ماہنامہ الفاران

ماہِ ذی القعدہ - ۱۴۴۳

ماہ ذوالحجۃ کی آمد قریب

حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد جمالپوری صاحب المظاہری، استاذ حدیث و تفسیر:مدرسہ قادریہ،مسروالا، ہماچل پردیش

اس اللہ تعالی کی ہی تعریفات ہیں جس نے اوقات وزمان کوپیدا فرمایا اوران اوقات میں سے ایک کودوسرے پرفضیلت ادا فرمائي اورکچھ مہینوں اورایام کوخصوصی فضیلت اورامتیازی حیثيت بھی دی اورایسے فضائل سے نوازا جن سے اجروثواب بڑھ جاتا ہے ۔
شریعت كے وہ چند مسائل جو ہمارى توجہ كسى نہ كسى تاريخى واقعہ كى طرف مبذول كرتے ہيں ان ميں سے ايک قربانى بهى ہے- ايسے مسائل سے مقصود محض انہيں مقررہ وقت پر كر لينا ہى كافى نہيں ہے بلكہ ان تاريخى واقعات پر گہرى نگاہ ڈالتے ہوئے اس جذبۂ عبادت اور قربانى كى ناقابل فراموش كنہ وحقيقت كو سمجھ كر اپنانے كى كوشش كرنابهى ضرورى ہے جس كے باعث يہ مسائل ہمارى اسلامى روايات ميں جزوِلاينفك كى حيثيت اختيار كر گئے- جيسا كہ حاجيوں كے ليے صفا مروہ كى سعى كرنا محض ايک دوڑ نہيں ہے بلكہ يہ اس تاريخى واقعہ كى غماز ہے جس ميں ايک طرف ننها سا بچہ شدتِ پياس كے باعث زمين پر ايڑياں مارتا نظر آتا ہے اور دوسرى طرف حضرت ہاجِرَ رضی اللہ عنہاپانى كى تلاش ميں صفا مروہ كى پہاڑيوں كے چكر لگا تى نظر آتى ہيں كہ جنہيں ابراہیم عليہ السلام اللہ تعالىٰ كے حكم پر اپنى تمام تر محبتيں قربان كر كے مكہ كى بے آب وگياہ زمين ميں تنہا چهوڑ گئے تهے- بعينہ قربانى كا مسئلہ بهى یہی ہے یعنى عيد ِقربان كے دن جانور ذبح كرنا، كچھ گوشت تقسيم كردينا،كچھ كها لينا اور پهر خود كو شريعت كے ہر حكم سے آزاد تصور كرنا اور قربانى كے مقصد يا غرض وغايت پر سنجيدگى سے غوروفكر نہ كرنا، كسى طور پربھی كافى نہيں ہے بلكہ يہ بهى ضرورى ہے كہ جانور قربان كرنے كے ساتھ ساتھ ابراہیم علیہ السلام كى مثالى اطاعت وفرمانبردارى اور اثر آفريں عقیدت واِردات كو بهى پيش نظر ركها جائے كہ جس كى وجہ سے انہوں نے اللہ تعالى كے حكم پر اپنا كم سن خوبصورت بيٹا بهى قربان كرنے سے دريغ نہ كياتھااس مضمون میں ماہ ذوالحجۃ کی فضیلت اور اس ماہ میں چند پیش آمدہ واقعات اور اس ماہ مبارک سےمتعلق کچھ احکام واضح کیے جائینگے ۔
ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام بڑی فضیلت کے حامل ہیں، بعض مفسرین نے قرآنِ کریم کی سورہ فجر کی آیت کریمہ ولیالٍ عشرکہ قسم ہےدس راتوں کی۔ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس آیت میں جن دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے، ان سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان ایام میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان دنوں کی عبادت کی بہت زیادہ فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے، چاہے یہ عبادات ذکر و اذکار کی صورت میں ہوں، یا قیام اللیل کی صورت میں یا روزوں کی صورت میں۔
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی ایام میں ہردن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اجر رکھتا ہے، اور بطورِ خاص یومِ عرفہ 9 ذوالحجہ کے روزے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس دن کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
اس سلسلہ کی احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:ترمذی شریف میں ہے:"عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَيْئٍ." ترمذی باب ما جاء في العمل في أيام العشر،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے گئے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کیے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ اگر ان دس دنوں کے علاوہ اللہ کی راہ میں قتال کرے تب بھی؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں! تب بھی اِن ہی اَیام کا عمل زیادہ محبوب ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان و مال دونوں چیزیں لے کر راہ خدامیں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیاتو یہ افضل ہے،اور ترمذی ہی میں ہے"عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ."ترمذی باب ما جاء في فضل صوم يوم عرفة حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے۔
ترمذی ہی میں تیسری روایت یوں ہےعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ کُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْر."ترمذی باب ما جاء في العمل في أيام العشر، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور ایک رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلاني رحمه الله،فتح الباری شرح بخاری میں حدیث نمبر 969کی تشریح میں عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے، رقمطراز ہیں "وَاَلَّذِي يَظْهَرُ أَنَّ السَّبَبَ فِي اِمْتِيَازِ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ لِمَكَانِ اِجْتِمَاعِ أُمَّهَاتِ الْعِبَادَةِ فِيهِ، وَهِيَ الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ وَالْحَجّ وَلَا يَتَأَتَّى ذَلِكَ فِي غَيْرِهِ." ''عشرہ ذوالحجہ کے امتیاز کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میں (تمام) بنیادی عبادات جیسے نماز، روزہ، صدقہ اور حج ایک ساتھ جمع ہوجاتی ہیں جو ان کے علاوہ کسی اور دن میں جمع نہیں ہوتیں۔
اسی ماہ مبارک میں حج جیسا اہم فریضہ اداکیاجاتاہےاوراسی میں قربانی جیسی عبادت انجام دی جاتی ہے جن کے احکام ومسائل آیندہ ماہ نامے میں شائع کیے جائینگے۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی