَارِيَّةُ، فَرُكْنُهَا الذَّبْحُ فِيمَا يُذْبَحُ مِنْ الشَّاةِ وَالْبَقَرِ، وَالنَّحْرُ فِيمَا يُنْحَرُ وَهُوَ الْإِبِلُ عِنْدَ الْقُدْرَةِ عَلَى الذَّبْحِ وَالنَّحْرِ، وَلَايَحِلُّ بِدُونِ الذَّبْحِ أَوِالنَّحْرِ، وَالذَّبْحِ هُوَ فَرْيُ الْأَوْدَاجِ وَمَحَلُّهُ مَا بَيْنَ اللَّبَّةِ وَاللَّحْيَيْنِ، وَالنَّحْرُ فَرْيُ الْأَوْدَاجِ وَمَحَلُّهُ آخِرُ الْحَلْقِ، وَلَوْ نَحَرَ مَا يُذْبَحُ أَوْ ذَبَحَ مَا يُنْحَرُ يَحِلُّ لِوُجُودِ فَرْيِ الْأَوْدَاجِ لَكِنَّهُ يُكْرَهُ لِأَنَّ السُّنَّةَ فِي الْإِبِلِ النَّحْرُ وَفِي غَيْرِهَا الذَّبْحُ، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ ... وَالْعُرُوقُ الَّتِي تُقْطَعُ فِي الذَّكَاةِ أَرْبَعَةٌ: الْحُلْقُومُ وَهُوَ مَجْرَى النَّفَسِ، وَالْمَرِيءُ وَهُوَ مَجْرَى الطَّعَامِ، وَالْوَدَجَانِ وَهُمَا عِرْقَانِ فِي جَانِبَيْ الرَّقَبَةِ يَجْرِي فِيهَا الدَّمُ، فَإِنْ قُطِعَ كُلُّ الْأَرْبَعَةِ حَلَّتْ الذَّبِيحَةُ، وَإِنْ قُطِعَ أَكْثَرُهَا فَكَذَلِكَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -، وَقَالَا: لَا بُدَّ مِنْ قَطْعِ الْحُلْقُومِ وَالْمَرِيءِ وَأَحَدِ الْوَدَجَيْنِ، وَالصَّحِيحُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - لِمَا أَنَّ لِلْأَكْثَرِ حُكْمَ الْكُلِّ، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ". (كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَفِيهِ ثَلَاثَةُ أَبْوَابٍ، الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي رُكْنِهِ وَشَرَائِطِهِ وَحُكْمِهِ وَأَنْوَاعِهِ، ج5 /ص 285/287)
جب قربانی کا جانور قبلہ رخ لٹائے تو پہلے درج ذیل آیت پڑھنا بہتر ہے: "إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ". اور ذبح کرنے سے پہلے درج ذیل دعا اگر یاد ہو تو پڑھ لے:"اللّٰهُم َّمِنْكَ وَ لَكَ" پھر ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ذبح کرے ، اور ذبح کرنے کے بعد اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو پڑھ لے:"اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْهُ مِنِّيْ كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِيْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِيْلِكَ إبْرَاهِيْمَ عليهما السلام". اگر کسی اور کی طرف سے ذبح کر رہا ہو تو "مِنِّيْ" کی جگہ " مِنْ " کے بعد اس شخص کا نام لے لے۔
فقط واللہ اعلم۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی