ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۳
عید الاضحےٰ کاپیغام
مولانا ارشد کبیر خاقان المظاہری،جنرل سکریٹری:تنظیم فلاح ملت، مرکزی دفتر:مدرسہ نور المعارف،مولانا علی میاں نگر، دیا گنج،ضلع ارریہ:مدیر مسئول ماہنامہ "الفاران"
جستجو دنیوی مسائل سے متعلق ہو یا اخروی کامیابی سے متعلق تاریخ گواہ ہے اسکے خواہشمند کو حالات کے مطابق کبھی تو خواہشات کی قربانی اور کبھی محبوب جان اور عزیز اولاد کا بلید ان دینا پڑتا ہے۔
اسی طرح ایک بے مثال قربانی کا واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا ہے جس نے انسانی زندگی کی اجتماعی دُھری کو حرکت میں لا کر پوری انسانیت میں بھائی چارگی (Brother Hood) کی بنیاد ڈالی۔
سیّدنا حضرت ابراہیم کے تقدس و احترام کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے تین سب سے بڑے مذاہب یعنی مسلمان،عیسائی اور یہودی آپ کو اللہ تعالیٰ کا ایک اولو العزم پیغمبر مانتے ہیں،آپ کے وجود پاک سے نہ صرف دنیا کو ٹھنڈک نصیب ہوئی،بلکہ آتش کدہئ نمرود ہمیشہ کے لئے سرد ہو گیا۔
آپ خانہ کعبہ کے معمارِ اوّل بھی ہیں۔آپ نے جس قوم میں پرورش پائی ،اسمیں خدا پرستی کی جگہ سورج،چاند اور ستاروں کی پوجا ہوتی تھی،چاند اور سورج کی پرستش اس زمانہ میں ایک مذہبی عقیدہ نہ تھا بلکہ اس وقت کی سیاست کی بنیاد بھی تھی،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس عقیدہ میں اپنے لئے کوئی کشش نہ پاکر دنیاوی نظام پر غور و فکر کرنا شروع کردیا۔چاند چمکتا ہے ماند پڑ جاتا ہے، ستارے نکلتے ہیں ڈوب جاتے ہیں، سورج روشن ہوتا ہے پھر رات کی تاریکیوں میں چھپ جاتا ہے،یہ اگنے اور ڈوبنے والی چیزیں خدا نہیں بن سکتیں خدا تو وہ ہے جو ان چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے۔
اس صحیح فکر اور سچّے عقیدہ کے اعلان کے صلہ میں آپ کو یہ قیمت چُکا نا پڑی کہ آپ گھر سے بے گھر ہوگئے،سماج میں آپ کی حیثیت اجنبی انسان کی سی ہو گئی،قوم نے ہر طرح ستانے اور ایزا رسانی پر کمر باندھ لی یہاں تک کہ حاکمِ وقت نمرود نے دہکتی آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا، اور لپکتے شعلوں میں ڈلوا دیے گئے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے کافروں کو ذلیل و رسوا کیا،آگ آپ کے لئے برد و سلام اور گلِ گلزار بن گئی۔آج بھی ہو جو ابراہیم،سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے،اندازِ گلستاں پیدا
خدا کی اس قدر ت سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے لوگ اور بھڑک گئے، پوری قوم دشمنی پر اُتر آئی۔
زندگی ہے یا کوئی، طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں،مر چلے
جب آپ اہلِ وطن سے بالکل مایوس ہو گئے تو بے سرو سامانی کی حالت میں وطنِ عراق سے نکل کر بیوی اور بھتیجے کے ساتھ مکّہ پہنچ گئے۔
اب حضرت ابراہیم بوڑھے ہو چکے تھے،پردیس میں آکر اور بھی زیادہ انسان کو یارو مددگار کی ضرورت پڑتی ہے اسلئے خدا کے دربار میں دعا کی،خدایا! ایک نیک فرزند عطا فرما، یہ دعا قبول ہوئی اور ۶۸ سال کی عمر میں حضرت ہاجرہ کے شکم سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام اسمٰعیل رکھّا،اکلوتا ہونہار بیٹا،بوڑھے باپ کی تمنّاؤں کا یہ مرکزجب چلنے پھرنے کے قابل ہوا،پرورش کی مشقت برداشت کرنے کے بعد اب وقت آیا تھا کہ وہ قوتِ بازو بن کر باپ کا سہارا ثابت ہو، توحضرت ابراہیم ؑکو اور بھی سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔
خواب میں حکم ملتا ہے اے ابراہیم! اپنے لاڈلے اور آخری سہارے سے بھی دست بردار ہو جاؤ اور اپنے بیٹے کو ہماری راہ میں قربان کردو۔
اس انوکھی عبادت کا تذکرہ قرآن شریف میں اس طور پر مرقوم ہے۔ ”پھر جب وہ آپ کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچے تو فرمایا،بیٹا! میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں،بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟اسماعیل بولے ابّا جان! جو آپ کو حکم ہے کر گذریے،آپ مجھے ان شاء ا للہ صابر پائیں گے،پھر جب دونوں راضی ہو گئے اور آپ نے بچےّ کو ماتھے کے بل لٹا دیا اور ہم نے آواز دیکر کہا ابراہیم ؑ! تم نے خواب سچّا کر دکھایا! ہم اسی طرح مخلصوں کو بدلہ دیتے ہیں،واقعی یہ ایک کھلی آزمائش ہے اور ہم نے اسکے فدیہ میں ایک عظیم ذبیحہ دیا اور پچھلوں میں آپ کا ذکرِ خیرباقی رکھا کہ سلامتی ہو ابراہیم پر۔ہم اس طرح مخلصوں کو بدلہ دیتے ہیں۔واقعی وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے ہیں“
اسوقت حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام تیرہ سال کے تھے،قربانی، وہ بھی بیٹے کی، باپ کے ہاتھ سے، بیٹے کو باپ نے خدا کا حکم سنایا!سعادت مند بیٹے نے جواب دیا، ابّا جان! وہ کر گذریے جس کا آپ کو حکم ملا ہے آپ مجھے ان شاء ا للہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، باپ نے خدا کے حکم کی تعمیل میں بیٹے کی قربانی کے لئے جیسے ہی گردن پر چھر ی رکھی اس وقت خدا کی طرف سے آواز آئی اے ابراہیم ؑ! بس تم نے ہمارا حکم پورا کردیا، وفاداری کا آخری ثبوت پیش کر دیا، اس کے بعد فرشتے نے اللہ کی جانب سے مینڈھے کی قربانی پیش کی یہ عید الاضحی کی دسویں تاریخ کا واقعہ ہے۔
قرآ ن کریم کے اسلوب بیان اور روایات کی قوت کی لحاظ سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کو جس صاحبزادے کے ذبح کا حکم دیا گیا وہ حضرت اسمٰعیل ؑ تھے۔حضرت اسحٰقؑ کو ذبح کئے جانے کا حکم نا ممکن ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں چند مشہور وعدے فرمائے ہیں، ان میں حضرت یعقوب ؑ کی پیدائش بھی ہے۔ ٍ
انسائکلو پیڈیا آف اسلام۔صفحہ ۶۱۹، جلد ۷۔ میں ہے کہ بائبل میں حضرت اسحٰق ؑ کا نام یہود کی تحریف اور اضافہ ہے اسلئے انسائکلو پیڈیا برٹینکا میں جو لکھا ہے کہ بائبل میں حضرت اسحٰق کی قربانی کا باب نہ اصل ہے نہ قدیم، بالکل درست ہے۔
حافظ ابن کثیر ؒ نے نقل کیا ہے کہ علماء یہود میں سے ایک شخص عمر بن عبد العزیز ؒ کے زمانہ میں مسلمان ہو گیا تھا، حضرت عمر بن عبد العزیز ؒنے اس سے پوچھا! ابراہیم ؑ کے بیٹوں میں سے کونسے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا تو اس نے کہا خدا کی قسم امیر المؤمنینِ وہ اسمٰعیل تھے، یہودی اس بات کو خوب جانتے ہیں لیکن وہ اب عرب لوگوں سے حسد کی وجہ سے ایسا کہتے ہیں، وہ پسند نہیں کرتے کہ عربوں کے دادا ذبیح ثابت ہوں۔
حقیقت ہے جو بندہ خدا کے حکم پر اپنے تمام جذبات کو قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، تو خدا اس کا صلہ دنیوی تکلیف سے چھٹکارا اور آخرت میں اس کا بہتر بدل عطا فرماتا ہے۔
چنانچہ اللہ کو آ پکا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ قیامت تک آپ کی یاد کو امّت میں زندہ رکھنے کے لئے اپنی محبوب عبادت قرار دیکر اپنے بندوں پر قربانی لازم قرار دی۔ اگر کوئی شخص قربانی نہ کرے اس پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طورپر ناراضگی کا اظہار فرمایا من لم یضح فلا یقربن مصلانا جو شخص گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔
قربانی کی حقیقت کے بارے میں قرآن پاک میں ہے لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لَحُوْمُہَا وَ لَا دِمَاؤُہَا وَلٰکِن یَّنَالُہٗ التَّقْویٰ مِنْکُمْ، خدا کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا خدا کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے،گویا خدا کے یہاں اخلاص والے دل کی قدر ہے چوپائے کی قربانی تو دل کی اندرونی کیفیت کی ایک ظاہری پہچان ہے، یہ پلے جانوروں کی قربانی نفس کی قربانی کا احساس دلاتی ہے گویا یہ قربانی اپنی جان کا بدل ہے اور جذبہئ تسلیم و رضا ء پیدا کر کے راہِ خدا مین بڑی سے بڑی جانی و مالی قربانی کے لئے تربیت دینا ہے۔
اس طرح قربانی دینے والے عمل کی زبان مین کہتے ہیں خدا یا! جانیں بھی تیرے لئے حاضر ہیں اور ہر وقت اس کے لئے تیار ہیں کہ جب بھی تیرا حکم ہو عزیز جان، مال اور اولاد تیرے حضور پیش کر دیں۔
قربانی اس کی ہے جس نے روزانہ کی زندگی میں اپنے نفس کے خلاف،جھوٹ اور فریب کے خلاف،شرک اور بدعت کے خلاف،رشوت اور چور بازاری کے خلاف، ظلم اور فساد کے خلاف اپنے آپ کو قربان کر رکھا ہو۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ کے اس پورے واقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ حق اور ستھری بات کہنے میں انسان کو طرح طرح کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ایسے موقع پر صبر کا دامن تھامے رہنا ہی اچھے انسان کی پہچان اور کامیابی کی علامت ہے ورنہ: سفینے وہاں ڈوب کر ہی رہیں گے
جہاں نا خداؤں نے ہمت کو ہارا
حضرت ابراہیم ؑ کا واقعہ خدا کے حکم پر آخری مال و متاع کو قربان کر دینے کا سبق سکھاتا ہے، حضر ت اسمٰعیل ؑ کا طریقہئ حیات بے جھجک اپنی پیاری جان خدا کے حکم پر قربان کر دینے اور ماں ماپ کے مشورے پر عمل کر کے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کا انمول سبق بھی سکھاتا ہے، گھمنڈ اور بڑائی سے پاک زندگی گذارنے کی اس طور پر رہبری کرتا ہے کہ”اگر خدانے چاہا تو مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے“
ان شاء اللہ،کہہ کر ذاتی دعویٰ سے ہٹ کر معاملہ اللہ کے حوالہ کردیا اور خود سپردگی و انکساری کی انتہا دیکھئے،فرماتے ہیں! صبر کرنا میرا ہی کمال نہیں، دنیا میں اور بھی صبر کرنے والے ہوئے ہیں میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں گا۔
در حقیقت قربانی کا یہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر اللہ کے نیک بندوں نے پوری انسانیت کی قسمت بدل ڈالی، خدا کی خوشنودی کے لئے آج بھی یہی راستہ ہے۔عید الاضحی کا یہی ہمارے لئے پیغام بھی ہے۔ہو مبارک شبِ، برات عید الاضحی عید الفطر
ایسی خوشیاں، زندگی میں بار بار آتی رہیں
اسی طرح ایک بے مثال قربانی کا واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا ہے جس نے انسانی زندگی کی اجتماعی دُھری کو حرکت میں لا کر پوری انسانیت میں بھائی چارگی (Brother Hood) کی بنیاد ڈالی۔
سیّدنا حضرت ابراہیم کے تقدس و احترام کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے تین سب سے بڑے مذاہب یعنی مسلمان،عیسائی اور یہودی آپ کو اللہ تعالیٰ کا ایک اولو العزم پیغمبر مانتے ہیں،آپ کے وجود پاک سے نہ صرف دنیا کو ٹھنڈک نصیب ہوئی،بلکہ آتش کدہئ نمرود ہمیشہ کے لئے سرد ہو گیا۔
آپ خانہ کعبہ کے معمارِ اوّل بھی ہیں۔آپ نے جس قوم میں پرورش پائی ،اسمیں خدا پرستی کی جگہ سورج،چاند اور ستاروں کی پوجا ہوتی تھی،چاند اور سورج کی پرستش اس زمانہ میں ایک مذہبی عقیدہ نہ تھا بلکہ اس وقت کی سیاست کی بنیاد بھی تھی،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس عقیدہ میں اپنے لئے کوئی کشش نہ پاکر دنیاوی نظام پر غور و فکر کرنا شروع کردیا۔چاند چمکتا ہے ماند پڑ جاتا ہے، ستارے نکلتے ہیں ڈوب جاتے ہیں، سورج روشن ہوتا ہے پھر رات کی تاریکیوں میں چھپ جاتا ہے،یہ اگنے اور ڈوبنے والی چیزیں خدا نہیں بن سکتیں خدا تو وہ ہے جو ان چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے۔
اس صحیح فکر اور سچّے عقیدہ کے اعلان کے صلہ میں آپ کو یہ قیمت چُکا نا پڑی کہ آپ گھر سے بے گھر ہوگئے،سماج میں آپ کی حیثیت اجنبی انسان کی سی ہو گئی،قوم نے ہر طرح ستانے اور ایزا رسانی پر کمر باندھ لی یہاں تک کہ حاکمِ وقت نمرود نے دہکتی آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا، اور لپکتے شعلوں میں ڈلوا دیے گئے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے کافروں کو ذلیل و رسوا کیا،آگ آپ کے لئے برد و سلام اور گلِ گلزار بن گئی۔
آگ کرسکتی ہے،اندازِ گلستاں پیدا
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں،مر چلے
اب حضرت ابراہیم بوڑھے ہو چکے تھے،پردیس میں آکر اور بھی زیادہ انسان کو یارو مددگار کی ضرورت پڑتی ہے اسلئے خدا کے دربار میں دعا کی،خدایا! ایک نیک فرزند عطا فرما، یہ دعا قبول ہوئی اور ۶۸ سال کی عمر میں حضرت ہاجرہ کے شکم سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام اسمٰعیل رکھّا،اکلوتا ہونہار بیٹا،بوڑھے باپ کی تمنّاؤں کا یہ مرکزجب چلنے پھرنے کے قابل ہوا،پرورش کی مشقت برداشت کرنے کے بعد اب وقت آیا تھا کہ وہ قوتِ بازو بن کر باپ کا سہارا ثابت ہو، توحضرت ابراہیم ؑکو اور بھی سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔
خواب میں حکم ملتا ہے اے ابراہیم! اپنے لاڈلے اور آخری سہارے سے بھی دست بردار ہو جاؤ اور اپنے بیٹے کو ہماری راہ میں قربان کردو۔
اس انوکھی عبادت کا تذکرہ قرآن شریف میں اس طور پر مرقوم ہے۔ ”پھر جب وہ آپ کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچے تو فرمایا،بیٹا! میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں،بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟اسماعیل بولے ابّا جان! جو آپ کو حکم ہے کر گذریے،آپ مجھے ان شاء ا للہ صابر پائیں گے،پھر جب دونوں راضی ہو گئے اور آپ نے بچےّ کو ماتھے کے بل لٹا دیا اور ہم نے آواز دیکر کہا ابراہیم ؑ! تم نے خواب سچّا کر دکھایا! ہم اسی طرح مخلصوں کو بدلہ دیتے ہیں،واقعی یہ ایک کھلی آزمائش ہے اور ہم نے اسکے فدیہ میں ایک عظیم ذبیحہ دیا اور پچھلوں میں آپ کا ذکرِ خیرباقی رکھا کہ سلامتی ہو ابراہیم پر۔ہم اس طرح مخلصوں کو بدلہ دیتے ہیں۔واقعی وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے ہیں“
اسوقت حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام تیرہ سال کے تھے،قربانی، وہ بھی بیٹے کی، باپ کے ہاتھ سے، بیٹے کو باپ نے خدا کا حکم سنایا!سعادت مند بیٹے نے جواب دیا، ابّا جان! وہ کر گذریے جس کا آپ کو حکم ملا ہے آپ مجھے ان شاء ا للہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، باپ نے خدا کے حکم کی تعمیل میں بیٹے کی قربانی کے لئے جیسے ہی گردن پر چھر ی رکھی اس وقت خدا کی طرف سے آواز آئی اے ابراہیم ؑ! بس تم نے ہمارا حکم پورا کردیا، وفاداری کا آخری ثبوت پیش کر دیا، اس کے بعد فرشتے نے اللہ کی جانب سے مینڈھے کی قربانی پیش کی یہ عید الاضحی کی دسویں تاریخ کا واقعہ ہے۔
قرآ ن کریم کے اسلوب بیان اور روایات کی قوت کی لحاظ سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کو جس صاحبزادے کے ذبح کا حکم دیا گیا وہ حضرت اسمٰعیل ؑ تھے۔حضرت اسحٰقؑ کو ذبح کئے جانے کا حکم نا ممکن ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں چند مشہور وعدے فرمائے ہیں، ان میں حضرت یعقوب ؑ کی پیدائش بھی ہے۔ ٍ
انسائکلو پیڈیا آف اسلام۔صفحہ ۶۱۹، جلد ۷۔ میں ہے کہ بائبل میں حضرت اسحٰق ؑ کا نام یہود کی تحریف اور اضافہ ہے اسلئے انسائکلو پیڈیا برٹینکا میں جو لکھا ہے کہ بائبل میں حضرت اسحٰق کی قربانی کا باب نہ اصل ہے نہ قدیم، بالکل درست ہے۔
حافظ ابن کثیر ؒ نے نقل کیا ہے کہ علماء یہود میں سے ایک شخص عمر بن عبد العزیز ؒ کے زمانہ میں مسلمان ہو گیا تھا، حضرت عمر بن عبد العزیز ؒنے اس سے پوچھا! ابراہیم ؑ کے بیٹوں میں سے کونسے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا تو اس نے کہا خدا کی قسم امیر المؤمنینِ وہ اسمٰعیل تھے، یہودی اس بات کو خوب جانتے ہیں لیکن وہ اب عرب لوگوں سے حسد کی وجہ سے ایسا کہتے ہیں، وہ پسند نہیں کرتے کہ عربوں کے دادا ذبیح ثابت ہوں۔
حقیقت ہے جو بندہ خدا کے حکم پر اپنے تمام جذبات کو قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، تو خدا اس کا صلہ دنیوی تکلیف سے چھٹکارا اور آخرت میں اس کا بہتر بدل عطا فرماتا ہے۔
چنانچہ اللہ کو آ پکا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ قیامت تک آپ کی یاد کو امّت میں زندہ رکھنے کے لئے اپنی محبوب عبادت قرار دیکر اپنے بندوں پر قربانی لازم قرار دی۔ اگر کوئی شخص قربانی نہ کرے اس پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طورپر ناراضگی کا اظہار فرمایا من لم یضح فلا یقربن مصلانا جو شخص گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔
قربانی کی حقیقت کے بارے میں قرآن پاک میں ہے لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لَحُوْمُہَا وَ لَا دِمَاؤُہَا وَلٰکِن یَّنَالُہٗ التَّقْویٰ مِنْکُمْ، خدا کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا خدا کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے،گویا خدا کے یہاں اخلاص والے دل کی قدر ہے چوپائے کی قربانی تو دل کی اندرونی کیفیت کی ایک ظاہری پہچان ہے، یہ پلے جانوروں کی قربانی نفس کی قربانی کا احساس دلاتی ہے گویا یہ قربانی اپنی جان کا بدل ہے اور جذبہئ تسلیم و رضا ء پیدا کر کے راہِ خدا مین بڑی سے بڑی جانی و مالی قربانی کے لئے تربیت دینا ہے۔
اس طرح قربانی دینے والے عمل کی زبان مین کہتے ہیں خدا یا! جانیں بھی تیرے لئے حاضر ہیں اور ہر وقت اس کے لئے تیار ہیں کہ جب بھی تیرا حکم ہو عزیز جان، مال اور اولاد تیرے حضور پیش کر دیں۔
قربانی اس کی ہے جس نے روزانہ کی زندگی میں اپنے نفس کے خلاف،جھوٹ اور فریب کے خلاف،شرک اور بدعت کے خلاف،رشوت اور چور بازاری کے خلاف، ظلم اور فساد کے خلاف اپنے آپ کو قربان کر رکھا ہو۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ کے اس پورے واقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ حق اور ستھری بات کہنے میں انسان کو طرح طرح کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے ایسے موقع پر صبر کا دامن تھامے رہنا ہی اچھے انسان کی پہچان اور کامیابی کی علامت ہے ورنہ:
جہاں نا خداؤں نے ہمت کو ہارا
ان شاء اللہ،کہہ کر ذاتی دعویٰ سے ہٹ کر معاملہ اللہ کے حوالہ کردیا اور خود سپردگی و انکساری کی انتہا دیکھئے،فرماتے ہیں! صبر کرنا میرا ہی کمال نہیں، دنیا میں اور بھی صبر کرنے والے ہوئے ہیں میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں گا۔
در حقیقت قربانی کا یہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر اللہ کے نیک بندوں نے پوری انسانیت کی قسمت بدل ڈالی، خدا کی خوشنودی کے لئے آج بھی یہی راستہ ہے۔عید الاضحی کا یہی ہمارے لئے پیغام بھی ہے۔
ایسی خوشیاں، زندگی میں بار بار آتی رہیں