ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی القعدہ - ۱۴۴۳
استاذ! فرش سے عرش تک پہونچانے والی زات؛قسط ۔7۔(ماہر اساتذہ کی علامتیں )
جناب حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران
۔ اخلاص اچھا استاذ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوتا ہے وہ اپنے پیشے کے ساتھ جس قدر بے لوث ہوگا اس کی دلچسپی اسی قدر بڑھتی جائے گی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں اتنی ہی کم ہوتی چلی جائین گی اخلاص وہ جوہر ہے جس سے عمل میں لذت پیدا ہوجاتی ہے۔
2۔تقویعلم اور تقوی کا باہم گہرا تعلق ہے، اسی وجہ سے قرآن پاک میں خشیت الہی کا مدار "علم" کو قرار دیا گیا ہے۔ نیز یہ بات ہم پر مخفی نہیں کہ استاذ کے دل میں جتناخوف خدا ہوتاہے اس کی زبان میں اسی قدر تاثیر ہوتی ہے۔
3۔بہترین عملی کردارشاگرد اپنے استاذ کو بہت باریک بینی سے دیکھتا ہے، یوں استاذ کی چال ڈھال، عادات واطوار اور اخلاق وکردار لاشعوری طور پر بھی اس میں اترنے لگتے ہیں۔
4۔تلاوت کا معمول تلاوت کا معمول روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔تلاوت کم از کم اتنی اونچی آواز سے کرنی چاہیے کہ اسے خود سن سکے ان شاء اللہ اس عمل کی تاثیر وہ خود محسوس کرے گا۔
5 ۔ذکر اللہ بہتر ہوگا کہ تلاوت اورذکر الٰہی کیلئے کچھ وقت الگ سے نکالے۔ قلب کے احیا (دل کو زندہ رکھنے) کے لئے یہ عمل نہایت مؤثر ہے۔
6 ۔شکر اچھا مدرس وہ ہوتا ہے جس کی طبیعت میں شکر کا وصف موجود ہو، شکر سے مراد اس کی تینوں قسمیں ہیں، یعنی قلبی، لسانی اور عملی۔ قلبی شکر کا مطلب ہے کہ دل میں منعم (محسن) کا احترام اور اس سے محبت ہو۔ جس ادارے سے اس کا روزگار وابستہ ہے وہاں کے منتظمین کا قلبی شکر بے حد ضروری ہے۔ جو مدرس اپنے طلبہ کے سامنے اپنے منعم کی برائیاں بیان کرتا ہے اور اس پر تنقید کرتا ہے وہ ناکام اور ناتمام مدرس ہے۔
7 ۔حیا استاذ کے لئے حیا ایک ناگزیر وصف ہے۔ حیا کا مطلب ہے "انقباض النفس عن القبیح "یعنی اللہ کی طرف سے ناپسندیدہ قرار دی گئی باتوں /چیزوں سے اس کا جی تنگ پڑے، ایسی باتوں کی طرف جانا اس کے لئے گرانی کا باعث ہو۔ استاذمیں حیا ہوگی تو آگے بھی یہ وصف ضرور متعدی ہوگا مگر افسوس ہے کہ موبائل نے ہم اساتذہ کی حیا اگر ختم نہیں کی تو کم ضرور کردی ہے۔
8 ۔ذمہ داری کا احساس یہ بات مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہے کہ طلبہ کا غیر ذمہ دارانہ رویے کا ایک بڑا باعث استاد کا غیر ذمہ دارانہ مزاج ہے۔ کامیاب مدرس بننے کے لئے اپنے اندر ذمہ داری کے احساس کا جُوت جگانے کی ضرورت ہے۔
9 ۔اچھی صحبت اچھا استاذ وہ ہوتا ہے جس کا مزاج اچھا ہو، اس کی بیٹھک اچھے لوگوں کے ساتھ ہو،اس کی پہچان اچھی سوسائٹی ہو۔ حدیث کے مطابق اسے عطر فروش کے مانند ہونا چاہیے جس کے پاس سے گزرنے والا کم ازکم معطر ضرورہوسکے نہ کہ لوہار کی طرح جس کی صحبت اختیار کرنے والے کو بھٹی کی تپش بھی گوارا کرنا پڑتی ہے۔
10۔ تحمل اور برداشت تعلیم اور تزکیہ کے میدان میں صبر وتحمل کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ انبیا کو اللہ نے باربار اس کی تلقین فرمائی ہے استاذ میں جس قدر یہ خوبی ہوگی وہ اتنا ہی کامیاب مدرس ثابت ہوگا۔
11۔ زہد اور دنیا سے بے رغبتی ایک اچھا استاذ وہ ہوتا ہے جس میں کمال درجے کا زہد ہو، شاگرد کے مال پر اگر استاذ کی رال ٹپک رہی ہو تو شاگرد کی نظر میں ایسا استاذ ٹکے کا نہیں رہتا۔ حدیث میں ارشاد ہے "ازہد فی الدنیا یحبک اللہ و ازدد فیما عند الناس یحبک الناس"(دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گااور لوگوں کے مال ومتاع سے نظریں پھیر لو لوگ تمہارے دیوانے بن جائیں گے) اس میں الناس کی جگہ طلبہ کو رکھ کر عملی مشاہدہ کیجئے، پھر ادراک ہوگا کہ کتنی بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔
12۔ عفوو درگزر اور وسعتِ قلبی ہر معمولی بات پر پکڑ کرنے والا کبھی کامیاب مدرس نہیں بن سکتا، استاذ کو اپنے اندر وسعتِ قلبی پیدا کرنی چاہیے۔ اللہ کی بھی یہی سنت ہے اَوْ یُوبِقْھُنَّ بِمَا کَسَبُوْا وَیَعْفُ عَنْ کَثِیْر(سورہ شوری آیت ۴۳) اور اگر چاہے ان کے اعمال بد کے سبب ہلاک کردے یا بہت سوں کو معاف کردے۔
13۔ خدمت خلق کا جذبہ افسوس ہے کہ اس اہم ترین عبادت کو ہم نے شعبوں میں تقسیم کردیا ہے، روزمرہ کی زندگی میں بطور عبادت اس اصول کا اطلاق ہمارے ہاں نادر ہے۔ استاذ اگراپنے طلبہ کے سامنے خدمتِ خلق کا عملی نمونہ پیش کرے گا تو ان کے دل میں عظمت بڑھے گی۔
14۔ قو ت اور امانت اچھا پیشہ ور وہ استاذہوتا ہے جس میں قوت اور امانت کا وصف بخوبی موجود ہو۔ قرآن پاک میں حضرت شعیب علیہ السلا م کی بیٹیوں کا تبصرہ ذہنوں سے اوجھل نہیں رہنا چاہیے"ان خیر من استاجرت القوی الامین(سور قصص آیت ۶۲) (بہترین اجیر وہ ہے جو قوی بھی ہو امین بھی)استاد کی قوت اس کا وسعتِ مطالعہ ،علمی رسوخ اور اپنے فن/مضمون پر دسترس ہے۔ نالائق سے نالائق طالبعلم بھی اپنے استاذ کی علمی قابلیت کو اچھی طرح بھانپ لیتا ہے۔ استاذ کی "امانت " کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ علم کو آگے منتقل کرنے میں کس قدر محتاط اور سخی ہے۔
15۔ رجائیت (پرامید ہو) اچھا استاذ کبھی مایوس نہیں ہوتا، اس کی مثال اس پھل بیچنے والے کی سی ہے جو اپنے گاہک کے سامنے پھل کی ایسی تعریف کرے کہ وہ تھوڑے کے بجائے زیادہ لینے پر مجبور ہوجائے اور اگر خدانخواستہ وہ اس طرح کے جملے دہرانے لگے کہ " جناب بس کیلے کا تو موسم ہی نہیں رہا، اس کا گاہک ڈھونڈے نہیں ملتا یہ پڑے پڑے کالے ہونے لگے ہیں، شکر ہے کوئی تو آیا" یہ سن کر کوئی بے وقوف ہی اس سے خریدے گا۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم جس علم کو "بیچ" رہے ہیں اس کی قدر خود ہمارے دل میں بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استاذکے ذریعے شاگردوں میں مایوسی منتقل ہورہی ہے۔
16۔ اخلاقی جرأت ایک اچھا استاذ اپنے اندر اخلاقی جرات رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ اخلاقی جرات کا تعلق اخلاق سے ہے، آپ کے اندر جتنی بھی بری باتیں ہوں جب تک ان سے جان نہیں چھڑا لیتے اخلاقی جرات کا فقدان رہے گا۔
17۔ قول وفعل میں مطابقت جس استاذ کے قول وفعل میں تضاد ہو وہ ایک بدنام اور نامراد مدرس ہے۔
18۔ وضع قطع استاذ کو چاہیے کہ اپنے باطن کی طرح ظاہر کو بھی اللہ کے رنگ میں رنگ دے۔ شریعت کے مطابق وضع قطع نہ صرف سنتِ نبوی علیہ الصلوٰ ۃ والتسلیمکی اتباع ہے بلکہ اس سے آپ باوقار تشخص کی تعمیر کرسکیں گے۔ 19
۔ شاگردوں کے حق میں دعا گو اپنے شاگردوں کے لئے ہمیشہ دعا گو رہے۔یہ عمل اجر اور اخلاص بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔