ماہنامہ الفاران

ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۳

نفس کی قربانیوں کا عید الاضحی نام ہے

جناب حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران

دنیاوی دستور کی طرح اخروی اصول بھی ہے کہ محب اور عاشق کی آزمائش ہوتی ہے جو جس قدر نزدیک ہوتا ہے، اتنا ہی اس کا امتحان بھی لیا جاتا ہے۔
پھر خدا کا دستور ہے کہ جو اس کا مقرب اور محبوب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ اسکے ساتھ وہ نہیں ہوتا جو عام انسانوں کے ساتھ ہے بلکہ اسکو آزمائش اور امتحان کی سخت سے سخت منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے، قدم قدم پر جاں نثاری،تسلیم و رضااور خودسپردگی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہم گروہِ انبیاء اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے امتحان کی صعوبتوں میں ڈالے جاتے ہیں۔
قربانی ئ عید الاضحی بھی ایک عاشقِ حقیقی اور خدا کی نزدیکی کی آزمائش میں پورے اترنے اور دعوائے عاشقی میں کامل ہونے کی ایک باپ بیٹے کی داستان ہے، جس کو دنیا حضرت ابراہیمؑ اور بیٹے کو حضرت اسمٰعیل ؑکے نام سے جانتی ہے
کلیجہ تھام لوگے،جب سنوگے نہ سنوائے،خدا شیون کسی کا
تقریباً پانچ ہزار سا ل پُرانی بات ہے،نینوا اور شہر بابل تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور عیش و عشرت کا مرکز تھا، جہاں اسباب و راحت کی ہر چیز مہیا تھی، اگر کمی تھی تو صرف ایک خدا کی پرستش اور خدا کے ماننے والوں کی۔
اس وقت کا بادشاہ”نمرود“ اس علاقہ کا فرماں روا تھا جو صرف بادشاہ یا حکمراں ہی نہیں، بلکہ خدائی کا دعویدارتھا جس کی عبادت ہر شخص پر ضروری تھی۔اس ماحول میں خدا نے اپنے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم ؑ کو پیدا کیا تا کہ گمراہوں کو راہِ راست پر لائیں اور گناہوں کی دلدل میں پھنسے انسانوں کو صحیح راستہ دکھائیں،۔
تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ پل کر جوان ہوئے تو سب سے پہلے اس وقت کی سب سے بڑی طاقت،نمرود سے واسطہ پڑا۔ نمرود نے ہزار کوششیں کیں کہ ابراہیم ؑ بھی اوروں کی طرح مجھے خدا کہے مگر حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کی باطل خدائی نہ صرف یہ کہ تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ آج کی زبان میں اس کے خلاف علمِ بغاوت بھی بلند کردیا۔
حضرت ابراہیم ؑنے نمرود سے کہا! اگر تمہارا دعوئے خدائی درست ہے تو میرا خدا وہ ہے جو ہر روز سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے اگر تیری خدائی کا دعویٰ واقعی سچّا ہے تو سورج مغرب کی طرف سے اُگا کردکھا۔
یہ وقت تھا جب بڑے بڑے سورما نمرود کی باطل خدائی کے سامنے سر نگوں ہو کر اس کی خدائی پر مہرِ تصدیق ثبت کر چکے تھے،ایسی وقت میں حضرت ابراہیم ؑ نے حق کی آواز بلند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس کے نتیجہ میں مادّی طاقت کے نشہ میں چور”نمرود“نے آپ کو دہکتی آگ میں ڈالنے کا حکم دے دیا لیکن آپ کے تیور میں کوئی شکن نہ آیا آپ نے حق کی خاطرشعلوں میں کودنا پسند کیا لیکن باطل کے سامنے سر نہ جھکایا۔ بے خطر کود پڑا، آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے،محوِ،تماشا ئے لبِ بام ابھی
خدا ہر حال میں اپنے پرستار اور سچے عاشق کی حفاظت کرتا ہے چنانچہ دہکتی آگ آپ کو زک نہ پہنچا سکی اور قدر ت نے آگ کو گلِ گلزار بنا دیا۔
یہیں آکر سچے عاشق کی قربانیوں اور آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ جب بڑھاپے کی عمر پہنچی اور ۶۸ سال کے ہو گئے اس وقت تک آپ کو کوئی اولاد نہ تھی خواہش تھی کہ اس پیغامِ حق کا کوئی امین اور رکھوالا ہو۔جس ملت کی بنیاد آپ کے ہاتھوں رکھی گئی تھی وہ اس کو چلاسکے اور باقی رکھ سکے۔
بڑی آرزؤں، تمناؤں اور دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک خوب صورت اور عمدہ سیرت کا بچہّ عطا فرمایا جس کا نام ”اسمٰعیل“ رکھا امیدوں کا یہ مرکز،بڑھاپے کا یہ سہارا، جب جوان ہوا تو امتحان کی ایک منزل آئی، عشق و محبت کی آزمائش ایسی آزمائش جس کا نظارہ چشم فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
خدا کی طرف سے خواب میں حکم ملتا ہے ابراہیمؑ! اپنے آخری سہارے سے بھی دستبردار ہو جاؤ میری راہ میں اپنی چہیتی اولاد کو قربان کردو۔
آپ نے تعمیلِ حکم میں ذبح کرنے کے لئے اسمٰعیل ؑکو پیشانی کے بل لٹا دیا غیب سے ندا آئی، اے ابراہیمؑ! تونے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ہم اسی طرح مخلصوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ بے مثل ہے کرنا،ترا لختِ جگر قرباں
کس فخر سے،کرتا ہے ترا تذکرہ قرآں
حضرت ابراہیمؑ خدائی امتحان میں پورے اُتر آئے لیکن خدا کو تو کسی بیٹے کا ذبح کروانا مقصود تھا نہ کسی جانور کے گوشت و خون کی ضرورت تھی وہ تو صرف اپنے متعلق سچی محبت اور خلوص پسند کرتا ہے جس کا عملی ثبوت جانوروں کی قربانی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کو آپ کی عظیم قربانی اور وفا شعار ی اس قدر پسند آئی کہ رہتی دنیا تک ”خلیل اللہ“کے پیارے لقب کو آپ کے لئے زندہئ و جاوید بنا دیا اور ہر سال سنّتِ ابراہیمی کو بصورتِ قربانی واجب قرار دے دیا۔
ایثار و قربانی کا یہ پرو صرف عید الاضحی کے دن تک کے لئے ہی نہیں بلکہ سراپا زندگی ہی قربانی کا ایک نمونہ ہے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کی پوری زندگی اس بات کا سبق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی زندگی آزمائشوں سے پُر اور ہمہ تن قربانی ہے۔
قربانی محض ریت و رواج نہیں بلکہ تجدیدِ ایمان و عمل اور اللہ کے ما سوا کی محبت کو قربان کرنے کا نام ہے۔
سنتِ ابراہیمی کی تعمیل میں شجاعت و مردانگی، حق پرستی حق آگہی کے جلوے نظر آتے ہیں کمالِ عبدیت کا عکس معلوم ہوتا ہے اپنے لاڈلے کی گردن پر اپنے ہی ہاتھوں چھری چلائی ہے اس میں گویا تعلیم ہے کہ آپ اس وقت تک مؤحد نہیں بن سکتے جب تک کہ اللہ کی راہ میں جان و مال قربان نہ کردو۔
بھائی چارگی کا یہ تہوار انسانیت کا احترام، جزبہئ اخوت، بدلہ،انتقام سے نفرت، بڑائی سے پاک خدا پر بھروسہ،حق کی نصرت و حمایت،باطل کے خلاف صدا، برابری اور مساوات، کردار سازی، پاک بازی جان لیواؤں کے ساتھ حسن سلوک اور ملک میں صالح نظام اور درست معاشرہ کے لئے قربانی کا جذبہ لیکر آتا ہے۔ آدمیت اور محبت، عید کا پیغام ہے
نفس کی قربانیوں کا، عید الاضحی نام ہے

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی